تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 24

از۔"طوبیٰ صدیقی" 


 

°°°°°°


❤️❤️❤️


نور نے مسکرا کر ہاں میں گردن ہلائی تو شاہ میر نے اسے اپنی باہوں میں بھیچ لیا۔


نکاح مبارک ہو زوجہ محترمہ۔


شاہ میر نے کہا تو نور نے مسکرا اسے دیکھا تھا۔


شاہ میر نے اس کے گال پہ لب رکھے تو وہ شاہ میر کے سینے میں اپنا چہرہ چھپ گئی۔


مرحا کی صبح آنکھ کھلی تو فجر کا وقت گزر چکا تھا۔ سردیوں کو موسم شروع ہونے لگا تھا ہوا میں خنکی بڑھ گئی تھی۔


ریان کا ہاتھ مرحا کے سر کے نیچے تھا جبکہ وہ خود بیڈ کے کنارے سے سر ٹکائے سو رہا تھا۔


ریان کو دیکھ کر مرحا کے چہرے پہ خوبصورت تبسم بکھر اتھا۔ اس کی صبح اتنی حسین ہوئی تھی۔


مرحا آہستہ سے انھی مگر مرحا کے ہلنے سے ریان کی آنکھ کھل گئی۔


میرابچہ میری جان کیا ہوا۔ تم ٹھیک ہو نہ درد تو نہیں ہے اب۔


ریان نے نیند سے بھری آواز میں پوچھا تو مر جانے مسکرا کر نہ میں گردن ہلائی۔


میں بالکل ٹھیک ہوں ریان آپ اپنے کمرے میں جائیں صبح کا وقت ہو رہا ہے آپ نے کہا تھا میں سو جاؤں گی تو آپ چلے جائیں گے۔


آپ یہیں بیٹھیں ہیں اب تک آپ جائیں اپنے روم میں جاکر سوئیں۔


مر جانے ریان سے کہا تو اس نے مرحا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔


مر حاریان کے سینے سے ٹکرائی تھی۔


تم مجھے اپنے پاس سے بھاگار ہی ہو بے بی۔ اور تم سوتے ہوئے اتنی کیوٹ لگ رہی تھیں میر ادل نہیں


کیانا یہاں سے جانے کا ریان نے خمار آلود لہجے میں کہا۔


ریان آپ کو کیا ہوتا جارہا ہے آپ ایسے تو نہیں تھے اب آپ بالکل ہی الگ ہو گئے ہیں۔


مر جانے ریان کو دیکھ کر معصومیت سے کہا۔


اچھا کیسا ہو گیا ہوں میں رومانٹک۔


ریان نے ونک کر کے کہا تو مر جانے معصومیت سے ہاں میں گردن ہلائی۔


نات رومانٹک اوور رومانشک!


مرحانے منہ بنا کر کہا تو ریان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


بے بی ابھی تو میں نے تمھیں رومانٹک ڈوز بھی نہیں دی اور تم مجھے اور رومانٹک کہہ رہی ہو۔ مطلب تم تو گئی نکاح کے بعد ۔


نکاح کے بعد میں تمھیں صحیح سے رومانٹک اور اوور رومانٹک کا مطلب سمجھاؤں گا۔


اور میری جان میں پہلے بھی ایسا ہی تھا بس تم نہیں تھیں نہ لائف میں تو کبھی یہ انداز باہر ہی نہیں آیا۔


ریان نے مرحا کا گال سہلا کر کہا۔


ریان کی گرم سانسیں مرحا کو اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھیں جو اسے بے چین کر رہی تھیں۔


مرحا نے ریان کی گرفت سے نکلنا چاہا مگر اس نے اپنے ہاتھ مرحا کی کمر پہ لاک کیے ہوئے تھے۔


ریان پلیز جائیں نہ ابھی۔


مرخان هم آوازمیں کیا


ریان نے مرحا پہ ترس کہا کر اسے چھوڑا۔


ویسے بھی یہ معصوم سی لڑکی ابھی اس کی محبت برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی۔


ریان کے چھوڑتے ہی مر حافورا بیڈ سے اتری تھی۔


جائیں نہ پلیز کوئی ایسے آپ کو دیکھے گا تو کیا سوچے گا۔


مرجانے منت کرتے ہوئے کہا تو مسکرا کر جانے کے لیے مڑا۔


مر جانے سکون کا سانس لیا مگر ریان کی اگلی حرکت نے مرحا کا سانس انکادیا۔


ریان تیزی سے مرحا کی طرف مڑا اور اسے سمجھنے کا موقع دیے بنا اس کے گالوں پر باری باری اپنے الب رکھے۔


