تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 23

از۔"طوبیٰ صدیقی"


 

°°°°°°


❤️❤️❤️


میں کھلا دیتی ہوں تم بھی آرام کر لو جا کر۔


سمینہ بیگم نے کہا تو اس نے مسکرا کر نہ میں سر ہلایا۔


نہیں ماما جب تک وہ سو نہیں جاتی میں کہیں نہیں جاؤں گا یہ آپ مجھے دے دیں میں کھلا دوں گا۔


ریان نے سمینہ بیگم سے کھانے کی ٹرے لیتے ہوئے کہا۔


سوچ رہی ہوں بابا سے بات کر کے جلد ہی آپ کی شادی کروادوں۔


سمینہ بیگم نے سیر لیس ہو کر کہا تو ریان کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


اچھی سوچوں پہ جلدی عمل کرنا چاہیے۔


ریان کی بات پر سمینہ بیگم مسکرا کر اس کے سر پہ پیار کیا۔


بہت چاہتے ہو اہے۔


سمینہ بیگم کے سوال پر ریان مسکرایا۔


بہت زیادہ ماما اتنا کہ شاید اس کے بنا میں جی بھی نہ پاؤں۔


ریان کی بات پر سمینہ بیگم نے دل سے ان دونوں کو دعا دی۔


اللہ پاک ان دونوں کو ہمیشہ ایک ساتھ خوش رکھے۔


ریان کھانا لے کر کمرے میں آیا تو مر حاکپڑے چینج کر چکی تھی۔


ریان کو دیکھ کر اس نے پاس پڑا دو پٹہ خود پہ پھیلایا۔


مرحا کی اس حرکت نے ریان کے چہرے پر مسکراہٹ گہری کی تھی۔


مجھ سے بھی خود کو چھپارہی ہو مر حاڈار لنگ یہ تو نا انصافی ہے۔


ریان نے کھانا سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور خود مرحا کے سامنے بیٹھ گیا۔


وہ نائٹ ڈریس پہنی ہے تو اس لیے۔۔


مر جانے مدھم آواز میں بھجھکتے ہوئے کہا۔


تو کیا ہوا میں کونسا غیر ہوں۔


ریان نے شرارت سے کہا تو مر جانے اسے گھورا۔


مرحا کے گھور نے پر ریان قہقہہ لگا کر ہنسا۔


لہ اللہ لڑکی تم توڈرا رہی ہو ابھی سے اچھا چھپالو خود کو ویسے بھی یہ پر دے بھی بس کچھ دن کے اور ہیں اس کے بعد تم نے میری ہی باہوں میں ہوتا ہے۔


ریان نے ونگ کر کے کہا تو مر حا کا چہرہ لہو چھا گانے لگا۔


ریان آپ دن بہ دن بے شرم ہوتے جارہے ہیں۔


مرحا نے ریان کو دوبارہ گھور کر کہا تو وہ اپنی ہنسی چھپا گیا۔


مجھے بے شرم کرنے والی بھی تو تم ہی ہو بے بی۔ اچھا خاصا شریف تھا میں تم نے مجھے بگاڑ دیا ہے۔


ریان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا تو وہ نروس ہوئی۔


میں نے۔۔ میں نے کیا کیا۔


مرحا منمنائی۔


اچھا مجھ پہ اپنا جادو کس نے چلایا۔ خود سے محبت کرنے پر مجبور کس نے کیا۔ تمھاری معصومیت نے اچھے بھلے لڑکے کو بگاڑا ہے۔


ریان نے مسکرا کر کہا۔


مرحا آگے سے کچھ بول نہیں پائی۔


آج تمھیں سینے سے لگانے کا بہت دل تھا مر حامگر میں ابھی ایسا کوئی حق نہیں رکھتا۔ پر میں چاہتا ہوں تم


مجھے جلد ہی یہ حق دے دو۔ تمہیں اپنے پاس اپنے ساتھ محسوس کرنا چاہتا ہوں میں۔


ریان نے مدھم آواز میں کہا۔


مجھے بھوک لگی ہے۔


مرحا پھر منمنائی تو ریان نے مسکرا کر ٹرے اس کے سامنے رکھی۔


مر جانے کھانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا مگر ہاتھ پہ نظر پڑتے ہی رک گئی۔


