تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 27
از۔"طوبیٰ صدیقی"
°°°°°°
❤️❤️❤️
احتشام صاحب نے ریان سے کہا تو اس نے ایک گہری سانس لی۔
میں نے مرحا کے لیے اس سب کے علاوہ الگ سے ایک سر پر ائر پلان کیا ہوا ہے۔ میں آج کی پوری رات اور کل کا پورا دن مرحا کے ساتھ اکیلے گزارنا چاہتا تھا مگر ساحر نے منع کر دیا کہ مرحا ابھی میرے نکاح میں نہیں ہے میں اسے پوری رات کے لیے اکیلے نہیں نہیں لے جاسکتا۔
ریان نے تفصیل سے بتایا۔
تو بیٹا اس میں کچھ غلط تو نہیں ہے ساحر ٹھیک کہہ رہا ہے۔
ذو الفقار صاحب نے ریان کو سمجھایا۔
بالکل دادا جان ساحر کی بات بالکل ٹھیک ہے میں خود بھی نہیں چاہتا کہ مرحا کے کردار پہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع ملے اس لیے تو کہہ رہا ہوں مجھے ابھی اسی وقت مرحا سے نکاح کرنا ہے۔
ریان نے دادا جان کا ہاتھ تھام کر کہا۔
مرحا نروس سی ریان کی دیوانگی دیکھ رہی تھی۔ وہ اس وقت بالکل چھوٹے بچے کی طرح ضد کر رہا تھا۔ دادا جان پلیز آپ نے ہمیشہ میری ہر خواہش پوری کی ہے آپ کو اب بھی میری خواہش پوری کرنی ہو گی مجھے ابھی اسی وقت مرحا سے نکاح کرنا ہے۔
ریان نے ذوالفقار صاحب سے منت کرتے ہوئے کہا تو وہ مسکرائے۔
بیٹا صرف تمھاری مرضی پر تو نکاح نہیں ہو سکتا امر حاکی بھی مرضی پوچھنا ضروری ہے نا۔
ذوالفقار صاحب نے ریان سے کہا تو وہ مرحا کے سامنے آکر کھڑا ہوا۔
مر حا کرو گی نا مجھ سے نکاح تمھیں کوئی اعتراض نہیں ہے نا۔
ریان نے مرحا کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا۔
ریان تم جس طرح سے پوچھ رہے ہو اسے کرنا بھی ہو گانا اگر تو بھی انکار نہیں کر پائے گی۔
شیر از نے لقمہ دیا تو سب بننے لگے جبکہ مرحا نروس سی ریان کو دیکھ رہی تھی۔
ریان میرے بھائی آپ زار ا سا سائڈ ہوں میں خود اپنی بہن سے پوچھوں گا۔
ساحر نے ریان کو مرحا کے سامنے سے ہٹا کر کہا تو وہ اسے گھور کر دیکھنے لگا۔
مجھے اندازہ بھی نہیں تھار یان مجھ سے بھی آگے نکلے گا اس سب میں۔
شیر از نے ماریہ کے کان کے قریب سر گوشی کی تو اس نے اپنی ہنسی روکی۔
ساحر نے مرحا کا چہرہ اوپر کیا۔
مرحا میری گڑیا میر ابچہ تم اپنے دل کا بتاؤ کیا تم اس وقت ریان سے نکاح کرنے کی کنڈیشن میں ہو۔
ساحر نے مرحا سے سوال کیا تو وہ کنفیوز ہوئی۔
مرحا کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
لالا میں تو دلہن بھی نہیں بنی میرے مہندی بھی نہیں لگی ایسے کیسے ہوتا ہے نکاح۔ مرحا کی منمناتی ہوئی آواز آئی۔
ریان نے مر حا کا رخ اپنی طرف کیا صرف ان دو باتوں کی وجہ سے تم نکاح نہیں کرنا چاہتیں۔
ریان نے مرحا سے پوچھا تو اس نے معصومیت سے ہاں میں گردن ہلائی۔
مرحا کی معصومیت پہ سب کے چہروں پہ مسکراہٹ کھلی تھی۔
ریان نے مرحا کا ہاتھ چھوڑا اور اسٹیج کی طرف آیا جہاں ایک ٹیبل پہ ریفریشمنٹ کی چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔
اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی چھری بھی رکھی ہوئی تھی۔
ریان نے وہ چھری اٹھائی اور اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پہ بناسوچے سمجھے چلا دی۔
