Tera ishq merham saa hai - Episode 25

تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 25

از۔"طوبیٰ صدیقی"

 

°°°°°°


❤️❤️❤️


کیا مطلب۔ ایمان بیچ میں ساحر کی بات نہیں سمجھی تھی۔


کبھی پاس آؤ فرست سے سمجھاؤں گا اپنی بات کا مطلب۔


ساحر نے گمبھیر لہجے میں کہا تو ایمان نروس ہوئی۔


نہیں نہیں۔۔ میں نہیں آؤں گی مجھے ڈر لگتا ہے آپ سے۔


ایمان نے فوراً کہا۔


کیوں ڈر کیوں لگتا ہے اتنا خوفناک تو نہیں ہوں میں۔


ساحر نے مسکراتے ہوئے کہا۔


آپ کی باتیں اور آپ کی حرکتیں خوفناک ہیں۔


ایمان نے معصومیت سے کہا تو ساحر قہقہہ لگا کر ہنسا۔


میری حسینہ ابھی تو میں نے ایسی کوئی حرکت بھی نہیں کی جس کی بنا پر آپ مجھے یہ لقب دے رہی ہیں۔


ساحر کی بات پہ ایمان کا چہرہ بلش کرنے لگا جیسے ساحر اس قت اس کے سامنے موجود ہو۔


ایمان کی خاموشی دیکھ کر ساحر نے اسے پکارا۔


ایمان


آواز میں بے قراری تھی۔۔


‏جی۔


ایمان نے مدھم آواز میں کہا۔


آئی میں ہو۔


ساحر نے مدھم آواز میں کہا۔


ایمان کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔


چہرے پہ خوبصورت مسکان کھلی تھی۔


حسینہ جواب بھی دینا ہوتا ہے۔


ساحر کی آواز پر ایمان نے مسکراہٹ دبائی۔


کس بات کا جواب۔


ایمان نے انجان بن کر پوچھا۔


اچھا جی کس بات کا جواب۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے کر لو مجھے پریشان بہت جلد میرے ہی دسترس میں ہوگی۔


پھر دیکھتا ہوں کیسے بچو گی مجھ سے۔


ساحر نے ایمان کو چھیڑا۔


ایمان کا چہرہ لہو چھا گانے 


اگر آپ نے بس یہی سب باتیں کرتی ہیں تو میں کال کٹ کر رہی ہوں مجھے نیند آرہی ہے۔


ایمان نے معصوم سی دھمکی دی۔


اچھا نہیں کر رہا تنگ کال نہیں کاٹنا۔ ابھی بہت ساری باتیں کرنی ہیں مجھے تم سے۔


ساحر نے جلدی سے کہا تو ایمان مسکرائی۔


ایمان ایک بات پوچھوں۔


جی پوچھیں۔


ساحر کی بات پر ایمان نے کہا۔


تم خوش ہونا ہمارے رشتے سے۔


ساحر کے سوال پر ایمان نے اپنی مسکراہٹ روکی۔


چھوڑیں اس سوال کا اب کیا فائد ہ پہلے پوچھنا تھا نا یہ تو۔


ایمان نے افسردگی سے کہا تو سا جرسید ا ہوا


ایمان کیا کوئی بات ہے تم خوش نہیں ہو کیا میرے ساتھ ہے۔


ساحر کی پریشانی والی آواز پر ایمان کھلکھلا کر نہیں۔


آپ کو میری کس بات سے لگا میں ناخوش ہوں۔


ایمان نے مسکرا کر پوچھا۔


لگا تو کسی بات سے نہیں پھر بھی پوچھ رہا تھا ایسے ہی اور زیادہ ہنسی نہیں آرہی میڈم آپ کو آکر روکوں ہی۔


ساحر نے شوخ لہجے میں کہا۔


آپ کیسے روکیں گے میری ہنسی میں تو ہنسوں گی۔


ایمان نے کھکھلا کر جواب دیا۔


اپنے ہونٹوں سے روکوں گا تمھاری ہنسی۔


گمبھیر لہجے میں ساحر کی آواز سنائی دی ایمان کا دل بے ترتیب ہوا۔


ساحر کی اگلی بات سننے سے پہلے ہی ایمان نے کال کاٹ دی۔


چہرے پہ شرم و حیا کے کئی رنگ کھلے تھے۔


اس نے مسکرا کر تکیہ اپنے منہ پر رکھا۔


ساحر ایک ہی پل میں اس کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کر گیا تھا۔


