تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 29
از۔"طوبیٰ صدیقی"
°°°°°
💖💖💖
اسے کبھی اپنوں نے وہ محبت اور عزت ہی نہیں دی جو اسے ایمان کے گھر والوں سے ملی تھی۔ اور اس پر ایمان کا ساتھ اور پیار اس کے دل کے ہر زخم پہ مرہم رکھ گیا تھا۔
ریان مرحا کو پوری رات باہوں میں بھرے باتیں کرتا رہا تھا۔
ریان کی باتوں پر مرحا کا بلش کرنا اس کی قربت پہ مرحا کا گھبر اناریان کو حسین لمحے دے گیا تھا۔
ابھی بھی مرحا اس کے سینے پہ سر رکھے بے خبر سورہی تھی۔
ریان اس کے بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا۔
مرحا کی قربت اسے بری طرح بہکا رہی تھی مگر اس نے مرحا سے وعدہ کیا تھار خصتی سے پہلے وہ اپنی کوئی حد پار نہیں کرے گا اور اسے اپنی جان سے کیا ہو اوعدہ نبھاتا تھا۔
ریان سے باتیں کرتے کرتے مرحا تو نیند میں اتر گئی تھی مگر ریان اسے اپنے قریب پاکر ایک لمحے کو نہیں سویا تھا۔
صبح کے سات بج رہے تھے۔
ریان نے آہستہ سے مرحا کا سر تکیہ پر رکھا اور بنا آواز کیسے فریش ہونے چلا گیا۔
ریان نہا کر آیا تو مر حااب بھی گہری نیند سورہی تھی۔
ریان کے چہرے پر زندگی سے بھر پور مسکراہٹ تھی۔
یہ اس کی زندگی کی سب سے حسین لمحے تھے۔
مرحا کی قربت ریان کے لیے اس کا سکون تھی۔
مرحا کو سوتا چھوڑ کر ریان کمرے سے باہر نکل آیا ارادہ مرحا کے لیے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بنانے کا تھا۔
ریان نے موبائل اٹھایا اور بریک فاسٹ کے لیے اچھی اچھی ریسیپیز ڈھونڈنے لگا۔
وہ مرحا کے لیے کچھ اسپیشل بنانا چاہتا تھا مگر کو کنگ اسے ایک پر سنٹ بھی نہیں آتی تھی۔
مگر آج اس نے اپنی جان کے لیے لازمی کو کنگ کرنی تھی۔
ریان نے موبائل سے دیکھ کر مرحا کے لیے بریک فاسٹ بنانا شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ اللہ سے دعا بھی کی کہ وہ جو بھی بنائے بس اچھا بن جائے۔
مرحا کی آنکھ کھلی تو اس نے ارد گرد دیکھا رات کے سارے منظر اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگے۔ مرحا کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا تھا۔
مگر ریان کو نا پا کر وہ کمرے سے باہر آئی جہاں ریان کچن میں کو کنگ میں مصروف تھا۔ گڈمارننگ۔
مر جانے ریان کو دیکھ کر کہا تو ریان نے مسکرا کر اسے دیکھا اور چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔
گڈمار ننگ میرا بچہ اٹھ گیا۔
ریان نے مرحا کے ماتھے پہ لب رکھ کر کہا۔
ریان آپ مجھے بچہ کیوں کہتے ہیں میں کوئی بچہ ہوں کیا۔
مرجانے منہ بسورے ہوئے کہا توریان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
ریان نے مرحا کو کمر سے پکڑ کر سلیپ پہ بیٹھایا۔
دیکھو کتنی ہی ہو میں نے آرام سے اٹھا کر بیٹھا دیا۔ اور تم میرے لیے چھوٹی سی بچی ہی ہو کیوٹ سی گڑیا جیسی۔
ریان نے مرحا کے گال کھینچ کر کہا۔
ریان آپ اتنی جلدی اٹھ گئے۔
مرجانے سوال کیا تو ریان نے اسے گھورا۔
ستمگر تمھاری قربت میں بھلا ہو سکتا تھا۔ ظالم بیوی تم تو آرام سے سو گئیں مجھ سے پوچھو میں نے کیسے پوری رات خود پہ کنٹرول کیا ہے۔
ریان کی بات پہ مرحا چہرہ جھکائے مسکرائی تھی۔
آپ کیا کر رہے ہیں ریان لائیں میں آپ کی ہیلپ کروں۔
