تیرا عشق مرہم سا ہے


طوبیٰ صدیقی


Last Episode 45


❤️❤️❤️


ساحر گاڑی کھڑی کر کے اتر کر ایمان کی طرف آیا اور اسے اپنی باہوں میں اٹھایا۔


ساحر یہ سب۔۔


ایمان نے مدھم لہجے میں کہا۔


میری جان کو ضرور پسند آئے گا۔


ساحر نے اس کے ماتھے پہ لب رکھتے ہوئے کہا۔


وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا شپ کے اندر اترا اور ایمان کو نیچے اتارا۔


ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ایمان کو بہت اچھی لگ رہی تھی۔


ساحر نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے اندر کی طرف بنے ایک کمرے میں لایا۔


ساحر نے روم کا ڈور کھولا اور ایمان کو لے کر اندر داخل ہوا۔


روم پوری طرح سے موتیا کے پھولوں سے سجا ہو اتھا۔


موتیا کے پھولوں کی خوشبو کھینچتے ہوئے ایمان نے آنکھیں بند کی تھیں۔


کمرے میں صرف اور صرف موتیا کے پھول تھے۔


کے


ساحر کو معلوم تھا ایمان کو موتیا کے پھول بہت پسند ہیں اسے گلاب سے زیادہ موتیا کے پھول پسند تھے۔


اس لیے ساحر نے ساری ڈیکوریشن صرف موتیا کے پھولوں سے کروائی تھی۔


ایمان مسکرا کر پورا کمرہ دیکھ رہی تھی کہ ساحر نے اسے باہوں میں بھرا۔


پسند آیا میری جان کو۔


ساحر نے کان کے قریب ہونٹ لے جاکر پوچھا۔


بہت زیادہ یہ سب بہت خوبصورت ہے اور یہ خوشبو تو مجھے بہت پسند ہے۔


ایمان نے سچے دل سے تعریف کی۔


ساحر نے ایمان کو اپنی طرف گھومایا۔


کمرے سے نظر ہٹا کر ایک نظر مجھے بھی دیکھ لو میری جان۔


ایمان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرے مدہوش لہجے میں کہا۔


ایمان گھبرائی تھی۔ ساحر کے پاس سے آتی پر فیوم کی خوشبو ایمان کے دل کو بری طرح دھڑ کا رہی تھی۔


ساحر نے اس چہرے کے ایک ایک نقوش کو چوما۔


ایمان کی ہتھیلیاں پینے سے بھیگنے لگی تھی ۔ 


اس کے سر سے دوپٹہ اتار کر اس کی جیولری اتاری۔


ساحر کے ہاتھوں کا لمس اپنے چہرے اور گردن پر محسوس کر کے ایمان کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی۔


ساحر نے ایمان کو ایک پیکٹ پکڑایا تو وہ سوالیہ نظروں سے ساحر کو دیکھنے لگی۔


ویراٹ۔


ساحر نے کہا تو ایمان نے پیکٹ کو کھولا مگر پیکٹ کو کھول کر اس کی ہو اخشک ہوئی۔


ریڈ کلر کی سیلیو و لیس نائیٹی جو گھٹنوں سے بھی اوپر تھی۔


ساحر یہ کیا بیہودہ چیز لائے ہیں آپ یہ یہ میں نہیں پہن سکتی۔


ایمان نے پیکٹ دور کرتے ہوئے چہرہ گھوما کر کہا۔


ساحر ایمان کی حالت پر محظوظ ہو اتھا۔


جان من خود پہن لو ورنہ میں پہنانے پہ آیا تو تم اگلے کئی مہینوں تک مجھ سے نظریں نہیں ملا سکو گی۔


ساحر کی پیار بھری دھمکی سے ایمان گھبر آگئی تھی۔


ساحر کی بے باکی کی جھلک تو وہ پہلے بھی کئی بار دیکھ چکی تھی۔


ایمان نے مسکین سی شکل بنا کر ساحر کو دیکھا تو اس نے اپنی ہنسی روکی۔


اس کو پکڑو اور چھینچ کر کے باہر آؤ دس منٹ میں تم باہر نہیں آئیں تو میں اندر آجاؤں گا۔