میں چاہتا ہوں آج پورا دن تمھارے چہرے پہ میرے نام کی سرخی بکھری رہے۔


مرحا کے گال کو انگلی سے سہلا کر ریان اس کے کمرے سے چلا گیا جبکہ مرحا اب تک شاک کی کیفیت میں کھڑی تھی۔


ریان آپ دن بہ دن بہت زیادہ بے شرم ہوتے جارہے ہیں۔


مرحانے ریان کو دل میں مخاطب کر کے کہا پھر مسکرا کر واپس بیڈ پہ لیٹ گئی۔


ریان کے نام کی سرخی تو ہمیشہ اس کے چہرے پہ چھائی رہتی تھی۔


ریان کی محبت نے مرحا کومان بخشا تھا۔


مرحا کے دل نے اعتراف کیا تھا جتنی محبت ریان اس سے کرتا ہے اتنی ہی محبت اسے بھی ریان سے ہے۔


ریان کو سوچتے ہوئے ایک بار مر حابلش کرنے لگی خود کو اپنی ہی نظر سے بچانے کے لیے اس نے اپنا چہرہ بلینکٹ میں چھپا لیا جبکہ مسکراہٹ نے چہرے کو بہت خوبصورت چمک بخشی تھی۔


ساری رات جاگنے کی وجہ سے ریان کی صبح آنکھ دیر سے کھلی تھی۔


ریان فریش ہو کر نیچے آیا تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ بکھری تھی۔


ہاتھ میں چوٹ لگنے کی وجہ سے سمینہ بیگم اپنے ہاتھ سے مرحا کو ناشتہ کردار ہی تھے کروارہی تھیں۔


کیا بات ہے بھئی بڑی محبتوں کے مظاہرے ہو رہے ہیں ساس بہو میں۔


ریان مرحا کے سامنے والی چیئر پر بیٹھتا ہوا بولا۔


کوئی بہو نہیں ہے یہ تو میری بیٹی ہے پیاری ہی۔


سمینہ بیگم نے مرحا کو پیار کرتے ہوئے کہا تو وہ مسکرادی۔


ارے واہ مطلب کے گھر میں ساس بہو والے ڈرامے نہیں ہونگے۔ ویری بید


ریان نے مصنوعی افسوس سے کہا تو سمینہ بیگم نے گھور کر اس کے سر پہ چپت لا گائی۔


ریان کو دیکھ کر مرحا کے چہرے پر سرخی بکھری تھی۔ ریان کی صبح والی بے باکی یاد کر کے مرجانے بے


اختیار ریان سے نظریں چرائیں جو بہت گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔


اب تم میری بیٹی کو کیوں ایسے گھور رہے ہو دیکھو کتنے سکون سے کہا رہی تھی تمھیں دیکھتے ہی نروس ہو گئی۔


سمینہ بیگم نے ریان کو دیکھتے ہوئے مرحا کے منہ میں نوالہ بنا کر ڈالا۔


میں معصوم سا آپ کا بیٹا بھلا کیوں گھوروں گا انہیں۔ بس ان کو دیکھ کر میری نظریں ان سے ہٹنا ہی بھول جاتی ہیں۔


ریان نے محبت پاش نظروں سے مرحا کو دیکھ کر کہا تو شرم سے وہ نگاہیں بھی نہیں اٹھا پائی۔


ماما آپ جائیں میرے لیے ناشتہ بنائیں آپ کی بہوارے سورے سورے آپ کی بیٹی کو میں کھلا دیتا


ہوں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے پلیز جلدی سے ناشتہ بنادیں۔


سمینہ بیگم کو کوئی بھی دوسری بات کرنے کا موقع دیے بناریان انہیں کچن کے دروازے تک چھوڑ کر مرحا کے پاس آکر بیٹھا۔


ریان کے پاس بیٹھنے پر مرحا کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں تھیں۔


کیا بات ہے آپ تو بڑا بلش کر رہی ہیں میڈم سب خیر تو ہے۔


ریان نے مرحا کو ونک کر کے پوچھا تو اس نے ریان کو نظر اٹھا کر دیکھا مگر پھر اس کی مسکراتی نظروں کو دیکھ کر اپنی نظریں جھکا گئی۔


ریان چھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر مر حا کے منہ ڈال رہا تھا۔


یہیں بیٹھی رہنا جانا نہیں۔


مرحا کو کھانا کھلا کر ریان اسے بول کر کھانے کے بر تن کچن میں رکھ کر ریان فرسٹ ایڈ باکس لے کر آیا۔


ریان کے ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس دیکھ کر مر جانے اپنا پیچھے چھپا لیا۔