اس کے ہاتھ پہ تو پٹی بندھی تھی۔


ریان نے مسکرا کر نوالہ بنایا اور مرحا کے منہ کے پاس لایا۔


مرحا نے ریان کو دیکھا جو اسے دیکھ کر مسکرارہا تھا۔


مرحانے مسکراتے ہوئے منہ کھولا اور ریان کے ہاتھ سے کھانا کھانے لگی۔


آپ نے کھایا کھانا۔


مر جانے ریان سے پوچھا تو اس نے افسردہ سی شکل بنائی۔


تم نے پوچھا ہی نہیں کھانے کا۔


ریان کی بات پہ مر جانے اپنی مسکراہٹ دبائی۔


آپ بھی کھا لیں ساتھ۔


مرحا نے آفر کیا تو اس نے نہ میں گردن ہلائی۔


تمھارے ہاتھ پہ پٹی نہیں ہوتی تو میں ضرور کہتا اپنے ہاتھ سے کھلاؤ مگر میں یہ بول نہیں سکتا۔ اس لیے


مجھے نہیں کھانا مجھے بھوک نہیں ہے تم آرام سے کھاؤ۔


ریان نے محبت سے کہا تو مر حا مسکرا کر کھانا کھانے لگی۔


مر حا کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلا کر ریان نے اسے میڈیسن دی اور اسے سونے لٹا دیا۔


اس میڈیسن سے تمہیں نیند آجائے گی تم آرام سے سو جاؤ میں یہیں ہوں۔


ریان نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔


‏مر حا جلد ہی نیند میں اتر گئی۔


ریان بیٹھا کافی دیر تک مرحا کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ چہرہ جو اس کی پوری دنیا تھا۔


مرحا کے چہرے پہ آئی بالوں کی لٹ ریان کو بہ کار ہی تھی۔


ریان مرحا کے تھوڑا قریب ہوا اور اس کے چہرے سے لٹ ہٹائی۔ تم میر ا صبر آزمارہی ہو بے بی ۔ اتنا ظلم اچھا نہیں ہوتا۔ ریان نے مرحا کا گال سہلاتے ہوئے کہا۔ مرحا کے چہرہ کا سکون ریان کو پر سکون کر گیا تھا۔


ریان مرحا کے قریب بیٹھا اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا تب ہی عمل اندر آئی اور ریان کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے باہر لے گئی۔


یہ کیا بد تمیزی ہے عمل تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی۔


ریان نے غصے سے عمل کا ہاتھ جھٹکا۔


یہ سب کیا ہے ریان تم اس لڑکی کے لیے کیا سے کیا ہوتے جارہے ہو۔ وہ تمھارے نکاح میں نہیں ہے جو تم اس کے اتنے قریب جارہے ہو۔


اور مجھے تو مرحا پہ حیرت ہے وہ کیسی لڑکی ہے تمھیں روکتی تک نہیں ہے نا محرم ہو تم اس کے لیے۔ عمل نے ریان 

سے کہا تو وہ طنزیہ مسکرایا۔


اچھا مطلب میں مرحا کے پاس بیٹھوں تو میں غلط مرحا غلط اور تم جو میرے آگے پیچھے گھومتی ہو مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی ہو وہ سب صحیح ہے وہ غلط نہیں ہے میں تمھارے لیے نامحرم نہیں ہوں۔


ریان نے عمل سے کہا تو وہ غصے سے ریان کو دیکھنے لگی۔


ریان میں تمھاری کزن ہوں محبت کرتی ہوں تم سے ابھی سے نہیں سالوں سے تم یہ کیسے بھول سکتے ہو۔


مس عمل تم میری کزن ہو مگر میں تمھارے لیے نامحرم ہی ہوں اور رہی بات محبت کی تو میں نے کبھی اپنی طرف سے تمھیں ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ تم مجھ سے محبت کرو میں پہلے بھی تمہیں یہ بات سمجھا چکا ہوں۔۔


آج پھر سمجھ رہا ہوں س میں تم سے محبت نہیں کرتا نہ کبھی کروں گا۔ تم میرے لیے کل بھی ایمان کی طرح تھیں اور آج بھی ایمان کی طرح ہو۔ تو اپنے دماغ سے یہ سارے فتور نکال دو۔


اور رہی بات میری اور مرحا کی تو میں اپنی حدود اچھے سے جانتا ہوں اور خبردار جو مرحا کے کردار پہ انگلی بھی اٹھائی تو ۔ شادی ہونے والی ہے میری اس سے اس کے کردار پر داغ لگانے کی جرت مت کرنا۔۔


 ریان کہہ کر غصے سے پلٹا۔


چند قدم چل کر وہ واپس عمل کی طرف مڑا۔


ایک بات یاد رکھنا عمل مجھے کبھی بھی پتا لگا کہ تم نے مرحا کو تکلیف دی ہے یا اسے تمھاری وجہ سے کوئی چوٹ آئی ہے تو میں تمھارا وہ حال کروں گا جو تم سوچ بھی نہیں سکتیں۔ اس لیے مرحا سے دور رہنا۔ آئی دارن یو۔


