مصنفہ: حمیرا رحمان

باب نمبر ۱: عجیب کیس

-

گروسری آئٹمز سے لبریز ٹوکری اُس نے کاؤنٹر پر لا کر رکھی تھی، کاؤنٹر کے دوسرے پار کھڑے کیشئیر (cashier) نے اپنی نگاہ بلند کر کے اپنے سامنے موجود' اُس لڑکی پر نگاہ ڈالی۔ تیکھے نین نقوش، شفاف سرخ و سفید رنگت، گہری سیاہ چمکدار پرکشش آنکھیں، شانوں تک آتے بال جنہیں اُس نے کھلا چھوڑ رکھا تھا (جو تھے تو سیاہ رنگ کے لیکن اُن میں ہلکی بھوری جھلک بھی موجود تھی)، ساتھ ہی ٹھنڈ کے باعث اُس لڑکی کی ناک ذرا سی گلابی ہو رکھی تھی۔ اُس کے نین نقوش عام تھے لیکن اُس کے چہرے پر بےپناہ کشش تھی۔ چہرے کے بعد کیشئیر نے اب اُس کے کپڑوں کا جائزہ لینا شروع کیا تھا، اُس نے بھورے رنگ کا ڈبل سوئیٹر زیب تن کر رکھا تھا شاید اُسے سردی زیادہ لگتی تھی، گردن کے گرد اُس نے گرم مخملی سفید اسکارف لپیٹ رکھا تھا اور سر کے اوپر اسکارف کے ہی ہم رنگ کا اونی ٹوپا موجود تھا، وہ لڑکی اِس وقت ذرا کیوٹ دکھائی دے رہی تھی۔ اُس کا جائزہ اچھے سے لینے کے بعد کیشئیر نے اب ایک نظر اُس کی سامان سے بھری ہوئی ٹوکری پر بھی دوڑائی اور پھر اگلے ہی پل اُس کے سامان کا بل بنانا شروع کیا۔

"تھوڑا...جلدی پلیز..." اُس کیشئیر کی کچھوے جیسی رفتار کو دیکھ کر سوزین نے ذرا اکتا کر کہا، وہ ہر ایک چیز کو ٹوکری میں سے نکال کر اُسے کسی نوادرات کی طرح غور سے دیکھتا اور پھر نہایت سستی کے ساتھ اسکین (scan) کرتا۔ سوزین کی آواز پر اُس کیشئیر نے ایک لمحے کے لیے چبھتی ہوئی نگاہ اُس کے چہرے پر ڈالی اور پھر بنا کچھ اثر لیے اپنا کام جاری رکھا۔ سوزین نے بےچینی کے عالم میں سوئیٹر کی جیب سے موبائل نکال کر ٹائم دیکھا، چمکتی ہوئی اسکرین پر رات کے ساڑھے دس بجے کا وقت واضح ہوا تھا۔ اُس نے موبائل واپس جیب میں ڈالا اور پھر بیزاری سے سامنے چلتا منظر دیکھا جہاں کیشئیر اپنی سابقہ سستی کے ساتھ کام میں مصروف تھا۔ (شاید پوری ٹوکری کا بل مکمل ہوتے ہوتے صبح ہوجائے گی) سوزین نے سوچ کر تھکے ہوئے انداز میں سر جھٹک دیا۔

پورا آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا اور کافی انتظار، دو سو دعائیں اور کیشئیر کو من ہی من کوسنے کے بعد اُس کا بل بن چکا تھا، گھڑی اِس وقت فکس رات کے گیارہ بجا رہی تھی۔ بل بنا کر کیشئیر نے اُس سے پیمنٹ (paymemt) وصول کی اور پھر سوزین کا تمام سامان شاپرز میں پیک کرنا شروع کیا۔ 