ساحر نے پیکٹ اسے پکڑا کر اسے اندر کی جانب بھیجا۔


بے شرم۔


ایمان کہیتی ہوئی واشروم میں بند ہو گئی۔


اس کی جان کو ساحر نے اچھی خاصی مشکل میں ڈال دیا تھا۔


ایمان واشروم میں کھڑی اس نائیٹی کو گھور رہی تھی۔


اللہ جی کیا کروں یہ کیسے پہنوں یہ تو کسی پانچ سال کی بچی کی لگ رہی ہے۔


ایمان منہ کے زاویے بگاڑتی منمنائی۔


ایمان یو هیوو او تلی ٹین منٹس۔


ساحر کی آواز پہ ایمان سٹپٹائی۔


تو بہ ہے ان کو بھی سکون نہیں ہے۔


ایمان مرتی کیا نہیں کرتی اپنے دل کو سمجھا کر اس نائٹی کو پہن کر شیشے کے سامنے کھڑی ہوئی۔


وہ خود کو ایک نظر نہیں دیکھ پارہی تھی۔ ساحر کے سامنے کیسے جاتی۔


ایمان تم باہر آرہی ہو یا میں اندر آؤں۔


ساحر کی آواز پہ اس نے گہری سانس لی۔


ایمان ریلیکس وہ شوہر ہیں ان کی بات تو ماننی پڑے گی نا کچھ نہیں ہو تا چلو شاباش کچھ نہیں ہوتا۔


ایمان خود کو حوصلہ دے رہی تھی تب ہی ساحر کی آواز دوبارہ آئی۔


ایمان آبھی جاؤ یار۔


ساحر کی آواز پر ایمان نے دروازہ کھولا اور باہر ایک قدم رکھا آنکھوں کو کس کر بند کر رکھا تھا۔


ایمان کو دیکھ کر ساحر بے قرار سا اس کی طرف بڑھا تھا۔


ساحر نے اس کے قریب جا کر اس کے ماتھے پہ لب رکھے تو ایمان نے شرما کر اس کے سینے پہ اپنا منہ چھپایا۔


ساحر پلیز لائٹ آف کر دیں۔


ایمان منمناتے ہوئے بولی۔


سوری میری جان لائٹ آف کر دوں گا تو تمھارے چہرے پہ بکھرتے اپنی چاہت کے رنگ کیسے دیکھوں گا۔


ساحر نے کان میں سرگوشی کی۔


ایمان کو اپنی باہوں میں لیے بیڈ پہ آیا اور اس کے اوپر سایہ فگن ہوا۔


حسن تم پہ ختم ہے جان من ۔


اس کے چہرے کو چومتے ہوئے اس کی گردن میں اپنا چہرہ چھپا کر اس کی خوشبو کو محسوس کرنے لگا۔


رات دھیرے دھیرے گزرتی رہی اسی طرح ساحر کی محبت بھی ایمان پہ دھیرے دھیرے برستی رہی۔


ساحر نے ایمان کو مکمل طور پر اپنے رنگ میں رنگ دیا تھا۔


ایک دوسرے کی باہوں میں کھوئے وہ ایک ہو گئے تھے۔


ریان مرحا کو اپنی باہوں میں لیے کمرے میں آیا اور پاؤں سے دروازہ بند کیا۔


مرحا کو ٹھنڈ لگنے لگی تھی وہ ریان کی باہوں میں کانپ رہی تھی۔


بے بی ڈول میری محبت کا ناجائز فائدہ اٹھار ہی ہو رات کے وقت بارش میں بھیگنا کوئی اچھی بات ہے لگ گئی نا ٹھنڈ۔


ریان نے اسے بیڈ پہ لیٹاتے ہوئے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔


مگر فکر نہیں کرو تمھاری ساری ٹھنڈ میں خود میں سمیٹ لوں گا۔


ریان کہہ کر اس کپکپاتے ہونٹوں پر جھکا۔


اس کی سانسوں کو قطرہ قطرہ اپنے اندر انڈیلتے ہوئے وہ مدہوش ہونے لگا تھا۔


اس مدہوشی میں بھی ریان مرحا کا خیال رکھ رہا تھا۔ وہ مر حاکو زرا بھی ٹر پانا نہیں چاہتا تھا وہ نہیں چاہتا تھا


اس کی محبت مرحا کے لیے امتحان بنے۔


اس کی آنکھوں پہ اپنے لب رکھ کر کتنی ہی دیر اسے ماتھے سے اپنایا تھا ٹیکائے بیٹھا رہا۔