ریان کہہ کر واپس مرحا کے روم میں چلا گیا۔


عمل نے نم آنکھوں سے ریان کو جاتے دیکھا۔ پھر غصے سے اپنے کمرے میں بند ہو گئی۔


مرحا کا چہرہ دیکھتے ہی ریان کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔


چہرے پہ خود ہی مسکراہٹ نے جگہ بنائی۔


مرحا کے سرہانے بیٹھ کر وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔


مرحا کی قربت اس کا سکون تھی۔


ایمان شاور لے کر آئی تو اس کے موبائل پہ ساحر کی ہیں کالز آچکی تھی۔


افففف ان سے صبر نہیں ہوتا۔


بالوں کو آکر ڈرائے کرتی ہوں پہلے جناب کی بات سن لوں کبھی یہیں نہ آجائیں۔


ایمان خود سے کہتی ساحر کے روم کی طرف چلے گئی۔


ایمان نے دروازہ ناک کیا تو ساحر نے فوراً دروازہ کھولا۔


ایمان روم کے اندر آئی تو ساحر نے دروازہ واپس لاک کر دیا۔


یہ ۔۔ یہ آپ نے ۔۔ دروازہ لاک کیوں کر دیا۔


ایمان نے گھبراتے ہوئے کہا۔


اس وقت اگر کسی نے تمھیں یہاں دیکھ لیا تو کیا سوچے گا۔


ساحر نے وجہ بتائی تو مطمئن ہوئی۔


ساحر گہری نظروں سے ایمان کو دیکھ رہا تھا۔ ساحر کی نظر میں ایمان کو پزل کر رہی تھیں۔


تم نے اس ٹائم شاور کیوں لیا۔


ساحر نے سوال کیا تو ایمان نے زبان دانتوں میں دبائی۔


رات میں شاور لینے پہ اکثر وہ سب سے ہی ڈانٹ کھاتی تھی۔


ایمان کے یہ حرکت ساحر نے بہت دلچسپی سے دیکھی تھی۔


وہ کپڑے بہت خراب ہو گئے تھے منگنی کا پورا ڈریس بھی خراب ہو گیا تھا۔ میں گندی ہو رہی تھی اس لیے۔


ایمان نے مدھم آواز میں کہا۔


میں منگنی والا سیم ڈریس تمھیں لا دوں گا۔ اور آئندہ رات میں نہیں نہانا سردیاں شروع ہو رہی ہیں


ٹھنڈ ہو جائے گی نہ۔


ساحر نے محبت بھرے لہجے میں کہا تو ایمان نے مسکرا کر ہاں میں گردن ہلائی۔


آپ نے مجھے کیوں بلایا تھا کیا ضروری کام تھا آپ کو۔


ایمان نے ساحر سے پوچھا تو اس نے ایک ڈبی ایمان کی طرف بڑھائی۔


ریڈ اینک۔۔ ایمان نے کنفیوز ہو کر کہا۔


ہاں ریڈ اینک۔ تم نے میری شرٹ پہ ریڈ ایک سے اپنے ہاتھ چھاپے تھانہ ۔ وہ شرٹ تو کھو گئی مگر میں چاہتا ہوں تم دوبارہ میری شرٹ پہ اپنے ہاتھ چھاپو۔


ساحر نے اپنی وائٹ شرٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا جو وہ اس وقت پہنا ہوا تھا۔


آپ اپنی وائٹ شرٹ مجھ سے خراب کروانا چاہتے ہیں۔


ایمان نے آئیبر و آچکا کر پوچھا تو ساحر مسکرایا۔


یہ شرف خراب نہی ہو گی بہت ہیتی ہو جائے گا۔ ساحر نے کہہ کر ایمان کے ہاتھ سے انک لے کر پلیٹ میں ڈالی۔


ساحر نے ایمان کو اشارہ کیا تو اس نے مسکرا کر اپنے دونوں ہاتھ اٹک میں ڈالے۔


ایمان نے اپنے دونوں ہاتھ ساحر کے سینے پہ رکھے تو ساحر نے اپنے ہاتھوں سے ایمان کے ہاتھوں پر دباؤ ڈالا۔


ساحر کے ایسا کرنے سے ایمان کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔


ہو۔۔ ہو گیا۔


ایمان نے سمجھکتے ہوئے کہا۔


ساحر نے ایمان کا ہاتھ چھوڑا تو وہ ساحر سے فاصلہ بنا گئی۔


ایمان کی یہ حرکت ساحر کو اچھی نہیں لگی۔


ساحر نے ایمان کا ہاتھ پکڑ کر واپس اپنے قریب کھینچا تو وہ اس کے سینے سے ٹکرائی۔


مجھ سے دوری نہیں بنانا ایمان میں اپنی حد جانتا ہوں۔ نکاح سے پہلے تمھارے زیادہ قریب نہیں آؤں


گا میں مگر تم آئیندہ مجھ سے دوری نہیں بنانا۔


ساحر نے ایمان کے کان کے قریب سر گوشی کی تو اس کی سانس اٹک گئی۔


ساحر کے پاس سے آتی پر فیوم کی خوشبو ایمان کے حواسوں پہ چھارہی تھی۔


مجھے ہاتھ دھونے ہیں۔


ایمان نے مدھم آواز میں کہا تو ساحر نے اس کا ہاتھ چھوڑ کر جانے کا راستہ دیا۔


ایمان فوراً واشروم میں آئی اور دروازہ بند کر دیا۔


ایمان کی جلد بازی پر ساحر کے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔


ایمان نے واشروم میں آکر ہاتھ دھوئے تو نظر ساحر کی پہنائی رنگ پر پڑی۔


ڈائمنڈ کی رنگ اس کی انگلی میں چمک رہی تھی۔


ایمان کے چہرے پر مسکان کھلی۔


بے ساختہ اس نے رنگ پر اپنے لب رکھے۔


ایمان رنگ کو دیکھ ہی رہی تھی جب ساحر نے دروازہ بجایا۔


ایمان تم ٹھیک ہو باہر آجاؤ۔


ساحر کی آواز پر اس نے گہری سانس لی اور باہر نکلی۔


ہو گئی ایک صاف دیکھاؤ۔


ساحر نے ایمان کا ہاتھ تھاما تو وہ نروس ہوئی۔


میں صبح گاؤں جا رہا ہوں۔


ساحر کی بات پہ ایمان نے فورا اسے دیکھا۔


کیوں گاؤں کیوں جارہے ہیں۔


ایمان نے سوال کیا تو ساحر نے اسے بیڈ پہ بیٹھایا اور خود اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔


کچھ ضروری کام ہے اس لیے جاتا ہے۔ کام بہت ضروری ہے ورنہ میں نہیں جاتا۔


ساحر کی بات پر ایمان نے منہ بنایا۔


کب واپس آئیں گے۔


روٹھے ہوئے لہجے میں سوال کیا۔


تین دن لگ جائیں گے۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


ایمان کار و ٹھار و ٹھا روپ ساحر کے دل میں اتر رہا تھا۔


میں چاہتا ہوں آج کی رات تم یہیں رہو میرے قریب میری نظروں کے سامنے۔


ساحر کی فرمائش پر ایمان سٹپٹائی۔


میں کیسے یہاں رک سکتی ہوں کسی نے دیکھ لیا تو کیا سوچیں گے سب۔


ایمان نے منمناتے ہوئے کہا۔


تم فجر کے ٹائم چلے جانا کچھ دیر میرے ساتھ گزار لو پلیز ویسے بھی تین دن تک تم سے دور رہوں گا۔


سماحر نے ریکوئسٹ کی۔ معلم میر نے


ام ۔۔۔ ٹھیک ہے پھر ہم مووی دیکھیں کوئی اچھی ہیں۔


ایمان نے مسکرا کر کہا تو ساحر مسکراکر اسے دیکھنے لگا۔


تم میرے ساتھ مووی دیکھو گی اس ٹائم ایمان سیر پیکسلی۔


تو اور کیا کریں گے پھر پوری رات بیٹھ کر۔


ایمان نے ساحر کی بات پہ کہا تو اس نے ایمان کا ہاتھ تھاما۔


اپنے بارے میں بتانا سب کچھ۔ میں تمھاری پسند نا پسند بڑی سے بڑی خواہش سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی خواہش تمھارے خواب سب کچھ جانا چاہتا ہوں۔ ہم ڈھیر ساری باتیں کریں گے۔


ساحر کی بات پہ ایمان مسکرائی اس کا آئیڈیا برا نہیں تھا۔


ایمان نے ہامی بھری تو ساحر نے روم کی لائٹ آف کر کے نائٹ بلب جلایا اور ایمان کے برابر میں آکر بیٹھا۔


ساحر کی قربت سے ایمان گھبرائی تو اس نے ایمان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔


بھروسہ رکھو اپنی حد پار نہیں کروں گا۔


ساحر کی بات پر ایمان کی نظریں جھک گئیں۔


ساحر ایمان سے اس کے بارے میں سب کچھ جاننے لگا۔


باتیں کرتے ہوئے ساحر مسلسل ایمان کی انگلیوں سے کھیل رہا تھا۔


اپنے نام کی انگھوٹی ایمان کے ہاتھ میں ساحر کو سکون دے رہی تھی۔


باتوں کے دوران اچانک ساحر نے ایمان کا ہاتھ اٹھایا اور اپنے ہونٹوں کے قریب لے کر گیا۔


ایمان کی زبان کو بریک لگی۔


ساحر نے ایمان کے ہاتھ میں سبھی انگھوٹی پہ اپنے لب رکھے تو ایمان نے شرما کر نظریں جھکالیں۔


ایمان اپنے ہاتھ کو ساحر کے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔


ساحر نے دوبارہ ایمان کی انگھوٹی پہ لب رکھے تو اس نے شرم سے چہرہ دوسری طرف کر لیا۔


اس کا شر ما یا گھبر ایا روپ ساحر کے دل کو اور بے چین کر رہا تھا۔


کیا ہوا تمھاری بولتی کیوں بند ہو گئی۔


ساحر نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا۔


کلک کچھ نہیں۔


ایمان کے الفاظ لڑکھڑائے۔


اچھا یہ بتاؤ تمہیں کونسا شہر کو نسا ملک گھومنے کی خواہش ہے۔


ساحر نے سوال کیا تو ایمان نے مسکرا کر اسے دیکھا۔


مجھے تو بس جہاں سکندر کاتر کی پسند ہے ہائے۔


ایمان نے جس انداز میں کہا ساحر کے ماتھے پر بل پڑے۔


ساحر نے ایمان کو کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔


یہ جہان سیکندرکون ہے ایمان۔ کون رہتا ہے ترکی میں تمھارا کوئی کزن ہے کوئی دوست ہے کوئی رشتہ دار ہے۔


ساحر نے بے چینی سے پوچھا تو ایمان نے اپنی مسکراہٹ چھپائی۔


آپ جیلس ہو رہے ہیں۔


ایمان نے پوچھا تو ساحر نے اپنا چہرہ ایمان کے چہرے کے قریب کیا۔


تمھاری سوچوں میں میرے نام کے علاوہ کسی اور کا نام آیا تو میر اجیلس ہونا تو بنتا ہے نہ سویٹ ہارٹ۔


اب بتاؤ کون ہی یہ جہان سکندر کس کی بات کر رہی ہو۔


ساحر کا سوال وہی ان کا تھا۔


جہان سکندر ناول کا ہیر و بدھو۔ ایک فیکشنل کیریکٹر ہے۔


ایمان نے ساحر کے سر پہ ہلکا سا نیچ کیا تو وہ مسکرایا۔


میرے علاؤ کسی کو بھی سوچنے کی اجازت نہیں دیتا میں تمھیں۔ تم صرف مجھے ہی سوچا کرو۔ باقی ترکی ہم ہنی مون کے لیے چلیں گے۔


ایمان مسکرا کر ساحر کی بات سن رہی تھی اس کی آخری بات پر ایمان کا چہرہ بلش کرنے لگا۔


باتوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا تو ساحر نے خود ایمان سے تھوڑا فاصلہ قائم کیا۔


ایمان کی قربت اس کے جذبات کو بہکار ہی تھی اور ساحر اس وقت اس کا محرم نہیں تھا اسے اپنے جن باتوں پہ کرولکرناتا


عینی اور نور بیٹھی باتیں کر رہی تھیں جب دروازے پہ دستک ہوئی۔


میں دیکھتی ہوں۔


نور نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے شایان کھڑ ا تھا۔


بھابی آپ سوئی تو نہیں تھیں۔


شایان نے پوچھا تو اس نے مسکرا کر نا میں گردن ہلائی۔


ابھی نہیں سوئی میں اور عینی باتیں کر رہے تھے۔


نور نے شایان کو راستہ دیا تو وہ کمرہ کے اندر آیا۔


ایک نظر عینی کو دیکھا جو بیڈ پر الٹی لیٹی موبائل میں کچھ کر رہی تھی۔ شایان کو دیکھ کر سیدھی ہو کر بیٹھی۔


