تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 26

از۔"طوبیٰ صدیقی"


 

°°°°°°


❤️❤️❤️


ذوالفقار صاحب نے کہا۔


مرحا ان کے لیے بہت عزیز ہو گئی تھی کیونکہ ریان ان کا سب سے لاڈلہ تھا اور مر حاریان کی جان تھی۔


مرحا کہاں ہے میں اس سے ملنے کے لیے بہت بے چین ہوں۔


اولیس صاحب نے کہا تو ریان نے انہیں تفصیل بتائی کہ اس نے مرحا کو نیند کی دوا دے کر سلایا ہوا


ہے۔ سمینہ بیگم زکیہ کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں جبکہ ایمان کی بھی آرزو سے اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ 


شام کا وقت ہو چکا تھا سب لوگ اپنی تیاریاں مکمل کر چکے تھے ریان کے کہنے کے مطابق سب کو سات بجے تک گھر سے نکل جانا تھا۔


مرحا کے پاس اس نے ماریہ کو چھوڑا تھا تا کہ وہ اسے تیار کر سکے۔


مرحا کی برتھ ڈے پارٹی میں صرف گھر کے لوگ سہیل صاحب کی فیملی اور شیر از کی فیملی انوائیٹڈ تھے۔


ریان نے ایک بہت خوبصورت بال روم بوک کیا تھا جہاں پہ اس نے ساری تیاری مکمل کر رکھی تھی۔ سب لوگ سات بجتے ہی جاچکے تھے سوائے عمل کے وہ ماریہ کے بعد اپنا کام کر کے جانے والی تھی۔


مرحا کی آنکھ کھلی تو اس وقت شام کے سات بجنے والے تھے۔


یا اللہ یہ مجھے کیا ہو گیا ہے میں اب اٹھ رہی ہوں اتنی لیٹ۔


مرحا نے ٹائم دیکھا تو اس کا سر چکرا گیا کیونکہ اسے یاد تھا وہ صبح ناشتہ کر کے وہ پھر سوگئی تھی اور اب اس کی آنکھ سات بجے کے قریب کھلی تھی۔


باہر اندھیرا چھا چکا تھا۔


مرحا بیڈ سے اٹھ کر جلدی سے فریش ہو کر باہر آئی تو ماریہ روم میں موجود تھی تھی۔


ہیلو مر حاکیسی ہو۔


ماریہ نے مرحا کے گلے ملتے ہوئے کہا۔


میں ٹھیک ہوں آپ یہاں میٹو بھی آئی ہے۔ راری کودک کر ایک میں ہوئی تھی


نہیں عیشو نہیں ہے یہاں ہمیں جلدی چلنا ہے آجاؤ میں تمھیں تیار کر دوں۔


ماریہ کے کہنے پہ مر حاسوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔


تیار ہونا ہے جانا ہے مگر کہاں جانا ہے۔


مرجانے سوال کیا تو اس نے گہری سانس لی۔


مرحا ابھی کوئی سوال جواب نہیں بس تم ابھی بالکل خاموش رہو گی میں سب بتاؤں گی مگر ابھی صرف ہم تیار ہونگے۔


ماریہ مر حاکو ز بر دستی ایمان کے روم میں لائی۔


ایمان کے روم میں آکر مرحا کی نظر بیڈ پر پڑی جہاں بہت خوبصورت کی ڈارک بلو کلر کی لونگ میں میکسی رکھی ہوئی تھی جس پہ لائٹ بلو اور سلور چمک سے پوری میکسی بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔


میکسی کو دیکھ کر مرحابے یقینی کی کیفیت میں اسے دیکھ رہی تھی۔


یہ تو سینڈریلا جیسے میکسی ہے ماریہ یہ کتنی حسین ہے۔


مرجانے ستائشی نظروں سے دیکھ کر ماریہ سے کہا تو وہ مسکرائی۔


ہاں اور یہ تمھارے لیے ہے اس لیے جلدی سے ریڈی ہو جاؤ۔


کیا یہ میرے لیے ہے۔ مگر یہ کون لایا۔


ماریہ کی بات پہ مر جانے حیرانگی سے پوچھا تو ماریہ اسے دیکھ کر مسکرائی۔


تم بتاؤ کون لا سکتا ہے یہ۔


ماریہ نے اس کے کان کے قریب سرگوشی میں پوچھا تو مر حا کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔


ہونٹوں پہ بے ساختہ ریان کا نام آیا تھا۔


یہ ریان لائے ہیں ماریہ یہ سچ میں ریان لائے ہیں۔


مرحانے خوش ہوتے ہوئے کہا تو ماریہ نے مسکر اگر ہاں میں گردن ہلائی۔


اب چلو جلدی سے چینج کرو میں تمھیں تیار کروں۔


ماریہ نے کہا تو اس نے پھر وہی سوال دھرایا۔


مگر ہم کہاں جارہے ہیں ماریہ کچھ تو بتاؤ۔


میری جان وہ تمھیں ریان بھائی بتائیں گے تم بس ابھی تیار ہو جاؤ۔


ماریہ نے کہہ کر اسے زبر دستی چینج کرنے کا بولا اور خود روم کے باہر کھڑی ہو گئی۔ کیونکہ میکسی اتنی پھولی ہوئی اور گھیر والی تھی کہ مرحا اسے واشروم میں چینج نہیں کر سکتی تھی۔


میکسی پہن کر مر جانے روم کا دروازہ کھولا تو ماریہ کے منہ سے مرحا کو دیکھ کر بے ساختہ ماشاء اللہ نکلا تھا۔


مرحا اس میکسی میں اتنی حسین لگ رہی تھی جیسے کہ وہ بیچ میں سینڈریلا ہو۔


مرحا نے خود کو آئینے میں دیکھا تو اس کے چہرے پہ خوبصورت سے مسکان کھلی تھی۔


ماریہ نے مرحا کا لائٹ سا میک اپ کیا اور بالوں کو کرل کر کے پیچھے کمر پہ کھلے چھوڑ دیے۔


گلے نفیس اور نازک سا خو بصورت پنیڈینٹ اور کانوں میں اسی کی میچنگ کی ٹاپس پہنائے۔


دونوں ہاتھوں میں خوبصورت سے چاندی کے بریسلیٹ پہنائے جس پہ "ریان کی جان" لکھا تھا۔


مرحاجیل میں کمفرٹیبل نہیں رہتی جس کا ریان نے خاص دھیان رکھتے ہوئے ایسی ہیل لی تھی جو اس


کے پنجے سے لے کر ایڑھی تک برابر تھی۔


مرحا اس میں بہت آرام سے چل سکتی تھی۔


ماریہ نے مرحا کو پورا تیار کر کے اس کا رخ آئینے کی طرف کیا تو مر حاحیرانگی سے خود کو دیکھ رہی تھی۔


اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ آئینے میں نظر آنے والی لڑکی وہ خود ہے۔


وہ سچ میں کسی سلطنت کی شہزادی لگ رہی تھی۔


ماریہ نے ایک سلور کلر کا خوبصورت ساتاج لا کر اس کے سر پہ سجایا تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔


او مائی گاڈ مر حایو جسٹ لو کنگ لاٹیک کا پرنسس۔


تم سچ سچ کی سینڈ ریلا لگ رہی ہو۔


ماریہ نے چہکتے ہوئے کہا تو مر حا کے گال شرم سے لال ہو گئے۔


اس کا تو خواب تھا کہ وہ ایک دفعہ پورا سٹینڈریلا والا گیٹ اپ کرے اسے سینڈریلا بہت زیادہ پسند تھی۔


آج ریان نے اس کی خواہش کو پورا کر دیا تھا۔


مر حا صرف اسی چیز پہ اتنا خوش تھی اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس کے ریان نے اس کے لیے اور کیا کیا انتظام کیسے ہوئے ہیں۔


اچھا اب تم یہاں بیٹھو میں جارہی ہوں او کے تم نے ٹھیک دس منٹ کے بعد میں گیٹ پہ آنا ہے۔


ماریہ مرحا کو بولنے کا موقع دیے بنا کمرے سے بھاگ گئی۔


عمل نے ماریہ کو جاتے دیکھا تو اپنا کام کر کے وہ بھی گھر سے نکل گئی۔


اسے یقین تھا اب مرحا کسی بھی قیمت پر برتھ ڈے پر پہنچ نہیں پائے گی مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ


وہاں پہلے سے کوئی شخص اس کے ارادہ جان کر اسے ناکام بنانے بیٹھا ہوا تھا۔


مرجانے آئینے کے سامنے گھوم کر دیکھا۔


مرحا کے گھومنے سے اس کی میکسی بھی ساتھ گھومی تھی جو گھیر زیادہ ہونے کی وجہ سے بہت خوبصورت