مرحا کی یہ حرکت دیکھ کر ریان کو اس کی معصومیت پہ پیار آیا۔


لاؤ جلدی سے ہاتھ دیکھاؤ۔ چینج کرنی ہے نہ۔


ریان نے مرحا سے ہاتھ آگے کرنے کا کہا تو اس نے نفی میں سر ہلایا۔


نہیں نہ پلیز یہ بندھی ہوئی ہے نہ بینڈ بیچ یہی بندھی رہنے دیں۔


بہت درد ہوتا ہے دو الگاتے ہوئے۔


مر جانے رونی صورت بنا کر کہا تو ریان نے مسکرا کر اسے دیکھا۔


میری جان میں بہت آرام سے لگاؤں گا آئی پرومس پر بینڈ بج تو کرنی پڑے گی نا ڈاکٹر نے آپ کے سامنے کہا تھا نا میر ابچہ۔


ریان کے لہجے میں بے تحاشہ محبت تھی۔


مرجانے ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ آگے کیا تو ریان نے اس کی بینڈ بیج کھولنی شروع کی۔


بینڈیج کھول کر ریان نے مرحا کی ہتھیلی دیکھی جہاں اس کی لگائی مہندی کا رنگ اب بھی بہت گہرا تھا مگر ہاتھ پر جگہ جگہ کٹس لگے ہوئے تھے۔ ریان کے نام کے اوپر جو کٹ لگا تھاوہ کافی گہر ا تھا جس نے


مرحا کے ہاتھ پہ لکھے ریان کے نام کو کاٹ دیا تھا۔


مرحا کا ہاتھ دیکھ کر ریان کو تکلیف ہوئی تھی۔


ریان نے مرحا کے ہاتھ کے زخم کی صفائی کی تو مر حا کے منہ سے سسکی نکلی تھی۔


کس۔۔ ریان بہت درد ہو رہا ہے میرے ہاتھ میں پلیز بس۔ مر جانے نم آواز میں کہا۔


بس میر ابچہ ہو گیا بس تھوڑی سی تکلیف ہو گی مگر اس سے جلدی صحیح ہو جائے گا او کے۔


ریان پھونک مار مار کر مرحا کے زخم پر مرہم لگارہا تھا۔


سمینہ بیگم اور ایمان کھڑی یہ منظر دیکھ کر مسکرارہی تھیں۔


بھیو کتنا چاہتے ہیں نہ مرحا کو مجھے تو سچ میں یقین نہیں آتا یہ ہمارے بھیو ہیں۔


ایمان نے مسکرا کر اپنی ماں سے کہا تو وہ بھی مسکرادی۔


اس میں کوئی شک نہیں تھا ریان کے ہر بات سے ہر عمل سے مرحا کے لیے محبت جھلکتی تھی۔ اس کی فکر اس کا جذباتی پن اس کا جنون اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ ریان مرحا سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔


ریان نے مرحا کے ہاتھ کی بینڈیج کی پھر اس کا ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگایا۔


ریان کی اس حرکت پر مرحا خود میں ہی سمٹی تھی۔


ریان دن بہ دن بے باک ہوتا جارہا تھا۔ وہ سب کے سامنے بھی مرحا کے لیے اپنے جذبات بیان کرنے سے پیچھے نہیں رہتا تھا۔


مرحا کو اپنی قسمت پر رشک ہوتا تھا کہ اسے اتنی محبت کرنے والا شخص ملا ہے۔


او و وشٹ ! ساحر چلا تو نہیں گیا۔


ریان کو ایک دم سے ساحر کا خیال آیا تو وہ فورا اٹھا تھا۔


نہیں لالا جانے کی تیارے کر رہے ہیں تھوڑی دیر میں نکلیں گے۔


مرحا نے ریان کو جواب دیا۔


ایمان جو مرحا کی طرف آرہی تھی ساحر کے جانے کے نام پر اس کے چہرے پہ پھر سے اداسی چھا گئی تھی۔


‏ ریان ساحر کے کمرے میں چلا گیا تو ایمان آکر مرحا کے پاس بیٹھی۔


تمھارے لالا کو جانا ضروری ہے کیا۔


ایمان نے منہ بنا کر مرحا سے سوال کیا تو مرحا اسے زو معنی انداز میں دیکھ کر مسکرائی۔


کیا بات ہے بھئی لالا کے جانے کا سن کر تو آپ کے چہرے کا رنگ ہی پھیکا پڑ گیا ہے۔ کہیں اہم اہم پیار تو نہیں ہو گیا لالا ہے۔


مرحانے ایمان کو چھیڑ اتو ایمان نے مرحا کو گھورا۔


زیادہ بکومت ایسا کچھ نہیں ہے وہ تو میں بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔


ایمان اپنی چور پکڑے جانے کے ڈر سے ادھر اُدھر دیکھنے لگی تو مر جانے اس کے گدگدی شروع کردی۔


اچھا بچو ایسی ہی پوچھ رہی تھیں جھوٹی تمھارا چہرہ بتا رہا ہے تمھیں لالا کے جانے کا غم لگ گیا ہے۔