ریان کے ہاتھوں کا بے باک لمس اپنے اوپر محسوس کر کے مرحا خود میں ہی سمیٹ رہی تھی۔


در ریان


ریان کے ہاتھوں کی بے با کی بڑھتے دیکھ مر جانے اسے پکارا۔


آج تم مجھے نہیں روک سکتیں ریان کی جان آج میں ہمارے بیچ زرا سی بھی دوری برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوں۔


ریان کہہ کر اس کی گردن پہ جھکا تو مر جانے اس کی شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں جکڑا۔


ریان اپنی تشنگی مٹا تامر حاکو اپنے بناتا چلا گیا۔


مرحا کے روم روم پہ ریان کی محبت کی مہر ثبت تھی۔


ریان نہیں چاہتا تھا کسی بھی قسم کی سختی مگر وہ معصوم سی جان اس کی شدتوں پر ٹوٹ کی گئی تھی۔


ریان نے بہت محبت سے اپنی محبت کو اپنا بنا لیا تھا۔


آج ان کے درمیان کی ساری دوریاں ختم ہو گئیں تھیں وہ دو جسم ایک جان ہو گئے تھے۔


ریان نے مرحا پہ اپنی بے تحاشہ محبت برسا کر اس کے وجود کو انمول کر دیا تھا۔


اپنی شدتوں سے ٹوٹی مرحا کو ریان نے محبت سے اپنی باہوں میں سمیٹا تھا۔


ریان پوری طرح اسے اپنے رنگ میں رنگ گیا تھا ۔


آج صحیح معنوں میں مر حاریان کی ہو گئی تھی۔ ان کا رشتہ مکمل ہو گیا تھا۔


مرحا کو ساری رات ریان نے جگا کر رکھا تھا ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اس کی آنکھ لگی تھی مگر ریان کی نیندیں تو اڑ چکی تھیں۔


اس وقت وہ ریان کی ٹی شرٹ پہنے معصوم سی بچی لگ رہی تھی۔


ریان اسے دیکھ کر مسلسل مسکرارہا تھا۔


ریان پلیز مجھے گھورنا بند کر دیں۔ 


مرجانے بند آنکھوں سے منمناتے ہوئے کہا۔


ہا ہا ہا بے بی ڈول میں تمھیں گھور نہیں رہا محبت سے دیکھ رہا ہوں۔


اتنی کیوٹ جو ہو تم۔


ریان نے اس سے گال کھینچتے ہوئے کہا۔


ویسے یہ آنکھیں کیوں بند ہیں ایسا بھی کیا ہو گیا بھلا جو آنکھیں ہی بند کر رکھی ہیں۔


ریان نے مرحا کو چھیڑا۔


ریان آپ بہت زیادہ بے شرم ہیں۔


مرحا کی بات پر ریان نے دوبارہ قہقہہ لگایا۔



میری جان ابھی تو صحیح سے کوئی بے شرمی نہیں کی بہت تمیز کے دائرے میں رہ کر تمھیں پیار کیا ہے کہو تو بے شرمی کی جھلک دیکھاؤں۔


ریان نے کہہ کر اسے کمرے پکڑ کر دوبارہ اپنے قریب کھینچا۔


ریان پلیز مجھے سونے دیں آپ کو ترس نہیں آرہا مجھ پہ۔


مرحا منمنائی۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


بے بی تم ترس کھانے والی چیز ہو۔ ترس تو تمھیں اپنے معصوم شوہر پہ آنا چاہیے جو اتنے مہینے تم سے دور رہا شرافت دیکھائی۔


ریان نے بھر پور جواب دیا۔


مرجانے آنکھیں کھول کر ریان کو گھورا۔


وہ بھی اس لیے کہ ڈاکٹر نے منع کیا تھا ور نہ آپ اتنے شریف واقع نہیں ہوئے ہیں آپ کی بے شرمی کی


جھلکیاں ہمارے نکاح کی رات دیکھ چکی ہوں میں۔


مر جانے بیٹھ کر دونوں ہاتھ کمر پہ رکھتے ہوئے کہا۔


اس وقت وہ کس حال میں تھی لمحے بھر کو بھول گئی تھی مگر ریان کی مسکراتی نظریں اسے اس کے سینے


