تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 28
از۔"طوبیٰ صدیقی"
°°°°°
❤️❤️❤️
کیا ہو گیا میری جان اتنا نروس کیوں ہو رہی ہو میں کوئی غیر ہوں کیا۔ شوہر ہوں اب تمھارا محرم بن گیا
ہوں میرا تمھارے قریب آنا تمھیں چھونا کوئی گناہ نہیں ہے۔
ریان نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
ریان کا ایک ہاتھ مرحا کی کمر گرد تھا اور دوسرا ہاتھ اس نے مرحا کے چہرے پہ رکھا ہوا تھا۔
ریان۔۔ پلیز۔۔ نہیں۔۔
مر حار ونے والی ہو گئی تو ریان نے ایک گہری سانس لے کر اسے چھوڑا۔
مر حامیری جان ایسے کیوں گھبرارہی ہو اتنا کیوں ڈر رہی ہو بتاؤ مجھے۔
ریان نے سوال کیا تو مر جانے کوئی جواب نہیں دیا۔
مرحا کی کنڈیشن ریان اچھے سے سمجھ رہا تھا۔
وہ ابھی سترہ سال کی ہوئی تھی اور ریان اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مر د تھا۔ اس سے پہلے مرحانے
کبھی کسی لڑکے سے دوستی تک نہیں کی تھی۔ اس کا شر مانا گھبر انا دور بھا گناسب فطری تھا۔
اچھا میری جان میرا بچہ تم ریلیکس ہو جاؤ او کے آؤ ایک کام کرو تم چینج کر لو پہلے یہ درس الکفر ٹیبل ہوگی۔
ریان نے مرحا کو الماری سے شرٹ اور ٹراؤزر نکال کر دیا۔
شرٹ پنک کلر کی تھی جس پر یلو کلر سے پھول بنے تھے اور میلو ہی ٹراؤزر تھا۔
یہ نائٹ ڈریس لڑکیوں کی ہی تھی یہ تو صاف تھا مگر ریان کے پاس اس طرح کی ڈریس ہونا مر حا کو سوچنے پر مجبور کر گیا۔
اپنے دماغ پر اتناز ور ناڈالو میری جان تمھارے لیے ہی منگوایا تھا ماریہ سے کہہ کر بالکل نیو ہے۔
ریان نے مرحا کا دماغ پڑھتے ہوئے جواب دیا تو وہ ٹپٹائی۔
نہیں تو میں نے کیا کچھ بولا آپ کو۔
مرحا نے مدھم آواز میں نظریں چراتے ہوئے کہا۔ ریان نے اس کے دل کی بات آرام سے جان لی تھی۔
تم کچھ نا بھی کہو تب بھی میں تمھارا چہرہ دیکھ کر تمھارے دل کا حال جان سکتا ہوں میری جان۔
ریان نے ونک کیا تو مر جانے مسکرا کر اسے دیکھا۔
آپ باہر جائیں۔
مرحا نے ریان سے مدھم آواز میں کہا تو وہ آنکھیں چھوٹی کر کے مرحا کو دیکھنے لگا۔
اچھا اب اپنے شوہر کو کمرے سے بھی نکالو گی۔
ریان نے مصنوعی گھورتے ہوئے کہا۔
ریان مجھے چھینج کرنا ہے پلیز آپ جائیں نا باہر ۔
مر جانے ریان کو سمجھایا۔
ارے تو میر ار کنا ضروری ہے نا اگر تمھیں چینج کرتے وقت میری ضرورت ہوئی تو میں موجود ہوں گا
ریان کے چہرے پہ شرارت صاف جھلک رہی تھی۔
مرحا نے ریان کو گھورا۔
ریان آپ نا بہت بے شرم ہوتے جارہے ہیں چلیں باہر جائیں گو گو گو۔
مرحانے زبر دستی ریان کو کمرے سے باہر نکالا اور کمرہ اندر سے لاک کر لیا۔
مرحا کے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ کھلی تھی۔
میری جان اب ہمارے بیچ کوئی پردہ نہیں ہے اتنا شر مانا چھوڑ دو مجھ سے ۔ یہ نا ہو ہمارے بیچ کے سارے پر دے میں خود گرادوں۔
ریان کی آواز مسلسل مرحا کے کانوں میں آرہی تھی جس پہ مر حابار بار تو بہ تو بہ کرتی۔
چینج کر کے مرحانے لاک کھولا تو ریان ایک سیکنڈ کی دیر کیسے بنا اندر آیا۔
لڑکی شرم نہیں آتی مجھ پہ اتنا ظلم کرتے ہوئے۔
ریان نے گھورتے ہوئے کہا۔
میری شرم چھوڑیں آپ کو تو لگتا ہے شرم چھو کے بھی نہیں گزری ریان۔
مرجانے آنکھیں دیکھاتے ہوئے کہا تو ریان نے مسکرا کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب کیا۔