مر جانے ایمان کے گدگدی کرتے ہوئے کہا تو وہ کھلکھلا کر ہیں۔


ریان اور ساحر دونوں ساحر کے کمرے کے دروازے پر کھڑے اپنی اپنی دشمن جان کو دیکھ کر آہیں ہی بھر سکتے تھے۔


ساحر تم پکا آجاؤ گے نہ مرحا کی برتھ ڈے سے پہلے۔


ریان نے ایک بار اور تصدیق چاہی۔


ارے ہاں ہاں آجاؤں گا وہ صرف تمھاری جان نہیں ہے میری بہن بھی ہے۔ کتنی بار یقین دلاؤں پکا آجاؤں گا۔


تم نے مرحا کے ماموں سے بات کر لی۔


ساحر نے مرحا کے ماموں کے بارے پوچھا جن کی ریان سے کل ہی بات ہوئی تھی اور انہوں نے مرحا کے ساتھ ہوئے سارے حادثے کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا جس کے بعد وہ بہت افسردہ ہو گئے تھے تو دو دن میں ہی مرحا کے پاس آنے کا ارادہ رکھتے تھے۔


ریان نے انہیں مرحا کی برتھ ڈے پر انوائیٹ کر دیا تھا تو وہ لوگ اسی دن آنے کا وعدہ کر چکے تھے۔


ہاں میری بات ہو گئی وہ پہنچ جائیں گے مرحا بہت خوش ہو جائے گی۔


ریان نے مسکراتے ہوئے کہا۔


مجھے بہت خوشی ہے ریان کہ مرحا کی خوشی تمھارے لیے اتنی معنی رکھتی ہے۔


میری دعا ہے اللہ تعالی تم دونوں کو ہمیشہ ایک ساتھ خوش رکھے۔


ساحر نے ریان کو دعادی تو اس کے منہ سے بے ساختہ آمین نکالا تھا۔


ریان ساحر سے مرحا کی برتھ ڈے پارٹی کی ڈسکشن کرنے لگا اپنی ساری پلاننگ اس نے ساحر کو بتائی تھی جسے سن کر ساحر شاکڈ تھا۔ 


اس نے مرحا کے لیے اتنا کچھ سوچا ہو اتھا اسے تو اندازہ بھی نہیں تھا۔


وہ مرحا کی برتھ ڈے بہت زیادہ اسپیشل بنانا چاہتا تھا اتنا اسپیشل جتنا آج تک کسی نے کسی کا برتھ ڈے نہیں پلان کیا ہو گا۔


مگر اب بھی کام بہت باقی تھا اور اس کے پاس صرف دو دن بچے تھے۔


ریان کا ارادہ مرحا کی برتھ ڈے ایک دن پہلے سلیبرٹ کرنے کا تھا اور کیک کٹینگ رات بارہ بجے رکھی تھی کیونکہ مرحا کی برتھ ڈے کا سارا دن وہ خود اکیلے مرحا کے ساتھ گزارنے کا ارادہ رکھتا تھا۔


ساحر دو دن کے لیے گاؤں جا رہا تھا مگر یہ دو دن ایمان کو دیکھے بنا کیسے گزرنے تھے یہ ساحر ہی جانتس تھا۔


ساحر سب سے مل کر گاؤں کے لیے نکلنے لگا تو نظر ایمان کے دیدار کی منتظر تھیں مگر وہ اسے کہیں نظر نہیں آیا۔


ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ساحر نے سار سامان گاڑی میں رکھا اور جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھنے لگا۔


کسی کی نظریں خود پہ محسوس کر کے ساحر کی نظریں بے ساختہ چھت کی طرف اٹھی تو آخر کار دشمن جان نظر آہی گئی۔


ایمان چھت پر کھڑی اسے جاتا دیکھ رہی تھی ۔ 


ساحر کے لبوں پہ مسکراہٹ گہری ہوئی۔


ایمان نے ہاتھ ہلا کر ساحر کو گڈ بائے کیا تو ساحر نے جواب میں اسے فلائینگ کس دی اور بائے کا اشارہ کیا۔


اور پھر ساحر ایمان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔


ساحر نے راستے سے یا سر کو پک کیا تو یا سر نے خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور ساحر اس کے ساتھ ہی آگے بیٹھ گیا۔


کیا تمھیں یقین ہے کہ ماں صاحب ہم سے کچھ چھپارہی ہیں۔


ساحر نے یا سر کو دیکھ کر کہا تو اس نے گردن ہلائی۔


لا لا میں نے چار پانچ دن خود اس چیز کو نظر میں رکھا تھا۔


آپ کو خود پتہ ہے اماں صاحب نے حویلی کے اس حصے کو ہمیشہ یہ کہہ کر بند رکھا ہے کہ وہاں کچھ اثرات ہیں۔