"یہ میں کر لیتی ہوں۔" اُس کی سستی دیکھ کر سوزین نے اُسے مزید محنت کرنے کی زحمت نہ دی، آخر وہ دیتی بھی کیوں؟ آدھے گھنٹے مسلسل ایک ہی پوزیشن میں کھڑے اب اُس کی ٹانگیں دکھ چکی تھیں، وہ اپنا مزید نقصان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ تبھی اُس نے تمام شاپرز ایک جھٹکے سے کیشئیر کے ہاتھ سے چھینے اور اپنا سامان تیزی سے اُن میں بھرنا شروع کیا تاکہ جلدی گھر جاسکے۔ کیشئیر نے بھی اُس کی اِس حرکت پر بےنیازی سے ذرا سے شانے اچکائے اور پھر اپنے موبائل پر مصروف ہوگیا، گویا اُسے فرق ہی نہ پڑتا ہو۔

(سست کچھوا!) سامان شاپرز میں رکھتے ہوئے اُس نے ناپسندیدگی سے ایک نظر اُس کیشئیر کو دیکھا اور پھر سر جھٹک کر کافی ہلکی آواز میں بڑبڑائی تھی (تاکہ سست کچھوا دوبارہ اُسے چبھتی ہوئی نگاہ سے نہ دیکھے)۔

مارٹ سے باہر آکر سوزین نے سکھ سے بھری سانس اپنے اندر کھینچی، ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ کسی قید خانے سے رہا ہوکر آرہی تھی۔ مارٹ اُس کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی، تبھی واپسی کا راستہ بھی سوزین نے پیدل ہی تہہ کیا تھا۔ رات آج روز کی بانسبت کافی حد تک سرد تھی' اِس کی وجہ صبح سے وقفے وقفے سے ہوتی بارش تھی جو کبھی موسلادھار تو کبھی مدھم بوندوں کی صورت برستی رہی تھی مگر اب رک چکی تھی، خالی سنسان پڑی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہلکی گیلی سڑک کو اسٹریٹ لائٹس سے نکلتی زرد کمزور روشنی ذرا سا روشن کرنے میں مدد کر رہی تھیں، بارش کی سوندھی سی خوشگوار مہک ابھی بھی فضاؤں میں رچی بسی تھی، برفیلی خشک ہوائیں ہڈیوں تک کو چیرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں، بادلوں نے گویا چاند کو قید کر رکھا تھا، اور یہ سبھی چیزیں مل کر ایک پراسرار منظر پیش کر رہی تھیں۔ ایسے میں سوزین تنہا' قدم بڑھاتی' ہاتھ میں شاپرز تھامے اپنی منزل کی سمت بڑھ رہی تھی، (سنسان ماحول میں صرف سوزین کے قدموں کی گونج تھی) اور پھر کچھ دیر میں اپنے گھر کے دروازے کے سامنے اُس نے اپنے قدموں کو روکا تھا، موٹی لکڑی کے بنے مظبوط سفید دروازے کو دیکھ کر اگلے ہی لمحے اُس کی پیشانی پر تشویش کے بل نمودار ہوئے تھے۔ ہم سبھی جب بھی کسی ارادے سے گھر سے باہر جاتے ہیں تو ہمیشہ مین دروازہ لاک کرکے جایا کرتے ہیں اور جب واپس لوٹتے ہیں تو چابی کی مدد سے لاک کو کھول لیا کرتے ہیں۔ لیکن سوزین کے گھر کا دروازہ تو کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہا تھا، دروازے پر لاک تو موجود تھا لیکن وہ اصول کے مطابق بند ہونے کی بجائے کھلا دکھائی دے رہا تھا۔

"لاک..." اُس نے آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر اچھنبے سے خاصہ غور سے اُس لاک پر نگاہ ڈالی تھی۔ چند ہی سیکنڈز میں اُس کے الجھے ہوئے تاثرات اب پریشانی میں تبدیل ہوئے تھے کیونکہ سوزین اُن لوگوں میں سے تھی جو گھر سے باہر قدم نکالتے ہوئے ہر قسم کی قیمتی چیز تو بھول سکتے تھے لیکن دروازے پر لاک لگانا کبھی نہیں۔ 