‏ پہ چہرہ چھپانے مجبور کرگئی



ریان کی جان آئی لو د یو سوچ۔


ریان نے محبت سے کہا۔


آئی لو ۔۔۔


اس سے پہلے مر حا کچھ کہتی ریان نے اس کے لبوں پہ ہاتھ رکھ کر سیر لیس انداز میں اسے دیکھا۔ میں جانتا ہوں تم پیار کرتی ہو پلیز مرحا مجھے نہیں سننا اظہار ۔


ریان کی آنکھوں کا ڈر مرحا اچھے سے سمجھتی تھی۔


ریان وہ وقت گزر گیا بھول جائیں سب اب تو میں آپ کے پاس ہوں نا بالکل ٹھیک۔


مر جانے ریان کے چہرے پہ اپنے ہاتھ رکھ کر کہا۔


میں نہیں بھول سکتا مر حامیں نے اپنی آنکھوں کے سامنے تمھیں خود سے دور جاتے دیکھا ہے میں نہیں بھول سکتا پلیز مجھے نہیں چاہیے تمھارا اظہار تمھارے بن بولے بھی میں تمھارے جذ باتوں کو


‏ سمجھتا ہوں۔


میں تمھیں نہیں کھو سکتا مر حاتم میرے جینے کی وجہ ہو۔


ریان نے اسے کس کر باہوں میں بھر اتھا۔


مرحا کافی دیر اس کے سینے سے لگی رہی۔


ریان نے اسے خود سے الگ نہیں کیا تھا۔ شاید وہ اپنے دل میں آئے ڈر کو دور کرنا چاہتا تھا۔


مرحا کی دھڑکنوں کو اپنی دھڑکنوں کے ساتھ محسوس کرنا چاہتا تھا۔


میری امامت میں نماز پڑھو گی۔


کافی دیر بعد ریان نے اس کا چہرہ اپنے سینے سے ہٹا کر پوچھا۔


مرحانے مسکرا کر ہاں میں گردن ہلائی۔


ریان مسکرایا۔


دونوں نے فریش ہو کر ایک ساتھ نماز ادا کی۔


مر حاریان سے تھوڑا پیچھے کھڑی اس کی امامت میں نماز ادا کر رہی تھی۔


اس سے زیادہ پر سکون کر دینے والا عمل بھلا اور کونسا ہو سکتا ہے۔


میاں بیوی کا رشتہ ہی اللہ پاک نے اتنا خو بصورت بنایا ہے۔


ریان اور مر جانے ایک ساتھ فجر کی نماز ادا کر کے شکرانے کے نوافل ادا کیے تھے۔


آج ان کارشتہ مکمل ہو گیا تھا آج وہ دونوں ایک دوسرے کا ساتھ پا کر مکمل ہو گئے تھے۔


وہ انہیں ملانے والے کے آگے جھک کر اس کا شکر ادا کر رہے تھے۔


ریان نے نماز پڑھ کر مر حا کے ساتھ سورۃ الرحمٰن کی تلاوت کی۔


ہاں وہ مر حا کو دیکھ کر پورے ایمان کے ساتھ کہہ رہا تھا


تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے "


مرحا اس کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔ اس پا کر ریان نے دنیا جہاں کی خوشیاں پالی تھیں۔


ریان مر حا صبح ناشتے کے لیے نیچے آئے تو مر حا کا نکھر اروپ اور اس کے چہرے پہ چھائی شرم وحیا کے رنگ سمینہ بیگم کو مسکرانے پر مجبور کرگئے تھے۔


با باریان کسی بھی ولیمہ کرنا ہے میرے خیال سے ساحر اور ایمان کے ولیمہ کے بعد ان کا بھی ولیمہ کر


‏ دیتے ہیں۔


سمینہ بیگم کی بات سب کو صحیح لگی تھی۔


ریان بھی مسکرایا تھا۔


ہم نے بھی یہی سوچاہے ہم کل ایمان کے ولیمہ کے بعد مرحا اور ریان کو پرسوں ولیمہ طے کر رہے ہیں


احتشام شعیب بیٹا تم لوگ انو اسٹیشن دے دینا سب کو۔


ذالفقار صاحب نے کہا تو انہوں نے مسکرا کر ہامی بھری۔


نور کی طرف سے ملی خوشی نے ویسے ہی گھر میں خوشیاں بکھیر دی تھیں۔


اب وہ ریان کا بھی ولیمہ کر کے اس آخری ذمہ داری کو بھی ادا کر دینا چاہتے تھے۔


ساحر اور ایمان کے ولیمے کے بعد ریان کو ولیمہ بھی دھوم دھام سے ہوا تھا۔


ایمان کو ساحر کے ساتھ خوش اور مطمئن دیکھ کر گھر کے سب ہی لوگ بھی مطمئن اور خوش تھے۔