س حصے میں رات کیا دن میں جانے میں بھی سب ڈرتے ہیں کیونکہ سب کے دلوں میں یہ خوف بیٹھ گیا ہے کہ وہاں سچ میں کچھ ہے۔


لیکن اماں صاحب کا آدھی رات کو حویلی کے اس حصے میں کھانا لے کر جانا میری سمجھ سے باہر تھا میں اسی لیے چاہتا ہوں آپ ایک بار خود اس معاملے کو دیکھ لیں لالا پتا نہیں کیوں مجھے لگتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے۔


یا سر کی بات سن کر ساحر بھی پریشان ہو گیا تھا۔ ماں صاحب کا اس طرح حویلی کے آسیب زدہ حصے میں کھانا لے جانا شک تو پیدا کر گیا تھا۔


لیکن جو بھی بات تھی یا اس کے پیچھے جو بھی راز تھا وہ ساحر خود پتا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اور یہ کام اس نے آج ہی کرنا تھا کیونکہ اسے دو دن بعد واپس شہر جانا تھا۔


ساحر حویلی پہنچا تو اماں صاحب اپنے دونوں بیٹوں اور دونوں پوتوں کے ساتھ ہال میں ہی بیٹھی نظر آگئی تھیں۔


ساحر خموشی سے چلتا اندر آیا۔


اسلام و علیکم۔


ساحر کی آواز پر اماں صاحب نے غصے سے ساحر کو دیکھا۔


آگئے تم خیر سے کیسے آنا ہو گیا تمھارا یہاں کیوں آئے ہو یہاں تم تمھیں تو شہر کی ہوا لگ گئی ہے نہ لڑکی سے عشق لڑا کے جو بیٹھے ہو وہاں پے۔


اماں صاحب نے ساحر کو سنایا تو اس نے گہری سانس لے کر باری باری سب کو دیکھا۔


میرے ساتھ وہاں کیا کیا ہوا اس چیز کی خبر آپ تک نہیں آئی یہ خبر آپ تک آگئی کہ میں کسی سے


عشق کر بیٹھا ہوں۔


ساحر نے تنزیہ ہنستے ہوئے کہا۔


ساحر کے لیجے اور انداز کا بدلاؤ اماں صاحب کو کھٹکنے پر مجبور کر گیا۔


آصف تایا اور ماں کی موت کی تفتیش کروا رہا ہوں وہاں قسم کھاتا ہوں جس نے بھی یہ سب کیا ہے


اسے ایسی سزا دلواؤں گا کہ اس کی نسلیں یاد رکھیں گی۔


ساحر نے نارمل لہجے میں کہا مگر ساحر کی بات سن کر امجد اور ماجد پریشان ہو گئے تھے۔ اور ان کے چہرے کی پریشانی ساحر نے نوٹ کی تھی۔


ارے جاؤ جاؤ جو کرنا ہے کرو ہمارا ان سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔


اماں صاحب نے نقاہت سے کہا تو ساحر تنزیہ مسکرایا۔


آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے تو آپ لوگوں کا مر حا سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔


مرحا کو لے کر آپ لوگوں کے دماغ میں جو بھی فتور پل رہا ہے اسے نکال دیں تو بہتر ہو گا۔


اور تم دونوں مرحا سے دور رہو تم دونوں کی وجہ سے میری بہن کو تکلیف بھی ہوئی نہ تو میں تم لوگوں کو


چھوڑوں گا نہیں یاد رکھا اسکا بھائی زندہ ہے ابھی


ساحر کا لہجہ سپاٹ تھا۔


ساحر کہہ کر جانے لگا لیکن پھر جاتے جاتے مسکراتے ہوئے پلٹا۔


مزمل کی کوئی خیر خبر ہے تم لوگوں کو۔


ساحر نے ساحل اور حاشر کو مخاطب کر کے پوچھا۔


لالا ہو اپنے دوست کے ساتھ دبئی چلا گیا ہے۔


ساحل کی بات پہ ساحر قبقہ لگا کر ہنسا۔


ارے واہ تو یہ چونا لگایا ہے اس نے تم لوگوں کو۔


سحر کی بات پر سب لوگ اسے دیکھنے لگے۔


ساخر چلتا ہو اساحل اور حاشر کے قریب آیا۔


جیل میں ہے وہ اور پتہ ہے کس جرم میں جیل گیا ہے وہ۔


ساحر نے باری باری سب کے چہرے دیکھے جو حیران پریشان ساحر کو سن رہے تھے۔


لڑکیوں کی اسمگلنگ میں ملوث تھا وہ اس نے میری محبت کو آگے بیچنے کی غلطی کی اور پتہ ہے کیا کر رہے اس نے۔