دوسری طرف ایمان کا شرما کر کال کاٹ دینا ساحر کی مسکراہٹ گہری کر گیا تھا۔


ساحر کے ہاتھ میں ایمان کے چھپے ہوئے ہاتھوں والی شرٹ تھی جسے اس نے بے اختیار لبوں سے لگایا۔ ایمان میری جان تیار ہو جاؤ بس کچھ دن کی بات ہے اس کے بعد تم میری باہوں میں ہو گی پھر جتنا چاہو اتناشر مالینا۔


ساحر نے خیالوں میں ایمان کو سوچتے ہوئے کہا تھا۔


صبح کے دس بجے کا وقت تھا۔


نور اور سہیل صاحب آفس جاچکے تھے۔


عینی رات میں دیر سے سونے کی وجہ سے ابھی تک سورہی تھی۔


کوئی خاموشی سے اس کے کمرے میں داخل ہوا اور کمرہ اندر سے لاک کر دیا۔


آہستہ آہستہ چلتا ہوا عینی نے قریب آیا مگر اس سے پہلے وہ عینی کو چھوتا عینی نے فورا اس کا ہاتھ گھوما کر زور سے لات ماری۔


آ آ آااا ۔۔۔ پاگل لڑکی اپنے شوہر کو ایسے مارتا ہے کوئی۔


شایان کی درد بھری آواز مینی کے کانوں سے ٹکرائی۔


عینی جو اپنے تکیہ کے نیچے سے ریوالور نکال رہی تھی ایک دم رک کر حیرانگی سے شایان کو دیکھنے لگی۔


تم یہاں کیا کر رہے ہو اور تم کیسے آئے اندر۔


عینی نے حیرانگی سے پوچھا۔


ارے جیسے بھی آیا تم سے ملنے آیا تھا مگر تم نے تو میری ہی کمرے توڑ دی۔


شایان نے عینی کو گھور کر کہا۔


تو تمھاری حرکتیں ہی ایسی ہی ایسے کوئی چپ چاپ چوروں کی طرح کسی کے کمرے میں آتا ہے پاگل آدمی۔


تم جانتے بھی ہو میرا اصل کیا ہے۔ ہمیں نیند میں بھی محتاط رہنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی کسی بھی وقت ہم پر


اٹیک کر سکتا ہے۔ سوتے ہوئے بھی ہمارے حواس کھلے ہوتے ہیں۔


تم ایسے آؤ گے تو میں کیا پھولوں کا ہار لے کر تمھارا و یکم کروں گی۔


عینی نے غصے سے شایان کو دیکھ کر کہا۔


یہ حقیقت تھی اسکا تعلق جس ادارے سے تھا اس پہ کوئی بھی کسی بھی وقت حملہ کر سکتا تھا۔ اس کی شناخت زیادہ لوگوں کو نہیں تھی مگر پھر بھی اس کے دشمن کم نہیں تھے۔ ایسے میں وہ سامنے والے کو شوٹ بھی کر سکتی ہے۔


کیونکہ یہ سیکنڈ ز کا کام ہوتا ہے پہلے جس کا وار اس کی جیت۔ 


عینی کو شایان یہ بہت غصہ آرہا تھا۔


اس کی اپنی حرکت کی وجہ سے عینی نے اتنی زور سے اسے لات ماری اور اگر وہ اس کی آواز نہیں سنتی تو اسے شوٹ بھی کر سکتی تھی۔


شایان کو واقعی اس بات کا دھیان نہیں رہا تھا کہ عینی ایک ایجنٹ ہے اس کے پاس ایسے چوری چوری دبے پاؤں جانا اس کی جان مشکل میں ڈال سکتا ہے۔


اچھا سوری یار مجھے اندازہ نہیں تھا ایسا کچھ ہو جائے گا۔ میں تو بس تم سے ملنے آیا تھا تمھیں دیکھنے کا دل


کر رہا تھا تم کال بھی تو نہیں اٹھار ہی تھیں میرا۔


شایان نے عینی کو دیکھ کر کہا تو وہ تھوڑی ٹھنڈی پڑی۔


میں بہت بزی تھی شایان اس لیے کل میں کال نہیں اٹھا سکی تھی۔


عینی نے کہا تو اس نے فوراً سمجھ کر گردن ہاں میں ہلائی۔


زیادہ زور سے لگ گئی کیا۔


عینی نے شرمندگی سے پوچھا تو شایان کو اس کا انداز پسند آیا۔


اسے فکر ہو رہی تھی شایان کی تو وہ بھلا کیسے موقع ہاتھ سے جانے دیتا۔


تو اور کیا اتنی زور سے ماری ہے تم نے لڑکی تم تو لڑکوں سے بھی چار ہاتھ آگے ہو۔ اتنا درد ہو رہا ہے مجھے۔