مر حاسلیپ سے اتر کر ریان کے پاس آئی تو ریان نے اسے گود میں اٹھا کر واپس سلیپ پہ بیٹھا دیا۔
بالکل بھی ضرورت نہیں ہے میں خود بناؤں گا اپنے ہاتھوں سے تمھارے کیسے بریک فاسٹ ۔ تم بس یہاں بیٹھ کر مجھ سے پیار بھری باتیں کروں۔
ریان تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے بولا۔
ریان نے فروٹ باسکٹ مرحا کے سامنے رکھی۔
چلو جب تک بر یک فاسٹ بن رہا ہے تب تک یہ فروٹس کھاؤ اور مجھے بھی کھلاؤ۔
ریان نے کہا تو مر جانے منہ بنایا۔
نہیں ریان مجھے نہیں کھانے صبح صبح فروٹس۔
مر حابے بی میں نے آپ سے پوچھا نہیں ہے کہ آپ نے کھانے ہیں یا نہیں میں آپ کو بول رہا ہوں کھاؤ مطلب کہ کھاؤ۔
شوہر کی بات نہں مان گیا تواللہ تعالی سزا دیں گے۔
ریان نے گھورتے ہوئے کہا
مرحانے منہ بنا کر سیب اٹھایا اور کاٹنے لگی مگر چھری تیز ہونے کی وجہ سے اس کی انگلی پر کٹ لگ گیا۔ ی۔۔
مرحا کی سسکی پہ ریان نے مرحا کو دیکھا تو فورا اپنا کام چھوڑ کر اس کی طرف آیا۔
مر حامیر ابچہ یہ کیا کر اتم نے چوٹ لگالی نا ایسے کرتے ہیں کام میری جان۔
دیکھو کتنا خون نکل رہا ہے۔
مرحانے اپنی انگلی دیکھی جہاں ایک چھوٹی سی خون کی بوند تھی جسے ریان کتنا خون نکل رہا ہے بول رہا تھا۔
ریان بالکل چھو ٹو ساکٹ ہے کچھ بھی نہیں ہوا آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔
مرحا نے اپنا ہاتھ ریان کے ہاتھ سے نکالنا چاہا تو ریان نے غصے سے مرحا کو گھورا۔
ریان کی آنکھوں کو دیکھ کر مرحا ایک دن سہی تھی۔
تمھارے جسم کے خون کا ایک قطرہ ہو تو بھی میرا ہے سمجھیں اور میں تمھیں اجازت نہیں دیتا کہ تم اس ایک قطرے کو بھی اپنی لا پرواہی سے بہاؤ۔
ریان نے سرد لہجے میں کہا تو مر جانے فور آہاں میں گردن ہلائی۔
ریان فرسٹ ایڈ باکس لایا اور اس میں سے سنی پلاسٹ نکال کر مر حا کی انگلی پہ لگایا۔
ریان مرحا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لبوں تک لایا اور اس کے چھوٹے سے زخم پہ اپنے لب رکھے۔
ریان اب ٹھیک ہے آپ موڈ ٹھیک کریں گے ناور نہ مجھے رونا آجائے گا۔
ریان کی سرد مہری پہ مرحا کی آواز میں نمی گھلی تھی جسے محسوس کر کے ریان مرحا کے قریب آیا۔
مرحا کی کمر گرد اپنے ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کیا تو وہ ٹوٹی ہوئی ڈال کی طرح ریان کے سینے سے لگی۔
’’می۔
ریان کی بات پہ مرحا آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔
ریان کیا بول رہے ہیں آپ۔۔۔ میں کیسے یہ ۔۔ مجھ سے نہیں ہو گا۔
مرحا منمنائی۔
مرحا کی حالت دیکھ کر ریان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔
تم نہیں کر سکتی مگر میں تو کر سکتا ہوں۔
ریان کہہ کر مرحا کے لبوں پہ جھکا تو مر جانے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔
مر حاجو اپنا سانس رکتا محسوس ہوا تو اس نے اپنے ناخن ریان کے بازوں پہ گاڑ دیے۔
سی لڑکی کیا چڑیلوں جیسے ناخن رکھے ہوئے ہیں تم نے ابھی ناشتے کے بعد سب سے پہلے تمھارے ناخن کا شتا ہوں۔
ریان گھورتے ہوئے کہا تو مر حاکے چہرے پہ شرمیلی سی مسکراہٹ کھلی۔
مرحا کی مسکراہٹ پر ریان واری صدقے جاتا دوبارہ ناشتہ بنانے میں مصروف ہو گیا۔
نور آفس میں بیٹھی فائلز دیکھ رہی تھی تبھی سیکرٹری اس کے روم میں داخل ہوا۔