یہ بات تو صحیح ہے تمھارے لیے میں بہت بے شرم ہوں مگر میرا بچہ ابھی آپ نے میری بے شرمی دیکھی کہاں ہے۔
ریان نے دنگ کر کے کہا تو مر جانروس ہوئی۔
ریان۔۔ پلیز ۔۔ نہیں۔۔ کریں۔۔ نا
مر جانے دھیمے لہجے میں کہا تو ریان ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔
اچھا چلو یہاں بیٹھو۔ ریان نے مرحا کو بیڈ پر بیٹھایا اور خود صوفے پر رکھے سارے گفٹس مرحا کے سامنے رکھنے لگا۔
ریان اتنے سارے گفٹس۔
مرحا نے مسکرا کر پوچھا تو ریان نے ہاں میں گردن ہلائی اور وہی مرحا کے پاس اس کی طرف کروٹ
لے کر ایک ہاتھ سے سر لگائے لیٹ گیا۔
تم سترہ سال کی ہو گئی ہو تو یہ پورے سترہ گفٹس ہیں۔
تمھاری پیدائش سے لے کر اب تک کے۔
ریان کی بات پر مرحا حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
ایسے مت دیکھو میری جان۔ اب گفٹس اوپن بھی کرو مجھے پتا تو لگے میری جان کو گفٹس پسند بھی آئے یا نہیں۔
ریان کی بات پہ مر جانے مسکرا کر گنٹس کھولنے شروع کیے۔
ریان بیٹھا مر حا کے تاثرات دیکھ رہا تھا جو اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ مرحا کو اس کے گفٹس پسند آئے ہیں۔
ڈریسز جو لیری شو پیس چوڑیاں ٹیڈی بیئر مرحا کی پینٹنگ ہوئی تصویر یہ سب چیزیں مرحا کو دی تھیں جو اسے بہت پسند آئی تھیں۔
اب آخری گفٹ باقی تھا جو لمبائی میں بہت بڑا سا تھا۔
مرحا نے آہستہ آہستہ اسے کھولنا شروع کیا۔
گفٹ کھول کر مر حاکی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو چھلک پڑے۔
اس کے ماما بابا کی تصویر کو ریان نے ایک بہت بڑے فریم میں لگوایا تھا۔
مرحا نے نم آنکھوں سے ریان کو دیکھا۔ بے شک یہ ریان کے دیے ہوئے تمام گفٹس میں سے سب سے اسپیشل تھا۔
مرحانے محبت سے اپنے ماما بابا کی تصویر کو چوما تھا۔
تھینک یوریان یہ سب سے زیادہ اچھا گفٹ ہے۔
مر جانے نم آنکھوں سے ریان سے کہا۔
ریان نے لیٹے ہوئے ہی مرحا کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے پاس کھینچا۔
مرحا بالکل ریلیکس بیٹھنے کی وجہ سے ایک دم ریان کے اوپر گری تھی۔
مرحا کے بال ریان کے چہرے پہ بکھرے تھے۔
دونوں کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوئی۔
ریان نے مرحا کے بال کان کے پیچھے کر کے مرحا کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو اپنے لبوں سے چنا تو وہ خود میں ہی سمٹ گئی۔
مرحا نے ریان کے اوپر سے اٹھنے کی کوشش کی مگر ریان کی پکڑ سخت تھی۔
چھھھ چھوڑیں پلیز۔
مرحانے نروس ہو کر کہا تو ریان نے اسے چھوڑا اور خود بھی اٹھ کر بیٹھ گیا اور مرحا کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے۔
مر حا کیا بات ہے میرا قریب آنا تمھیں اتنا گھبراہٹ میں کیوں ڈال رہا ہے۔
میں کوئی غیر ہوں کیا یا پھر تم خوش نہیں ہو ہمارے نکاح سے۔
ریان نے ناراضگی سے کہا۔ مرحا کا اس سے بار بار فاصلہ بنانا اسے برا لگا تھا۔ وہ زبر دستی کا قائل ہر گز نہیں تھا۔
نہیں ریان میں بہت خوش ہوں مگر آپ میرے قریب نہیں آسکتے پلیز سمجھیں۔
مرجانے منمناتے ہوئے کہا۔
میں یہی تو جاننا چاہتا ہوں کہ میں کیوں تمھارے قریب نہیں آسکتا۔ میں محرم ہوں تمھارا۔