شایان نے عینی کو پریشان کرنے کے لیے کہا تو وہ افسوس سے شایان کا چہرہ دیکھنے لگی۔


حد ہے ایک لات پہ تمھاری تو لگ رہا ہے کمر ہی ٹوٹ گئی ہے۔ کہاں تمھاری بیوی اتنی بہادر ہے اور


کہاں تم ایک لات کو لے کر بچوں کی طرح شکایت کر رہے ہو۔


عینی نے تنزیہ ہفتے ہوئے کہا تو شایان نے مسکرا کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس کھینچا۔


عینی اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی سیدھی شایان کے چوڑے سینے سے جالگی۔


دونوں کی دھڑکنوں نے ایک ساتھ شور مچایا تھا۔


شایان کی قربت عینی کو بوکھلا دیتی تھی۔


ابھی بھی وہ شایان کی باہوں میں نروس ہوتی ہوئی خود کو شایان سے آزاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔


فائدہ نہیں ہے میری پکڑ اتنی بھی کمزور نہیں ہے عینی ڈارلنگ تم ہو گی ایجنٹ سب کے لیے لیکن اس وقت تمھارے سامنے تمھارا شوہر ہے۔


اور اپنے شوہر کے چنگل سے آزادی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔


شایان نے عینی کے کان کے قریب سر گوشی کرتے ہوئے کہا تو عینی کا دل بے ترتیب ہوا۔


شایان چھوڑو مجھے پلیز۔


 بینی نے مدھم آوازیں


ایک شرط پر چھوڑوں گا۔


شایان کی بات پہ عینی نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔


’’می۔


شایان کی شرط سن کر عینی کا دماغ گھوم گیا۔


تمھارا دماغ جگہ پہ ہے یا نہیں پاگل ہو گئے ہو یہ کس قسم کی چھچھوری شرطیں رکھ رہے ہو تم۔


عینی نے شایان کو گھور کر کہا۔


دارلنگ کیا کروں تمھیں دیکھ کر میرے اندر کی چھچھوری آتما ناچ ناچ کر باہر آتی ہے۔


شایان نے ونگ کر کے کہا تو عینی نے شایان کے کندھے پہ ایک مکہ جڑا جس کے بعد شایان نے عینی کے


دونوں ہاتھوں کو کمر کے پیچھے اپنے ہاتھوں سے پن کر دیا۔


ششش ششش شایان چھوڑو پلیز عینی کو شایان کی قربت بو کھلا رہی تھی۔


شایان کی گرم سانسیں اسے اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھیں۔


اچھا چھوڑو یہ کام تم سے نہیں ہو گا یہ میں خود کرلوں گا پہلے تم مجھے بولوں شایان یو آر دی بیسٹ تم بہت ہینڈ سم ہو بہت بہادر ہو آئی لو ویو۔


شایان کی بات سن کر عینی نے آنبر واچکا کر اسے دیکھا۔


اتنا جھوٹ میں نے کبھی نہیں بولا اب بھی نہیں بولوں گی ۔


عینی نے ناک سکوڑ کر کہا۔


او کے پھر بیٹھی رہو ایسے ہی میری باہوں میں مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔


شایان نے اپنا گھیر اتنگ کیا تو عینی کی سانسیں تھمنے لگیں۔ ڈیڈ۔


مینی کی آواز پر شایان نے فورا مینی کو چھوڑا تو وہ جلدی سے شایان سے دور ہو کر کھڑی ہوئی۔


شایان کی سٹپٹائی ہوئی شکل دیکھ کر عینی کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔


شایان نے اس کے مسکراتے چہرے کو بہت غور سے اپنی آنکھوں میں بسایا تھا۔ کیونکہ عینی دل کھول کر بہت کم ہنستی تھی۔


شایان کے لبوں پہ بھی بے اختیار مسکراہٹ آئی۔


کب تک بچوگی عینی ڈارلنگ آنا تو تمہیں ان ہی پناہوں میں ہے۔


شایان نے ونک کر کے کہا تو عینی کے چہرے پہ شرمیلی سی مسکراہٹ پھیلی تھی۔


اچھا سنورات کو ڈنر ساتھ کریں گے اوکے۔


شایان نے عینی کے قریب جاکے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔


ڈنر کے بعد ایک ریس ہو جائے۔


عینی نے شایان سے مسکرا کر کہا تو شایان نے عینی کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے۔


معاف کرو بی بی میر ادماغ تمھارے عشق میں اتنا بھی پاگل نہیں ہوا ہے کہ تم سے ریس لگاؤں۔


