مصنفہ: حمیرا رحمان
باب نمبر ۲: قاتل کا ہتھیار
-
★ ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: ★
دائرہِ خیال میں ڈوبے تو زخم تازہ ہوگئے
حالِ منظر جو دیکھا تو ماضی میں گمشدہ ہوگئے
پل بھر کو لگا جیسے لوٹ آئی بہار
آگے بڑھ کے دیکھا تو احساسِ شکستہ ہوگئے
★ :::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: ★
"تو تم ہو وہ قاتل۔" کچھ دیر خاموشی سے اُس کا چہرہ تکنے کے بعد ہالہ نے لب و لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے سوزین سے پوچھا، ساتھ ہی اُس کا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا' سوزین سفید رنگ کے شلوار قمیض میں ملبوس تھی، اُس کا حلیہ ذرا بکھرا ہوا تھا، بے ترتیب اور تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ چہرے پر ویرانی، تھکن، خوف اور حیرانی کے ملے جلے سے تاثرات تھے۔ اُس کی برف کی مانند سرد، گہری سیاہ آنکھیں جن میں اِس وقت سرخی اُتری ہوئی تھی، اُنہیں دیکھ کر نا جانے کیوں ایک انجانا سا خوف محسوس ہو رہا تھا۔
"پلیز مجھے قاتل مت کہو، میں بےگناہ ہوں۔" سوزین نے افسوس سے بھرے لہجے میں شکوا کیا (اپنی سرخ تھکی ہوئی نگاہیں اُس نے ہالہ کے چہرے پر گاڑھی ہوئی تھیں) کیونکہ اُس کو مقابل کے لہجے میں چبھن محسوس ہوئی تھی۔
"کیسی ہو؟" اُس کی بات نظر انداز کرکے خاصہ روکھے انداز میں کہتے ہوئے ہالہ نے اپنے قدم آگے بڑھائے تھے، وہ کافی سنجیدہ نظر آرہی تھی۔
"ٹھیک ہوں۔" سوزین نے دھیمے اور کمزور انداز میں ہالہ (جو کے اب اُس کی سامنے والی کرسی پر موجود تھی) کو دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا۔ اُس کی آواز میں تھکن اور اضطراب دونوں محسوس ہو رہے تھے، جیسے ہر لفظ کو کہنے کے لیے اندر سے طاقت جمع کر رہی ہو۔ کچھ لمحے خاموشی میں یوں ہی اُن دونوں کے درمیان گزر گئے، فضا میں نہ صرف سکوت تھا بلکہ ماضی کی تلخ یادیں، الجھنیں، اور ناقابلِ بیان جذبات کا بوجھ بھی محسوس ہو رہا تھا۔ جب سوزین چہرہ جھکائے چپ بیٹھی رہی تو ہالہ نے ہی گہری سانس خارج کرتے ہوئے ہمت جمع کی اور پھر بات کا آغاز کیا۔
"تمہیں ضرور عجیب لگ رہا ہوگا مجھے اِتنے سال بعد اپنے سامنے دیکھ کر۔" اُس کی بات پر سوزین قدرے ہچکچاتے ہوئے، ندامت بھرے لہجے میں گویا ہوئی۔
"مجھے... معاف کردو ہالہ۔" سوزین کا جواب ہالہ کے لیے خاصہ غیر متوقع تھا، تبھی اُس نے اچھنبے سے سوزین کی جانب دیکھا تھا۔ وہ سر جھکائے اِس وقت کسی مجرم کی طرح دکھائی دے رہی تھی، جس کے چہرے پر شرمندگی اور پچھتاوے کے ملے جلے تاثرات قائم تھے۔
"میں... جانتی ہوں... میں نے تمہیں ماضی میں بہت تکلیف پہنچائی ہے۔ سچ کہوں تو میں بہت شرمندہ ہوں اپنے کیے پر۔" وہ سر جھکائے اپنی گزشتہ غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے ہالہ سے معافی کی منتظر تھی، اِسی دورانیے میں اُس کی گہری سیاہ آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گال پر پھسلا تھا۔