ریان۔۔۔
مرجانے تڑپ کر اسے پکارا تھا۔
ریان کی اس حرکت نے سب کو شاکر کر دیا تھا۔
احتشام صاحب اور ذو الفقار صاحب نے باقاعدہ نفس سے
ریان کو پکارا تھا۔
ریان چلتا ہو امر حا کے سامنے آیا جہاں وہ کھڑی آنکھوں میں آنسو لیے اسے دیکھ رہی تھی۔
نکاح پر مہندی کیوں لگاتے ہیں مرحا اس لیے نا کیونکہ دلہے کی چاہت کا رنگ دلہن کے ہاتھ پہ چڑھتاہے۔
ریان نے کہہ کر اپنا زخمی ہاتھ مرحا کی ہتھیلی پہ رکھ کر پریس کیا تو ریان کے خون سے مرحا کی ہتھیلی رنگ گئی۔
لو چڑھا دیا تمھیں اپنی چاہت کا رنگ بھی۔ اور رہی دلہن کی بات تو لال دوپٹہ ضروری ہوتا ہے نہ اس کا بھی انتظام کرنے کا بول دیا ہے۔
اب بھی کوئی اعتراض ہے۔
ریان کے اس پاگل پن نے سب کی بولتی بند کر دی تھی۔
ریان۔۔ ریان آپ کے ہاتھ سے خون۔۔
مرحا کے منہ سے الفاظ نکلنا مشکل ہو گئے تھے۔
مر جانے ریان کا ہاتھ پکڑ نا چاہا تو اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔
پہلے بتاؤ اب بھی کوئی اعتراض ہے تمھیں نکاح ہے۔
ریان نے پھر سے سوال کیا تو مر جانے نم آنکھوں سے اسے دیکھ کرنا میں گردن ہلائی۔
ریان کا یہ جنون دیکھ کر گھر کے سارے بڑے ناراضگی سے اسے دیکھ رہے تھے جبکہ بینگ پارٹی تو سب
ہی حیرت میں تھی۔
دلہن تیار ہے اب کسی کو کوئی ایشو ہے۔
ریان نے ایک مسکراتی نظر سب پر ڈال کر کہا۔
ریان ہمیں تم سے اس قسم کی بے وقوفی کی امید نہیں تھی۔
کیا بچپنا تھا یہ ۔
ذو الفقار نار صاحب نے ناراضگی سے کہا تو ریان مسکرایا۔
یہ عشق ہے دادا جان یہ محبت ہے یہ جنون ہے۔
مرحا کو پانے کا جنون۔
ریان نے مرحا کو دیکھ کر کہا جس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔
جاؤ احتشام نکاح کے لیے قاضی کا انتظام کرو۔
ذوالفقار صاحب کی بات پہ ریان کے چہرے پر زندگی سے بھر پور مسکراہٹ بکھری تھی۔
ریان مرحا کے پاس آیا اور اس کی آنکھ سے آنسو صاف کیے۔
میں نے منع کیا ہے نارو یا مت کرو تمھارے آنسو مجھے تکلیف دیتے ہیں۔
ریان نے محبت سے کہا تو مر جانے ریان کا ہاتھ تھاما۔
ریان آپ کے ہاتھ سے خون بہہ رہا ہے پلیز اس پہ بینڈ سیج کروالیں۔
مر جانے روتے ہوئے کہا۔
ریان کو مرحا پہ ٹوٹ کہ پیار آیا وہ ریان کی چوٹ کی فکر میں ہلکان ہو رہی تھی۔ ریان نے مرحا کے آگے اپنا ہاتھ کیا تو ایمان مرحا کے پاس جلدی سے فرسٹ ایڈ باکس لائی۔
مر مانے ریان کو کرسی پر بیٹھایا اور خود اس کے سامنے بیٹھ کر ریان کی بینڈ بیچ کرنے لگی۔
مر حابار بار امڈ آنے والے آنسوؤں کو صاف کرتی اور بینڈ بج کرتی جارہی تھی۔
ریان محبت بھری نظروں سے مرحا کو دیکھ رہا تھا۔
وہ اس وقت ایک کیوٹ سی گڑیا لگ رہی تھی۔
شیر از ریان اور مرحا کو دیکھ کر گہری سوچ میں گم تھا جب اس کے پاس ساحر آکر رکا۔
کیا بات ہے کہاں کھوئے ہوئے ہو۔
ساحر نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ ایک دم چونکا پھر مسکرانے لگا۔
ریان کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ ایسا کبھی نہیں تھا یار ۔ وہ مرحا کو اپنی پوری زندگی مان چکا ہے۔
بس اللہ تعالی کبھی ان دونوں کو الگ نا کرے کیونکہ مرحا کبھی بھی ریان سے دور ہوئی تو ریان جی نہیں پائے گا۔ مر جائے گا۔