جس طرح تم بائیک چلاتی ہو نا وہ دیکھ چکاہوں میں۔ اس طرح کی کوئی امید نہیں رکھنا مجھ سے۔


شایان نے گھورتے ہوئے کہا تو عینی نے اپنی ہنسی روک کر او کے کیا۔


شایان جس طرح خاموشی سے آیا تھا اسی طرح خاموشی سے چلا گیا۔


شایان کے جانے کے بعد عینی نے مسکرا کر اپنے دل پہ ہاتھ رکھا تھا جو اب تک بہت اسپیڈ سے دھڑک رہا تھا۔


ریان نے مرحا سے رات وعدہ کیا تھا کہ چاہے کتنا بھی کام کیوں نا ہو وہ مر حاکو کسی بھی قیمت اگنور نہیں کرے گا مگر آج بھی ریان صبح سے غائب تھا اور اب دو پہر کا وقت ہو چکا تھا مگر ریان کا کوئی پتہ نہیں تھا۔


مر حاریان سے اس بار پکا ناراض ہونے کا سوچ ہی رہی تھی کہ مرحا کے موبائل پر ریان کا نام جگمگایا۔


مر جانے فورا کال اٹھائی۔


کیا بات ہے لگتا ہے میرا بے بی میری کال کا ویٹ کر رہا تھا۔


و ہی محبت سے بھر پور لہجہ ۔


ریان آپ کہاں ہیں صبح سے انکل نے بتایا آپ آفس بھی نہیں گئے ہیں آج۔ کہاں مصروف ہیں آپ


اتنا سارا مر جانے ناراضگی بھرے معصوم لہجے میں کہا۔


میری جان میں بہت زیادہ ضروری کام کر رہا ہوں تمہیں بتاؤں گا تفصیل سے جب مکمل ہو جائے گا۔ ریان نے مرحا کی تصویر میں دیکھتے ہوئے کہا۔


اچھا ٹھیک ہے آپ جلدی گھر آجائے گا۔


مرجانے کہا تو ریان مسکرایا۔


کیا بات ہے میری جان کو میری یاد آرہی ہے۔


نہیں نہیں وہ تو بس میں ایسے ہی بول رہی تھی۔


مر حاریان کی بات پر منمنائی تھی۔


تم بولو نا بولو مجھے سب پتا ہے تم اس وقت مجھے مس کر رہی ہو کیونکہ تم نے مجھے صبح سے نہیں دیکھا۔


ریان نے مسکرا کر کہا۔


ریان کی بات سچ تھی مرحا کا صبح سے منہ لڑکا ہوا تھا کیونکہ ریان صبح سے اس کو نہیں دیکھا تھا۔


ریان مرحا سے بات ختم کر کے نمٹا اور واپس اندر آیا۔


وہ اس وقت ایک شاپ پر موجود تھا جہاں اس نے مرحا کے لیے کسٹمائز ایک بہت بڑا کارڈ بنوایا تھا۔


کارڈ کی لمبائی اتنی بڑی تھی کہ وہ شاپ کی چھت کو چھونے کے قریب تھا اور چوڑائی میں بھی وہ لمبائی جتنا ہی تھا۔


کارڈ کے ٹاپ پہ بہت خوبصورتی سے ہیپی برتھ ڈے بے بی ڈول لکھا تھا۔


اور اس کے نیچے ہرٹ شیپ میں مرحا کی تصویر میں بہت خوبصورتی سے لگی ہوئی تھیں۔


تصویروں کے نیچے ایک کیوٹ سا برتھ ڈے وش لکھا تھا۔


اور اس کے ساتھ ہی ایک ہرٹ بنا تھا جس کے اندر ریان کی جان لکھا تھا۔


کارڈ دیکھنے میں اتنا خوبصورت تھا کہ شاپ میں آنے والا ہر شخص اس کی تعریف کر رہا تھا۔


ریان نے بہت احتیاط سے کارڈ شاپ سے لیا اور اسے اس کی منزل تک پہنچایا۔


مرحا کی برتھ ڈے کے لیے جو جو اس نے کرنا تھا سب کی تیاری ہو چکی تھی بس اب ساحر اور مرحا کے


ماموں کے آنے کا انتظار تھا۔


ساحر اگلے روز دیر سے اٹھا تھا۔


وہ نیچے اتر کر آیا تو گھر کے کئی ملازم لائن میں کھڑے تھے اور اس وقت اماں صاحب کا قہر ان پر برس رہا تھا۔


جواب دو مجھے کس کی لاپرواہی سے لگی اس جگہ آگ۔


اس طرف کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے پھر وہاں آگ کیسے لگی۔