لگ رہی تھی۔


ریان آپ کتنے اچھے ہیں۔


مرحانے خوش ہوتے ہوئے کہا۔


نظر گھڑی پہ گئی۔


دس منٹ ہو چکے تھے اب اسے مین گیٹ پہ جانا تھا۔ ab‏


مرحا اپنی میکسی اٹھائے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی سیڑھیوں سے نیچے اتری۔


کچن کی سائیڈ پہ چھپ کر کسی نے اسے مسکرا کر دیکھا تھا۔


وہ عمل کا ارادہ ناکام بنا چکا تھا۔


عمل نے سیڑھیوں پر تیل گرایا تھا تا کہ مرحا سیڑھیوں سے گر جائے مگر وہ عمل کی یہ چال ناکام بنا چکا تھا۔


مرحا چلتی ہوئی مین گیٹ تک آئی جہاں مین گیٹ کے باہر وائٹ لینڈ کروزر کھڑی تھی۔


مر حا گاڑی تک آئی تو گاڑی کے بیک ڈور پہ ایک چٹ لگی تھی جس پہ لکھا تھا


"وکم پرنس"


مرحا کے لب مسکرائے تھے۔


وہ گاڑی میں بیٹھی تو گاڑی زن سے آگے بڑھ گئی۔


گاڑی ایک مقام پہ جاکر رکی۔


سر آپ کا انتظار کر رہے ہیں یور ہائیں۔


ڈرائیور نے بہت ادب سے کہا تو مر جانے حیرانگی سے اسے دیکھا۔


مرحا کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سچ میں ڈزنی ورلڈ میں ہو۔


مرحا آرام سے گاڑی سے اتری تو گاڑی فورا وہاں سے چلی گئی۔


مرحا نے سامنے دیکھا جہاں ایک سفید رنگ کا خوبصورت سا گھوڑا کھڑا تھا۔ اور اس کے ساتھ ریان چہرے پر مسکراہٹ لیے کھڑا تھا۔


بلیک کلر کی ڈریس پینٹ پر ڈارک بلو کلر کی شرٹ پہنے وہ بھی کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔


ریان چہرے پر مسکراہٹ لیے مرحا کے پاس آیا اور اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ کر اپنا سر اس کے آگے جھکایا۔


آنے میں کوئی پر اہلم تو نہیں ہوئی میری پرنس کو۔


ریان نے مسکرا کر پوچھا تو مر جانے مسکرا کر نہ میں سر ہلایا۔


ریان مرحا کے قریب آیا اور اس کان کے قریب جھکا۔


مر جانے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں۔


آپ اس قدر حسین لگیں گیں تو ہمارا کیا بنے گا میری جان۔


بہت بہت بہت خوبصورت لگ رہو۔ میں نے اتنی خوبصورت پر نس کبھی نہیں دیکھی۔


ریان نے مرحا کے کان میں سر گوشی تو اس کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔


ریان نے اپنا ہاتھ مرحا کے آگے کیا تو اس نے ریان کے ہاتھ کو تھاما۔


ریان اسے لے کر گھوڑے کے قریب آیا۔


ریان میں گر جاؤں گی مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔


ریان مرحا کو گھوڑے پہ بیٹھانے لگا تو مر جانے فورانہ میں گردن ہلا کر کہا۔


میری جان کیا تمھیں لگتا ہے تمھارا ریان تھیں کبھی بھی گرنے دے گا۔


ریان نے اتنی محبت سے بولا تھا کہ مرحا آگے سے کچھ بول ہی نہیں پائی۔


مرحا کو گھوڑے پہ بیٹھا کر ریان خود بھی اس کے پیچھے بیٹھا اور گھوڑے کی لگام تھامی۔


مرحا بالکل ریان کے سینے سے لگی دونوں پیر ایک طرف لڑکائے بیٹھی تھی۔


ریان کو اس نے مضبوطی سے تھاما ہوا تھا۔


ریان نے گھوڑے کی اسپیڈ تیز کی تو ہوا کے جھونکوں سے مرحا کے کھلے بال اس کے چہرے سے ٹکرانے لگے۔


بالوں سے اٹھتی خوشبوریان کے دل کی دھڑکن بڑھا گئی تھی۔


ریان آپ کو گھڑ سواری آتی ہے۔


مرحا نے ریان کو دیکھ کر سوال کیا۔


مرحا کا چہرہ ریان کے چہرے کے قریب تھا۔


مجھے صرف گھوڑ سواری ہی نہیں اور بھی بہت کچھ آتا ہے کسی دن فرست سے بیٹھو میرے پاس آرام سے بتاؤں گا۔