میرے پاس سارے حقوق ہیں تمھیں چھونے کے تمھیں پیار کرنے کے پھر کیوں تم نہیں چاہتی کہ میں قریب آؤں۔
کیونکہ ابھی میری رخصتی تو نہیں ہوئی نا۔
ریان کی بات پہ مر جانے معصومیت سے کہا۔
میری جان تمھیں کیا لگتا ہے یہاں سے جانے کے بعد میں تمھیں تمھارے کمرے میں جانے دوں گا۔
بالکل بھی نہیں تم میرے ساتھ میرے کمرے میں جاؤ گی۔
ریان کی بات پہ مر جانے حیرانگی سے اسے دیکھا۔
ریان میرا کوئی بھی فنکشن نہیں ہو گا۔
حیرت سے سوال کیا گیا تو ریان مسکرایا۔
ہو گا میری جان ہم ایک گرینڈ ولیمہ کریں گے۔
ریان نے ونک کرکے کہا تو مر جانے ناراضگی سے منہ پھیلایا اور ریان سے دور ہو کر بیٹھ گئی۔
ریان کو مرحا کی اس معصوم کی ناراضگی پر ٹوٹ کر پیار آیا۔
میری جان ناراض کیوں ہو گئی مجھ سے۔ میری جان اپنی خواہش بتائے کہ وہ کیا چاہتی ہے۔
وہی محبت بھر انرم لہجہ ۔
مجھے میری شادی کے سارے فنکشنز چاہیے مایوں مہندی ڈھولکی بارات اور اس کے بعد رخصتی ہو گی
ایسے نہیں جانا مجھے آپ کے کمرے میں۔
مرجانے منہ بنا کر کہا تو ریان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
اچھا تو یہ کہونا کہ میری سیج سجانا چاہتی ہو۔
ریان نے ونک کر کے مرحا کو چھیرا۔
افففف آپ بہت گندے ہیں۔ میں مزاق نہیں کر رہی۔
مجھے مایوں کی دلہن بننا ہے آپ کے نام کی مہندی اپنے ہاتھوں میں سجانی ہے ایک پر و پر دلہن بننا ہے۔
یہ کوئی شادی ہوئی بھلا بر تھڑے میں نکاح کر لیا اب رخصتی بھی ایسی پھیکی پھیکی۔
مرحا کی بات پر ریان نے مسکرا کر اس کے ہاتھ تھا ہے۔
میری جان میں مزاق کر رہا تھا تمھیں کیا لگتا ہے کیا میں اس بات کو نہیں سمجھتا کہ ہر لڑکی کی طرح
تمھارے بھی اپنی شادی کو لے کر خواب ہونگے۔
میرابچہ میری زندگی ہماری شادی بہت دھوم دھام سے ہو گی۔
اور میں تمھارے قریب آرہا ہوں مگر تم یہ مت سوچو کہ میں اپنی ساری حدیں پار کر دوں گا۔
تمھیں میری چھوٹی موٹی بے باکی تو برداشت کرنی پڑے گی میری جان کیونکہ اتنا شریف میں بالکل نہیں ہوں کہ تم میری باہوں میں ہو اور میں تمھیں جائز رشتہ ہونے کے باوجود ایک کس تک نا کروں۔
مر حاجو ریان کی باتیں سکون سے سن رہی تھی آخری بات پہ ریان کے ہی سینے میں اپنا چہرہ چھپا گئی۔
اب تم ایسے کرو گی تو بتاؤ خود پر قابو کیسے رکھوں گا۔
ریان نے محبت سے مرحا کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرا اور اس کے شرمانے گھبرانے کو ایک طرف رکھ کر اس کے ہونٹوں پر جھک گیا۔
ریان کی اس حرکت نے مرحا کی حالت پل میں خراب کر دی تھی۔ اس کی سانس رکنے لگی تو مر جانے ریان کو دور کرنے کی کوشش کی مگر ریان نے مرحا کے دونوں ہاتھوں کو اس کی کمر پہ لے جاکر پن کر دیے۔
ریان کے لمس میں اتنی شدت تھی کہ مرح کا وجو دلرزنے لگا۔
مرحا کی کپکپاہٹ کو محسوس کر کے ریان پیچھے ہوا تو مر حا کی سانس میں سانس آئی۔
ریان کی تھوڑی سی قربت نے اس کی سانسیں روک دی تھیں۔
ریان نے مرحا کو اپنے بے حد نزدیک کیا ہوا تھا۔
ریان مسکر اگر مر حاکو دیکھ رہا تھا جو اس کی زرا سی قربت پہ شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔
میری جان تمھیں خود میں بہت ہمت پیدا کرنی ہو گی مجھے جھیلنے کے لیے۔
ریان نے کان میں سرگوشی کی تو مر جانے اس کے سینے میں اپنا آپ چھپا لیا۔