اماں صاحب ملازموں پر چیخ رہی تھیں۔ غصہ سے ان کا براحال تھا۔


ساحر چلتا ہو اہال تک آیا جہاں سے ایک پولیس والا اندر داخل ہوا تھا۔


امان صاحب ساری تشویش کر والی ہے آگ شارٹ سرکٹ سے لگی تھی۔ لکڑی اور کپڑے اس طرف زیادہ تھے جس کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیل گئی۔


باقی ڈیڈ باڈی۔۔


انسپیکٹر اماں صاحب کو بتارہا تھا مگر ساحر کو دیکھ کر وہ فورا انسپکٹر کو ٹوک گئیں۔


ہاں ہاں ٹھیک ہے اب جاؤں مجھے اور کوئی تفتیش نہیں کروانی تم جا سکتے ہو۔


اماں صاحب نے انسپیکٹر کو گھورتے ہوئے کہا تو ان کا غصہ دیکھ کر وہ فوراً وہاں سے بوتل کے جن کی طرح غائب ہو گیا۔


ماں صاحب حویلی کے کونسے حصے میں آگ لگ گئی ہے اور یہ انسپیکٹر کس ڈیڈ باڈی کی بات کر رہا ہے۔ ساحر نے تفتیشی نظروں سے اماں صاحب کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔


دیکھو ساحر ہمارے معاملات سے دور رہا کرو آگ کہاں لگی کیسے لگی اس سے تمھارا کوئی لینا دینا نہیں ہے اور وہ کسی ڈیڈ باڈی کی بات نہیں کر رہا تھا اس کا مقصد تھا کہ وہاں کوئی بھی نہیں ملا تو تم اپنا دماغ کم چلاؤ اور ہمارے معاملات سے دور رہو۔


اماں صاحب نے غصے سے ساحر کو کہا تو وہ اپنے غصے کو کنٹرول کرتا یا سر کو آوازیں دینے لگا۔


یا سر ۔۔ یاسر گاڑی تیار کرو مجھے شہر جاتا ہے۔ یہاں میرے رکنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ یہاں میرے


اپنے ہو کر بھی کوئی میرا اپنا نہیں ہے۔


ساحر نے گرجدار آواز میں یا سر سے کہا تو وہ جی لالا کر کے ساحر کے جانے کی تیاری کرنے لگا۔


ساحر غصے سے اپنے کمرے میں آیا اور گہری سانس لی۔


حویلی کے آسیب زدہ حصے کو آگ لگ چکی تھی۔


اب اس کا یہاں کوئی کام نہیں تھا اب اسے یہاں سے جانا تھا مر حا کی سالگرہ ریان آج ہی سلیبرٹ کرنے والا تھا اسے ٹائم سے وہاں پہنچنا تھا۔


ساحر نے اپنا سامان جو وہ ساتھ لایا تھا سارا پیک کیا اور واپسی جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔


مر حا صبح اٹھی تو ایک عجیب سے گہما گہمی پورے گھر میں چھائی ہوئی تھی۔


وہ حیران پریشان سے نیچے آئی تو سب لوگ کسی نا کسی کام میں مصروف تھے۔


ارے میرا بچہ آگیا آجاؤ جلدی سے ناشتہ کر لو۔


سمینہ بیگم نے پیار سے اسے پکارا تو وہ مسکراتی ہوئی ان کے پاس بیٹھ گئی۔


سمینہ بیگم اسے اپنے ہاتھ سے ناشتہ کروانے لگیں۔


آنٹی آج سب کچھ زیادہ مصروف لگ رہے ہیں کیا ہو رہا ہے یہ سب۔


مرحا نے سمینہ بیگم سے سوال کیا۔


ہاں بیٹا ہمارے جاننے والوں میں آج شادی ہے تو سب اس کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔


سمینہ بیگم نے ریان کا پڑھایا ہو اسبق اس کے سامنے بول دیا جسے سن کر مر جانے مطمئن ہو کر ہاں میں گردن ہلائی۔


ناشتہ کر کے مرحا کو سمینہ بیگم نے دوادی اس میں ایک دوا نیند کی تھی جو ریان خود ڈاکٹر سے لکھوا کر لایا تھا۔


اس کو کھانے سے مر حاشام تک سکون سے سوتی رہتی۔


دوا کھاتے ہی دس منٹ کے بعد نیند کی گولی نے اپنا اثر دیکھایا اور مرحا کو نیند کے جھٹکے لگنے لگے۔