"مجھے ماضی میں جینے کی عادت نہیں ہے سوزین۔" ہالہ جواباً نے گہری سانس خارج کرتے ہوئے لاپرواہی سے کہا، یا شاید لاپرواہی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ جس کے بعد اُس نے نگاہیں اِدھر اُدھر پھیر دیں، کمرے کے چھوٹے چھوٹے گوشوں کو بغور دیکھا، گویا اپنے احساسات پر قابو پانے کی کوشش میں۔
"کم عمر کی نادانی میں ناجانے میں نے تمہارے ساتھ ساتھ کتنے اور لوگوں کی زندگی بھی تباہ کی ہے، میں تو معافی کے لائق بھی نہیں ہوں... ہوسکے تو مجھے معاف کر دینا۔" سوزین کی نگاہیں اب مکمل طور پر بھیگ چکی تھیں، یہ بات تو واضح تھی کے وہ واقعی اپنے کیے پر نادم تھی۔ ہالہ نے اُس کے چہرے پر ایک نظر ڈالی، تبھی ایک چھوٹی سی گلٹی ہالہ کے گلے میں اُبھری مگر پھر فوراً معدوم ہو گئی۔
"مجھ سے بار بار معافی مت مانگو۔" اب کی بار ہالہ نے ضبط اور بیزاری سے مقابل کو ٹوکا، بیشک اُس کے چہرے پر کوئی تاثر موجود نہ تھا لیکن آنکھوں میں چھائی ویرانی بخوبی نظر آرہی تھی۔ تکلیفوں کو چھپانے میں اُسے مہارت حاصل تھی، بیشک دل کی بات دل میں رکھنے کا ہنر بھی کسی کسی میں ہوتا ہے۔
"لیکن کیوں؟" سوزین نے بھیگی آنکھیں اُٹھا کر ہالہ کا چہرہ دیکھا، سوال میں گہری اُداسی اور ندامت جھلک رہی تھی۔
"کیونکہ اب اِس کا کوئی فائدہ نہیں ہے!" ہالہ جواباً یکدم بلند آواز میں بولی تھی (جیسے ماضی کو کریدنا نہیں چاہتی ہو اور مزید اِس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتی ہو)، شاید اُس کا ضبط ٹوٹ چکا تھا لیکن کمال کی بات یہ تھی کہ تاثرات ابھی بھی نارمل تھے۔
"معافی؟... تم نے دیر کردی سوزین... یہ الفاظ اب میرے کسی کام کے نہیں ہے۔" ہالہ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے طنزیہ اور تلخ مسکان کے ساتھ کہا۔ سوزین نے اِس جملے کو سن کر افسوس سے سر جھٹک دیا، جیسے ہر لفظ نے اُس کے دل کو چھوا ہو۔
"میں ماضی کو یاد نہیں کرتی... یاد کرکے صرف تکلیف ہی تو ہوتی ہے۔" ہالہ اب کی بار بولی تو لہجہ خشک تھا، ہر لفظ میں سنجیدگی جھلک رہی تھی۔
"کاش اِس دنیا میں ٹائم مشین پائی جاتی... میں اُس کے ذریعے اپنی گزشتہ غلطیاں سدھار سکتی۔" مقابل نے سر جھکائے بےبسی سے کہا، ساتھ ہی وہ ملال سے مسکرا دی۔
جس پر ہالہ نے گہری طویل سانس خارج کی اور بولی۔ "خیر... جو ہونا تھا وہ ہوگیا، اب تو مجھے کچھ ٹھیک سے یاد بھی نہیں ہے۔" یہ کہتے ساتھ ہی اُس نے فوراً بڑی ہی مہارت سے موضوع بدلا۔ "تم بتاؤ... میں کیا مدد کرسکتی ہوں تمہاری؟" اُس نے سنجیدگی سے سوزین سے سوال کیا تھا۔
"کیا تم واقعی... میری مدد کرنا چاہتی ہو؟" سوزین نے اُسی ملال بھری مسکراہٹ کے ساتھ چہرہ اوپر اُٹھایا اور پوچھا، اُس کے لہجے کی جھجک ہالہ نے بخوبی محسوس کی تھی۔
"تم میری کلائنٹ ہو اِس لیے یہ تمہارا حق ہے سوزین اور میں تمہاری لایر ہوں اِس لیے یہ میرا فرض ہے۔" ہالہ نے آرام سے، مگر پختہ انداز میں ہلکے سے شانے اچکا کر بےپروائی سے جواب دیا۔
"یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔" سوزین نے اپنی بات پر ڈٹے ہوئے دوبارہ کہا، اُس کی ملال بھری مسکراہٹ ایک پل کے لیے بھی لبوں سے غائب نہیں ہوئی تھی۔