ریان نے مسکرا کر اس کے گرد اپنی باہوں کا گھیر ابنایا۔
مرحا کو اپنی باہوں میں بھر کے ریان کو اپنے دل میں سکون اتر تا محسوس ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کیسی کنڈیشن ہے اب ان کی۔
ساحر نے ڈاکٹر کو دیکھ کر سوال کیا۔
دیکھیں مسٹر ساحر وہ بہت زیادہ ڈپر سیٹ ہیں۔ لیکن آپ لوگوں کی کیئر محبت اور توجہ انہیں اس ڈپریشن سے باہر لے آئی گی۔
انہیں فیملی ماحول دیں خوشگوار لمحات فراہم کریں تا کہ وہ اس پریڈ کو جلدی کور کر لیں۔
ڈاکٹر کی بات پہ ساحر نے ہاں میں گردن ہلائی ۔
یا سر تم نے ایک پل کے لیے بھی یہاں سے نہیں ہلتا ہے۔ کسی کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ گاؤں جاکر
اس رات ہم نے کیا کر رہے اور یہ ہمارے پاس ہیں اب۔
ساحر کی بات پہ یا سر نے اسے مطمئن کیا تھا۔
دو دن پہلے
ساحر لا لاوہ دیکھیں اماں صاحب۔
ساحر اور یاسر ایک پلر کے پیچھے چھپ کر بیٹھے تھے جہاں سے حویلی کا وہ آصیب زدہ حصہ صاف نظر آرہا تھا۔
یا سر کے کہنے پہ ساحر کی نظریں حویلی کے اس حصے کی طرف اٹھی جہاں اماں صاحب کھانے کی ٹرے لیے اندر کی جانب جارہی تھیں۔
ساحر انہیں دیکھ کر الجھ گیا تھا۔
یہ کیا ماجرہ تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اماں صاحب کس کے لیے کھانا لے جارہی تھیں وہ بھی اتنی رات کو اور یہ چیز اب تک کسی کی نظر میں کیسے نہیں آئی تھی۔
یا سر اماں صاحب کے وہاں سے جانے کے بعد ہی ہم کچھ کریں گے ابھی ان کے باہر آنے کا انتظار کرتے ہیں۔
ساحر نے یا سر سے کہا تو اس نے ہامی بھری
ٹھیک آدھے گھنٹے کے بعد اماں صاحب واپس چلی گئی تھیں۔
اماں صاحب کے واپس اندر حویلی میں جانے کے ٹھیک پندرہ منٹ کے بعد ساحر یا سر کے ساتھ حویلی
کے اس آسیب زدہ حصے میں داخل ہوا۔
ساحر اور یا سر دونوں کے ہاتھ میں ٹارچ تھی کہ
حویلی کا یہ پورا حصہ سنسان پڑا تھا اور ہر سواند تیر اچھایا ہوا تھا۔
سوائے ایک کمرے کے جس کے دروازے کے نیچے سے ہلکی سی روشنی باہر آرہی تھی۔
یقینا وہ کمرہ اندر سے روشن تھا۔
لیکن کمرے کے دروازے پہ ایک بڑا سا تالا لگا تھا۔
یہاں کوئی تو ہے کچھ تو ہے یا سر یہ تالا توڑ نا پڑے گا۔
ساحر نے یا سر سے کہا تو یا سر آس پاس تالا توڑنے کے لیے کچھ ڈھونڈ نے لگا۔
حویلی کے اس حصے میں سارا پر انا سامان پڑا تھا جس میں یا سر کو ایک ہتھوڑی پڑی نظر آئی۔
یا سر وہ ہتھوڑی اٹھا کر لایا۔
ساحر نے اس کے ہاتھ سے ہتھوڑی لی۔
اسے ایک ہی وار میں یہ تالا توڑ نا تھا ور نہ ہتھوڑی مارنے کی آواز سے کوئی بھی اس طرف آسکتا تھا۔
ساحر نے بسم اللہ پڑھی اور آنکھیں بند کر کے ایک زور دار ضرب لگائی تو وہ تالاٹوٹ گیا۔
ساحر نے آرام سے تالا کھولا اور کمرے کے اندر داخل ہوا۔
کمرے میں داخل ہو کر ساحر کی نظر سامنے کھڑے وجود پر پڑی تو اس آنکھوں میں بے تحاشہ حیرت آئی۔
سامنے کھڑی عورت خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
ساحر کو لمحہ لگا تھا انہیں پہچاننے میں۔
ان کا چہرہ مرحا سے بے حد مشابہت رکھتا تھا۔
اور اس نے آصف تایا سے سنا تھا کہ مرحا اپنی پھوپھو کی کاپی ہے۔
پھوپھو سائیں۔
ساحر کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تو سامنے کھڑی عورت کے ڈرے ہوئی چہرے پہ یک دم حیرت ابھری تھی۔