مر حابچہ شاید آپ کی نیند پوری نہیں ہوئی آپ ایک کام کرو جاؤ اور تھوڑا ریسٹ کر لو۔


اپنی کنڈیشن دیکھتے ہوئے مر جانے سمینہ بیگم کی بات پہ ہامی بھری اور اپنے روم میں آکر بیڈ پہ لیٹتے ہی وہ نیند کی وادیوں میں گم ہو گئی۔


مرحا کے سونے کے بعد ریان اس کے کمرے میں آیا اور مسکر ا کر مر حا کا چہرہ دیکھا۔


سوری میری جان یہ ضروری تھا تم جاگتی رہتیں تو تمھیں کچھ نہ کچھ پتہ لگ جاتا۔ اب تم شام میں ہی اٹھو گی۔


ریان نے مرحا کے کان کے قریب سرگوشی کی اور اس پر بلینکٹ ٹھیک کر کے روم کا دروازہ بند کر کے باہر آگیا۔


عمل اپنے کمرے میں غصے سے تلملاتی ہوئی ادھر سے اُدھر چکر کاٹ رہی تھی۔


ریان کا برتھ ڈے پلان اسے پتا لگ چکا تھا جس کی وجہ سے وہ بے حد غصے میں تھی۔


ریان کی مرحا کے لیے اتنی محبت دیکھ کر عمل کا حسد جلن سے برا حال تھا۔


بتاؤ تو زرا میری توریان سمجھ سے ہی باہر ہوتا جارہا ہے۔ کوئی سالگرہ پر اس طرح لاکھوں کے حساب سے پیسہ لٹاتا ہے بھلا۔


اس کی تیاری سنی تم نے مجھے تو یہ لڑکا پورا پاگل ہوتا دیکھ رہا ہے۔


سمرین بیگم نے غصے سے کہا تو عمل کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔


ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ ماماریان پاگل ہی ہو گیا ہے اتنا بڑابڑ


برتھ ڈے سر پر ائر پلان کیا ہے اس نے اس مرحا کے لیے۔


مگر کچھ ایسا ہو جائے کہ مرحا وہاں جارہی نہ سکے تو ۔


عمل نے اپنے شیطانی دماغ سے سوچتے ہوئے کہا تو سمرین بیگم اسے حیرت سے دیکھنے لگیں۔


ایسا کیسے ممن ہے کہ وہ لڑ کی جانہ سکے۔


سمرین بیگم نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔


کچھ بھی ہو سکتا ہے ماما کوئی بھی حادثہ ہونے میں ٹائم تھوڑی لگتا ہے۔


کرنٹ لگ سکتا ہے۔


سیڑھیوں سے گر سکتی ہے۔


گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو سکتا ہے۔


کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے۔


عمل نے مسکراتے ہوئے کہا تو سمرین بیگم اس کی بات کا مطلب سمجھ کر مسکرائی۔


بات تو تمھاری صحیح ہے حادثہ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔


سمرین بیگم اور عمل دونوں ہنس دیں۔


عمل نے سوچ لیا تھا وہ کیسے بھی کر کے مرحا کو برتھ ڈے وینیو تک پہنچنے ہی نہیں دے گی۔


ساحر گھر پہنچا تو دشمن جان اسے سامنے ہی گارڈن میں بیٹھی نظر آگئی۔


ایمان گارڈن کے چھاؤں والے ایریا میں بیٹھی مرحا کے لیے گفٹ پیک کر رہی تھی۔


اس نے مرحا کے لیے بہت پیارا سا کارڈ بھی بنوایا تھا۔


ایمان اپنے کام میں مصروف تھی جب ساتھ اس کے بالکل پیچھے آکر کھڑا ہو گیا۔


کیا ہو رہا ہے یہاں۔


ساحر نے ایمان کے کان کے قریب سرگوشی کی تو ایمان جو قینچی سے ٹیپ کے چھوٹے چھوٹے ہیں کاٹ رہی تھی ہر بڑاہٹ میں قینچی میں اپنی انگلی دے گئی جس سے خون کی ایک چھوٹی سی بوند اس کی انگلی پر ابھر آئی۔


ایمان کے منہ سے نکلا تو ساحر فورا اس کے سامنے آکر بیٹھا۔


ایمان کیا کر رہی ہو دھیان سے کرنا تھا لگالی نا چوٹ ایسے کرتا ہے کوئی کیا میں کوئی جن ہوں جو تم ایسے ڈر گئیں۔


ساحر ایمان کا ہاتھ پکڑے اس کی انگلی دیکھ رہا تھا۔


وہ آپ اچانک سے آگئے تو میں ڈر گئی۔


ایمان نے میمناتے ہوئے کہا۔ ساحر کو دیکھ کر اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا تھا۔