"ہاں... میں واقعی تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں۔" ہالہ نے تھک ہار کر ایک لمبی اور طویل سانس خارج کی پھر سوزین کو جواب پیش کیا۔
"تو پھر... تفتیش شروع کریں؟" ہالہ نے قدرے نرم مگر سنجیدہ لہجے میں پوچھا، اُس کی نظریں سوزین پر مرکوز تھیں۔ سوزین نے اُس کی بات پر پل بھر کو توقف کیا جیسے کچھ سوچ رہی ہو، پھر آہستگی سے اثبات میں سر ہلایا' گویا خود کو سوالات کے لیے تیار کیا۔
"جانتی ہوں یہ گھڑی تمہارے لیے مشکل ہے لیکن سوالات پوچھنے ضروری ہیں۔" ہالہ نے اب کی بار کرسی کی پشت سے ذرا سا آگے جھک کر کہا، ساتھ ہی اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر ٹیبل پر ٹکائے۔
"تمہیں جو پوچھنا ہے بلاجھجھک پوچھ سکتی ہو۔" سوزین نے جواباً ایک گہری سانس اندر کھینچی اور پھر سر جھٹکتے ہوئے بولی، شاید وہ ہالہ کے سوالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھی۔
"پہلے تو مجھے یہ بتاؤ..." ہالہ نے کہتے ہوئے اپنا موبائل نکال کر ٹیبل پر رکھا اور وائس رکارڈنگ آن کی۔ "کے دس نومبر کی رات کو اصل میں ہوا کیا تھا؟" اب وہ سوزین کی جانب گھوم کر پوچھ رہی تھی، جیسے مکمل طور پر سوزین کی طرف متوجہ ہو۔
اُس کے سوال پر سوزین کی نظریں لمحہ بھر کے لیے خلا میں معلق ہوگئیں' ذہن بھی پانچ دن پیچھے چلا گیا، پھر اُس نے ہلکی لرزش کے ساتھ بیانیہ شروع کیا۔ "دس نومبر کی رات تقریباً دس بجے میں گروسری کرنے کے ارادے سے اپنے گھر کے قریب موجود مارٹ تک گئی تھی، جہاں سے میں ایک گھنٹہ، پندرہ منٹ بعد فارغ ہوئی تھی۔ جب میں گھر واپس آئی تو میں نے دیکھا، میرے دروازے پر موجود لاک کھلا ہوا تھا۔ کسی اور کے پاس میرے گھر کی چابی ہو... یہ ناممکن ہے۔ اُس کھلے ہوئے لاک کو دیکھ کر مجھے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا اِس لیے میں فوراً گھر کے اندر داخل ہوئی، تبھی میں نے دیکھا کے صائم ڈرائنگ روم کے فرش پر گرا ہوا تھا، خون میں لت پت... میرے آنے سے پہلے ہی مر چکا تھا وہ۔ یہ سب منظر دیکھ کر میں بہت ڈر گئی تھی اور میں نے جلدی سے پولیس کو کال کی تھی۔" بتاتے ہوئے اُس کی آواز ذرا بھاری ہوگئی تھی، آنکھوں کے آگے جیسے اُس بھیانک رات کے بھیانک مناظر دوبارہ کسی فلم کی طرح چلنے لگے تھے۔ ہالہ نے مکمل خاموشی کے ساتھ سوزین کی باتیں سنی، اُس کا ہر لفظ، ہر سانس نوٹ کیا۔
"حمم... یعنی پولیس نے تم پر اِس لیے شک کیا کیونکہ صائم تمہارا دوست تھا اور اُس وقت گھر میں تمہارے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا۔" سوزین سارا واقعہ سنا کر خاموش ہوئی تو ہالہ نے ساری کہانی سمجھتے ہوئے سر ہلا کر کہا، جس پر سوزین نے بھی جواباً بہت ہلکے سے سر اثبات میں ہلا دیا۔
"مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ کیا یہ لوگ مجھے ہمیشہ کے لیے جیل بھیج دیں گے؟" کچھ دیر کی خاموشی کے بعد سوزین نے مضطرب سے تاثرات کے ساتھ کہتے ہوئے اپنے خشک لبوں پر زبان پھیری۔
"گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، جب تک تمہارے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل جاتا یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر تم بےگناہ ہو تو فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔" مقابل کے لہجے کی پریشانی محسوس کرتے ہوئے ہالہ نے اُس کو تسلی دی۔
"لیکن اگر قاتل نے جھوٹے ثبوتوں کے ذریعے مجھے پھنسانے کی کوشش کی تو؟" کچھ خیالات سوزین کو مسلسل بےچین کررہے تھے، تبھی وہ سوال پر سوال کیے جا رہی تھی۔
"کہا تو ہے، اگر تم بےگناہ ہو تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے!" ہالہ نے ایک بار پھر سنجیدگی سے وہی الفاظ دہرائے۔
"میری پیشی تین دن بعد ہے کورٹ میں، تب تک کیا مجھے جیل میں رہنا ہوگا؟" ہالہ کی بات سے اُس کے دل کو اُمید اور تسلی ملی تھی، لیکن جیل کا سوچ کر وہ مکمل طور پر مطمئن نہیں ہو پارہی تھی۔
"اور کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے۔ " ہالہ نے کندھے اچکا کر بےبسی سے کہا۔
"حمم..." سوزین اُس کا جواب سن کر صدمے اور پریشانی میں کچھ بول بھی نہ سکی، کیونکہ اُس کے ذہن میں جیل کے مناظر کسی خوفناک فلم کی طرح چل رہے تھے اور اِس مسٔلے کا حل ہالہ کے پاس موجود نہ تھا۔
کچھ لمحوں بعد، جب تمام سوالات بھی ختم ہوگئے تو ہالہ نے ریکارڈنگ آف کی اور جانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
"اب مجھے جانا ہوگا، تم سے جلد ہی دوبارہ ملاقات ہوگی۔"
"اوکے۔" سوزین جواباً ہالہ کو دیکھتے ہوئے اُداسی سے مسکرا دی، جس پر ہالہ نے بنا وقت ضائع کیے اپنے قدم دروازے کی جانب بڑھا دیے۔
"سنو؟" ابھی ہالہ دروازے تک ہی پہنچی تھی کہ تبھی پیچھے سے سوزین کی آواز سنائی دی۔
"ہاں؟" ہالہ سوزین کی آواز پر آہستگی سے رُک کر پلٹی، ساتھ ہی سوالیا نگاہیں سوزین کے چہرے پر گاڑھیں۔
"تھینک یو سو مچ! میری مدد کرنے کے لیے۔" سوزین نے یہ جملہ مسرت اور ملال سے مسکرا کر ادا کیا تھا۔
"یاد رکھو یہ میرا فرض ہے احسان نہیں، آخر کو... اپنی کمائی مجھے بھی تو حلال کرنی ہے۔" سوزین کو دیکھتے ہوئے ہالہ بھی جواباً بے اختیار مسکرا دی۔ (اِس پوری گفتگو میں ہالہ پہلی بار مسکرائی تھی۔)
"اور اگر میں تمہیں پے (pay) نہ کروں تو؟" سوزین نے ہالہ کی بات پر ہلکی شوخی سے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا۔
"حمم..." ہالہ نے اُس کے سوال پر لمحے بھر کو سوچا پھر سنجیدگی مگر نرمی کے ساتھ بولی۔ "تب تم احسان کہہ سکتی ہو۔" اُس کی بات پر سوزین بے اختیار ہلکا سا ہنس دی، جس پر ہالہ بنا کچھ کہے اُسی سنجیدگی اور نرمی کے ساتھ دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔
<•><•><•><•><•><•><•><•><•><•>
سفید دیواروں والے ایک چھوٹے سے مکان کے آگے سیاہ رنگ کی جیپ آرکی تھی، جو کہ سردیوں کی ٹھنڈی سی دھوپ میں دمکتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ اُس جیپ کے اندر سے انویسٹیگیٹر (investigator) شاداب آنکھوں پر سیاہ سن گلاسز لگائے باہر نکلا، وہیں ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان پراسیکیوٹر زرباف شاہ نے بھی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر قدم رکھے۔ بلیو رنگ کی ڈھیلی سی بٹن ڈاؤن شرٹ جس کے نیچے سیاہ رنگ کی پینٹ موجود تھی، خلافِ معمول اُس نے آج بالوں کو جیل سے سیٹ نہیں کیا تھا بلکہ آج وہ بکھرے ہوئے تھے، دائیں ہاتھ میں قیمتی رولیکس اور پیروں میں ہمیشہ کی طرح سیاہ تازہ پالش کردہ جوتے پہن رکھے تھے۔ وہ دونوں اببات کی مکان کے گیٹ کے سامنے کھڑے تھے، زرباف نے جیب سے ایک چھوٹی سی چابی (جو کہ وہ پہلے ہی شاداب سے مانگ چکا تھا) نکال کر دروازے پر لگا لاک کھولا۔ دروازہ اگلے ہی لمحے ہلکی سی آواز کے ساتھ کھلتا چلا گیا، شاداب اور زرباف نے ایک دوسرے پر سرسری سی نگاہ ڈالی اور پھر اندر کی جانب قدم بڑھا دیے۔ مکان بہت زیادہ بڑا نہیں تھا، اندر بس ایک لاؤنج، بیڈروم، کچن اور ایک ڈرائنگ روم موجود تھا۔ زرباف ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو دیکھا وہاں ابھی بھی فرش پر ذرا سا خون پڑا تھا جس کی بوُ ابھی تک فضا میں پھیلی ہوئی تھی لیکن پہلے کے مقابلے کم تھی، شاداب اور زرباف نے فوراً ہی جیب سے ماسک نکال کر پہن لیا تھا۔ جمے ہوئے خون کے علاوہ فرش پر (جہاں سے صائم کی لاش ملی تھی) چاک سے خاکہ بنا تھا۔ چھ دن سے یہاں کوئی نہیں آیا تھا، صائم کی باڈی فارنسک بھجوادی گئی تھی اور سوزین جیل میں تھی۔ پولیس نے اب تک گھر کی تلاشی نہیں لی تھی تبھی تو ابھی تک کسی کے بھی ہاتھ کوئی ثبوت نہیں لگا تھا۔
"تم ایسا کرو بیڈروم اور لاؤنج چیک کرو، میں کچن اور ڈرائنگ روم دیکھتا ہوں۔" زرباف نے شاداب کو تاکید کرتے ہوئے جیب سے سفید رنگ کے گلوز (gloves) نکال کر ہاتھوں پر چڑھائے تھے۔
"جی سر۔" زرباف کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے شاداب نے اپنا کام شروع کیا تھا۔ (اِس وقت زرباف پراسیکیوٹر کم' تفتیشی افسر زیادہ لگ رہا تھا، اور شاداب تفتیشی افسر کم' زرباف کا اسسٹنٹ زیادہ لگ رہا تھا۔)
پورے بیس منٹ لگا کر زرباف نے ڈرائنگ روم اچھے سے چیک کیا تھا لیکن چند خون کے کتروں کے علاوہ، اُس کے ہاتھ کچھ اور نہیں آیا تھا۔ ڈرائنگ روم کا کام ختم ہوا تو زرباف نے سیدھا کچن کا رُخ کیا تھا۔ سفید اور براؤن رنگ کی تھیم کا اِسٹائلش کچن، سوزین کو شاید صفائی کا کافی شوق تھا اِس بات کا اندازہ اُس کچن کی چمک کو دیکھ کر لگایا جا سکتا تھا۔ کیبنٹ، فریج، اوون، ہر ایک چیز کو اچھے سے چیک کرنے کے باوجود بھی کھانے پینے کے سامان کے علاوہ اُس کے ہاتھ کچھ نہیں آسکا تھا۔ تھک ہار کر آخر میں زرباف اب سلیب کے نزدیک آیا تھا، سلیب کے اوپر آٹومیٹک چولہا، نائف ہولڈر (knife holder) اور مصالوں سے بھرے ڈبوں کے علاوہ اور کچھ موجود نہیں تھا۔ زرباف نے جب نائف ہولڈر پر نگاہ ڈالی تو یکایک ہالہ کے کہے گئے الفاظ اُس کے دماغ میں گونجے تھے۔
(فارنسک لیب سے معلوم ہوا ہے کے صائم کے پیٹ میں تین بار چاقو گھونپا گیا تھا، لیکن مرڈر ویپن ابھی تک ہاتھ نہیں آیا ہے۔) اچانک کسی خیال پر زرباف نے ایک جھٹکے سے نائف ہولڈر میں لگے چار چاقؤوں کو تیزی کے ساتھ باہر نکالا تھا، پہلا تو بلکل صاف تھا جیسے کبھی استعمال ہی نہ ہوا ہو، بلکل ایسے ہی دوسرا اور تیسرا بھی تھا لیکن چوتھا...