کملک کون ہو تقنت تم ۔۔ مارنے آئے ہونا مجھے۔ میت تم۔
رملہ پھوپھو سائیں میں آپ کو کیوں ماروں گا میں ہوں ساحر آپ کا بھتیجا۔
ساحر نے ان کے ڈر کو سمجھتے ہوئے کہا تو وہ اب بھی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
مت تم مجھے بچانے آئے ہو۔
انہوں نے سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
ہاں پھو پھو سائیں آپ بالکل پریشان نہیں ہوں میں آگیا ہوں نا میں آپ کو یہاں سے لے جاؤں گا کوئی
آپ کو نہیں مار سکے گے۔
ساحر کی بات پر رملہ کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
میرے اللہ نے میری سن لی میرے رب نے میری سن لی اس نے بھیج دیا اپنے بندے کو اس نے میری مدد کے لیے میرا مسیحا بھیج دیا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے یا اللہ تیر الاکھ لاکھ شکر ہے میرے مالک۔ بے شک تیرے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
رملہ وہی بیٹھی اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہو گئی۔
یا سر پھوپھو سائیں کو صحیح سلامت یہاں سے نکالنا ہے کچھ بھی ہو جائے یہ بات کسی کو بھی پتا نہیں لگتی چاہیے کہ ہم پھو پھو سائیں تک پہنچ گئے ہیں۔
مگر لالا کل جب اماں صاحب یہاں آئی گی تو انہیں پتا لگ جائے گا کہ پھو پھو سائیں غائب ہیں۔
یا سر نے ساحر کی بات پہ کہا تو ساحر مسکرایا اس کے لیے میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔
ساحر نے اپنا آئیڈ یا یا سر کو بتایا تو اس نے سمجھ کر ہاں میں گردن ہلائی۔
فکر نہیں کریں لالا سب ویسے ہی ہو گا جیسے آپ چاہتے ہیں۔
ساحر نے رملہ کو وہاں سے نکال کر رات کی خاموشی میں ہی گاؤں کے دائرے سے باہر بھیج دیا۔ اس معاملے میں وہ یا سر کے سوا کسی پہ بھروسہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے اس نے یاسر کو پھوپھو سائیں کے ساتھ شہر بھیج دیا۔
اب کام تھا حویلی کے اس حصے کو آگ لگانا جو کہ مشکل نہیں تھا۔ یا سر جانے سے پہلے ہی پیٹرول کا انتظام کر گیا تھا۔
ساحر نے سارے حصے میں پیٹرول چھڑک کر آگ لگادی۔
شیری سے بات کر کے راتوں رات اس نے ایک انسپیکٹر کو خریدا جس نے صبح اماں صاحب کو اس بات
سے مطمئن کیا کہ آگ شارٹ سرکٹ سے لگی تھی اور اندر موجود عورت پوری طرح جل چکی ہے۔
ایک جھوٹی لاش کا انتظام کرنا پولیس کے لیے مشکل نہیں تھا۔
پولیس والے نے ہر ممکن طریقے سے اماں صاحب کو مطمئن کر دیا تھا اور لاش کے پاس سے پھو پھو سائیں کی کچھ چیزیں اماں صاحب کے حوالے کی جو رات پھوپھو سائیں پہنی ہوئی تھی۔
ایسے میں ان کو شک بھی نہیں ہوا اور انہوں نے یقین کر لیا کہ رملہ اب ان کے بیچ نہیں رہی۔
حال
ساحر لالا آپ بے فکر ہو کر گھر جائیں۔ میں پوری حفاظت کروں گا پھوپھو کی۔
یاسر نے کہا تو ساحر نے مسکرا کر یا سر کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
یا سر سچ میں اس کا وفادار ساتھی تھا اگر رات یا سر اس کے ساتھ نا ہو تا تو شاید اسے کبھی پتا ہی نہیں لگ پاتا کہ پھوپھو سائیں کہاں ہیں۔۔
وہ وہاں کب سے قید تھیں اور کیوں قید تھیں یہ سب جوابات رملہ ہی دے سکتی تھیں مگر ابھی ساحر کو انتظار کرنا تھا صبر سے کام لینا تھا کیونکہ وہ اس کنڈیشن میں نہیں تھیں کہ ان سے کوئی بھی سوال کیا جائے۔