ذالفقار صاحب کے تینوں پوتے اور لاڈلہ پوتی اپنی اپنی زندگیوں میں اپنے ہمسفر کے ساتھ نئی زندگی شروع کر چکے تھے اس لیے ذالفقار صاحب بہت زیادہ خوش تھے۔


خوشیاں لوٹ آئی تھیں غم کے سائے چھٹ گئے تھے۔


پانچ سال بعد 


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


نمیر بیٹا ادھر آؤ جلدی سے یہ کھانا پورا فینش کرو۔


نمیر شاہ میر اور نور کا چار سالہ بیٹا تھا۔


چار سال پہلے نور نے ایک صحت مند اور خوبصورت سے بچے کو جنم دیا تھا جو اس گھر کا پہلا بچہ ہونے کی وجہ سے سب کا لاڈلہ تھا۔


لکس اور اسٹائل کی بات کی جائے تو وہ ریان کی طرح دیکھتا تھا۔


اس کے چہرے کے پیارے نقوش اپنے بڑے پاپاریان پر گئے تھے۔


اسٹائل میں بھی وہ ابھی سے ریان کو کاپی کرتا تھا۔


شرارتوں میں تو وہ شہیر کا بھی باپ تھا۔


نور نمبر کے پیچھے کھانے کی پلیٹ لیے گھوم رہی تھی مگر وہ ادھر سے ادھر بھاگ رہا تھا۔


آنی بچاؤ مما ظالم مدر بن گئی ہیں۔ زبر دستی معصوم سے بچے کو کھانا کھیلا رہی ہیں۔


نمیر عینی کو دیکھتا بھاگتا ہوا آکر اس کے پیچھے چھپا تھا۔


آپ کو کوئی نہیں بچائے گا گڈا آپ بہت پریشان کر رہے ہیں اپنی ماما کو۔


عینی نے اس کے بال بکھرتے ہوئے کہا تو اس نے بڑے اسٹائل سے بالوں کو واپس سیٹ کیا۔


ایسا کرتے اس نے ریان کو دیکھا تھا بس تب سے یہ کا اسٹائل بن گیا تھا۔


عینی کی گود میں ڈیرھ سال کی پیاری سی گول مٹول سی بچی تھی جس نے عینی کے پاس جاکر رورو کر اپنا برا


‏ حال کر لیا تھا۔


عینی کی جاب کی وجہ سے وہ عینی سے زیادہ مرحا سے اپیچ تھی۔ پورا دن مر حاہی اسے سنبھالتی تھی اب اسے مرحا کی اتنی عادت ہو گئی تھی کہ وہ عینی کے پاس کبھی کبھار ہی جایا کرتی تھی ورنہ اس کا سکون مرحا کی کو دتھی۔


ارے میری گڑیا کیوں اتنا رورہی ہے۔


مر جانے رونے کی آواز سنی تو تیزی سے اپنے کمرے سے نکل کر آئی۔


مرحا سنبھالو اسے یار میرے پاس تو اس نے رو رو کر برا حال کر لیا ہے۔


مینی نے اپنی بیٹی مرحا کو تھاماتے ہوئے کہا۔


ارے میری گڑیا رانی میری پیاری سی پرنس اتنا شار ا رونے لگی۔ ستار ارونے ہیں۔


مر جانے اسے سینے سے لگایا تو وہ فورا چپ ہو گئی۔


اللہ


کیا مسئلہ ہے عینی کیوں رولا یا تم نے میری میشل کو۔


ریان گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے عینی کو دیکھ کر بولا۔


بڑے پاپا۔ نمیر ریان کو دیکھ کر بھاگتا ہوا اس کے سینے سے لگا۔ کیسا ہے میرا شہزادہ۔


ریان بھائی دیکھیں یہ آپ کا لاڈلہ بالکل میری نہیں سنتا کھانے کے لیے اپنے پیچھے دوڑا رکھا ہے اس نے۔


نور نے ریان سے شکایت کی تو نمیر نے فورا اپنے کان پکڑے۔


ریان مسکرایا۔ نمیر ریان کو ناراض نہیں ہونے دیتا تھا اسے کوئی بھی بات سمجھانے کے لیے ریان کی ناراضگی کی دھمکی دینی پڑھتی تھی۔