زرباف کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں، چوتھے چاقو پر خون لگا تھا جو اب تک جم چکا تھا۔ شاید صائم کا مرڈر اِسی چاقو سے کیا گیا تھا۔
"سر کچھ نہیں مل..." شاداب تھکے تھکے انداز میں کہتے ہوئے کچن میں داخل ہوا تھا کے تبھی زرباف کے ہاتھ میں موجود اُس چاقو کو دیکھ کر اُس کی زبان کو بریک لگے تھے۔
"یہ...؟"
"ذرا دیکھو تو شاداب، ہم نے ایویڈینس (evidence) ڈھونڈ نکالا ہے! ذرا جلدی سے مجھے پلاسٹک بیگ دو!" زرباف کے کہتے ہی شاداب نے جھٹ سے ایک پلاسٹک بیگ جیب سے نکال کر زرباف کو تھمایا۔
"یہ آپ کو کہاں سے ملا؟" شاداب نے ماتھے پر بل لیے پوچھا۔
"اِس نائف ہولڈر سے۔" زرباف نے کہتے ہوئے نائف ہولڈر کی جانب آنکھوں سے اشارہ کیا، ساتھ ہی پلاسٹک بیگ کو کھول کر بڑی ہی احتیاط کے ساتھ چاقو اُس میں ڈالا اور بیگ کو واپس بند کیا۔
"اِس کو لیب بھیجو، مجھے شک ہے کہ یہی قاتل کا ہتھیار ہے۔ اِس چاقو پر لگے خون اور فنگر پرنٹس سے ہی اصل قاتل کا پتا چلے گا۔" زرباف نے پلاسٹک بیگ اب شاداب کی طرف بڑھایا۔
"جو حکم سر، کچھ اور بھی ڈھونڈنا ہے یا واپس چلیں؟" شاداب نے سر کو خم کرتے ہوئے زرباف کے ہاتھ سے پلاسٹک بیگ لیا۔
"نہیں میں نے پورا گھر اچھے سے چیک کرلیا ہے، ہمیں اب واپس چلنا چاہیے لیکن اُس سے پہلے ہمیں ایک بار 'بیٹر بائٹس' مارٹ کا چکر ضرور لگانا چاہیے کیا پتا کوئی معلومات ہمارے ہاتھ آجائے۔" زرباف نے ہاتھوں میں موجود دستانے اُتارتے ہوئے کہا۔
"آپ نے ٹھیک کہا۔" شاداب نے متفق ہوتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
<•><•><•><•><•><•><•><•><•><•>
دن کے وقت مارٹ میں رش کم ہونے کے باعث خاموشی طاری تھی، جب زرباف اور شاداب مارٹ میں داخل ہوکر سیدھے کاؤنٹر کی جانب بڑھے تھے (ایک عجیب چیز تھی جو اُن دونوں نے بخوبی نوٹس کی تھی کے اُس مارٹ کے باہر کوئی سیکیورٹی گارڈ موجود نہیں تھا۔)۔ کاؤنٹر پر موجود شاپ کیپر (shopkeeper) اپنی بےسری آواز میں بڑے مزے سے گانا گاتے ہوئے' ہاتھ میں پکڑی پانچ ہزار کے نوٹوں کی گڈی گننے میں خاصہ مصروف نظر آرہا تھا۔
"بنگلہ، موٹر، کار، دلا دے...
ایک نہیں تو چار دلا دے...
مجھ کو ائیر پلین دلا دے...
دنیا بھر کی سیر کرا دے...
ایسے ویسوں کو دیا ہے،
مجھ کو بھی تو لفٹ کرا دے...
تھوڑی سی تو لفٹ کرا دے۔"
وہیں اُس کے برابر میں بیٹھا کیشئیر (جو کہ شکل سے کم عمر معلوم ہو رہا تھا) خاموشی اور بےحد سستی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا سینڈوچ کھانے میں مگن تھا، بلکل کسی سست کچھوے کہ طرح۔
"احمم... احمم..." اُن دو نمونوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے زرباف نے کاؤنٹر تک پہنچ کر اپنا گلہ کھنکارا تھا۔
"جی فرمائیں کیا چاہیے آپ کو؟" زرباف کی آواز پر شاپ کیپر نے نوٹ گنتے ہوئے ہاتھ روک کر ایک چبھتی ہوئی تیکھی نگاہ اُس کے چہرے پر ڈالی (اُس کا گانا بھی بند ہوچکا تھا) کیونکہ گانے اور گنتی کے دوران ڈسٹربنس (disturbance) پیدا کرنے والے افراد سے اُسے بےحد چڑ تھی، اور زرباف صاحب تو آتے کے ساتھ ہی دونوں کام اکٹھے کرچکے تھے۔
"کچھ انفارمیشن چاہیے۔" زرباف بولا تو اُس کے چہرے پر سنجیدگی طاری تھی۔
"وہ تو یہاں نہیں ملتی، یہاں صرف کھانے پینے کا سامان ملے گا آپ کو۔" شاپ کیپر نے اب کی بار جلدی اور بڑی ہی معصومیت سے جواب دیا، جس پر شاداب نے چہرہ جھکا کر بمشکل اپنی اُبلتی ہنسی روکی تھی۔
(چوتھی فیل!) زرباف مقابل کی بات پر منہ ہی منہ میں شدید ناگواری سے بڑبڑایا، جس کے بعد اُس نے ضبط سے ایک بار پھر قدرے سنجیدگی اور نرمی سے کہا۔ "لیکن مجھے انفارمیشن ہی چاہیے!"