(کیا کوئی اندر ہے؟....) کسی انجانے خوف کے زیر اثر اُس نے سوچتے ہوئے خود سے سوال کیا۔

(چور؟... ڈاکو؟... خونی؟...) ناجانے کتنے ہی عجیب خیالات اُس کے ذہن میں گردش کرنے لگے تھے، سخت سردی میں بھی اُس کے ماتھے پر پسینے کے چند قطرے نمایاں ہوئے تھے۔

"ارے نہیں، میرے تمام پیسے اور اہم ڈاکیومنٹس تو اندر ہی ہیں!" یکایک ایک خیال کے آنے پر اُس کی فکر میں مزید اضافہ ہوا۔

"لگتا ہے مجھے اندر جا کر دیکھنا ہوگا۔" اُس نے تھوک نگلتے ہوئے خود کی ہمت افزائی کی اور پھر پیشانی پر چمکتا ہوا پسینہ آستین کی مدد سے رگڑ کے صاف کیا جس کے بعد سوزین نے نہ آؤ دیکھا تھا نہ تاؤ، وہ ایک جھٹکے سے لکڑی کے بھاری دروازے کو دھکیل کر گھر میں داخل ہوئی تھی۔

اُس کے پورے گھر میں اِس وقت تاریکی اور سناٹے کا راج تھا، گھڑی (جو کہ اِس وقت رات کے سوا گیارہ بجے کا وقت دکھارہی تھی) کی ٹک ٹک میں سارا ماحول لمحے بھر کو سرد محسوس ہوا تھا۔ سوزین نے بڑی ہی پھرتی کے ساتھ سوئچ بورڈ تلاش کر کے اُس پر ہاتھ مارا، اگلے ہی لمحے پورا کامن روم سفید بتی سے جل اُٹھا تھا۔

(کیا چور اپنا کام کر کے جا چکا ہے؟) سوزین نے خالی کامن روم کا جائزہ لیتے ہوئے سوچا تھا۔

(کیا پتا کوئی اندر ہو...) پھر کسی خیال نے اُسے خوفزدہ کیا تو اُس نے کامن روم میں رکھے صوفے پر اپنے ہاتھ میں پکڑے تمام شاپرز رکھے اور احتیاط کے ساتھ آہستگی سے اپنے قدم آگے بڑھائے' جیسے ہر خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو، کامن روم کی طرح کچن بھی اُسے بلکل خالی ملا تھا جس کے بعد اُس نے ڈرائنگ روم کا رُخ کیا۔ ڈرائنگ روم کی لائٹ بند ہونے کے باعث اُسے کچھ ٹھیک سے نظر نہیں آرہا تھا، بس ایک عجیب سی جانی پہچانی سی بوُ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ بوُ اِتنی تیز تھی کہ پورے کمرے میں گھٹن پیدا کر رہی تھی، سوزین نے بے ساختہ اپنی ناک پر ہتھیلی رکھی تھی کیونکہ سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ اُس نے بہت ہی ہمت کے ساتھ سوئچ بورڈ ڈھونڈ کر لائٹ آن کی اور تبھی اگلا منظر دیکھ کر اُس کی نظر ساکت و جامد ہوگئی تھی، وجود نے حرکت کرنا بند کردیا تھا، چہرے کا رنگ یکایک ہی سفید پڑ گیا جیسے جسم سے سارا خون نچڑ گیا ہو، آنکھیں حیرت اور خوف سے اُبل کر باہر آنے کو تھیں۔

"صائم!!!؟؟؟" اور آخر میں اُس کی دہشت میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی، جس کے ساتھ ہی ایک فلک شگاف چیخ اُس کے گلے سے نمودار ہوئی تھی۔