نمیر اونلی فائیو منٹس یہ فنش ہو جانا چاہیے۔


ریان نے پیار کرتے ہوئے کہا تو وہ فورا ہی اپنی ماما کے پاس بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔


مسکان کا بخار اترا۔


ریان نے مرحا کو دیکھ کر پوچھا اور میشل کو اپنی گود میں لے لیا۔


جی اب تو بہت بہتر ہے آرزو نے ابھی سلایا ہے اسے۔


دو سال پہلے شہیر اور آرزو کی بھی شادی ہو گئی تھی اور اب ان کی چھ ماہ کی بیٹی تھی۔


شایان آفس کے کام سے دو مہینے کے لیے لندن گیا ہوا تھا۔ اور عینی کی اپنی ڈیوٹی تھی جس کی وجہ سے


میشل زیادہ تر مرحا اور ریان کے پاس ہی رہتی تھی۔


نمیر مثل مسکان اور عنایہ زبیر میں مرحا اور ریان دونوں کی جان بستی تھی۔


ایمان نے ایک سال پہلے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا تھا ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔


بیٹی کا نام ساحر نے عنا یہ جب کے بیٹے کا نام ایمان نے زبیر رکھا تھا۔


سارے بچے حید ر ہاؤس کی رونق تھے۔


ذالفقار صاحب تو اپنے رب کا شکر ادا کرتے تھے کہ اللہ نے انہیں اتنی زندگی دی کہ وہ اپنے پر پوتے پر پوتیوں کو دیکھ سکے۔


سہیل صاحب کی نمیر کی پیدائش کے کچھ مہینوں بعد ہی وفات ہو گئی تھی۔


سہیل صاحب کی وفات نے نور اور عینی کو توڑ دیا تھا مگر شاہ میر اور شایان کی محبت نے انہیں اس دکھ سے نکال لیا تھا۔


زندگی واپس اپنی روٹین پر آگئی تھی۔


ایمان ڈاکٹر بن چکی تھی۔


ریان نے مرحا کی بھی پڑھائی شروع کر وادی تھی اور اب دیڑھ سال بعد وہ بھی ایک ڈاکٹر کے روپ


‏ میں جانی جاتی۔


ساحر ایمان اور بچوں کے ساتھ کینیڈا چلا گیا تھا وہاں اس کے ٹیکسٹائل کے بزنس کو اس نے اور گرو کرنا تھا۔


آصف صاحب کی کمپنی کو اس نے دن رات کی محنت سے کامیابی کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ اب ریان اس کی جگہ سارا کام سنبھال رہا تھا کیونکہ ساحر کے اپنے بزنس کو بھی اس کی ضرورت تھی۔


ساحل اور پاکیزہ کے بھی دو بیٹے تھے۔ احمر اور عمر جو حویلی کی جان تھے۔


گاؤں کی ساری ذمہ داری اس نے یاسر کے ساتھ مل کر بہت اچھے سے سنبھالی تھی۔


مرحا کی خواہش کے مطابق گاؤں میں اپنے تایا کے نام کر ایک اسکول اور کالج کھولا تھا۔


اسکول اور کالج گاؤں میں پہلے بھی تھے مگر ان اسکول اور کالج کی خاصیت یہ تھی کہ یہ انگریزی طرز پر بنائے گئے تھے اور باقاعدہ شہر سے ٹیچر ز کو اپوائنٹ کیا گیا تھا۔


جدید سہولیات سے آراستہ ہسپتال بھی قائم کر دیا گیا تھا۔ یہ سب چیزیں ساحل کی محنت کا منہ بولتا


‏ ثبوت تھے۔


گاؤں میں خوشحالی آگئی تھی اور ہر کوئی ساحل سے بے حد خوش تھا۔ 


مر ابیڈ پہ مٹھی میٹل کو تھپک رہی تھی۔


پیارے سے نین نقوش کی حامل میشل بے تحاشہ خوبصورت تھی۔


مرحا کو میشل کو سلاتے ہوئے گہری سوچ میں گم تھی تبھی اسے ریان کے کمرے میں آنے کا پتا نہیں