ساحر کہتا ہو ا حاشر کے اور قریب آکر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوا۔


اس نے ریان حیدر کی محبت کو اغوا کیا تھا اس نے ریان حیدر کی دیوانگی کو للکارا تھا اس نے ریان حیدر کے عشق کو اس سے دور کرنا چاہا تھا۔ اس نے مرحا کو اغوا کر وایا اور پھر اس کے ساتھ کیا ہوا پتہ ہے۔


ساحر کا لہجہ سپاٹ تھا حاشر کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے ہوئے وہ اسے حقیقت سے روشناس کروارہا تھا۔


ریان نے اس کی وہ حالت کی کہ نہ وہ جی سکتا ہے نہ وہ مر سکتا ہے۔ چاہو تو جیل میں جاکر مل لو اس سے تمہیں خود اندازہ ہو جائے گا اس کا حال کیا ہوا ہے۔ اس لیے تمھیں ایک مخلصانہ مشورہ ہے۔


مرحا سے دور رہنا اسے تکلیف دینے کی غلطی غلطی سے بھی مت کرنا مر حا کو لے کر تمھارے دماغ میں جو بھی خرافات ہے اسے نکال دو بہتر ہے ورنہ ریان تمھاری وہ حالت کرے گا کہ تم اپنے لیے خود موت کی دعائیں مانگو گے۔


سحر عاشر کو وارن کر تا لمبے لمبے ڈھاگ بھرتا اپنے کمرے میں چلے گیا۔


ساحر کی باتیں حاشر جاتا خون جلا گئی تھیں۔


پاس رکھا گلد ان زور سے اٹھا کر اس نے زمین پہ پھینکا جو چھن سے ٹوٹ کر بکھر گیا۔


مر حا صرف میری ہے اسے تو میں کسی بھی قیمت پر حاصل کر کے رہوں گا کوئی ریان حیدر آکر مجھے روک نہیں سکتا۔ مرحا خود میرے ساتھ چل کر اس حویلی میں آئے گی اور کوئی کچھ نہیں کر پائے گا۔


حاشر نے غصے سے کہا تو اماں صاحب نے اسے اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کو کہا۔


حاشر کا دماغ پوری طرح گھوم گیا تھا۔ ساحر نے اسے حقیقت کا آئینہ دیکھایا تھا وہ جانتا تھا مر حاریان حیدر کے دل کی دھڑکن کی طرح ہے مگر وہ مرحا کو ایسے ہی نہیں چھوڑ سکتا مر حا کو اپنا بنانے کا بھوت اس پر سوار ہو چکا تھا جو اسے حقیقت کو تسلیم کرنے کی نہیں دے رہا تھا۔


ریان صبح سے بہت زیادہ مصروف تھا۔ پہلے آفس اور پھر اس کے بعد وہ مرحا کی برتھ ڈے کی تیاریوں میں لگ گیا تھا جس کی وجہ سے وہ مر حا کو دیکھ بھی نہیں پار ہا تھا۔


اور ریان کا یوں اسے نظر انداز کر نامر حا کو بے چین کیسے ہوئے تھا۔


اسے تو ریان کی توجہ کی عادت تھی وہ جب سے ریان سے ملی تھی ریان کی توجہ اس سے زرا نہیں ہٹی تھی مگر آج ریان حد سے زیادہ مصروف تھا لیکن اپنی اس مصروفیات میں بھی وہ مرحا کو پل پل اپنے نظروں کے سامنے رکھا ہو ا تھا۔


وہ گھر پر موجود نہیں تھا مگر اس نے شہیر کو ذمہ داری دی تھی کہ وہ مرحا کے ایک ایک لمحے کی تصویر اسے بھیجے گا اور شہیر نے یہ کام بخوبی سرانج دیا تھا۔


اب تک شہیر ریان کو مرحا کی نا جانے کتنی ہی تصویر میں بھیج چکا تھا۔


کھانے کھاتے وقت دو کھاتے وقت سمینہ بیگم سے بات کرتے وقت اسکیچنگ کرتے وقت ایمان کے ساتھ مستی کرتے وقت اداس بیٹھے وقت ہر انداز میں مرحا کی تصویریں ریان کو مل چکی تھیں۔


اس کی بے تاب نظروں کو وہ اچھے سے سمجھتا تھا۔


آج ریان نے اس سے بالکل بات نہیں کی تھی اور اس کی اداسی کے پیچھے کی وجہ بھی یہی تھی ریان جانتا تھا۔


ریان مرحا کو اور انتنات کروانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ اس کی جان کی اداس نظریں ریان کے دل کو بے چین کر گئی تھیں اسے بس جلد سے جلد مرحا کے پاس پہنچنا تھا۔