<•><•><•><•><•><•><•><•><•><•>


اِس چھوٹے سے چیمبر میں داخل ہو تو سامنے ہی لکڑی کی بھاری سی مضبوط میز رکھی تھی جس پر فائلوں کے ڈھیر اور نوٹ بکس ایک طرف جمع تھے۔ دیوار کے ساتھ ایک لمبا سا ریک تھا جس میں قانون کی موٹی اور بھاری کتابیں ترتیب سے سجی ہوئی تھیں، کچھ پرانے ایڈیشن اور کچھ نئے۔ ریک کے ساتھ ہی ایک کھڑکی موجود تھی جو کہ بند نظر آرہی تھی تاکہ باہر چلتی سرد ہوائیں اُس کے چیمبر میں داخل نہ ہوسکیں۔ چھت پر لگا پنکھا بھی ٹھنڈ کے باعث بند کر رکھا تھا، یہ چیمبر کسی شان و شوکت کا نہیں بلکہ روزمرہ کی محنت اور سچائی کی خوشبو دیتا تھا۔ اب بات کرتے ہیں اُس چیز کی، جو چیمبر میں داخل ہوتے ہی ہر شخص کی نگاہ کو چونکا دیتی تھی' اور یہ چیز تھی دیوار پر لگی بڑی سی تصوریر۔ یہ عام تصویر نہ تھی، نہ یہ چیمبر عام تھا کہ اندر داخل ہوتے ہی قائداعظم اور علامہ اقبال کی تصویریں آپ کا استقبال کریں۔ یہ تصویر تو دراصل مشہور جاپانی اینمی سیریز 'ڈیتھ نوٹ' کے کردار 'ایل لولائٹ' کی تھی، جسے وہ اپنے استاد کا درجہ دیتی تھی۔ تصویر میں ایل عرف ریوزاکی (ایل کا دوسرا نام) صوفے پر بیٹھا ہوا تھا، اُس کے بیٹھنے کا انداز بےحد مختلف اور عجیب تھا' بلکل اُس کی ذات کی طرح۔ گھٹنوں کو سینے سے لپیٹے، پیر اوپر کر کے سکڑا ہوا، جیسے دنیا سے لاتعلق بیٹھا ہو۔ اُس نے ہاتھ میں ایک پیسٹری تھام رکھی تھی جسے وہ شدید اکتاہٹ اور سستی سے کھاتا ہوا نظر آرہا تھا۔ آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ حلقے، جو اُس کی جاگتی راتوں اور مسلسل سوچ میں ڈوبے رہنے کی گواہی دے رہے تھے، بال بےترتیب اور بکھرے ہوئے تھے۔ یہ تصویر محض ایک کارٹون نما کردار کی عکاسی نہ تھی، بلکہ اُس کی نظر میں ایک فلسفہ تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ جیسے ایل معمے سلجھانے کے لیے عقل، باریک بینی اور الگ طریقہ استعمال کرتا تھا، ویسے ہی ایک وکیل کو بھی صرف کتابی قانون پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہر کیس کو تحقیق اور تجسس کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اب اگر اُس تصویر کے آگے رکھی لکڑی کی میز کی جانب آؤ' تو اُس کے پیچھے موجود کرسی پر ایک لڑکی بیٹھی تھی جس کی عمر اُنتیس سال معلوم ہو رہی تھی۔ برف جیسی سفید بےداغ رنگت بلکل پریوں کی کہانی کی سنو وائٹ کی طرح، پرکشش بھوری آنکھیں، سلکی سیدھے بھورے بال جو کسی نرم آبشار کی طرح تھے اور قمر تک آتے تھے (اگر پیچھے سے دیکھو تو وہ انگریزی حرف 'یو' کی شکل میں کٹے تھے)، جنہیں اُس نے کیچر کی مدد سے آدھا باندھ رکھا تھا اور معمول کے مطابق دو لٹیں (جو کہ زیادہ لمبی نہیں تھیں اُس کی ناک تک آتی تھیں) چہرے پر جھول رہی تھیں، ہالہ کے چہرے پر دُنیا جہاں کی معصومیت رقصاں تھی۔ اُس کی بھوری نگاہیں سامنے ٹیبل پر رکھے لیپ ٹاپ کی چمکتی ہوئی اسکرین پر مرکوز تھیں، لیپ ٹاپ کے برابر میں گرما گرم بلیک کافی سے بھرا ہوا مگ اور ڈارک چاکلیٹ کا ایک پیکٹ کھلا رکھا تھا جس کے اندر موجود چاکلیٹ وہ آدھی کھا چکی تھی' اُسے کڑوی چیزوں سے عشق جو تھا (یہ ایک چیز تھی جس میں اُسے اپنے استاد سے اختلاف تھا، جہاں ایل لولائٹ میٹھے ذائقے کا شوقین تھا وہیں ہالہ کو کڑوے ذائقے سے عشق تھا)۔ نظریں لیپ ٹاپ پر جمائے وہ وقفے وقفے سے بلیک کافی کا کڑوا گھونٹ اپنے اندر اُتار رہی تھی، نومبر کی سخت سردی میں کافی کا وہ گرم گھونٹ اُس کی روح تک سکون بخش رہا تھا۔ 