ریان نے مدھم آواز میں کہا تو مرحا کے چہرے پر شرم و حیا کے کئی رنگ کھلے تھے جسے دیکھ کر ریان کا دل بے قرار ہو رہا تھا۔


بال روم کا آدھے سے زیادہ راستہ مر حاکار میں ہی آئی تھی۔ بال روم سے صرف پانچ منٹ کی دوری پر ریان نے مرحا کو گھوڑے پہ بیٹھایا تھا۔


وہ بس مرحا کو پرنس فیلینگز دینا چاہتا تھا۔


راستے میں کئی لوگوں نے اس شہزادہ شہزادی کی جوڑی کو ستائشی نظروں سے دیکھا تھا۔


بال روم کے پاس پہنچ کر ریان نے مرحا کو آرام سے گھوڑے سے اتارا اور گھوڑا پاس کھڑے آدمی کے حوالے کر دیا۔


ریان مرحا کا ہاتھ تھامے بال روم کے اندر لایا تو وہاں اندھیر اچھا یا ہو اتھا۔ صرف پھولوں کی خوشبو تھی جسے مرجانے آنکھیں بند کر کے محسوس کیا تھا۔


‏ ریان نے نامحسوس انداز میں مر حا کا ہاتھ چھوڑا اور اس کے پاس سے دور ہوا۔


ریان۔۔ ریان۔۔


مرحا نے ریان کو قریب نا پا کر پکارا تو ایک اسپاٹ لائٹ مرحا کے اوپر دائرے کے صورت پڑی تھی۔ مرحا نروس ہوئی۔


لیکن اگلے ہی کچھ سیکنڈز میں ایک اور اسپاٹ لائٹ مرحا کے سامنے فاصلے پر کھڑے ریان پر پڑی تھی۔


ریان کے شرٹ کے ساتھ ایک چھوٹا سا مائیک ایچ تھا اور ہاتھ میں گٹار تھاما ہو ا تھا۔


ریان نے آہستہ آہستہ گٹار بجانا شروع کیا تو مر حا کے چہرے پہ خوبصورت سی مسکراہٹ بکھری تھی۔


ریان نے گانا شروع کیا تو مر حا کے چہرے کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔


زر اسی دل میں دے جگہ تو


زرا سا اپنالے بنا


زرا سا خوابوں میں سجا تو


زرا سا یادوں میں بسا


میں چاہوں تجھ کو میری جاں بے پناہ فدا ہوں تجھ پہ میری جاں بے پناہ "


ریان پورے ایکپریشن کے ساتھ گناتا ہوار حاکو دیکھ رہا تھا۔ انگلیاں گٹار پر تھی میوزک شایان اور شاہ میر گنگنار ہے تھے۔


میں تیرے میں تیرے قدموں میں رکھ دوں یہ جہاں


میرا عشق دیوانگی ہے نہیں ہے نہیں عاشق کوئی مجھ سا تیر اتو میرے لیے بندگی


میں چاہوں تجھ کو میری جاں بے پناہ


فدا ہوں تجھ پہ میری جاں بے پناہ "


ریان کی لائنز کے بعد میوزک پھر شایان شاہ میر نے گنگنایا۔


کہہ بھی دے کہہ بھی دے دل میں تیرے ہے جو چھپا


خواہش ہے جو تیری،


رکھ نہیں رکھ نہیں پر دہ کوئی مجھ سے اے جاں


کرلے تو میر ایقیں


میں چاہوں تجھ کو میری جاں بے پناہ


فداہوں تجھ پہ میری جاں بے پناہ"


ریان کی اس قدر محبت دیکھ کر مرحا کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تو ریان گاتے ہوئے مرحا کے قریب آیا


اور اسے گردن ہلا کر رونے سے منع کیا۔


شایان شاہ میر کے میوزک گنگنانے پر ریان نے مرحا کا ہاتھ پکڑ کر اسے گول گول گھومایا تو اوپر سے گلاب پتیاں ان دونوں کے اوپر گرنے لگیں۔


یہ منظر اتنا حسین تھا کہ وہاں موجود سب لوگ اس میں کھو گئے تھے۔


یہ صرف گانے کے بول نہیں تھے یہ وہ سارے جذبات تھے جو ریان اپنے دل میں مرحا کے لیے رکھتا تھا۔