میم سے آئی کم ان۔
مہذبانہ انداز میں کہا۔
لیس احمد پلیز کم ان۔
نور نے سیریس انداز میں کہا تو وہ اندر داخل ہوا۔
میم آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔ کوئی لڑکا ہے کہہ رہا ہے آپ کا رقیب ہے۔
سیکرٹری احمد نے بتایا تو نور سوچ میں پڑگئی کہ تبھی دروازہ ناک ہوا۔
میم میں اندر آسکتا ہوں۔
شاہ میر نے مسکراتے چہرے سے کہا تو نور کہ چہرے پر مسکراہٹ کھلی۔
نور اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی۔
شاہ میر آپ آئے نا آپ کو بھلا اجازت کی کیا ضرورت ہے۔
نرم لہجے میں نور نے کہا تو شاہ میر مسکراتا ہوا اندر آیا۔
احمد آپ جاسکتے ہیں۔
نور نے احمد سے کہا تو وہ خاموشی سے نظریں جھکائے نور کے کیبن سے باہر چلا گیا۔
آپ کھڑے کیوں ہیں بیٹھیں پلیز۔
نور نے شاہ میر کو کہا تو وہ چلتا ہو انور کے سامنے آکر رکا۔
شاہ میر کا اس طرح قریب آنانور کے دھڑکنیں بے ترتیب کر گیا۔
نور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی پیچھے کی طرف جارہی تھی۔ گھبراہٹ اس کے چہرے پر صاف دیکھائی دے رہی تھی جبکہ شاہ میر اس کی گھبراہٹ سے لطف اندوز ہو تا قدم بہ قدم اس کے قریب جانے لگا۔
نور دیوار سے لگی تو شاہ میر نے اس کے دونوں سائڈ پہ ہاتھ رکھ کر اس کا راستہ لاک کر دیا۔
اپنے شوہر سے اتنی دوری تو اچھی نہیں ہوتی۔
شاہ میر نے کان میں سرگوشی کی تو نور نے اپنی آنکھیں زور سے بند کر لیں۔
لیمن کلر کی لانگ شرٹ اور پلازو میں نور کا چہرہ کھل رہا تھا۔
نکاح کی کشش شاہ میر کو نور کے قریب کر رہی تھی۔
شاہ میر نے مرحا کے لیے اپنے دل کے دروازے بند کر کے اپنے دل میں نور کو ہمیشہ کے لیے جگہ دے تھی۔
مر حا اب اس کے بھائی کی عزت تھی اور اس کی بھا بھی۔
مرحا کا خیال بھی دماغ میں لانا شاہ میر اپنے لیے گناہ سمجھنے لگا تھا۔
اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ وقت نور کے ساتھ گزارنے کا خواہشمند تھا تا کہ وہ مرحا کے خیال سے پوری طرح آزاد ہو کر صرف نور کا بن کر رہے۔
شاہ میر نے نور کے گال پہ اپنے لب رکھے تو نور خود میں ہی سمیٹ گئی۔
شرم سے چہرہ سرخ پڑا تھا۔ نور نے بے ساختہ اپنے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھپایا تھا۔
شاہ میر کے چہرے پر دلفریب تبسم بکھرا تھا۔ نور
شاہ میر نے بہت محبت سے اسے پکارا تھا۔
نور نے ہلکا سا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹایا۔
شاہ میر مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔
شاہ میر آپ پلیز دور ہو کر کھڑے ہوں نا پلیز۔
نور نے مدھم آواز میں کہا تو شاہ میر مسکرا کر نفی میں گردن ہلا تا پیچھے ہوا۔
شاہ میر کے پیچھے ہونے پہ نور نے اپنا ہاتھ چہرے سے ہٹائے۔
آپ تو ابھی سے شرمانے لگیں میڈم ابھی تو رخصتی میں دن ہیں۔
شاہ میر نے دلفریب لہجے میں کہا تو نور نے مسکر اکر نظریں جھکا لیں۔
نچ کے لیے لینے آیا ہوں آج ہم پنچ باہر کریں گے۔ اور انکل سے پر میشن لے لی ہے۔ فکر نہیں کرو۔
نور کے بولنے سے پہلے ہی شاہ میر اسے بتا چکا تھا۔
ٹھیک ہے مگر میں ایک بار ڈیڈ سے مل کر آجاؤں آج ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے۔
نور نے شاہ میر سے اجازت چاہی تو اس نے مسکرا کر سرخم کیا۔