"برتن دھونے پر جھگڑا! گجرانوالہ میں بڑی بہن نے چھوٹی بہن کو چھری کے وار کر کے قتل کر ڈالا! پولیس نے ملزمہ کو گرفتار کر لیا ہے، محسن خالد کی رپورٹ۔"

مگ کو لبوں سے لگائے وہ بڑے اطمینان سے گھونٹ بھر رہی تھی جب لیپ ٹاپ پر چلتی ہوئی ہیڈ لائن کو سن کر اُسے بے اختیار زور کا جھٹکا اور پھندا' دونوں ساتھ لگے تھے، اُس نے عجلت میں مگ کو واپس ٹیبل پر رکھا اور وہ بے اختیار کھانس اُٹھی۔ کھانسی کی شدت سے آنکھوں میں ہلکی نمی اُتر آئی اور چہرے پر سرخی، مگر پھر آہستہ آہستہ اُس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کھانسی پر قابو پایا۔ ایک لمبی اور گہری سانس کھینچ کر اُس نے اپنے آپ کو بحال کرنے کی کوشش کی تاکہ چہرے کی بکھری ہوئی کیفیت دوبارہ معمول پر آسکے۔

"یا میرے اللہ! یہ آج کل کس قسم کے کیسز آنے لگے ہیں!؟ یہ بھی بھلا کوئی بات ہوئی؟ برتن دھونے پر جھگڑا! لگتا ہے مجھ پر اللہ کا کوئی خاص کرم ہے، جبھی تو میری کوئی بڑی بہن نہیں ہے۔ پہلی بار مجھے اکلوتی اولاد ہونے پر خوشی اور فخر محسوس ہورہا ہے۔" اپنی کھانسی پر قابو پاکر' خود کو نارمل کرکے، وہ اب حیرت زدہ نظروں سے اسکرین کو تک رہی تھی۔ تبھی اگلے ہی لمحے کسی نے انگلی کی پشت سے اُس کے آفس کے دروازے پر بہت ادب کے ساتھ دھیرے سے دستک پیش کی۔ اُس نے بڑی ہی پھرتی کے ساتھ نیوز ہٹا کر لیپ ٹاپ بند کیا اور پھر جھٹکے سے سیدھی ہوکر بیٹھی (ضرور باہر کوئی نیا کلائنٹ تھا کیونکہ محراب کی لغت میں تو 'دستک' کا لفظ موجود ہی نہ تھا۔)۔ 

"کم اِن" اُس نے کہتے ہوئے انگلیوں کی مدد سے جلدی جلدی اپنے بال سنوارے (آخر کو کلائنٹ پر بھی تو اچھا امپریشن (impression) ڈالنا تھا) اور پھر ہتھیلیاں آپس میں جوڑ کر ہاتھ ٹیبل پر ٹکائے، گویا خود کو کلائنٹ سے بات کرنے کے لیے تیار کیا۔ تبھی دروازہ کھلا اور ہالہ کے 'فیس' کے متعلق سوچتے سارے خواب اور خیالات چکنا چور ہوئے، کیونکہ اندر داخل ہوتا شخص کوئی کلائنٹ نہیں تھا۔