شیر از نے ریان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ٹھیک کہہ رہے ہو ریان کی دیوانگی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ آج جو اس نے کیا ہے وہ کوئی نارمل
بات نہیں ہے۔ اللہ تعالی ان کی جوڑی ہمیشہ سلامت رکھے۔
ساحر اور شیری دونوں نے ریان اور مرحا کو دعائیں دی تھیں مگر وقت سے کوئی نہیں جیت سکتا۔
بعض اوقات وقت ایسی پلٹی کھاتا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
ماما پلیز کچھ کریں یہ سب میں برداشت نہیں کر سکتی ماما ریان میرا ہے وہ اس طرح مرحا کا نہیں ہو سکتا۔۔
عمل صدے اور غم کی کیفیت میں سمرین بیگم سے التجا کر رہی تھی۔
اپنی بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر سمرین بیگم بھی تکلیف میں تھی۔
کیا ہوا عمل بچہ یہاں کیوں بیٹھی ہو آو سب کے ساتھ بیٹھو۔
سمینہ بیگم نے عمل کو الگ بیٹھے دیکھا تو اس کے پاس آکر گویا ہوئیں۔
بس کرو سمینہ میری بچی جس تکلیف سے گزر رہی ہے اس میں تم اسے کہہ رہی ہو کہ وہ آگے آگے
رہے۔
تم اچھی طرح جانتی تھیں عمل ریان کو کتنا بسند کرتی ہے پھر بھی تم نے اس کو مرحا کی جھولی میں ڈال دیا۔
وہ کل کی آئی لڑکی تھیں اپنی بھانجی سے زیادہ عزیز ہو گئی۔
سمرین بیگم نے شکوہ کیا تو وہ اپنی بہن کو دیکھ کر رہ گئیں۔
یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں آیا۔
ہاں میں مانتی ہوں کہ مجھے عمل ریان کے لیے بہت پسند تھی مگر ریان نے کبھی عمل کو اس نظر سے دیکھا ہی نہیں وہ عمل کو بھی ایمان کی طرح ہی سمجھتا تھا۔
اور میں نے کبھی آپ کو کوئی جھوٹی امید نہیں دی ریان کو لے کر۔
رہی بات ریان کو مرحا کی جھولی میں ڈالنے کی تو آپا یہ سب نصیب کے فیصلے ہوتے ہیں۔ انسان کا جوڑا
اللہ کی مرضی سے بنتا ہے۔ کوئی کسی شخص کو کسی دوسرے کے نصیب سے چھین نہیں سکتا۔
ریان کا نصیب مرحا کے ساتھ ہے تبھی آج وہ اس کے پاس ہے۔
آپ عمل کو سمجھانے کے بجائے مجھے الزام دے رہی ہیں۔
اور آپا مجھے ریان کی خوشی بہت عزیز ہے۔ اور ریان کی خوشی مرحا ہے۔
سمینہ بیگم ایک شکوه کن نگاہ سمرین بیگم پر ڈالتی وہاں سے چلی گئیں۔
عمل نے غصے سے نم آنکھوں کے ساتھ انہیں جاتا دیکھا تھا۔
نہیں آنی جان میں ریان کو مرحا کا کبھی نہیں ہونے دونگی۔ بے شک کرلے وہ مرحا سے نکاح مگر ریان
کو مرح کا ساتھ بھی نصیب نہیں ہو گا۔
عمل نے دل میں سمینہ بیگم سے مخاطب ہو کر کہا۔
بارہ بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔
قاضی صاحب آچکے تھے اور ریان کا منگوایا ہو الال دو پٹہ بھی آچکا تھا۔
ساری لڑکیاں مرحا کے گرد کھڑی اسے چھیٹر رہی تھیں۔
مرحابے بی اب تو نکاح ہو رہا ہے اب تو ریان بھائی کی ساری لنگا میں کھول جائیں گی۔
اہم اہم ۔۔
عینی نے مرحا کے کندھے سے کندھا مارتے ہوئے کہا تو مر جانے اسے آنکھیں دیکھائیں جب کہ چہرے پہ خوبصورت سی شرمیلی سی مسکراہٹ سجی تھی۔
ہاں صحیح بات ہے ابھی نکاح نہیں ہوا تھا تو ہی وہ اپنی محبت کا اظہار کرنے میں کمی نہیں چھوڑتے تھے اب تو انہیں پوری آزادی مل جائے گی۔
مرحا جانی آپ کی تو خیر نہیں۔