"کہا نہ یہاں نہیں ملتی، اب میرا وقت ضائع نہ کرو اور جاؤ یہاں سے!" شاپ کیپر زرباف کی ڈھٹائی کو دیکھ کر جواباً طیش سے بولا۔
"تیرا تو باپ بھی دے گا انفارمیشن!" زرباف مقابل کے انداز پر یکایک بگڑ کر بولا، شاپ کیپر کی بات سن کر اُس کا اچانک خون کھول اُٹھا تھا۔
"لیکن وہ تو آٹھ سال پہلے فوت ہوچکا ہے۔" زرباف کی بات پر اُس شاپ کیپر نے غصہ بھلا کر ڈرامائی انداز میں افسوس سے نفی میں سر ہلایا، وہ اب بجھا بجھا سا دکھائی دے رہا تھا' چند سیکنڈز میں شاپ کیپر کے تاثرات بدلے تھے۔ (ایک بات تو واضح تھی، اُسے اداکار بننے کا شوق تھا۔)
"دس نومبر کی رات یہاں کس کی ڈیوٹی تھی؟" مقابل کی اوور ایکٹنگ (over acting) کو نظرانداز کرکے، ایک گہری سانس لے کر زرباف نے خود کو نارمل کیا اور پھر ضبط سے استفسار کیا۔
"یہ مارٹ میری ہے تو ظاہر ہے میری ہی ڈیوٹی تھی۔" شاپ کیپر جواباً شانے اچکا کر پہلی بار نارمل انداز میں بولا۔
"اِس لڑکی کو غور سے دیکھو، کیا یہ دس نومبر کی رات تقریباً دس بجے کے قریب یہاں آئی تھی؟" جیب سے سوزین کی تصویر نکال کر زرباف نے شاپ کیپر کے سامنے لہرائی۔
"یہاں تو کئی لوگ آتے ہیں، اب میں سب کو تو یاد نہیں رکھ سکتا۔" شاپ کیپر نے سرسری سی نگاہ تصویر پر ڈالی اور پھر لاعلمی سے ایک بار پھر کندھے اچکائے۔
"پھر بھی تمہیں کچھ تو یاد ہوگا؟" زرباف نے زور دے کر پوچھا۔
"نہیں سر... کچھ نہیں یاد۔" شاپ کیپر نے کافی دیر سوچنے کے بعد جواب دیا، جس پر زرباف نے بےبسی سے سر جھٹکا۔
"تمہیں یاد ہے کچھ؟" اب کی بار وہ برابر میں بیٹھے کیشئیر (جو کہ کافی دیر سے سینڈوچ کھاتے ہوئے زرباف کو خاموش نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔) سے نرمی سے مخاطب ہوا، جس کا جواب ایک بار پھر شاپ کیپر کی جانب سے موصول ہوا۔
"ارے اِس سے مت پوچھیں، اِس کو تو بھولنے کی بیماری ہے۔ اِسے تو یہ بھی یاد نہیں رہتا کے اِس نے کھانا کھایا ہے یا نہیں، جبھی تو یہ دن کا اِس کا تیسرا سینڈوچ ہے، یہ دو کھا کر بھول چکا ہے۔" شاپ کیپر کی یہ بات زرباف کو مزید تپا گئی، اُس نے ناگواری اور ضبط سے دوبارہ سر جھٹک دیا' آج کا دن ہی منحوس تھا۔ کچھ دیر بعد واپس چہرہ اُٹھا کر اردگرد نظر دوڑا کر جب یکایک اُس کی نگاہ چھت پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی جانب اُٹھی تو وہ شاپ کیپر کو دیکھتے ہوئے بولا۔ "ٹھیک ہے پھر... مجھے تمہاری مارٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنی ہے۔"
"وہ تو نہیں ہے سر، ہم نے سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں لگایا ہوا۔" شاپ کیپر نے ہچکچاتے ہوئے بڑی ہی صفائی سے جھوٹ بولا تھا۔
"تو پھر وہ کیا ہے؟" زرباف نے پیشانی پر بل لیے ہاتھ سے چھت پر لگے کیمرے کی جانب اِشارہ کیا۔