"آپ کو دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں تھی پراسیکیوٹر شاہ۔" ہالہ نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ آفس کے اندر داخل ہوتی اُس شاندار شخصیت کی جانب دیکھ کر کہا جس کے اندر آتے ہی فضا میں ایک دلکش مہک پھیل گئی تھی، یہ ایک ایسی خوشبو تھی جو فوراً سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتی تھی، یہ ہرگز کسی پرفیوم کی خوشبو نہیں تھی' اُن سے ہٹ کر تھی۔ یہ بات تو پورے عدلیہ کے حلقوں میں مشہور تھی کہ پراسیکیوٹر شاہ کے بالوں سے ایک خاص خوشبو آتی تھی جو نہایت دلکش اور منفرد تھی، عدالت میں موجود ہر فرد کے دماغ میں ہمیشہ یہ سوال اُٹھتا تھا کہ وہ کون سا شیمپو استعمال کرتے ہیں جس کی مہک اُن کی شخصیت اور بالوں کو اِتنا پرکشش بنا دیتی ہے۔ مگر افسوس... اِس بات کا آج تک کسی کو پتا نہیں چلا تھا کیونکہ زرباف اِس مہک کو ایک پوشیدہ راز کی طرح رکھتا تھا، وہ ہمیشہ اِس سوال پر کچھ جواب دینے کی بجائے بس مسکرا کر نظرانداز کر دیتا تھا یا تعریف سمجھ کر سر کو خم کردیتا تھا۔

"مجھے کسی کی پرائیویسی ڈسٹرب کرنا اچھا نہیں لگتا، فرض کریں اگر آپ اندر پھٹی ہوئی آواز میں گانا گنگنا رہی ہوتیں اور میں بے دھڑک اندر داخل ہوجاتا، آپ بلاوجہ میرے آگے شرمندہ ہو جاتیں۔" زرباف شاہ نے سادگی سے کہتے ہوئے شانے ذرا سے اچکائے اور پھر دروازہ بند کیا۔ 

"آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، ایسے کام میں نہیں کرتی۔" زرباف کی بات پر ہالہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے چہرہ جھکا کر بمشکل اپنی ہنسی قابو کی تھی۔ (کیونکہ ایسا پہلے ہو چکا تھا، جب ہالہ اپنے آفس میں اپنی بے سری آواز میں گانا گنگنا رہی تھی اور زرباف بنا دروازہ ناک کیے اندر داخل ہوا تھا، تب ہالہ کو کافی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ کوئی خوبصورت گیت یا غزل گنگنا رہی تھی تو آپ غلط ہیں! وہ تو بالی ووڈ کا مشہور پاپ سانگ 'کانٹا لگا' گنگنا رہی تھی... شاید اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ شرمندہ کیوں تھی!) 

"جانتا ہوں، میں تو مذاق کر رہا تھا۔" زرباف نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور پھر وہ ہالہ کے عین سامنے رکھی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے پرسکون انداز میں براجمان ہوا تھا۔ ساتھ ہی اُس نے ایک نظر ہالہ کے پیچھے لگی تصویر کو دیکھ کر سوچا تھا (جاپانی تاتیا بچھوُ!)۔ زرباف نے ڈیتھ نوٹ نہیں دیکھی تھی، ہمیشہ ہالہ سے ہی اُس ایل نامی مخلوق کے عظیم دماغ کی تعریفیں سنی تھی۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ زرباف نے ایل کی شخصیت کو بس اُس کے ظاہری بکھرے ہوئے حلیے سے جج کیا تھا، تو آپ درست سوچ رہے ہیں!