ساحر رات کو ہسپتال سے دیر سے گھر لوٹا تھا۔
ساحر اندر آیا تو اس کی نظر کچن کی طرف جاتی ایمان پر پڑی۔
ایمان کے ہاتھ میں پانی کا جگ تھا وہ یقینا پانی لینے کچن کی طرف جارہی تھی۔
ساحر خاموشی سے اس کے پیچھے آیا۔
واٹر کولر سے پانی بھر تے ایمان کو اپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئی۔
ایمان فوراً پیچھے مڑی اس سے پہلے اس کے منہ سے چیخ نکلتی ساحر نے اس کے لبوں پر مضبوطی سے اپنا ہاتھ رکھا۔
میری جان کیا پورے گھر کو یہاں جمع کرنے کا ارادہ ہے۔
ساحر نے مدھم آواز میں کہا۔
ساحر کو دیکھ کر ایمان کی سانس بحال ہوئی۔
آپ ہیں میں تو ڈر ہی گئی تھی۔
ساحر نے ایمان کے منہ سے ہاتھ ہٹایا تو وہ پھولی سانس کے ساتھ بولی۔
بلیک کلر کی سلک کی شرٹ اور ٹراؤزر میں ایمان ساحر کے دل میں اتر رہی تھی۔
میرے ہوتے ہوئے کوئی ایسے تمھارے قریب نہیں آسکتا میری جان۔
ساحر نے ایمان کا ہاتھ تھام کر اپنے قریب کرتے ہوئے کہا۔
ساحر کا پاس آنا ایمان کی دھڑکنیں تیز کر گیا تھا۔
آپ یہاں کیا کر رہے ہیں اور اتنی لیٹ کہاں سے آرہے ہیں آپ۔
ایمان نے آنکھیں چھوٹی کر کے ساحر کو گھورا۔
اب میری چھوٹی سی جان انویسٹیگیشن کرے گی میری۔
ساحر نے مسکرا کر کہا تو ایمان نے معصومیت سے ہاں میں گردن ہلائی۔
چھت پر چلیں۔
ساحر نے ایمان سے پو چھا تواس نے نہ میں گردن ہلائی۔
پہلے بتائیں یہ اتنی دیر سے آپ کس کے پاس سے آرہے ہیں ہاں۔
ایمان کا سوال وہی انکا ہو اتھا۔
ساحر اس وقت بلو جینز پہ بلیک ٹی شرٹ پہنا ہوا تھا۔ پیروں میں جو گر ز پہنے تھے جو اس بات کا صاف پتہ دے رہے تھے کہ ساحر باہر سے آرہا ہے۔
میں سب بتاؤں گا جان پہلے چھت پہ چلیں بہت کچھ ہے جو تمھیں بتانا ہے جو تمھیں جانناضروری ہے۔
ساحر کہہ کر چھت کی طرف چلا گیا۔
وہ ایمان کو سب کچھ بتا دینا چاہتا ہے اپنی زندگی کی حقیقتوں سے واقف کرنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا ایمان
پوری طرح اس کی ہونے سے پہلے اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو جان لے۔
ساحر کی بات پر ایمان الجھی تھی۔ کیا بات تھی جو ایمان کو جاننا ضروری تھی۔
ایمان چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ساحر کے پیچھے چھت کی طرف چلی گئی۔
ایمان چھت پر پہنچی تو ساحر آسمان کی طرف منہ کیسے بادلوں میں چھپتے چاند کو دیکھ رہا تھا۔
نو مبر کا مڈ چل رہا تھا سر دیوں نے دستک دے تھی۔
چھت پہ اس وقت ٹھنڈی ہواؤں سے موسم اچھا خاصا ٹھنڈا ہو رہا تھا۔
ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے ایمان کو خود میں سمیٹنے پر مجبور کیا تھا۔
ایمان چلتی ہوئی ساحر کے پاس آئی تو اس نے ایک مسکراتی نظر ایمان پہ ڈالی جو اپنی ہتھیلیوں کو آپس میں مسل رہی تھی۔
ساحر نے اپنے ہاتھ میں پکڑی جیکٹ فورا ایمان کے کندھوں پہ ڈالی تھی۔
یہاں ٹھنڈک ہے تم بیمار ہو جاؤ گی میری نازک مزاج کی جان۔
ساحر نے مسکرا کر کہا تو ایمان کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ کھلی تھی۔ ایمان واقعی بہت نازک مزاج تھی۔ زار اسی ٹھنڈ بھی اسے برداشت نہیں تھی۔