نور نے مرحا کو چھیڑا تو مر جانے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔
اچھا اچھا بس بس آپ دونوں میری پیاری سی ہونے والی بھا بھی کو تنگ نہ کریں اب میرے بھیو کوئی جن تھوڑی ہیں جو مر حا کو کھا جائیں گے۔ وہ تو بہت سارا پیار کریں گے اہم اہم ایمان نے مرحا کا ساتھ دیتے دیتے بھی اسے بخشا نہیں تھا۔
مرحا کا شر مایا گھبر ایا روپ ریان دور بیٹھے نہار رہا تھا۔
بس کر دے بھائی تیری ہی ہو جائے گی تھوڑی تو نظر ادھر اُدھر کرلے۔
شیری نے ریان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔
کیا کروں جب بھی اسے دیکھتا ہوں کسی اور چیز کو دیکھنے کا دل ہی نہیں کرتا۔
میں بہت محبت کرتا ہوں شیری مرحا میری نس نس میں بس گئی ہے۔
آج میں کتنا خوش ہوں نا میں بتا بھی نہیں سکتا۔
ریان نے مسکرا کر شیری سے کہا تو اس نے ریان کو گلے لگایا۔
مجھے بہت خوشی ہے تیرے لیے ریان اللہ تعالی تم دونوں کو ہمیشہ ایک ساتھ خوش رکھے۔
شیری نے دعادی تو ریان نے دل کی گہرائی سے آمین کہا تھا۔
مرحا آصف خان ولد آصف اور لیس خان آپ کا نکاح سید ریان حید ر ولد سید احتشام حیدرسے طے پایا ہے کیا یہ نکاح آپ کو قبول ہے۔
قاضی صاحب کی آواز گونجی۔ سب خاموش تھے۔ ریان اور مرحا کو ایک دوسرے کے سامنے بیٹھایا گیا تھا۔
مرحا کے چہرے پہ لال دوپٹہ سے گھونگھٹ کر کے بیٹھایا گیا تھا۔
مر حا کا دل بھر آیا تھا۔ آج اس کے اتنے اہم دن میں اس کے ماں باپ ساتھ نہیں تھے۔
قاضی صاحب کے پوچھنے پر مرحا کی طرف سے جواب نہیں آیا تو شاہ میر نے آکر اس کی گود میں ایک فریم رکھا جس پہ اس کے ماں باپ کی تصویر بنی تھی۔
مرحا نے نظر اٹھا کر شاہ میر کو دیکھا جو اسے مسکرا کر دیکھتا ریان کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔
مر جانے اپنے ماں باپ کی تصویر کو اپنے سینے سے لگایا۔
ریان بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔
وہ جانتا تھا یہ وقت مرحا کے لیے کتنا مشکل ہے۔
ساحر نے مرحا کے سر پہ ہاتھ رکھا تو اس نے ایک گہری سانس لے کر نکاح قبول کیا۔
" قبول ہے "
اور پھر دوبار اور پوچھنے پہ مر جانے اپنا آپ اپنے سارے حقوق اپنی زندگی سب ریان کے نام کر دی۔
اب قاضی صاحب نے ریان سے پوچھا۔
سید ریان حیدر ولد سید احتشام حیدر آپ کا نکاح مرحا آصف خان ولد آصف اور لیس خان سے طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔
قبول ہے
قبول ہے۔
قبول ہے۔
ریان نے ایک ہی سانس میں تینوں بار مر حا کو قبول کیا تو سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
ریان نے آنکھیں بند کر کے اوپر کی طرف سر اٹھایا۔
آج اسے اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی مل گئی تھی۔ آج اس کی محبت ہمیشہ کے لیے اس کی ہو گئی تھی۔
نکاح کی رسم ادا ہوئی تو مبارک باد کا سلسلہ شروع ہوا۔
ریان چلتا ہو امر حا کے پاس آیا جہاں وہ گھونگھٹ میں نروس سی بیٹھی تھی۔
چلیں بھیو اپنی زوجہ محترمہ کا گھونگھٹ کھولیں۔
ایمان نے ریان کا ہاتھ کا پکڑا اور اسے مرحا کے بالکل پاس کھڑا کر دیا۔
ریان نے مرحا کے چہرے سے گھونگھٹ اٹھایا اور مسکراتے ہوئے اس کے ماتھے پہ اپنی محبت کی پہلی مہر ثبت کی۔ مرجانے آنکھیں بند کر کے ریان کے اس احساس کو محسوس کیا تھا۔