 وہ کرسی پر براجمان ہوا تو ہالہ نے ایک نظر مقابل کے حلیے اور چہرے پر ڈالی' وجیہہ نقوش، دراز قامت، گندمی رنگت، چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی، مغرور بھاری لہجہ اور ایک متاثرکن شخصیت۔ اب حلیے کی بات کریں تو' نیوی بلیو پینٹ کوٹ کے اندر سادی سفید شرٹ موجود تھی' سلام تھا اُس بندے کو جس نے اُس کا سوٹ اِتنی نفاست سے استری کیا تھا کیونکہ اُس پر ایک بھی شکن موجود نہیں تھی، تازہ پالش کردہ چمکتے جوتے (جن میں شاید آپ اپنی شکل بھی دیکھ سکتے تھے)، معمول کے مطابق اُس نے بال جیل سے سیٹ کر رکھے تھے، ہمیشہ کی طرح ہاتھ میں مہنگی رولیکس بھی موجود تھی، لیکن اُس کے حلیے میں ایک چیز تھی جو سب کی توجہ ضرور اپنی جانب کھینچتی تھی، وہ تھی زرباف کے کوٹ کے لپیل پر لگی پن' وہ سنہرے رنگ کا ترازو تھا جو اُس کے نیوی بلیو کوٹ پر لگا جگمگا رہا تھا (یہ ننھی سی پن زرباف کی شخصیت میں چار چاند لگاتی تھی)۔

"چائے یا کافی؟" اُس کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہالہ نے رسماً پوچھا۔

"وہی پٹھانوں کی سوغات، پشاوری قہوہ۔" زرباف کی پسند سن کر ہالہ بے اختیار مسکرا دی (اُس کی مسکراہٹ کے ساتھ ہی اُس کے گال پر ڈمپل نمایاں ہوتا تھا، جو اُس کی معصومیت کو اور بھی دلکش بنا دیتا تھا)، پھر اُس نے ٹیبل پر موجود اِنٹرکام پر ایک نمبر ڈائل کیا اور پھر فون اُٹھا کر کان سے لگایا۔ 

"ایک پیالی قہوہ لایر ہالہ کے آفس میں۔" اُس نے کال کی دوسری جانب موجود بندے کو حکمیہ انداز میں کہا اور پھر اِنٹرکام واپس رکھ دیا۔ 

"کیا کوئی خاص وجہ ہے آپ کے آنے کی؟" ہالہ اب پوری طرح زرباف کی جانب متوجہ تھی۔ 

"کیا آپ کے آفس میں بلاوجہ آنا منع ہے؟" زرباف نے اُس کے سوال پر آنکھیں سکیڑ کر پوچھا۔

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔" ہالہ ہلکا سا ہنس دی اور اِس سے پہلے کے زرباف مزید کچھ کہتا، ہالہ کے آفس کا دروازہ ایک بار پھر کھلا تھا۔ 

"گُڈ مارننگ لایر ہالہ" دروازے پر بنا دستک دیے اندر داخل ہونا، یہ محراب کا صدیوں پرانا انداز تھا۔ 

"اور.... پراسیکیوٹر شاہ۔" اندر داخل ہوکر محراب کی نگاہ زرباف پر پڑی تو وہ ادب سے مسکرا کر بولا۔ (وہ ایک دبلا پتلا خوش شکل نوجوان تھا تقریباً چھبیس برس کا' لیکن کلین شیو اور معصوم چہرے کے ساتھ وہ اپنی عمر سے کافی چھوٹا لگتا تھا۔) 

"گُڈ مارننگ۔" زرباف نے بھی جواباً محراب کو رسمی جملہ کہا۔ 

"گُڈ مارننگ، کوئی کام ہے کیا؟" ہالہ نے محراب کو سوالیا نظروں سے دیکھا تھا۔ 

"جی ایکچولی (actually) ایک نیو کیس ہے، یہ کیس فائل عدالتی عملے نے مجھے دی ہے آپ کو دینے کے لیے اور..." محراب کہتے کہتے رکا اور ایک نظر زرباف پر ڈالی، جو خاموشی اور دلچسپی سے بیٹھا محراب کو ہی دیکھ رہا تھا جیسے محراب کی اگلی بات سے واقف ہو۔