نور اس کے پاس سے اٹھ کر اپنے ڈیڈ کے کیبن کی طرف چلی گئی۔
شاہ میر وہی بیٹھا د پچپی سے نور کے آفس روم کو دیکھ رہا تھا۔
ڈیڈ۔۔ نور نے سہیل صاحب کو پکارا جو اپنا سر کرسی سے ٹکائے بیٹھے تھے۔
نور کی آواز پہ وہ فوراً سیدھے ہوئے۔
میر ابچہ آپ گئی نہیں ابھی تک شاہ میر ویٹ کر رہا ہو گانا۔
سہیل صاحب نے مسکرا کر پوچھا۔
نور کی آنکھیں ان کے چہرے کے گرد گھوم رہی تھیں۔
ڈیڈ آپ ٹھیک نہیں ہیں۔ پلیز ڈاکٹر کے پاس چلیں نا۔
نور نے ان کے چہرے پر تکلیف کے تاثرات ڈھونڈتے ہوئے کہا۔
وہ بے شک اپنی تکلیف نور اور عینی سے چھپا لیں مگر بیٹیاں تو پھر بیٹیاں ہوتی ہیں نا۔
باپ کے سب سے زیادہ قریب اور باپ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والی۔
بھلا بیٹیوں سے درد چھپانا آسان ہوتا ہے
نور میر ابچہ میں ٹھیک ہوں میں نے میڈیسن کھائی ہے۔ تم ابھی شاہ میر کے ساتھ جاؤ ہم شام میں چلیں گے ڈاکٹر کے پاس۔
سہیل صاحب نے سمجھداری سے جواب دیا۔ انہیں پتا تھا نور انہیں ڈاکٹر کے پاس ضرور لے کر جائے گی اس لیے انھوں نے خود ڈاکٹر کے پاس جانے کا بول دیا تھا۔
ٹھیک ہے ڈیڈ میں جلدی آجاؤں گی آپ اپنا خیال رکھیے گا اور آپ کی طبیعت زر اسی بھی خراب ہو تو مجھے کال کر لیجیے گا۔
نور نے سہیل صاحب کو ہدایت دی تو انھوں نے مسکرا کر اپنا سر ہلایا۔
نور مسکراتی نگاہ ان پر ڈالتی خدا حافظ کہتی چلی گئی مگر اس کا دل آج بہت بے چین تھا۔
اندر ایک عجیب سی گھبراہٹ تھی اسے اپنی کیفیت سمجھ نہیں آرہی تھی۔
وہ باہر آئی تو شاہ میر کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا۔
کیا ہو انور سب ٹھیک ہے تم پریشان لگ رہی ہو۔
شاہ میر نے نور کا چہرہ دیکھ کر کہا جہاں بے چینی صاف جھلک رہی تھی۔
کچھ نہیں بس بابا کی فکر ہو رہی ہے وہ آج ٹھیک نہیں لگ رہے۔
نور نے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی تو شاہ میر نے اس کے پاس آکر اس کے ہاتھوں کو تھاما۔
تم فکر نہیں کرو ہم جلدی واپس آجائیں گے پھر میں خود انکل کو تمھارے ساتھ ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گا۔
شاہ میر کی بات پر نور مسکرائی تھی۔
شاہ میر نور کو لے کر ریسٹورنٹ کے لیے روانہ ہوا۔ اسے نور کو بہت کچھ بتانا تھا جو اس کے علم میں ہونا ضروری تھا۔ اسے عمل پر ایک پر سنٹ بھروسہ نہیں تھا۔
اپنے مطلب کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی تھی اور شاہ میر نہیں چاہتا تھا کہ نور اور اس کے بیچ کسی قسم کی غلط فہمی جگہ بنائے۔
عینی اپنے کام میں مصروف تھی آج اس کا ایک اور مشن اسٹارٹ ہو گیا تھا جس کے سلسلے میں وہ بہت زیادہ مصروف تھی۔
عینی کا موبائل ساتویں بار بچ کر چپ ہوا تھا۔
ہر بار کال آنے پر مینی موبائل کو گھورتی جہاں شایان کا نمبر جگمگار ہا ہوتا۔
آٹھویں بار کال آنے پر اس نے غصے سے فائنل بند کی اور کال اٹھائی۔
فارغ آدمی تمھارے پاس کوئی کام دھندا نہیں ہے مجھے تنگ کرنے کے علاوہ ایک انسان کال نہیں اٹھا رہا اس کا مطلب ہے کہ وہ مصروف ہے مگر تم بہت ہی ڈھیٹ واقع ہوئے ہو صبر نام کی چیز ہے یا نہیں تم میں۔
اب تم نے کال کی ناشایان تو میں آکر سر پھاڑ دوں گی تمھارا جب میں فری ہو گی تو خود کال کرلوں گی سو پلیز ڈونٹ ڈسٹرب می۔