گانا ختم ہو اتو لائیٹس اون ہوئیں اور سب نے شور مچا کر تالیاں بجائیں۔


وہاں پر سب لوگ موجو د تھے۔


مرحانے مسکرا کر ریان کو دیکھا تھا۔


ریان آنکھوں میں چاہت کا سمندر لیے مرحا کو دیکھ رہا تھا۔


پھر اچانک خامشی چھا گئی۔


ریان مرحا کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھا۔


مر حا سانس روکے ریان کو دیکھ رہی تھی۔


مرحا یہ صرف ایک گانا نہیں تھا یہ میرے دل کے جذبات تھے جو میرے دل میں اس دن سے ہیں


جس دن تم نے پہلی بار میر انام پکارا تھا۔


مجھے اپنا نام کبھی اتنا خوبصورت نہیں لگا جتنا تمھارے منہ سے سننے کے بعد لگا۔


جن حالات میں تم مجھے ملی تھیں میں نے سوچاتھا میں تمھاری ذمہ داری لوں گا تمھاری حفاظت کروں گا


تمھارے لیے خود ایک اچھا لائف پارٹنر ڈھونڈوں گا مگر پھر کب آہستہ آہستہ میرے جذبات بدلنے لگے مجھے خود پتا نہیں لگا۔


تمھارا چہرہ کب میری آنکھوں میں بس گیا مجھے پتا ہی نہیں لگا۔


میں ہمیشہ لڑکیوں سے دور بھاگتا رہا مگر تم نے آکر مجھے بدل دیا تمھاری معصومیت تمھاری سادگی کب مجھے اپنا دیوانہ کر گئی مجھے پتا نہیں لگا۔


میرے تمھارے لیے جذبات پیار عشق محبت کی حدود کو پار کر چکے ہیں۔


تم میرے دل میں دھڑکن کی طرح ہو مر حاجو اگر میرے پاس نا ہو تو میرا دل بند ہو جائے۔


تمھاری خوشی تمھاری خواہش میرے لیے میری زندگی سے بھی زیادہ ضروری ہو گئی ہے۔


تمھارے بنا میں اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔


تمھارا ساتھ میرے لیے میر اسب کچھ ہے۔


تمھیں کوئی تکلیف بھی ہوتی ہے تو میر ادل بند ہونے لگتا ہے تمھارے آنسو میرے دل پہ خنجر برساتے ہیں۔


تم میرے لیے میری آتی جاتی سانسوں کی طرح ضروری ہو۔


جس کے بناریان مر جائے گا۔


میں ریان حیدر آج سب کے سامنے دل کھول کے اعتراف کرتا ہوں مرحا مجھے تم سے محبت ہے بے انتہا محبت ہے۔ تم ریان حیدر کی زندگی کا کل اثاثہ ہو مر حا۔


آئی لو د یو آئی ریکی لو دیو۔


میرا ہاتھ تھامو گی


تا عمر میری چاہتوں کی وارث بنو گی۔


مجھ سے شادی کرو گی مرحا۔


تمھارے بنا اب میری زندگی ادھوری ہے۔


میری زندگی میرا ایمان مکمل کرو گی۔


ریان کے الفاظ پورے بال روم میں گونج رہے تھے۔


ریان کے لہجے میں اس کے ایک ایک الفاظ میں سچائی تھی۔ مرحا کے لیے بے پناہ محبت تھی۔


ریان اپنی ہتھیلی مرحا کے آگے پھیلائے گھٹنے کے بل بیٹھا ساری زندگی کے لیے اس کا ساتھ مانگ رہا تھا۔


مرحا کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔


اسے ریان کی محبت پر یقین تھا مگر جس طرح اس نے آج سب کے سامنے اپنی محبت بیان کی تھی وہ مرحا کو بے انتہا خوشی دے گئی تھی۔‏


مرجانے تم آنکھوں سے ہاں میں گردن ہلا کر اپنا ہاتھ ریان کے ہاتھ پہ رکھا تو ریان نے اس کی انگلی میں انگھوٹی پہنائی۔


جیسے ہی ریان نے مرحا کو انگھوٹی پہنائی ایک بار پھر سب نے شور مچایا اور اوپر سے پھولوں کی برسات دوبارہ شروع ہوئی۔


ریان نے کھڑے ہو کر مرحا کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر بہت محبت سے چوما تھا۔


مرحا کی آنکھیں ابھی بھی نم تھیں مگر اس وقت اس کی آنکھوں میں خوشی تھی بے تحاشہ خوشی۔