سب ینگ پارٹی نے شور مچایا اور تالیوں کی گونج سے مرحا اور نروس ہو گئی۔
چلو چلوبس اب میری بیوی کو زیادہ نروس نہیں کروں
ریان نے مصنوعی غصے سے کہا تو سب نے لمبا سا او و و و و وہ کہا۔
ریان مرحا کا ہاتھ پکڑ کر اسٹیج کی طرف لایا کیونکہ بارہ بجنے میں صرف پانچ منٹ باقی تھے۔ باقی سب بھی ان کے ارد گرد کھڑے ہو گئے تھے۔
ٹیبل پہ ایک بہت خوبصورت سا کیک لا کر رکھا گیا۔
شایان شاہ میر اور شہیر ان دونوں کے قریب کھڑے تھے تا کہ جیسے ہی مر حا کیک کاٹے وہ پارٹی پوپر کھولیں۔
اور پھر بارہ بجتے ہی بیپی برتھ ڈے سونگ پہلے ہوا تو ریان نے مرحا کا ہاتھ پکڑ کر کیک کٹوایا۔
تالیوں کی گونج اور بے شمار دعاؤں کے سائے میں مر جانے ریان کا ہاتھ تھامے اپنا برتھ ڈے سیلیبریٹ کیا۔
عمل دور کھڑی نم آنکھوں سے انہیں دیکھتی وہاں سے چلی گئی تو سمرین بیگم بھی اس کے ساتھ ہی وہاں سے نکل گئیں۔
ریان نے ایک لمحے کے لیے بھی مر حا کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔
اولیس صاحب ریان اور مرحا کے قریب آئے۔
ہمیشہ خوش رہو میرا بچہ ۔ ریان مجھے کہنے کی ضرورت تو نہیں ہے مگر پھر بھی ہماری مرحا کا خیال رکھنا ہمیشہ
اللہ تعالیٰ تم دونوں کو سارے جہاں کی خوشیاں عطا کرے۔
اولیس صاحب نے مرحا کا ماتھا چوم کر کہا
مرحا بہت بہت مبارک ہو تم دونوں کی جوڑی بہت پیاری ہے۔ سچی تم تو پیاری سی گڑیا ہو ہی مگر ریان جیجو بھی کسی شہزادے سے کم نہیں ہیں۔
آرزو نے مرحا کو ونک کر کے کہا تو ریان قہقہہ لگا کر ہنسا۔
شکر یہ سالی صاحبہ ۔ مگر آپ کی پیاری سی کزن کے آگے تو ہم کچھ بھی نہیں ہیں سارے جہاں کا حسن تو یہ سمیٹ کر بیٹھی ہوئی ہیں۔
ریان نے مرحا کو ونک کر کے کہا تو مر جانے مسکر اکر نظریں جھکالیں۔
ریان میر ا ہاتھ تو چھوڑ دیں۔
مرجانے مدھم آواز میں ریان سے کہا جو نکاح کے بعد سے ہی مر حا کا ہاتھ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چھوڑ رہا تھا۔
کیوں چھوڑوں مجھے تو حق ہے میں تو بالکل نہیں چھوڑوں گا ہاتھ بلکہ اب تو میں تمھیں بھی نہیں
چھوڑوں گا میری جان بہت ٹر پایا ہے تم نے مجھے۔
ریان نے مرحا کے کان میں سرگوشی کی تو ریان کی باتیں مرحا کو گھبراہٹ میں مبتلا کر گئی تھی۔
مرحا کی گھبراہٹ پر ریان نے اس کے ہاتھ پہ اپنی پکڑ اور مضبوط کی۔
میری جان اب ایسے گھبرانا چھوڑ دو میں اب تمھارا محرم ہوں غیر نہیں ہوں اور تمھاری یہ شرماہٹ گھبراہٹ مجھے اور بے قرار کر رہی ہے۔
مر حامیری جان آج تو تم گئی۔
ریان نے سرگوشی کی تو مر حا کا دل تیزی سے دھڑ کا تھا۔
بھیو اور مرحا ساتھ میں کتنے اچھے لگ رہے ہیں نا۔
ایمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہم یہ تو ہے مگر آپ کا ہمارے بارے میں کیا خیال ہے۔
ایمان جو یہ سمجھ رہی تھی عینی اس کے ساتھ کھڑی ہے ساحر کی آواز پہ ایک دم ہر بڑا گئی۔
آرام سے آرام سے کوئی بھوت دیکھ لیا گیا۔
نرم مسکراہٹ کے ساتھ ساحر نے ایمان کو دیکھا۔
آپ بھوت سے کم ہیں کیا۔
ایمان کے لہجے میں شرارت تھے جو ساحر نے صاف محسوس کی تھی۔