مینی کی چنگھاڑتی ہوئی آواز شایان کے کان میں پڑی تو اس نے موبائل کو کان سے تھوڑا دور کیا۔ عینی اپنا غصہ نکال کر کال کٹ کر چکی تھی۔
شایان نے موبائل کو گھورا جیسے موبائل نہیں عینی ہو۔
عینی ڈارلنگ اس کی تو سزا ملے گی تمھیں۔
شایان نے اپنے دل میں کہا اور مسکرا کر بائیک اسٹارٹ کر کے عینی کے گھر کی طرف چل دیا۔
شایان پر غصہ نکال کر عینی بے چین ہو گئی تھی۔
وہ شایان پر غصہ نہیں کرنا چاہتی تھی مگر وہ کیا کرتی اس وقت اس کا دماغ بہت زیادہ خراب ہو رہا تھا۔
اس کا نیا کیس معصوم بچوں کی کڈنیپنگ کا تھا جس کی اسٹڈی کر کے عینی کا دماغ بہت زیادہ خراب تھا ایسے میں شایان کی بار بار کال آنا جلتی پر تیل کا کام کر گیا تھی۔
عینی نے سوچا شایان کو سوری کر دے مگر پھر موبائل واپس رکھ دیا۔
شایان کی حرکتیں دن بہ دن چھچھوری ہوتی جارہی تھیں با قول عینی کے۔ اور اب وہ اسے سوری کر کے اسے سر پہ بالکل نہیں چڑھانا چاہتی تھی۔
عینی موبائل پر لعنت بھیجتی شاور لینے کے لیے چلی گئی۔
اس وقت اسے اپنے دماغ کو ٹھنڈا کرنے کی بہت ضرورت تھی۔
عینی نے بلو جینز اور گرے کلر کی ہائی نیک نکال کر بیڈ پر رکھی اور شاور لینے چلی گئی۔ اسلام و علیکم بو امینی میڈم گھر پہ ہیں۔
شایان گھر میں داخل ہوا تو وہاں ایک عورت کام کرتی دیکھائی دی۔ شایان ان کے پاس آکر عینی کا پوچھنے لگا۔
ارے شایان بابا کیسے ہیں آپ۔ عینی بیٹیا تو اپنے کمرے میں ہونگی۔ صبح سے کافی غصے میں ہیں کچھ کھایا بھی نہیں ہے صبح سے پتا نہیں ان کو رہ رہ کر کیا ہو جاتا ہے۔
بوانے ایک ہی سانس میں بولا تو شایان مسکرایا۔
آپ پریشان نہیں ہو میں دیکھ لیتا ہوں۔
شایان کہہ کر عینی کے کمرے کی طرف چلا گیا۔
کمرہ اندر سے لاک تھا۔
شایان واپس آیا اور بواسے کمرے کی ڈو بلیکٹ چابی لے کر عینی کے روم کا دروازہ کھولا اور بنا آواز کیے اندر آیا اور روم اندر سے بند کر دیا۔
بیڈ پہ عینی کے کپڑے رکھے تھے اور واشروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی مطلب عینی شاور لے رہی تھی۔
شایان شرارتی مسکراہٹ لے کر آرام سے بیڈ پہ لیٹ گیا۔
دس منٹ کے بعد ہی عینی باتھ گاؤن پہنے باہر آئی۔
ہاتھ گاؤن اس کے گھٹنوں تک آرہا تھا جبکہ بالوں کو اس نے ایک الگ ٹاول سے لپیٹا ہوا تھا۔
عینی اپنی ہی دھن میں باہر آئی مگر جیسے ہی اس نے کپڑے اٹھانے کے لیے بیڈ کا رخ کیا تو وہاں شایان کو دیکھ کر اس کی چیخ نکلی۔
عینی کے چھینچنے پر شایان تیزی سے اس کے پاس آکر اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ گیا۔
پاگل لڑکی ایسے چیخ چیچ کر کیا پورے محلے کو یہاں جمع کرنا ہے۔
شایان نے عینی کو گھور کر کہا جبکہ اس کی مسکراتی نظریں عینی کو شرمندہ کر گئی تھیں۔
شایان نے عینی کے چہرے سے ہاتھ ہٹایا اور اس کی کمر گرد اپنا گھیر ابنا کر تنگ کر دیا۔
عینی شایان کے سینے سے لگی کھڑی تھی۔
اپنی حالت پہ عینی شایان کی طرف دیکھ بھی نہیں پارہی تھی۔
شرم سے چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔
شایان نے ہاتھ بڑھا کر مینی کے بالوں پر لپٹا ناول کھول دیا جس سے اس کے گیلے بال بکھر گئے۔
کیا بات ہے عینی ڈارلنگ تھوڑی دیر پہلے تو آپ کی بہت زبان چل رہی تھی موبائل پہ اب آپ کی زبان تالوسے کیوں چیک کئی۔