سب نے آگے بڑھ کر مر حا کو گلے لگایا تھا۔


بڑوں نے ان دونوں کو بہت سارا پیار اور دعائیں دی تھیں۔


عمل حیران پریشان یہ سب دیکھ رہی تھی مرحا کا یہاں صحیح سلامت پہنچ جانا اس کا دماغ گھوما گیا تھا وہ تو مرحا کے گرنے کا پورا انتظام کر کے آئی تھی پھر مرحا یہاں کیسے پہنچی وہ یہ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی جب اسے اپنے پیچھے آواز سنائی دی۔


کیا ہوا عمل مرحا کو دیکھ کر حیران ہو رہی ہو کہ وہ تیل سے گری کیوں نہیں۔


شاہ میر کی آواز پہ عمل نے پلٹ کر دیکھا جو آنکھوں میں غصہ بھرے عمل کو گھور رہا تھا۔ تم یہ۔۔ لک کیا۔۔


بس بس زیادہ تھکاؤ مت اپنی زبان کو۔ تم کیا کرنے والی تھیں یہ میں نے اپنے کانوں سے سنا بھی تھا اور


اپنی آنکھوں سے تمھاری چال بازی دیکھ بھی لی تھی۔


عمل آئی ایم وارنگ یو۔


مرحا سے دور رہنا اسے کوئی تکلیف پہنچائی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔


خبر دار جو بھائی اور مرحا کو الگ کرنے کا خیال بھی اپنے دماغ میں لائیں میں بھائی کو جا کر سب کچھ بتا دوں گا۔


شاہ میر نے آنکھیں دیکھا کر کہا۔


عمل کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ آئی۔


شوق سے بتاؤ مگر ساتھ ساتھ اپنی محبت کی داستان بھی سنا دینا کہ تم مرحا سے کتنی محبت کرتے تھے۔


عمل کی بات پر شاہ میر کے ماتھے پر بل پڑے۔


اپنی بکواس بند کرو عمل ایسا اب کچھ بھی نہیں ہے سمجھیں تم نور نکاح میں ہے میرے اور میں اس کے


ساتھ مخلص ہوں مر حامیر اماضی تھی۔


شاہ میر نے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔


ہاں بالکل مگر کیا اس ماضی کے بارے میں ریان کو پتا ہے سوچو اگر ریان کو پتا لگ جائے کہ وہ اپنے ہی بھائی کی محبت چھین بیٹھا ہے تو کیا ہو گا۔  


عمل نے مسکراتے ہوئے کہا۔


خبر دار عمل اگر بھائی کو کوئی بھی فضول بات کہی تو میں جان نکال دوں گا تمھاری۔


شاہ میر کا دماغ گھوم کر رہ گیا اسے یہ سب کیسے پتا تھا شاہ میر سمجھ نہیں پارہا تھا یہ باتیں تو اس نے کسی کو بھی نہیں بتائی تھیں۔


تم اپنا منہ بند رکھنا میں اپنا منہ بند رکھوں گی سمپل۔ عمل نے شاہ میر کے سامنے شرط رکھی۔


میں کچھ بھی نہیں بول رہا بھائی کو مگر ایک بات میری اپنے دماغ میں بیٹھا لو عمل مرحا کو تمھاری وجہ سے کوئی نقصان پہنچا تو اچھا نہیں ہو گا اس سے دور رہو تم۔


شاہ میر غصے سے کہتا عمل کے سامنے سے چلا گیا۔ 


مرحا پورے بال روم کو حیرانگی سے دیکھ رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سچ میں کسی شاہی محل میں موجود ہو۔


ہر طرف بیک گراؤنڈ ایسا تھا جیسے شاہی محل کی دیواریں ہوں۔


سفید پھولوں سے بھی دیواریں۔ چھت سے لٹکتے بلو اور وائٹ بلونز سامنے اسٹیج کی طرف خوبصورت سا


پینا فلیکس جس پر پورا بیک گراؤنڈ سینڈریلا مووی کا بنا ہوا تھا۔


مرحاستائشی نظروں سے سب دیکھ رہی تھی۔ 

ریان یہ سب۔


مرحا کے منہ سے الفاظ بھی نہیں نکل سکے۔


یہ سب میری جان کے لیے۔


ریان نے مسکر ا کر اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔


ایک سر پر ائز اور ہے تمھارے لیے۔


ریان نے کہہ کر پیچھے کی طرف اشارہ کیا تو مر جانے پیچھے مڑ کر دیکھا۔


مرحا حیرانگی سے نم آنکھوں کے ساتھ اپنے ماموں مامی اور آرزو کو دیکھ رہی تھی۔


مر حامیری بچی میری گڑیا۔


اولیس صاحب نے پاس آکر مر حا کو گلے سے لگایا۔


ماموں جان آپ۔۔ آپ آگئے۔۔


ماموں جان۔ ماما جانی۔۔ بابا جانی۔۔ ماموں وہ دوسری جگہ


مر جانے نم آنکھوں سے ان کے سینے سے لگ کر ٹوٹے الفاظوں میں کہا۔


ریان با غور مر حاکا دیکھ رہا تھا اس کی آنکھیں نم تھیں آنکھوں میں درد بھی تھا لیکن آج وہ تڑپی نہیں