‏ لگا۔


میری جان کہاں گم ہے۔


ریان مرحا کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔


ریان پلیز ایک بار مجھے چیک اپ کروانے دیں نا۔


مر جانے دوبارہ اس ٹاپک کو چھیٹر ا جس سے ریان ہمیشہ دور بھاگتا تھا۔


مر حامیری جان کیا ضرورت ہے اس سب کی۔ اولاد تو اللہ کی دین ہے نا۔


ریان نے نظریں چرائیں جو ہمیشہ مرحا کو کھٹکتی تھیں۔


ریان پلیز مجھے چیک کروانا ہے پانچ سال ہو گئے ہیں ہماری شادی کو میں کیوں ماں نہیں بن سکی۔


مرجانے ریان کے سامنے آکر کہا۔


مر حاد یکھو جب اللہ چاہے گا ہمیں دے گا اولاد تم اس کو اپنے اوپر سوار مت کرو۔


ریان نے مرحا کو سمجھایا۔


وہ اسے چاہ کر بھی نہیں بتا پاتا تھا کہ وہ کبھی بھی ماں نہیں بن سکتی گولیاں لگنے کی وجہ سے وہ یہ صلاحیت


‏ ہی کھو چکی ہے۔


نہیں ریان مجھے کچھ نہیں پتا مجھے اپنا چیک اپ کروانا ہے۔


مرحا نے ضدی انداز میں کہا۔


مرحا میں باپ نہیں بن سکتا مجھ میں یہ صلاحیت نہیں ہے اب پلیز ڈاکٹر کے پاس جانے کا ذکر نہیں کرنا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔


ریان افسردگی سے کہتا واشروم میں بند ہو گیا۔


مر حا ساکت کی کھٹری واشروم کے دروازے کو دیکھ رہی تھی۔


واشروم میں آکر ریان نے گہری سانس لی۔


وہ مرحا کو کچھ نہیں بتا سکتا تھا وہ نہیں چاہتا تھا مر حاخود میں کوئی بھی کمی محسوس کرے۔


وہ جانتا تو اس کے اندر کی ممتا اسے جھنجھوڑتی ہے۔


اسے یقین تھا آج جو اس نے کہا ہے اس کے بعد مر حاڈاکٹر کے پاس جانے کا نام نہیں لے گی۔


ریان فریش ہو کر باہر آیا تو مر حااب بھی اسی جگہ ساکت کھڑی تھی۔


ریان اس کی ذہنی حالت کو اچھے سے سمجھ رہا تھا۔


ریان چلتا ہو امر حا کے پاس آیا۔


میری جان ایسے کیوں کھڑی ہے۔


محبت بھرے لہجے میں سوال کیا۔


دیکھ رہی ہوں کوئی کسی سے اتنی محبت کیسے کر سکتا ہے کہ اس کی کمی کو اپنی کمی بنالے۔


مرحا کی بات پر ریان الجھا۔



کیا مطلب میں سمجھا نہیں۔


کیوں ریان کیوں اتنی بڑی سچائی مجھ سے چھپانا چاہتے ہیں کیوں نہیں بولتے اپنے منہ سے کہ میں کبھی ماں بن ہی نہیں سکتی میں آپ کو کبھی اولاد کی خوشی نہیں دے سکتی کمی آپ میں نہیں کمی مجھ میں آگئی


مر جانے روتے ہوئے ریان کی شرٹ جھنجھوڑی۔


ریان اس کی تکلیف پر تڑپ گیا تھا۔ وہ سب جان گئی تھی وہ سب جانتی تھی۔


ریان کو پتا تھا وہ بکھر جائے گی ٹوٹ جائے گی اس لیے ریان نے کبھی مرحا کو کچھ نہیں بتایا تھا۔


مگر کچھ مہینوں پہلے مرحا نے ریان اور سمینہ بیگم کی باتیں سن لی تھیں جس میں وہ ریان سے مرحا کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا بول رہی تھیں کیونکہ سب کے بچے تھے اور مرحا کی اداس نظر میں سمینہ بیگم نے محسوس کی تھیں۔


جب انہوں نے ریان سے بات کی تو ریان نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔


اس دن مرحا کو سب پتا لگ گیا تھا۔ تب سے مر جانے ڈاکٹر کے پاس جانے کی رٹ لگالی تھی وہ چاہتی تھی ریان اسے بتادے کہ وہ کبھی ماں نہیں بن سکتی مگر ریان نے اب بھی کہا تو یہ کہ وہ باپ نہیں بن سکتا اس میں صلاحیت نہیں۔