بھائی آپ کو شاہ میر چھت پہ بلا رہا ہے۔


شایان کی بات پر نور گھبرائی۔


اہم اہم جاؤ آپی جیجو بلا رہے ہیں نکاح کی مبارکباد دینی ہو گی نا۔


عینی نے زو معنی انداز میں کہا تو نور نے اسے گھورا۔


عینی تمھاری زبان بالکل کنٹرول نہیں رہتی سدھر جاؤ تم۔


نور نے عینی کو آنکھیں دیکھا کر کہا۔


بھائی ان کی زبان کنٹرول کرنا مجھے اچھے سے آتا ہے آپ جائیں جلدی شاہ میر انتظار کر رہا ہے۔


شایان نے نور کو چھت پہ بھیجا اور اندر آکر روم لاک کر دیا۔


ہیلو مسٹر کہاں۔۔ یہ آپ کا روم نہیں ہے آپ اپنے روم میں جائیے۔


عینی شایان کے روبرو آکر بولی تو شایان نے اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔


شایان کی اس حرکت پہ عینی کا دل زور سے دھڑ کا تھا۔


چھوڑو مجھے کیا پا گل ہو گئے ہو۔


عینی نے اپنی گھبراہٹ چھپا کر کہا تو شایان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


ایسے کیسے چھوڑ دوں عینی ڈارلنگ اب تو سرٹیفکیٹ مل گیا ہے تمھیں چھونے کا۔ تم خود کو مجھ سے دور نہیں کر سکتیں۔


شایان نے مسکرا کر کہا تو عینی نے نظریں چرائیں۔


تم پہ شیرنی والا روپ ہی اچھا لگتا ہے ایسے بھیگی بلی نہیں بنو۔


شایان نے اسے چھیڑا تو عینی شایان کو گھورنے لگی۔


افففف یہ قاتل نظریں۔ ایک تو تم اتنی حسین ہو اوپر سے تمہاری یہ قاتلانہ ادائیں اففف۔


شایان نے عینی کے کان کے قریب کہا۔


سڑک چھاپ عاشق لگ رہے ہو تم ایسی باتوں سے شایان انسان بنو اور چھوڑو مجھے۔


عینی نے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا۔


تم نکاح کی مبارکباد نہیں لو گی اپنے شوہر سے۔


شایان کی بات پہ عینی کے ہاتھ ست پڑے جو مسلسل شایان کو دور کرنے کی کوشش میں لگے تھے۔


شایان نے اپنا ایک ہاتھ عینی کے گال پہ رکھا اور اسے قریب کر کے اپنے لب اس کے ماتھے پہ رکھے۔


شایان کی حرکت نے عینی کے دل کو گد گدایا تھا۔ وہ اس کا شوہر تھا اس پہ پورا پورا حق رکھتا تھا۔


شایان کی قربت اسے بری نہیں لگی تھی۔


عینی کی آنکھیں خود ہی بند ہو گئیں تھیں۔ اس لمحے نے دونوں کو ایک دوسرے میں قید کر دیا تھا۔


شایان نے عینی کو اپنے سینے سے لگایا تو عینی کے ہاتھ بھی بے ساختہ اس کی کمر پہ گئے تھے۔ آئی لو و یو عینی۔ آئی ریکی ڈو۔


شایان نے مدھم آواز میں اپنے پیار کا اظہار کیا تو مینی کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی۔


چاہنے تو وہ بھی لگی تھی شایان کو مگر وہ شایان پر اپنی چاہت ظاہر کر کے اسے سر چڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔


شایان نے عینی کا چہرہ اپنے سامنے کیا تو اس کا چہرہ شرم سے سرخ ہو رہا تھا۔


تم نے مجھے کیوں چھپا کہ تم ایک سیکریٹ ایجنٹ ہوں


شایان نے سوال کیا تو عینی نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔


میرا تعلق ایک حساس ادارے سے ہے شایان مجھے اپنی پہچان سب سے چھپا کر ہی رکھنی ہے یہ اصول ہے ہمارے کام کا۔


میں نکاح کے بعد تمھیں خود یہ بتائی مگر حالات ایسے ہو گئے مجھے موقع نہیں مل پایا۔


مینی نے صاف گوئی سے جواب دیا۔


مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی ریان بھائی کو کیسے جانتی تھی تم اور ان کا تم سے کیا تعلق تھا۔


بھائی کا اس سب سے کیا کنیکشن ہے۔


شایان نے سوال کیا تو عینی نے ایک لمبی سانس لی۔


میں سب بتاتی ہوں مگر تم وعدہ کرو یہ راز ہم دونوں کے بیچ رہے گا۔ ہم راز بنو گے نامیرے۔


عینی نے شایان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تو اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔


دو سال پہلے شاہ میر بھائی کو اس کے ایک دوست نے ڈرگ کیس میں پھنسایا تھا۔


شاہ میر بھائی نے ایک جم جوائن کیا تھا جس میں اس کی دوستی عاصم نامی لڑکے سے ہوئی تھی۔


اصل میں وہ صرف ایک جم نہیں تھا وہاں پہ ڈرگ سپلائی ہوتی تھی نئے نئے لڑکوں کو ڈرگز دیے جاتے تھے۔


وہ لوگ پروٹین شیک میں ملا کر ڈرگز لڑکوں کو دو ہفتوں تک پلاتے پھر ان کی باڈی اس ڈرگ کی عادی ہو جاتی تو انہیں ڈرگز تک لانا آسان ہو جاتا تھا۔ 


شاہ میر کو بھی وہ پروٹین شیک دیا گیا مگر تین دن میں ہی اسے اس کا ری ایکشن ہونے لگا۔ اس کی اسکن پر ریشیز ہونے لگے تھے یاد ہو گا تمہیں ریان بھائی نے اس کا ٹریٹمنٹ کروایا تھا اور انہیں وہی سے پتہ لگا تھا کہ شاہ میر کو ڈرگز کی ڈوز دی گئی ہیں جو اس کی باڈی ایکسیٹ نہیں کر پارہی تھی۔


شاہ میر سے اس کی پوری روٹین پتا کی گئی کہ وہ کہاں کہاں سے کیا کیا کھاتا ہے کہاں کہاں جاتا ہے۔ تب جا کر پتا لگا کہ اس جم میں یہ سارا کام ہوتا ہے۔


شاہ میر بھائی والا ڈرگ کیس میرا پہلا کیس تھا۔ تب میری ملاقات شیری سر سے ہوئی تھی۔


ریان بھائی نے ہماری مدد کرنے کے لیے اس جم کو جوائن کیا یہ کیس وہ خود شیری سر کے پاس لائے تھے۔


ریان بھائی نے اپنی جان تک خطرے میں ڈال دی تھی انہیں وہ ڈرگز دیے گئے تھے پورے ایک ہفتے انہوں نے سب برداشت کیا۔


پھر جب اس کیس سے جڑے لوگوں کو پکڑا گیا تو اس میں شاہ میر بھائی کا بھی نام آگیا۔


ریان بھائی نے انہیں نہیں چھڑوایا۔ بالکہ جتنے دن شاہ میر بھائی جیل میں بند رہے ریان بھائی نے بھی خود کو جیل میں بند کروا دیا۔ صرف اس لیے کہ ان کے بھائی کو یہ نا لگے کہ اس کے بھائی نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ 


اس کیس کے بعد سے ریان بھائی نے شیری سر کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ وہ کسی ڈیپارٹمنٹ کے لیے کام نہیں کرتے وہ اپنا شوق پورا کرنے کے لیے یہ کرتے ہیں۔ کوئی کیس آتا ہے تو اسے ہمارے ساتھ مل کر حل کرتے ہیں۔ ثبوت ڈھونڈنے کے لیے آدھی آدھی رات کو سڑکوں پر گشت کرنا ، خراب لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا یہ سب کرتے ہیں وہ ہماری مدد کے لیے۔


شاہ میر بھائی پر سنلی ریان بھائی کی مدد کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی ملاقات کبھی مجھ سے نہیں ہوئی۔


اس سے زیادہ ڈیٹیل میں نہیں بتا سکتی میں تمھیں۔


مینی نے شایان کو سب بتادیا۔ جسے سن کر شایان شاکڈ تھا۔


اب سمجھا جب ہی ایمان کہتی ہے کہ اس کے بھائیوں کی حرکتیں مشکوک ہیں۔ اس نے کئی بار ریان بھائی اور شاہ میر کو آدھی رات میں گھر سے باہر جاتے دیکھا ہے مگر وہ بہت صفائی سے بات کو ہمیشہ چھپا جاتے تھے۔


شایان نے عینی کو دیکھ کر کہا تو اس نے مسکرا کر ہاں میں گردن ہلائی۔


تمھارا ہاتھ ٹھیک ہے اب دیکھاؤ مجھے۔


شایان کو عینی کی چوٹ یاد آئی تو وہ اس کا تھان کر چیک کرنے لگا۔


میں ٹھیک ہوں شایان یہ چھوٹے چھوٹے زخم مجھے درد نہیں دیتے۔ ایسے کتنے ہی زخم مل کے ٹھیک بھی