گھر میں سب ہی لوگ اسپیشلی ریان سردی کے موسم میں اس پر بہت دھیان دیتا تھا۔ ریان اسے کبھی کہ ٹھنڈ میں بنا موزے اور سویٹر کے نکلنے نہیں دیتا تھا۔
اب بتائیں آپ کہاں سے آرہے ہیں اس وقت۔
ایمان کے پھر اسی سوال پہ ساحر کے لبوں پہ خوبصورت تبسم بکھر اتھا۔
اپنی چھوٹی سی جان کا تجسس دیکھ کر ساحر کو شرارت سوجھی۔
میں ایک بہت خوبصورت کی لیڈی کے پاس سے آرہا ہوں۔
ساحر نے سیریس ہو کر کہا تو ایمان نے اسے گھورا۔
کیا مطلب ہے خوبصورت سی لیڈی۔ کو نسی لیڈی کس کی لیڈی سچ سچ بتائیں ساحر آپ کس کے ساتھ تھے۔
ایمان نے گھور کر پوچھا تو ساحر نے ایک لمبی سانس لی۔
ایمان میں تمھیں بتانا چاہتا تھا پہلے ہی پر موقع نہیں ملا۔ وہ میری لائف میں ایک بہت خوبصورت کی
عورت موجود ہے اور میں اس وقت انہیں سے مل کر آرہا ہوں۔
ساحر کی بات پر ایمان کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑا تھا۔
ساحر کون ہے وہ لیڈی کیا لگتی ہیں آپ کی۔ آپ آپ مجھے صاف صاف بتائیں۔
ایمان کی آواز میں نمی گھلی تھی مگر ساحر کو اس کا طرح سوال جواب کرنا اچھا لگ رہا تھا۔
ایمان میں بہت چاہتا ہوں انہیں وہ میری۔۔
چٹاخ
ایمان کا نرم نازک سا ہاتھ ساحر کے گال پہ پڑا تو اس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔
وہ حیرت سے ایمان کو دیکھنے لگا جو اس وقت زار و قطار رونے لگی تھی۔
ایمان میری بات تو سنور
ساحر نے اس کے قریب جانا چاہا تو اس نے ساحر کو دور دھکیل دیا۔
نہیں سننی مجھے آپ کی کوئی بھی بات۔
آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ ہاں۔
آپ تو مجھ سے محبت کرتے ہیں نا آپ کسی اور سے پیار کیسے کر سکتے ہیں۔
میرے دل میں اپنے لیے جذبات جگا کر آپ مجھ سے بے وفائی کیسے کر سکتے ہیں ساحر۔
آپ مجھے خود سے محبت کرنے کی سزا کیسے دے سکتے ہیں۔
ایمان روتے ہوئے ساحر کا کالر پکڑ کر جھنجھوڑ رہی تھی۔ آنکھوں سے تیزی سے آنسو بہہ رہے تھے۔
اس کی آنکھوں کو دیکھ کر ساحر کو اپنے مزاق پر شدید غصہ آیا تھا۔
ایمان میری جان پلیز میری بات سنو ادھر دیکھو میں مزاق کر رہا تھا یار۔
ساحر نے ایمان کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اسے سمجھانا چاہا تو وہ اپنے ہاتھ ساحر کے ہاتھوں سے چھڑوانے لگی۔
ایمان اس طرح جذباتی ہو جائے گی ساحر کو بالکل اندازہ نہیں تھا۔
ایمان کو کنٹرول کرنے کے لیے ساحر نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ایک ہاتھ سے پکڑ کر اس کی کمر پہ پن کیے اور دوسرا ہاتھ اس کے بالوں میں پھنسا کر اس کا چہرہ اپنے چہرے کے قریب کیا۔
مس ایمان حیدر ساحر خان صرف اور صرف تمھارا ہے۔ دنیا میں تمھارے علاوہ ایسی کوئی لڑکی بنی ہی نہیں ہے جس سے ساحر خان محبت کر سکے۔ میرے دل میں میری زندگی میں صرف اور صرف تم ہو۔
تمھارے سوا کسی اور کا خیال بھی اپنے دماغ میں لانا میرے لیے گناہ ہے ایمان۔
ساحر نے ایمان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
ایمان نے مزاحمت ترک کر دی تھی مگر آنسو اب بھی آنکھوں سے بہنے کو تیار تھے۔
ساحر کو ایمان کی آنکھوں میں آنسو اپنے دل میں چھبتے محسوس ہو رہے تھے۔
ساحر نے بے ساختہ اس کی دونوں آنکھوں کو باری چوما تھا۔