شایان نے مسکرا کر عینی سے پوچھا۔
ت۔ تمتم کیا لک کر رہے ہو یہاں۔
عینی کے الفاظ لڑکھڑائے تھے۔
وہ مضبوط اعصاب کی مالک لڑکی شایان کی قربت میں اپنی ساری ہمت کھو دیتی تھی۔
میں تو تمھیں سزا دینے آیا تھا مگر تم نے تو یہاں میرے ہی ہوش اڑا دیے۔ اب اتنی بات لگو گی تو تمھارے شوہر کا دل تو بے ایمان ہو گانا۔
شایان نے عینی کو اپنے اور قریب کر کے کہا تو عینی اپنی سانس روک گئی۔
شایان کی قربت اس کا حال خراب کر رہی تھی جبکہ اس کے پاس سے اٹھتی اسٹرانگ پر فیوم کی خوشبو عینی کے حواسوں پر چھارہی تھی۔
شش شایان پلیز پیچھے ہٹو۔
عینی نے مدھم لہجے میں کہا تو شایان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
کیوں ہٹوں پیچھے اب اس حال میں میرے قریب ہو اور چاہ رہی ہو میں پیچھے ہٹوں۔ بے بی یہ تو ظلم
ہے۔ اور یہ بھیگی بلی کیوں بن گئی ہو۔ میر اسر نہیں پھاڑوں گی۔
دیکھو مجھے کتنا خیال ہے تمھارا تم میر اسر پھاڑ نے آتیں محنت لگتی نا اس لیے میں اپنا سر لے کر خود حاضر ہو گیا ہوں۔ پھاڑو میر اسر۔
شایان کے لہجے میں بھر پور شرارت تھی۔
عینی کا اس طرح نروس ہو نا شایان کو محفوظ کر رہا تھا۔
کہاں وہ ہر وقت لال مرچیں چہاتی قرۃ العین شایان حیدر اور کہاں یہ ڈری سہمی نروس سی اس کی عینی۔
ہاں بس فرق اتنا تھا کہ اگر اس وقت شایان کی جگہ یہ حرکت کسی غیر نے کی ہوتی تو عینی اس کا صرف سر نہیں پھاڑتی اسے گلی میں الٹا لٹا کر مارنے کی بھی ہمت رکھتی تھی۔
مگر یہاں تو معاملہ ہی اور تھا یہاں اس کا محرم تھا اس کا شوہر تھا جس کو قربت کی اجازت تو اس کے رب نے اسے دی تھی۔ شایان حیدر اس دنیا کا واحد لڑکا تھا جو عینی کو اس ڈرے شرمائے روپ میں دیکھنے کا حق رکھتا تھاور نہ عینی کو کوئی نظر بھر کر دیکھ لے تو عینی اپنی زبان سے ہی اس کو اتنا ذلیل کر دے کہ وہ کسی منہ دیکھانے کے قابل نار ہے۔
عینی کی حالت پر رحم کھا کر شایان نے اسے چھوڑا کیونکہ عینی اس سے کچھ بول ہی نہیں پارہی تھی اور
شایان تو چاہتا تھا وہ اس سے لڑے جھگڑے اسے باتیں سنائے۔
عینی کی یہی سب چیزیں تو شایان کو دن بہ دن عینی کا دیوانہ کر رہی تھیں۔
شایان کے پیچھے ہٹتے ہی عینی نے تیزی سے اپنے کپڑے اٹھائے اور واشروم میں بند ہو گئی۔
عینی کی اسپیڈ دیکھ کر شایان کا قبلہ کمرے میں گونجا تھا۔
مینی پانچ منٹ میں ہی کپڑے پہن کر باہر آئی تو شایان سکون سے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا مسکرارہا تھا۔
تم میں تھوڑے سے بھی مینر ز نہیں ہے ایسے کوئی کسی کے روم میں آتا ہے۔ عینی واپس اپنی ٹون میں آچکی تھی۔
کسی کے روم کا تو نہیں پتا مگر اپنی بیوی کے روم میں ایسے آنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
شایان نے ونک کیا تو عینی غصے سے اسے گھورنے لگی۔
شایان مسکرا کر چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور اسے اپنے سینے سے لگایا۔
عینی ایک دم چونکی تھی۔
کیا ہوا ہے کیوں اتنی غصہ ہو کیا بات پریشان کر رہی ہے یا پھر کوئی پریشر ہے دماغ پر۔
شایان نے محبت سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلا کر پوچھا۔
عینی نے لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔ اس نے شایان کو غصے میں کتنا سنا دیا تھا اور وہ اسے ہی سینے سے لگائے اسے کی پریشانی پوچھ رہا تھا۔