"وہ؟" شاپ کیپر نے زرباف کے اشارہ کرنے پر چھت کی جانب نگاہ ڈالی اور پھر واپس زرباف کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرا کر سرعت سے بولا۔ "وہ تو چار سال سے خراب ہے۔"
"ہم نے بس چوری سے بچنے کے لیے لگایا ہوا ہے تاکہ کیمرہ دیکھ کر چوروں کے اندر پکڑے جانے کا ڈر سلامت رہے اور وہ چوری نہ کرسکیں۔" اگلی بات شاپ کیپر نے ذرا آگے جھک کر کہی تھی، اُس کی آواز بھی رازدارانہ سرگوشی میں بدل گئی تھی۔
"تیری تو!!" زرباف مقابل کی بات سن کر بے اختیار طیش سے بول کر آگے بڑھا تھا (شاپ کیپر کو زمین میں گاڑنے کے ارادے سے)، جس پر مقابل بھی ذرا سہم کر واپس پیچھے کو ہوا تھا۔ شاپ کیپر کی عقلمندی دیکھ کر زرباف کا غصے سے پارہ ہائی ہوا تھا۔ شکر ہے کے اِس وقت اُسے کے پاس گن موجود نہیں تھی، کیونکہ اگر گن موجود ہوتی تو آج شاپ کیپر زرباف کے ہاتھوں فوت ہوجاتا۔
"کک... کنٹرول سر کنٹرول!" زرباف کا بڑھتا غصہ دیکھ کر شاداب (جو کافی دیر سے خاموش تماشائی بنا کھڑا تھا) نے آگے بڑھ کر اُسے روکا اور ٹھنڈا کرنا چاہا۔
"پتا نہیں کن بیوقوفوں میں پھنس گیا ہوں، چلو یہاں سے!" انتہائی بگڑے تاثرات کے ساتھ زرباف نے ایک کڑی نگاہ شاپ کیپر اور کیشئیر پر ڈالی، جس کے بعد وہ ایک پل مزید وہاں نہ ٹہرا اور شاداب کا ہاتھ جھٹک کر' پیر پٹختے ہوئے سیدھا باہر کی جانب بڑھ گیا۔ اُس کے غصے کا اندازہ مارٹ کا دروازہ بند کرنے کی آواز سے پتا لگایا جا سکتا تھا، شاداب نے زرباف کی اِس حرکت پر تھکے ہوئے انداز میں گہری سانس خارج کرتے ہوئے ایک سرسری سی نگاہ شاپ کیپر اور کیشئیر پر ڈالی (جو بگڑے ہوئے تاثرات کے ساتھ دروازے کی جانب دیکھ رہے تھے) اور پھر دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا زرباف کے پیچھے چل دیا۔
"دروازہ تو ایسے مار کر گیا ہے جیسے اِس کے باپ کی مارٹ ہو!" شاداب کے جانے کے بعد پیچھے بیٹھا شاپ کیپر شدید ناگواری سے دروازے کو گھور کر بڑبڑایا اور پھر واپس اپنے کام میں منہمک ہوگیا۔
-
"عجیب بیوقوف انسان تھا!" ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان زرباف نے کوفت سے کہتے ہوئے چابی اگنیشن میں گھمائی، اُس کا غصہ اب ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ (یہ تو ہمیشہ کا معمول تھا' جب بھی زرباف کو کسی کیس میں ثبوت یا معلومات نہیں مل پاتی تھی، تب اُس کو ایسے ہی غصہ چڑھتا تھا۔)
"غصہ کیوں کرتے ہیں، ویسے بھی ایک ایویڈینس تو مل ہی چکا ہے۔" برابر میں موجود شاداب نے اطمینان سے اُسے تسلی دی۔
"ہاں شکر ہے۔" شاداب کی بات پر اُس نے متفق ہوتے ہوئے سکھ کا سانس لیا، گاڑی بھی اب اسٹارٹ ہوچکی تھی۔
"تم جلد ہی اُس ایویڈینس کو لیب بھجوا دو ٹائم کم ہے ہمارے پاس۔" زرباف نے حکمیہ انداز میں کہتے ہوئے، گاڑی سڑک پر دوڑائی۔
"ضرور سر۔" شاداب اُس کی تاکید کے جواب میں بولا۔
<•><•><•><•><•><•><•><•><•><•>
0 Comments
Post a Comment