مرحا اس کی محبت دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔


ریان کی محبت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی تھی مگر جو آج ریان نے کہا تھا وہ معمولی بات نہیں


‏ تھی۔


الگ محبت تھی ریان کی وہ مرحا کے عشق میں اس مقام پر تھا جہاں اس کے لیے مرحا سے زیادہ کچھ ضروری تھا ہی نہیں۔


ریان نے مرحا کو رونے دیا تھا اس کی خود کی آنکھوں میں نمی آئی تھی مگر وہ چاہتا تھا مر حار و کر اپنا دل ہلکا


‏ کرے۔


مر حامیری جان میری طرف دیکھوں


ریان نے محبت سے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرا۔


اس کی آنکھیں رونے سے سرخ ہو گئی تھیں۔


مرحا اولاد دینا نا دینا یہ سب اللہ تعالی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس وقت تو تمھاری زندگی تک کا نہیں پتا تھا کہ تم ٹھیک ہو گی یا نہی


ڈاکٹر نے ہمیں کوئی امید نہیں دلائی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ جسے چاہے جیسے چاہے نواز دے۔


اللہ نے میری دعاؤں کو سنا اس نے مجھے تمھاری زندگی لوٹا دی اگر بدلے میں مجھے اولاد کی نعمت سے محروم ہونا پڑا تو یہ اللہ کی مرضی تھی۔


اس بات کے اوپر میں اس پاک ذات کی ناشکری کیسے کر دیتا جس نے مجھے میرا پیار لوٹا دیا تھا۔ تمھاری جان بچ گئی تھی میرے لیے یہی بہت تھا مر حا۔


وہ کنڈیشن ایسی تھی اس وقت صرف تم ضروری تھیں اور آج بھی صرف تم ضروری ہو۔


کیا تمھیں میرے پیار میں کوئی کمی دیکھی۔


کیا مجھے کبھی اس چیز کا احساس کرتے دیکھا کہ میں بے اولاد ہوں۔


مرجانے نا میں گردن ہلائی۔ 


تو جب میں اللہ کے فیصلے پر راضی ہوں تو تم کیوں نہیں ہو سکتیں میری جان کیا یہ کم ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ ہیں ایک دوسرے کے ہیں کیا ہم ایک دوسرے کے لیے کافی نہیں ہیں۔


ریان کی باتوں پہ مر جانے اس کے سینے پہ سر رکھا تو ریان نے اس کے گرد اپنی باہوں کا حصار بنایا اور اس کے بالوں پہ اپنے لب رکھے۔


اللہ بہت بڑا ہے میری جان ہر چیز میں اس کی مصلحت ہوتی ہے ہمیں بس صبر اور شکر سے کام لینا چاہیے


اور مجھے پورا یقین ہے میری جان اللہ کی ناشکری نہیں کرے گی۔


اور یہ سارے بچے بھی تو ہمارے ہی ہیں نا۔


اب مثل کو دیکھو عینی سے زیادہ وہ تمھارے پاس رہتی ہے۔


نمبر بڑی ماما بڑی ماما کر تا تمھارے آگے پیچھے گھومتا ہے۔ مسکان ابھی سے تم سے کتنی انچ ہے۔


کیا ہوا تو ہم نے انہیں جم نہیں دیا ہمارا پیار تو ان کے لیے کم نہیں ہو گا نا میری جان۔


ریان کی بات پہ مسکر ا کر مر جانے سر اٹھایا۔ 


ریان نے اس کے ماتھے پہ لب رکھے ریان کے الفاظ اس کا ساتھ مرحا کے ہر زخم کا علاج تھا۔


ریان کا عشق مرہم ساتھا جس نے مرحا کی زندگی کے ہر دکھ غم تکلیف کو خود میں سمیٹ کر اس کو صرف خوشیاں ہی خوشیاں دی تھیں۔


ریان کا ساتھ مرحا کے لیے خوش نصیبی تھا۔


ریان کی محبت اور چاہت نے عشق کی ایک الگ داستان لکھ دی تھی ایک ایسی داستان جو منفرد تھی سب


ریان نے مرحا کو اس کے ہر دکھ سمیت خود میں سمیٹ کر اسے اتنی محبت دی تھی کہ آنے والے وقت


میں سب نے اس کی محبت کی مثالیں دینی تھیں


                The End