ہو چکے ہیں۔ اپنا دل مضبوط کرو اس طرح ہر چھوٹے زخم کو پکڑ کر نہیں بیٹھنا ہے۔


عینی نے مسکرا کر کہا تو شایان نے اسے اپنی قریب کیا۔


اچھا جی میری بیگم بہت اسٹرانگ ہے ہم۔۔ زرا اپنی طاقت کے مظاہرے مجھے بھی تو دیکھاؤ۔


شایان نے کہہ کر عینی کے گال پہ اپنے لب رکھے تو مچل گئی۔


شایان کی قربت اسے بوکھلا دیتی تھی۔


عینی نے مشکل سے خود کو دور کیا تو شایان نے منہ بنایا۔


کیا یار اس سے بہتر تو یونی کی ہی کسی لڑکی سے شادی کر لیتا کم سے کم پیار تو کرتی ویسے بھی لڑکیاں فدا تھیں مجھ پر۔


شایان نے مسکر اہٹ چھپا کر کہا تو عینی نے اس کا گریبان پکڑ کر کھینچا۔


مسٹر شایان حیدر تم اب صرف اور صرف قرۃ العین شایان حیدر کے ہو۔ اپنی زندگی میں تو کیا اپنی سوچ میں بھی کسی لڑکی کو لائے نہ تو تمھاری بوٹیاں بنا کر میں چیل کوؤں کو کھلا دونگی سمجھے۔


عینی نے شایان کے چہرے کے قریب غرا کر کہا تو


شایان نے بے اختیار اس کے لبوں پہ میٹھی سی جسارت کی۔


مینی ایک دم سٹپٹا گئی۔


اس نے فورا شایان کا گر بیان چھوڑا تو وہ قہقہ لگا کر ہنسا


افففف اتنی بہادر اتنی نڈر لڑکی میری قربت سے ڈر رہی ہے۔ مسز شایان حیدر آپ کو قابو کرنے کا


طریقہ سمجھ آگیا ہے مجھے۔


شایان نے ونک کر کے کہا تو عینی اس سے نظر چراتی اٹھ کر جانے لگی مگر شایان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بیٹھا لیا۔


تھوڑا ٹائم تو اسپینڈ کر سکتی ہونا اپنے شوہر کے ساتھ۔


شایان نے اتنے مان سے پوچھا تھا کہ عینی اسے منع کر ہی نہیں پائی۔


چھوٹی موٹی نوک جھوک اور ڈھیر سارے پیار کے ساتھ ان دونوں نے بہترین وقت ساتھ گزارنا تھا۔


نور چھت پر آئی تو شاہ میر جھولے پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔


نور کو دیکھ شاہ میر مسکرایا۔


شاہ میر نے نور کے لیے اپنے ساتھ جگہ بنائی تو وہ شاہ ہے کے ساتھ بیٹھ گئی۔


اپنی انگلیوں کو وہ مسلسل مروڑ رہی تھی جو اس کی گھبراہٹ کو صاف ظاہر کر رہا تھا۔


کیا ہوا اتنا کیوں گھبرارہی ہو نور ابھی تو میں نے کچھ کیا ہی نہیں۔


شاہ میر نے زو معنی انداز میں کہا تو نور نے نظریں چرائیں۔


شاہ میر نے نور کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا تو وہ اور گھبراگئی۔


تم ایسے گھبراؤ گی تو میرے ساتھ گزارا کیسے ہو گا۔ میری شد تیں تو برداشت بھی نہیں کر پاؤ گی۔


شاہ میر نے نور کے کان میں سر گوشی کی۔


آپ نے کیوں بلا یا تھا کوئی کام تھا کیا۔


نور نے دھیمے لہجے میں کہا تو شاہ میر مسکرایا۔


اپنی بیوی کو میں نے نکاح کی مبارکباد ہی نہیں دی اس سے ضروری کام اور کیا ہو سکتا ہے۔


شاہ میر نے کہہ کر نور کو اپنے قریب کیا۔


شاہ میر کا اس طرح پاس آنانور کو شرمانے پہ مجبور کر گیا۔


شاہ میر نے نور کی پیشانی پہ لب رکھے تو وہ اپنی آنکھیں بند کر گئی۔


شاہ میر نے اپنا سر نور کے سر سے لگایا ہوا تھا۔


دونوں کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ دونوں بس ایک دوسرے کو محسوس کر رہے تھے۔


میں پرانی ہر یاد بھلا کر نئی یادیں بنانا چاہتا ہوں نور اور اس میں مجھے تمھاری مدد چاہیے۔


شاہ میر کی بات پہ نور نے آنکھیں کھولیں تو شاہ میرا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔


❤️❤️❤️