ہم پھر بھوت تو پوری طرح قابض ہو جاتے ہیں دوسرے کے اوپر کیا خیال ہے تمھارے وجود پر قبضہ جمالوں۔
ساحر نے مدھم آواز میں کہا تو ایمان اپنی ہی بات پہ پچھتائی تھی
آپ کو پتا ہے آپ منگنی کے بعد سے بہت بے شرم ہو گئے ہیں۔
ایمان نے ساحر کو گھور کر کہا تو اس کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
ابھی میری بے شرمی تم نے دیکھی کہاں ہے میری جان کہو تو ابھی نکاح کر کے اپنی بے شرمی کی ایک دو جھلک دیکھاؤں۔
ساحر نے ونگ کر کے کہا تو ایمان کا چہرہ شرم سے لہو چھلکا نے لگا۔
ساحر کی بے باک باتیں ایمان کی دل کی دھڑکنیں تیز کر دیتی تھیں۔
مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی آپ بہت گندے بچے ہو گئے ہیں۔
ایمان گھور کر جانے لگی تو ساحر نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔
میری جان گندہ بچہ تو میں تمھیں شادی کی رات بن کے دیکھاؤں گا ابھی تو میں بہت ہی شریف قسم کا
انسان ہوں مگر صرف نکاح تک۔
اس کے بعد تم میں اور ڈھیر سارا پیار ہو گا اور پھر میں تمھیں اپنی بے شرمی کھل کے دیکھاؤں گا۔
ساحر کی بات پر ایمان نظریں تک نہیں اٹھا پائی۔
ایمان کا گھر آیا ہو ا چہرہ ساحر کو اپنے دل کے بے حد قریب محسوس ہو رہا تھا۔
ایمان نے شرما کر زبردستی اپنا ہاتھ چھڑوایا اور ساحر کی نظروں سے چھپنے کے لیے اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔
ساحر کے چہرے پر زندگی سے بھر پور مسکراہٹ بکھری تھی۔
مرحا کا برتھ ڈے بہت بہترین انداز میں سیلیبریٹ کر کے اب سب اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہونے لگے۔
سہیل صاحب نے اجازت لے کر عینی اور نور کے ساتھ گھر کی راہ لی۔
اولیں صاحب اور شیری بھی اپنی اپنی فیملی کے ساتھ گھر روانہ ہو گئے تھے۔
دادا جان با با ماما آپ لوگ سب گھر جائیں۔ میں مرحا کو لے کر جارہا ہوں۔ ابھی مرحا کے لیے ایک سر پر ائز اور باقی ہے۔
ریان نے سب کو مخاطب کر کے کہا تو مر حا کو گھبراہٹ ہونے لگی۔
ریان کے ساتھ وہ پہلے بھی ایک بار اکیلی رہی ہے مگر تب ریان اپنی حد میں رہتا تھا اس نے کبھی بھی
مرحا کے بہت قریب آنے کی کوشش نہیں کی تھی مگر اب ان کا نکاح ہو چکا تھا۔
ریان کو سارے حقوق مل چکے تھے اور اسی وجہ سے مرحا کو گھبراہٹ ہو رہی تھی۔
ریان کی بے باک باتیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔
ساحر لالا آپ کی اجازت ہے اب میں اپنی بیگم کو لے جاسکتا ہوں۔
ریان نے معصومیت کی انتہا کرتے ہوئے کہا تو سب بننے لگے۔
ہاں ہاں لے جائیں بھئی اب ہم آپ کو روکنے والے کون ہوتے ہیں۔
ساحر نے مسکرا کر جواب دیا۔
سب لوگوں کو گھر بھیج کر ریان مرحا کی طرف مڑ کر مسکرایا جو نروس سی کھڑی اپنی انگلیوں کو مروڑ رہی تھی۔
چلیں میری جان۔
ریان نے مرحا کے پاس آکر کہا تو اس نے گھبر اگر ریان کو دیکھا۔
ریان کو اس کی حالت مزہ دے رہی تھی۔ اس کا ریان سے گھبر اناشر ماناریان کے دل کو بر قرار کر رہا
وہ میں ۔۔ ہم۔۔ ہم دونوں ۔۔
مرحا کی سمجھ نہیں آرہا تھا وہ ریان سے کیا کہے۔
مرحا کے ٹوٹے ہوئے الفاظ ریان کے چہرے پہ مسکراہٹ گہری کر گئے۔
ریان نے مرحا کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔
میری جان کو مجھ پہ بھروسہ ہے نا۔
بہت محبت سے سوال کیا گیا۔
مر جانے ہلکی سی ہاں میں گردن ہلائی۔
تو پھر یہ ڈر کیوں یہ گھبراہٹ کیوں۔ اب تو میں تمھارا شوہر ہوں تم مجھ سے ایسے گھبراؤ گی میرابچہ۔
ریان نے نرم لہجے میں کہا۔
مجھے۔۔ ڈر لگ۔۔ رہا ہے۔۔
مرجانے آہستہ سے اپنے دل کی بات کہی تو ریان نے مسکر اکر اس کا ماتھا چوما۔
میری جان کو کس سے ڈر لگ رہا ہے۔
آپ سے۔
ریان کے پوچھنے پہ بے ساختہ مر جانے جواب دیا۔
پھر خود ہی نظریں جھکا گئی۔
مجھ سے ڈر رہی ہو میں تمھیں کھا تھوڑی جاؤں گا میرا بے بی۔
بھروسہ رکھو اپنی لمٹ میں رہنے کی پوری کوشش کروں گا۔
ریان نے ونگ کر کے کہا تو مر حا کی صورت رونے والی ہو گئی۔
مر حا کو کچھ اور بولنے کا موقع دیے بناریان نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا اور گاڑی میں لاکر بیٹھایا۔
خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی نکال کر لے گیا۔
مرحا کی شرم و حیاریان کے جذ باتوں کو بے قابو کر رہے تھے۔
اور کچھ جائز رشتے کی کشش تھی ریان اسے اپنی باہوں میں بھرنے کو بے چین تھا۔
اس کی نظریں مسلسل مرحا کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔
ریان کو خود کو دیکھتے پا کر مر جانروس ہو کر نظری جھکائے بیٹھی تھی۔
ریان مرحا کو گھر سے بہت دور ایک فارم ہوس پر لایا۔
یہ فارم ہاؤس اس کے بابا نے دو سال پہلے اسے گفٹ کیا تھا۔
ریان نے فارم ہاؤس کے باہر گاڑی روکی اور اتر کر جلدی سے مرحا کی سائیڈ پر آیا۔
مرحا کی سائیڈ کا ڈور کھول کر ریان نے مرحا کو باہوں میں اٹھایا اور پاؤں سے ڈور کو بند کیا۔
مرحا کی نظریں ریان کی طرف اٹھی جو اسے ہی دیکھ کر مسکرارہا تھا۔
ریان کی مسکراہٹ پر مرحا کی چہرے پہ بھی مسکراہٹ کھلی۔
فارم ہاؤس باہر سے بہت ہی خوبصورت تھا۔
مین گیٹ سے داخل ہوتے ہی ایک بہت بڑا سا گارڈن تھا جس کے بیچ میں خوبصورت سا فاؤنٹین تھا۔
گارڈن میں ایک طرف جھولا لگا ہو ا تھا اور ایک سائیڈ پہ ڈیرہ سا بنا تھا جہاں عموماً باربی کیو وغیرہ کیا جاتا ہو۔
ریان مرحا کو باہوں میں اٹھائے اندر آیا تو وہاں تین ملازمہ کھڑی تھی جو ان کو دیکھتے ہی ان پر پھول برسانے لگیں۔
ریان نے مرحا کو دروازہ کے پاس کھڑا کیا۔
اب آپ لوگ جا سکتیں ہیں آپ لوگوں کا بہت شکریہ۔
ریان نے ان تینوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے پرس سے کچھ نوٹ نکال کر ان کو دیے اور ان کو وہاں سے بھیج دیا۔
ریان نے مرحا کو دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا تو اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔
دروازہ کھولتے ہی پھولوں کی خوشبو نے ان کا استقبال کیا تھا۔
انٹر ہوتے ہی ایک بہت بڑا سا ہال تھا جس کے ایک طرف ایک چھوٹا سا امیر یکن اسٹائل کچن تھا۔
بال کے پورے فرش پہ لال رنگ کے غبارے بکھرے ہوئے تھے۔
دیو ایں پوری طرح گلاب کے پھولوں کی لڑیوں سے سجی تھیں صرف ایک دیوار کے سینٹر پہ تھوڑا حصہ خالی تھا جس پہ ہیپی برتھڈے مرحا لکھا تھا۔
مرحا آنکھوں میں حیرت لیے پورے کمرے کو دیکھ رہی تھی۔
بال کے سینٹر میں ایک ٹیبل رکھی تھی جس پہ ایک خوبصورت اسٹینڈ پر کینڈیلز جل رہی تھیں اور ساتھ ہی ایک ہرٹ شیپ کیک رکھا تھا۔