ساحر نے ایمان کی انگلی دیکھی جہاں خون کی چھوٹی سی بوند چمک رہی تھی۔


ساحر نے ایمان کی انگلی منہ میں رکھی تو ایمان کا دل زور سے دھڑکا۔


آپ یہ کیا۔۔ میں ٹھیک ہوں۔


لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر ایمان کے منہ سے نکلے۔


ساحر نے اس کی انگلی اپنے منہ سے نکالی اور وہاں پڑا ایک چھوٹا سا ٹیپ کا پیں اٹھا کر اس کی انگلی پہ لپیٹ دیا۔


ابھی اس سے کام چلا لو میری جان میں اندر سے بنڈ پیچ لاتا ہوں۔


ساحر اندر جانے لگا تو ایمان نے ات روکا 


ساحر میں ٹھیک ہوں بالکل مجھے نہیں لگی دیکھیں اب خون بھی نہیں نکل رہا۔


ایمان نے اپنی انگلی سامنے کی تو ساحر مسکرایا۔


ہاں میرا پیار دیکھ کر خون واپس اندر چلا گیا۔


ساحر نے ونگ کر کے کہا تو ایمان نے شرما کر نظریں جھکائی۔


ساحر ایمان کا شر مایا جو اروپ اپنی آنکھوں میں بسا رہا تھا تبھی ریان کی کال آنے لگی۔


ساحر ایمان کو ہاتھ کے اشارے سے بائے کرتا چلا گیا۔


ہاں ریان میں آگیا ہوں تمھارے پاس ہی آرہا ہوں بس فریش ہو کر۔


ساحر نے ریان کو یقین دلا کر کال کاٹی اور فریش ہونے چلا گیا۔


مرحا کے ماموں کی فلائٹ کچھ ہی دیر میں لینڈ کرنے والی تھی ان دونوں کو جلد سے جلد ائیر پورٹ پہنچنا تھا۔


ساحر اور ریان ائیر پورٹ پر کھڑے انتظار کر رہے تھے۔


آس پاس سے گزرتی کئی لڑکیوں نے انھیں با غور دیکھا تھا۔


ان دونوں کی ہی پرسنیلٹی ایسی تھی کہ لڑکیاں اپنا دل تھام لیں۔


ریان نے بلیک جینز کے ساتھ بلیک ہی ٹی شرٹ پہنی تھی اور اس کے اوپر وائٹ کلر کی شرٹ پہن رکھی


تھی جس کے بٹن آگے سے کھلے ہوئے تھے۔


آستینوں کو فولڈ کیے ہاتھ میں بلیک کلر کی واچ اور وائٹ شوز میں ریان بے حد ہینڈ سم نظر آرہا تھا۔


ساحر نے نیوی بلو ڈریس پینٹ پر وائٹ کلر کی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس کے اوپری دو بٹن کھلے ہوئے تھے۔


آستینوں کو فولڈ کیے ہوئے ہاتھ میں چین واچ اور فار مل شوز پہنے وہ جاذب نظر لگ رہا تھا۔


دونوں مغرور شہزادے آس پاس کی لڑکیوں کو ایسے اگنور کیسے ہوئے تھے جیسے لڑکی جیسے کوئی شے آس پاس موجود ہی نا ہو۔


اور کیوں نہ کرتے اگنور ان کے دلوں میں پہلے سے ہی دو پریوں جیسی لڑکیاں اپنی حکومت کے جھنڈے گاڑھے بیٹھی تھیں۔


اب ان کی پاس جب پہلے سے ہی پریاں موجود تھیں جن سے وہ بے انتہا عشق کرتے تھے بھلا انہیں چھوڑ کر ان دونوں مغرور شہزادوں کی نظر کسی کی طرف اٹھ بھی کیسے سکتی تھی۔


ریان نے اپنی تصویر مرحا کے ماموں کو سینڈ کر دی تھی تا کہ وہ ریان کو آسانی سے پہچان سکیں۔


اور اسی وجہ سے وہ جلد ہی ریان تک پہنچ گئے تھے۔


مرحا کے ماموں اولیس صاحب اپنی بیگم زکیہ کے ساتھ ریان کے پاس آکر رکے۔


ان کے ساتھ ایک چھوٹی سی پیاری سی ان کی بیٹی آرزو بھی تھی۔


لیمن کلر کے ٹاپ اور سیم کلر کے اسکرٹ پہنے بالوں کو کھلا چھوڑے وہ پیاری سی لڑکی بہت خوبصورت تھی۔