تھی آج اس کے پاس ریان کی بخشی ہوئی محبت تھی مان تھا۔


بے شک ماں باپ کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا لیکن ریان کی محبت نے اسے اس تنہائی اور اکیلے پن کی ازیت سے نکال دیا تھا۔


ریان نے مرحا کو دیکھ کر ایک لمبی سانس لی اور مسکر اگر ان کی طرف آیا۔


بس میرا بچہ اب چپ ہو جاؤ۔ مجھے معاف کر دو بیٹا اس غم و تکلیف میں، میں تمھارے ساتھ نہیں تھا۔


میں اپنی بہن بہنوئی کو کندھا بھی نہیں دے سکا۔


اویس صاحب نے تڑپ کر کہا تو مر جانے ان کے سینے سے سر اٹھا کر ان کے آنسو صاف کیے۔


آپ روئے نہیں ماموں جان اللہ کا یہی فیصلہ تھا۔ ماما بابا جہاں بھی ہونگے بہت اچھے ہونگے۔


مرحا نے نم آنکھوں سے مسکرا کر کہا۔


ماموں جان اب آپ ایسے روئے تو میں آپ سے ناراض ہو جاؤں گا۔ اور مر حاتمھاری آنکھوں سے بھی اب آنسو نہ نکلے۔


ریان نے اولیس صاحب سے کہہ کر مرحا کو بھی رونے سے منع کیا تو اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے۔


ریان بات سنو۔


ساحر نے ریان کو پکارا تو وہ ایکسکیوز کر تا ساحر کے پاس چلا گیا۔


مرحا کی نظر میں بار بار ریان کی طرف اٹھ رہی تھیں جو ساحر سے کسی بات پہ بحث میں مصروف تھا۔ 


کیا بات ہے عینی ڈارلنگ آج تو آپ بجلیاں گرار ہی ہیں۔


شایان نے عینی کے کان کے قریب سر گوشی کی۔


عینی جو موبائل پر کچھ چیک کر رہی تھی شایان کی آواز پہ پلٹی۔


عینی نے اس وقت پر پل کلر کی شارٹ کرتی کے ساتھ گولڈن کلر کا کیپری پہنا ہوا تھا اور گولڈن ہی دو پٹہ کندھے کے ایک طرف ڈالا ہو اتھا۔


میک اپ کے نام پہ صرف آنکھوں میں گہرا کا جل اور ریڈ لپ اسٹک لگائی ہوئی تھی جو شایان کو گھائل کرنے کے لیے کافی تھا۔


شایان کی بات پہ عینی نے مسکر ا کر شایان کو دیکھا۔


ڈیئر سوئٹ ہسبینڈ دور رہے گا مجھ سے کہیں اسی بجلی سے آپ جل نا جائیں۔


مینی ونگ کر کے کہتی سمینہ بیگم اور ایمان کے پاس جا کر کھڑی ہو گی۔


ہائے یہ قاتل ادائیں مجھے برباد کر دیں گی۔


شایان نے عینی کو ٹھنڈی آہ بھر کے دیکھتے ہوئے سوچا۔


شاہ میر نے نور کو پاس بلایا جو احتشام صاحب سے باتوں میں مصروف تھی۔


نور نے ڈارک گرین کلر کی لانگ فراک پہنی ہوئی تھی جس میں اس کی دو دھیار نگت کھلی کھلی نظر آرہی تھی۔


شاہ میر کی نظر میں بار بار نور کی طرف اٹھ رہی تھیں۔


نور کو احتشام صاحب سے ایکسکیوز کر کے جانا اچھا نہیں لگ رہا تھا اس لیے وہ شاہ میر کو آنکھوں کے


اشارے سے بار بار صبر کرنے کا کہہ رہی تھی جو شاہ میر کے لیے مشکل تھا۔


دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر شاہ میر خود احتشام صاحب کے پاس آگیا۔