کام نمٹا کر وہ گھر کے لیے نکل چکا تھا۔


ریان گھر میں داخل ہوا گھر میں خاموشی تھی یقینا سب سونے جا چکے تھے۔ ریان مرحا کے روم میں آیا تو وہ خالی تھا۔ وہ ایمان کے کمرے میں تھی یہ سوچ کر ریان نے ایمان کے کمرے کی طرف قدم


بڑھائے تو ان دونوں کی باتوں نے ریان کے قدم کمرے کے باہر روک دیے۔


مرحا کیا ہوا اتنی اداس کیوں ہو آج کیا بھیو کی یاد آرہی ہے۔


ایمان نے مرحا کو چھڑا تو اس پاس پڑا تکیہ اٹھا کر ایمان کو مارا۔


نام نے کو اپنے بھیو کا میں بہت ناراض ہو ان سے۔


مرحا کی آواز سن کر ریان کے چہرے پر مسکراہٹ کھلی۔


ارے کیوں ناراض ہو میرے پیارے بھیوے۔


ایمان نے حیرانگی سے پوچھا۔


کوئی پیارے نہیں ہے تمھارے بھیو میں ان سے بالکل بات نہیں کروں گی۔ ویسے پورا دن میرے آگے پیچھے رہتے ہیں بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں اور آج جناب کو پر واہ ہی نہیں ہے میں کیسی ہو میں نے کھانا کھایا نہیں کھایا د والی نہیں لی ایک کال تک نہیں کی انہوں نے مجھے۔


مرجانے منہ بنا کر ایمان سے ریان کی شکایت کی۔ اس وقت شکایت کرتی وہ کوئی چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی۔


پھولے پھولے گالوں کو اور پھولائے ناراضگی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔


تو پاگل تم کال کر لیتیں نا۔


ایمان نے اس کی عقل پر ماتم کیا۔


میں کیوں کروں ان کو کرنی چاہیے تھی ناکال بس مجھے ان سے بات نہیں کرنی۔


مرجانے منہ بنا کر کہا۔


اب اس طرح ناراض ہو کر مجھ پہ ظلم کیا جائے گا یہ تو غلط بات ہے۔


ریان مسکراتا ہوا کمرے میں آیا۔


ریان کو دیکھ کر مر جانے منہ پھولا یا۔


ریان کو مرحا اس وقت اتنی کیوٹ لگ رہی تھی کہ اس کا دل کیا اس کے دونوں گالوں کا کھا جائے۔


ایمان بچا سا تر کال کر رہا ہے تمھیں تمھارا موبائل کہاں ہے۔


ریان نے ایمان کو دیکھ کر کہا تو اسے یاد آیا موبائل تو وہ نیچے ہال میں ہی بھول گئی تھی۔


بھیو ہال میں ہے موبائل تو۔


تو بچہ جاؤ اپنا موبائل اٹھاؤ جا کر اور ساحر سے بات کر لو کہہ رہا تھا ایمر جنسی ہے۔


ریان نے ایمان سے کہا تو وہ تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔


میرابچہ میری جان ناراض ہے مجھ سے۔


ریان نے محبت سے کہا تو مر جانے چہرہ پھیر لیا۔


مر حا کا چہرہ پھیر ناریان کو اچھا نہیں لگا تھا اس نے مرحا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور اس کے دونوں ہاتھ پیچھے کمرے پہ لے جا کر لاک کر دیے۔


نہیں مرحا ایسا نہیں کرنا تمھیں مجھ سے منہ پھیرنے کی اجازت نہیں ہے پہلے بھی کہا تھا نہ مجھ سے منہ نہیں پھیر نا کبھی بھی میں یہ برداشت نہیں کر سکتا۔


ناراض ہو حق ہے تمھارا ڈانٹو غصہ کر لو چاہو تو مار بھی لو مگر مجھ سے کبھی نظریں نہیں پھیرنا۔


ریان نے اپنا چہرہ مرحا کے چہرے قریب کیا تھا۔


ریان کی گرم سانسیں مرحا کو اپنے چہرے پہ پڑتی محسوس ہو رہی تھیں۔ دل دیوار توڑ کر باہر آنے کو بے چین تھا۔


مرجانے مزمت کی توران کی پکڑ اور سخت ہوگئی۔


میں خود چھوڑ دوں گا اپنے آپ کو ہلکان مت کرو۔


مرحا کو اپنا آپ چھڑاتے دیکھ ریان نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ پلیز چھوڑیں نا۔


مرحا منمنائی۔


چھوڑ دوں گا پہلے وعدہ کرو اپنے ریان سے کبھی نظریں نہیں پھیرو گی۔


ریان نے مرحا سے کہا تو اس نے گردن ہلا کر وعدہ کیا۔


ریان نے مرحا کو چھوڑا اور آرام سے بیٹھ کر اس کے چہرے پر کھلے شرم و حیا کے رنگ دیکھنے لگا۔