کمرے میں اس وقت روشنی بالکل مدھم سی تھی جو اس پورے منظر کو اور بھی دلکش بنارہی تھی۔ ریان نے مرحا کے آگے اپنا ہاتھ پھیلا یا تو اس نے مسکرا کر ریان کو ہاتھ تھاما۔
ریان مرحا کا ہاتھ پکڑ کر ٹیبل تک لایا۔
ریان آپ نے یہ سب میرے لیے کیا۔ یہ سب کتنا خوبصورت ہے۔
مرحانے ایکسائیڈ ہو کر کہا تو ریان نے مرحا کے دونوں ہاتھوں کو چوما۔
یہ سب صرف میری جان کے لیے۔
محبت سے چور لہجے میں ریان نے جواب دیا۔
ریان نے مرحا کا ہاتھ پکڑ کر کیک کٹوایا۔
وشنگ یو آویری ہیپی برتھڈے میر ابچہ میری جان میری زندگی آئی لو و یو سونچ۔
ریان نے مسکرا کر کہتے ہوئے مرحا کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے تو مرحا کی آنکھیں بے ساختہ بند ہوئیں۔
ریان یہ ۔۔
مرحا کو بولنے کا موقع دیے بناریان نے اسے اپنی باہوں میں بھر اتھا۔
مرحا کے دل دھڑکنوں نے شور مچایا وہی ریان کا دل بھی مر حا کو سینے سے لگا کر بے ترتیب دھڑکا تھا۔
تھینک یو سوچ ریان یہ سب بہت خوبصورت ہے مجھے یہ سب کچھ بہت بہت اچھا لگا۔
مرجانے مدھم آواز میں کہا تو ریان مرحا سے الگ ہوا۔
ابھی اور بھی بہت کچھ ہے۔
ریان مرحا کو ہاتھ تھام کر بال کے سامنے بنے دو کمروں میں سے ایک کی طرف لایا۔
مرحانے دروازہ کھولا تو یہاں بھی پھولوں کی مہک نے اس کا استقبال کیا۔
کمرے میں ایک کنگ سائز بیڈ تھا جس پہ گلاب کی پتیوں سے آئی لو یو لکھا تھا۔
سامنے دیوار پہر ایک بڑی سی ال ای ڈی لگی ہوئی تھی۔
بیڈ کی ایک طرف الماری تھی تو دوسری طرف سنگھار میز رکھی تھی۔
اور اس کے ساتھ ہی صوفہ رکھا تھا جس پہ بہت سارے گفٹس رکھے تھے۔
زمین پہ بھی پھولوں کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔
الماری کے ساتھ ایک بہت بڑا سا کار ڈر کھا ہوا تھا جو اونچائی میں چھت کو چھونے کے قریب تھا۔
ریان نے مرحا کے لیے خاص طور پر یہ کارڈ آڈر پہ بنوایا تھا۔
کارڈ دیکھ کر مرحا کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔
مرجانے مسکراکر ریان کو دیکھا جو اس ہی دیکھ رہا تھا۔
انس بیوٹیفل ریان۔
مرجانے ستائشی نظروں سے کارڈ کو دیکھ کر کہا۔
ریان مرحا کے قریب آیا تو مر جانروس ہوئی۔
ریان آپ۔۔ لگ کیا۔۔
مرحا کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔
۔
ریان نے مرحا کی کمر پہ ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کیا تو مر حا اپنی سانسیں روک گئی۔
ریان۔۔ پلیز ۔۔ چھوڑیں۔۔ نا۔۔
مر جاٹوٹے ہوئے الفاظوں سے منمنائی۔
میری جان آپ کے قریب آنے کا پورا پر مٹ لے کر آیا ہوں تم مجھے روک نہیں سکتیں اب تو پورا حق ہے مجھے تمھارے قریب آنے کا۔
ریان نے خمار آلود لہجے میں کہا تو مر حا کو گھبراہٹ ہونے لگی۔
اس نے ریان کی باہوں سے نکلنے کی کوشش کی تو ریان نے اسے اور قریب کر کے اپنی گرفت سخت کردی۔
ریان۔۔
مرحانے مد هم آوازیں کبا
جی ریان کی جان۔
ریان کے لہجے میں جو خمار تھا وہ مرحا کو اور گھبراہٹ میں مبتلا کر رہا تھا۔
ریان کی لو دیتی نظروں سے مر جانے نظریں چرائیں۔
م ۔ م مم میں ۔۔ وہ ۔۔ مم مجھے ۔۔
❤️❤️❤️
0 Comments
Post a Comment