مینی کو لگتا تھا شایان کبھی اس کے کام کو اور اس کو سمجھ نہیں پائے گا مگر یہاں عینی بالکل غلط ثابت ہوئی تھی۔ شایان نے اس کے ساتھ ساتھ اس کے موڈ کو بھی سنبھال لیا تھا۔
نیا کیس اسٹارٹ ہوا ہے بس اسی وجہ سے میرا دماغ خراب چل رہا ہے۔ تم سے بھی بد تمیزی کر دی تھی۔ سوری۔
معینی نے مدھم آواز میں کہا تو شایان نے مسکرا کر اس کے ماتھے پہ لب رکھے۔
غصہ کرو با تیں بھی سناؤ لڑو بھی سب کچھ کرو مگر کھانا کھانا تو بے وقوفی ہے نا۔
کھانے سے لاپر واہی تو نہیں کرنی چاہئیے۔
شایان کا لہجہ بہت نرم تھا۔
کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔
مجھے بھوک نہیں تھی اس لیے نہیں کھایا۔
عینی نے اعتراف کیا۔
تمھارے سارے کام سر آنکھوں پہ مگر تمھاری صحت کے ساتھ کوئی کمپرومائز نہیں چلے گا مینی ڈارلنگ
چلو کہیں باہر چلتے ہیں پنج باہر کریں گے ساتھ۔ میں نے ابھی انچ نہیں کیا ہے۔
شایان نے کہا تو عینی نے مسکرا کر ہامی بھری۔
جلدی سے ریڈی ہو کر آؤ میں نیچے ویٹ کر رہا ہوں۔ تمھارے ساتھ اکیلے میں میری نیت خراب
ہو رہی ہے۔
شایان نے ونگ کر کے کہا اور بچے چلا گیا۔
پاگل پتا نہیں کہاں سے چھچھوری باتیں سیکھ رہے جناب۔
شایان کی باتوں پر عینی دل کھول کر ہنسی تھے پہ تھی۔
کیا۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا عمل نے ایسا کیا۔
شاہ میر نے نور کو عمل کی مرحا کی ہر تھڑے پہ اسے گرانے کا پلان بنانے والی حرکت بتائی تو نور شاکڈرہ گئی۔
ہاں نور وہ تو میں نے اس کی اور خالہ جانی کی باتیں سن لیں تھیں ورنہ اس دن مرحا بہت بری طرحسیڑھیوں سے گرتی۔
اور یہی نہیں مجھے تو اب شک ہو رہا ہے مرحا کے ہاتھوں کو زخمی کرنے والی بھی عمل ہی ہے۔
شاہ میر نے تفصیل بتائی۔
مگر شاہ میر آپ کو یہ بات ریان بھائی کو بتانی چاہیے تھی۔
نور نے کہا تو شاہ میر نے نہ میں گردن ہلائی۔
نہیں میں نہیں بتا سکتا نور اسے پتا نہیں کیسے یہ بات پتہ لگ گئی ہے کہ میں مرحا کو پسند کرتا تھا۔ اس نے مجھے دھمکی دی ہے نور کہ میں نے اگر ریان بھائی کو کچھ بھی بتایا تو وہ ریان بھائی کو بتا دے گی کہ میں مرحا کے لیے کیا جذبات رکھتا تھا ۔
میں سب برداشت کر سکتا ہوں نور مگر ریان بھائی کی آنکھوں میں بے اعتباری ان کی آنکھوں میں اپنی وجہ سے تکلیف نہیں دیکھ سکتا۔
شاہ میر کے لہجے میں تڑپ نور نے صاف محسوس کی تھی۔
پھر اب کیا کریں گے شاہ میر وہ پھر سے ریان بھائی اور مرحا کو الگ کرنے کی کوشش کر سکتی ہے
نور نے پریشانی سے پوچھا۔
ویسے تو اب یہ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ مرحا اب بھائی کے نکاح میں ہے مگر پھر بھی اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔
اسے بھائی سے کوئی محبت نہیں ہے وہ صرف بھائی کو حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ اس کی ضد ہے اور کچھ بھی نہیں۔
لیکن میں پھر بھی اس کو اپنی نظروں میں رکھوں گا۔
مرحا اور بھائی کو کبھی الگ نہیں ہونے دوں گا۔
شاہ میر کی بات پہ نور مسکرائی۔
نور کا موبائل بجا جس پہ آفس سیکرٹری کی کال آرہی تھی۔
نور نے شاہ میر سے ایکسکیوز کر کے کال اٹھائی مگر مقابل کی بات سن کر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