ریان کی زرا سی قربت مرحا کا حال خراب کر دیتی تھی۔


میری جان میری زندگی میرابچہ میں بہت ضروری کام میں مصروف تھا اس لیے کال نہیں کر سکا مگر مجھے نہیں پتہ تھا کوئی مجھے اتنا مس کر رہا ہے۔


ریان نے مرحا کو دیکھتے ہوئے کہا۔


ریان کی بات پہ مر حا کا چہرہ بلش کرنے لگا تھا۔ سچ تو یہ تھا ریان کو سامنے دیکھ کر مرحا کہ ناراضگی غائب ہو چکی تھی۔


سوری مائی ٹیڈی بیئر۔


ریان نے مرحا کے گال کھینچ کر کہا تو مر جانے اپنے گال سہلائے اور گھور کر ریان کو دیکھا۔


میں آپ سے ناراض ہوں بہت زیادہ۔


ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔


اچھا بابا غلطی ہو گئی آئیندہ کبھی بھی ایسا نہیں ہو گا میں کہیں بھی مصروف ہوں تمھیں لازمی کال کروں گا آئی پرومس پلیز ابھی تو ناراض نہیں ہو میر ابچہ۔


ریان نے محبت پاش لہجے میں کہا تو مر جانے ریان کو دیکھا۔


پکا پرومس۔


مر جانے ریان سے پوچھا تو اس نے مسکرا کر گردن ہلائی۔


اپکا پرومس۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


ریان کے کہنے پر مرحا کے چہرے پہ مسکراہٹ کھلی جو ریان کو ڈھیروں سکون دے گئی تھی۔


بس یہی تو وہ ہمیشہ چاہتا تھامر حاکے چہرے پہ اس کے نام کی مسکراہٹ ہمیشہ کھلی رہے۔


اسے مرحا کی خوشی سب سے زیادہ عزیز تھی اب وہ کبھی بھی مرحا کو اگنور کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا پھر چاہے وہ کتنا ہی مصروف کیوں نا ہو مر حاہمیشہ اس کے لیے سب سے پہلے رہے گی ریان نے خود سے عہد کیا تھا۔


ویسے بھی اس لڑکی کی ناراضگی ریان کہاں برداشت کر سکتا تھا۔


ایمان بھاگتی ہوئی بال میں آئی تھی جہاں اس کا موبائل ابھی ابھی بج کر چپ ہوا تھا۔


ایمان نے مایوسی سے موبائل کو دیکھا جہاں ساحر کی کئی کالز آئی ہوئی تھیں۔


ایمان اپنا موبائل لے کر اپنے روم میں جانے لگی مگر وہاں ریان اور مر حا کا سوچ کر مر حا کے روم میں آگئی۔ 


ایمان بیڈ پہ آکر بیٹھی ہی تھی کہ ساحر کی پھر کال آنے لگی۔


ایمان کا دل زور سے دھڑکا تھا۔


اپنی دھڑکنوں کو قابو کر کے ایمان نے کال اٹھائی۔


ہیلو۔ ایمان نے مدھم آواز میں کہا مگر سامنے سے کوئی جواب نہیں آیا۔


ہیلو۔ ایمان نے ایک بار پھر کہا تو آگئے سے روٹھی روٹھی آواز آئی۔


ہم۔۔ آپ کو تو ہماری یاد ہی نہیں آتی نا۔


نہیں ایسی بات نہیں ہے میر امو بائل پاس نہیں تھا تو مجھے پتا نہیں لگا کال کا۔

ساحر کی روٹھی ہوئی آواز پر ایمان نے جلدی جلدی کہا مگر ایمان کی بات پہ ساحر کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوئی۔

ایسی بات نہیں ہے مطلب یاد آتی ہے میری آپ کو۔

ساحر نے شوخ لہجے میں کہا تو ایمان کو اپنے کہے گئے الفاظ کا احساس ہوا۔

میں نے یہ تو نہیں کہا کہ مجھے آپ کی یاد آتی ہے۔

ایمان نے مدھم آواز میں کہا۔

بہت ظالم ہو قسم سے بہت ظالم جو میری حسینہ میر اول رکھنے کے لیے ہی بول دیتیں کہ تمھیں میری یاد آتی ہے۔

ساحر نے غمزدہ آواز میں کہا تو ایمان کھلکھلائی اور ایمان کی کھکھلاہٹ پہ ساحر کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ بکھری تھی۔

ہنس لو ہنس لو کچھ دن کی بات ہے اس کے بعد آپ کی ہنسی کو اپنے انداز میں بند کروں گا میں۔ ساحر نے لب دبا کر کہا۔