ایمان تم میرے دل کی دھڑکن ہو میری رگوں میں بہتے خون کی طرح ہو تمھارے بنا تو میں سانس بھی نالے سکوں تمھارے علاوہ کسی اور کو سوچنا تو بہت دور کی بات ہے۔
بہت محبت کرتا ہوں میں تم سے ایمان ۔ تم میرا عشق ہو میں کبھی تمھارے سوا کسی اور کو سوچوں تو مجھے اگلی سانس بھی نصیب نا ہو۔
ساحر کے لہجے کی محبت ایمان کو سکون دے رہی تھی۔
وہ سانس رو کے ساحر کی باتیں سن رہی تھی کہ اچانک ساحر اس کے گالوں پہ جھکا اور اس کے دونوں گالوں کو باری باری چوما۔
ایمان کا چہرہ لہو چھلکا نے لگا۔
مجھے نہیں پتہ تھا میری جان مجھ سے اتنی محبت کرنے لگی ہے۔
ساحر نے مسکرا کر کہا تو ایمان کی نظریں جھک گئیں۔
میری طرف دیکھو۔
ساحر نے ایمان کا چہرہ اوپر کیا۔
کتنی محبت کرتی ہو مجھ سے۔
ساحر نے مدھم ہے یں پر چھا۔ بہ
بس اتنا کہہ کر ایمان نے اپنا سر ساحر کے سینے پہ رکھا تھا۔
ایمان کا یہ اقرار ساحر کو بے حد خوش کر گیا تھا۔
ساحر نے ایمان کے گرد اپنی باہوں کا گھیر ابنایا اور اس کے بالوں پہ اپنے لب رکھے۔ ساحر ایمان نے مدھم آواز میں اسے پکارا۔
جی ساحر کی جان۔
محبت سے چور لہجہ ۔
آپ کس کے ساتھ تھے۔
ایمان کے دوبارہ اسی سوال پہ ساحر نے قہقہہ لگایا۔
ہاہاہاہا۔۔ میری جان جان من میں کسی لڑکی کے ساتھ نہیں تھا بے فکر رہو۔
ساحر نے ہنستے ہوئے کہا تو ایمان نے اپنا چہرہ ساحر کے سینے سے اٹھا کر اسے دیکھا۔
ساحر نے ایمان کی نظروں کی الجھن دیکھ کر اسے سب بتا دیا۔
میں اپنی پھوپھو سائیں کے پاس تھا میری جان انہی کو میں خوبصورت لیڈی بول رہا تھا۔ اور تم نے مجھے ہی تھپڑ مار دیا۔
ساحر نے مصنوعی خفگی سے کہا تو ایمان کی آنکھوں میں پھر سے پانی بھر نے لگا۔
نہیں نہیں بالکل بھی نہیں۔ ایک آنسو بھی نہیں بہنا چاہیے میری قسم ہے تمھیں ایمان اگر تم نے اب
اپنی آنکھوں کا حال خراب کیا تو میں بیچ بیچ میں ناراض ہو جاؤں گا۔
ساحر نے ایمان کا ڈانٹا تو وہ اپنے کان پکڑ گئی۔
آئی ایم ریلی سوری ساحر مجھے معاف کر دیں پتا نہیں یہ مجھ سے کیسے ہو گیا میں نے جان کر نہیں کیا یہ پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا ساحرایم سوسوری۔
ایمان کان پکڑے اسے سوری کر رہی تھی۔
اس وقت ایمان ساحر کو اتنی کیوٹ لگ رہی تھی کہ اس کا دل کر رہا تھا وہ ساری رات ایسے ہی بس اس کے سامنے رہے اور وہ پوری رات بنا پلک چھپکائے اسے دیکھتا رہے۔
ساحر نے ایمان کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اسے کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے۔
تمھیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے جان من جان جگر تم بس اس دل پر اپنی حکومت کرو باقی ساحر تو ہے ہی تمھارا غلام۔
ساحر نے ونک کر کے کہا تو ایمان نے مسکرا کر واپس اس کے سینے میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔
پھر اس کے بعد ساحر نے ایمان سے کچھ نہیں چھپایا تھا۔
اپنی زندگی میں اس کے تمام رشتوں کے رویے مرحا کے ساتھ ہو احادثہ اور پھر اس کی پھوپھو سائیں کا ایسے قید ہو املنا اس نے ایمان کو سب بتادیا تھا مگر اس کے لیے خوشی کی بات یہ تھی کہ سب کچھ جان کر بھی ایمان نے بہت محبت سے ساحر کا ہاتھ تھاما تھا۔
وہ اپنوں کی نفرتوں کا شکار لڑکا ایک معصوم سی لڑکی کا عشق بن گیا تھا۔
0 Comments
Post a Comment