بابا کیا میں اپنی بیگم کو کچھ دیر کے لیے لے جاؤں۔


شاہ میر نے اتنے مان سے پوچھا تھا کہ احتشام صاحب مسکرائے بنانا رہ سکے۔


بالکل لے جائیے بھٹی آپ کی ہی امانت ہے ہم تو بس اپنی بہو سے تھوڑی باتیں کر رہے تھے۔


جاؤ بیٹا نور شاہ میر کے ساتھ۔


احتشام صاحب نے اجازت دی تو شاہ میر نے خود نور کا ہاتھ تھاما اور اسے ایک طرف لے آیا۔


کیا یار بیوی شوہر کا احساس ہے نہیں ہے کب سے بلا رہا تھان امیں۔


شاہ میر نے مصنوعی ناراضگی سے کہا۔


وہ انکل بات کر رہے تھے میں کیسے آتی شاہ میر ۔


نور نے مدھم آواز میں کہا۔


نور شاہ آپ اس بندہ ناچیز پر بھی توڑا کرم کرسکتی ہیں۔


شاہ میر نے ونک کر کے کہا تو نور کی نظرمیں شرم سے جھک گئی۔


شاہ میر کا اس طرح نور شاہ کہنا نور کو بہت اچھا لگا تھا۔


شاہ میر نے اس کی شرم و حیا کو محسوس کر کے اسے زیادہ تنگ نہیں کیا اور اس کے ساتھ تصویریں بنانے لگا۔


شہیر کی نظر بار بار آرزو پر پڑ رہی تھی جس سے وہ کنفیوز ہو رہی تھی۔


آرزو کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو اتو وہ اس کے سر پے جا پہنچی۔


کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ کیوں مجھے ایسے گھورے جارہے ہیں۔


آرزو نے ناک سکوڑ کر کہا۔


شہیر کو یہ چھوٹی سی لڑکی غصے میں اور بھی کیوٹ لگی۔


خیر گھور تو نہیں رہا میں بس نظر بھر کے دیکھ رہا تھا۔


شہیر نے صاف گوئی سے جواب دیا تو آرزو کو اور غصہ آگیا۔


کیوں دیکھ رہے ہیں اس طرح آپ مجھے ایسے کوئی کسی لڑکی کو دیکھتا آپ کو شرم نہیں آتی۔


آرزو نے غصے سے کہا تو شہیر مسکرایا۔


اگر کوئی اچھا لگ جائے تو اسے دیکھا تو جاسکتا ہے بھئی اور دیسے بھی میری آنکھیں میری مرضی میں تو دیکھوں گا۔


شہیر نے آرزو کو اور تنگ کیا۔ آرزو کا اس طرح لڑنا شہیر کو مزہ دے رہا تھا۔


شہیر کی بات پہ وہ غصے منہ پھولاتی ایک طرف جا کر بیٹھ گئی۔


مر حاتم کسی بھی وقت کسی بھی لمحے میری ہونے کے لیے ریڈی ہو۔


ریان نے اچانک سے آکر مر حا کا ہاتھ تھام کر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر سوال کیا۔


ریان کے اس سوال سے مرحا الجھی تھی۔


کیا مطلب آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں میں سمجھی نہیں۔


مرجانے نا سمجھی سے کہا تو ریان اس کا ہاتھ تھام کر ذو الفقار صاحب کے پاس لایا اور سب ہی لوگوں کو قریب بلا لیا۔


ساحر مسکرا کر اس کی حرکتیں دیکھ رہا تھا۔ اس وقت ساحر کو ریان سچ سچ کو کوئی دیوانہ ہی لگ رہا تھا۔


دادا جان مجھے ابھی کے ابھی نکاح کرنا ہے۔


ریان کی بات پر سب کے منہ سے ایک ساتھ کیا ا نکلا تھا۔


سب حیرانگی سے اسے دیکھ رہے تھے خاص طور پر مرحا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کو اچانک ہوا کیا ہے۔


ریان کی آنکھوں میں ضد تھی جو ذو الفقار صاحب کو صاف دیکھائی دے رہی تھی۔


نکاح والی بات پر سب لوگ ہی شاکڈ کی کیفیت میں تھے۔


کیا ہوا آپ سب مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں۔


ریان نے سب کو حیرانگی سے دیکھتے ہوئے کہا۔


ریان بیٹا کیا ہو گیا ہے تمھیں یہ اچانک سے تم نے نکاح کرنے کا ارادہ کیسے کر لیا۔