آرزو نے ابھی میٹرک کیس تھا اور اب جلد کالج میں ایڈمیشن لینے والی تھی۔


مرحا کے پاس کزنز میں شروع سے ہی صرف آرزور ہی تھی جس کی وجہ سے ان دونوں میں بہت گہری دوستی تھی۔


اولیں صاحب اور زکیہ بھی مرحا سے بہت محبت کرتے تھے۔


اسلام و علیکم کیسے ہیں آپ۔


ریان اور ساحر نے آگے بڑھ کر انہیں سلام کر کے گلے لگایا تھا۔


وہ بھی بہت خوش دلی سے ان دونوں سے ملے تھے۔


ہم بالکل ٹھیک ہیں ریان۔


انہوں نے ریان کو دیکھ کر جواب دیا پھر ساحر کو غور سے دیکھنے لگے۔


تم ساحر ہونا۔


اولیس صاحب نے پوچھاتو ساحر نے مسکرا کر گردن ہلائی۔


آپ نے مجھے کیسے پہچانا۔


ساحر نے سوال کیا تو انہوں نے مسکر اگر ساحر کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔


بیٹا جس نے اور لیس خان کو دیکھا ہو وہ تمھیں دیکھ کر کیسے نہیں پہچانتا۔


تم ہو بہ ہو اپنے دادا کا عکس ہو وہی بار عب چہرہ وہی قد و قامت اور وہی روشن آنکھیں۔


تم دوسرے اور میں خان ہو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا۔


اویس صاحب نے مسکرا کر کہا تو سب مسکرادیے۔


آپ جیجو ہیں نا میرے۔


آرزو نے ریان کو دیکھ کر پوچھا تو ریان کے چہرے پر زندگی سے بھر پور مسکراہٹ آئی۔


جی میں آپ کا جیجو ہوں آپ کی پیاری سی کزن کا ہونے والا ہسبینڈ۔


ریان نے مسکرا کر جواب دیا۔


وہ اولیس صاحب کو ایک ایک چیز ڈینیل میں بتا چکا تھا اور انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی تھی کہ ریان ان


کی مرحا سے اتنی محبت کرتا ہے۔


وادو دو آپ تو کسی فلم کے ہیر و لگتے ہو مر حا آپ کے ساتھ کتنی پیاری لگے گی۔


آرزو نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔


اس کی شرارتی باتوں پہ سب مسکرا رہے تھے۔


اچھا مطلب صرف یہ ہینڈسم ہیں


ساحر نے مصنوعی ناراضگی سے کہا تو وہ کھکھلائی۔


ہا بابا ساحر لالا آپ بہت بہت ہینڈ سم ہیں۔


آرزو نے مسکرا کر کہا تو ساحر کے ساتھ سب بننے لگے۔


آرزو مر حا کے بہت کلوز رہی تھی جس کی وجہ سے وہ ساحر کو جانتی تھی۔


مرحا ساحر کا اکثر ذکر کیا کرتی تھی کہ اس کے ایک لالا گاؤں میں رہتے ہیں جو بالکل ہیرو کی طرح دیکھتے ہیں۔


مرجانے ساحر کو خود کبھی نہیں دیکھا تھا مگر آصف صاحب ساحر کی باتیں ہی کچھ اس انداز میں کرتے تھے کہ مر جانے اپنے دماغ میں ساحر کی ایک ایمیج بنائی تھی۔


مگر جب وہ ساحر سے پہلی بار ملی تو وہ اس کی امیج سے زیادہ خوبرو نکلا تھا۔


ریان اور ساحر ان لوگوں کو لے کر گھر کی طرف روانہ ہوئے جہاں سب ان لوگوں کا بہت بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔


ریان اور ساحر اویس صاحب اور انکی فیملی کو گھر لائے تو ان کا بہت بہترین استقبال کیا گیا تھا۔


احتشام صاحب شعیب صاحب اور ذوالفقار صاحب بہت گرمجوشی سے اولیس صاحب سے ملے تھے۔


آخر وہ اس گھر کی ہونے والی سب سے بڑی بہو کی فیملی میں سے تھے۔


مجھے آپ سب سے مل کر بہت خوشی ہوئی سچ کہوں تو مر حا کو لے کر مجھے بہت ڈر تھا انجان لوگوں کے ساتھ وہ رہ رہی ہے ساحر کے ہونے سے میں کافی مطمئن ہو گیا تھا لیکن آج آپ سب سے مل کر میری ساری ٹینشن دور ہو گئی۔


اولیس صاحب نے خوش دلی سے کہا۔


مر حا ہمارے لیے ایمان کی طرح ہے آپ بے فکر ہو جائیں وہ اس گھر کا حصہ ہے۔


❤️❤️❤️





Post a Comment

0 Comments