شاہ میر نور کی حالت دیکھ کر پریشان ہوا اور اس کے ہاتھ سے موبائل لیا۔
ہیلو۔
شاہ میر نے ہیلو کر کے موبائل کان پہ لگایا۔
ہیلو سر سہیل سر کی حالت خراب ہو گئی ہے وہ بے ہوش ہو گئے ہیں اور ان کی ناک سے خون بھی بہہ رہا ہے۔ ہم انہیں ایمر جنسی میں ہسپتال لے جارہے ہیں آپ پلیز نور میم کو لے کر آجائیں۔
سیکرٹری کی بات سن کر شاہ میر بھی پریشان ہو گیا تھا۔
اس نے نور کو تھاما جو زار و قطار رو رہی تھی۔ اسے صبح سے ہی بے چینی ہو رہی تھی کچھ غلط ہونے کا احساس مسلسل اسے گھیرے ہوئے تھا۔ اب اپنے ڈیڈ کی حالت کا سن کر اس کی اپنی حالت خراب ہونے لگی تھی۔
شاہ میر نے نور کو سنبھالا اور گاڑی میں بیٹھایا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔
شاہ میر نے ساتھ ہی ساتھ عینی کا نمبر ملایا۔
مینی سیڑھیوں سے اترتی نیچے آئی جہاں شایان کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا۔
شایان نے مسکرا کر کہا تو اس نے بھی مسکرا کر ہائی بھری۔
اس سے پہلے عینی شایان کے ساتھ گھر سے باہر نکلتی اس کے موبائل پر آنے والی نے اس کے قدم روکے۔
ارے واہ آج جیجو کو میری یاد کیسے آگئی۔
مینی نے کہہ کر کال اٹھائی مگر شاہ میر کی بات سن کر اس کا چہرہ ایک دم سیریس ہوا۔
آنکھوں میں نمی اتری جسے اس نے اپنے اندر اترا۔
میں پہنچ رہی ہوں۔
عینی نے اتنا کہہ کر کال کٹ کر دی۔
شایان نے باغور عینی کے چہرے کے بدلے تاثرات کو دیکھا تھا۔
عینی سب ٹھیک ہے۔
شایان نے پوچھا۔
بابا ہسپتال میں ہیں انکی طبیعت خراب ہو گئی ہے اچانک۔
بس اتنا کہہ کر مینی تیزی سے باہر بھاگی تھی شایان بھی اس کے پیچھے پیچھے باہر کی طرف بھاگا تھا۔
آفس کے لوگوں نے فورا سہیل صاحب کو ہسپتال پہنچایا تھا۔
اس وقت ہسپتال کے کوریڈور میں نور شاہ میر اور عینی شایان کے ساتھ شعیب صاحب اور احتشام
صاحب بھی موجود تھے۔
ڈاکٹر سہیل صاحب کا چیک اپ کر رہے تھے۔
نور نے رو رو کر اپنا بر احال کر رکھا تھا مگر عینی نے اپنی آنکھوں کو بہنے سے سختی سے روک رکھا تھا۔
وہ کمزور نہیں تھی ایسا نہیں تھا کہ اسے اپنے ڈیڈ کی حالت دیکھ کر تکلیف نہیں ہو رہی تھی مگر وہ جس
ادارے سے تھے اس میں حساسیت ختم کرنی پڑتی خود کو جلا جلا کر کندن بنانا پڑتا ہے۔
عینی اپنا چہرہ ہاتھوں میں گرائے بیٹھی جبکہ نور کو شاہ میر نے سہارا دے رکھا تھا۔
ڈاکٹر باہر آیا تو عینی اور نور تیزی سے ان کے قریب آئے۔
ڈاکٹر میرے ڈیڈ ٹھیک ہیں۔
عینی نے سوال کیا تو ڈاکٹر نے لمبی سانس لی۔
مس قرة العین آپ سے کچھ بھی چھپا ہوا تو نہیں ہے۔
ان کی بیماری دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ ان کے پاس زندگی کے بس کچھ ہی دن بچے ہیں۔
کچھ ہی دنوں میں وہ اپنی یاداشت تک کھو سکتے ہیں۔
کسی بھی وقت ان کے دماغ کا ٹیومر پھٹ سکتا ہے جس سے ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
آپ لوگ خود کو ذہنی طور پر تیار رکھیں اور زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزاریں۔
ان کو اب ٹوٹلی بیڈ ریسٹ پہ لے آئیں تو بہتر رہے گا۔
ڈاکٹر کی بات پہ عینی نے کرب سے اپنی آنکھیں بند کی تھیں۔ نور بھی اپنے باپ کی کنڈیشن سن کر تڑپ گئی تھی۔
0 Comments
Post a Comment