"اور؟" ہالہ نے سوالیا نظروں سے غور سے محراب کا چہرہ دیکھا۔

"اِس کیس کے پراسیکیوٹر زرباف شاہ ہیں۔" محراب نے اب ہالہ کو دیکھتے ہوئے ذرا سا مسکرا کر بتایا۔ اُس کی بات سن کر ہالہ نے بڑی ہی دلچسپی کے ساتھ سامنے بیٹھے زرباف کی جانب دیکھا تھا، زرباف اُس کے دیکھنے پر ہلکا سا مسکرا دیا۔ 

"ٹھیک ہے میں فائل دیکھ لیتی ہوں، یہاں رکھ جاؤ۔" ہالہ نے زرباف کی مسکراہٹ دیکھ کر اب واپس گردن موڑ کر محراب کی جانب متوجہ ہوکر کہا تو وہ فائل ٹیبل پر رکھ کر باہر کی جانب چل دیا۔ اِسی دوران ایک ملازم بھی اندر آیا اور اُس نے کھولتے ہوئے قہوے سے بھری پیالی ہالہ کی ٹیبل پر رکھی اور چلا گیا۔ اب چیمبر میں بس ہالہ اور زرباف ہی موجود تھے۔

"اب سمجھ آیا کہ آپ صبح صبح میرے آفس میں کیوں آئے تھے، آپ کو پتا چل گیا تھا کہ یہ مقدمہ میرے سپرد ہوگا۔" ہالہ نے میز پر رکھی کیس فائل پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا، جواباً زرباف کے لبوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی اور اُس نے خفیف سا سر کو خم دیا۔ ہالہ اب کیس فائل کھول کر دیکھ رہی تھی، (کیس فائل ہلکے سبز رنگ کی تھی، عام سرکاری فائل جیسی۔ اوپر سیاہ مارکر سے کیس نمبر اور تاریخ لکھی تھی۔ اندر صاف ستھرے کاغذ ترتیب سے لگے تھے، کہیں کہیں سرکاری مہریں اور دستخط تھے۔) تبھی اُس کے ہاتھ ایک لمحے کو جیسے ٹھہر سے گئے اور چہرے پر اچانک سنجیدگی چھا گئی۔ وہ ایک دم الرٹ سی ہوکر فائل میں لکھا وہ نام من ہی من میں بار بار پڑھنے لگی "سوزین سلطان"، ہالہ کے اردگرد ایک گھنٹی سی بجی تھی نام دہراتے ہوئے' کمرے کی خاموشی لمحے بھر کو اور گہری ہو گئی۔ تبھی زرباف، جو قہوے کی پیالی تھامے اپنی مخصوص متانت سے گھونٹ بھر رہا تھا، ہالہ کو دیکھ کر رک گیا۔ اُس نے ہالہ کے بدلتے تاثرات فوراً بھانپ لیے تھے اور پھر وہ ہلکی آواز میں ہالہ کو دیکھ کر بولا۔ "کیا ہوا؟"

ہالہ چند لمحے کسی سوچ میں گم رہی۔ اُس کی نظریں فائل پر تھیں مگر ذہن کہیں اور بھٹک رہا تھا۔ پھر تبھی زرباف کی آواز نے اُس کی سوچ کا تسلسل ٹوڑا تھا۔ وہ ذرا سی چونکی، پھر سنبھل کر فوراً سر جھٹک کر مصنوعی بے پروائی سے بولی "ہاں... کک... کچھ نہیں۔" اُس کے بعد ہالہ نے صفحہ پلٹتے ہوئے بات جاری رکھی۔ "اِس کیس میں ایک پراسیکیوٹر اور ایک ڈیفنس لایر کی ضرورت ہے۔" زرباف نے اُس کی بات پر بنا کوئی لفظ کہے سر ہلا کر اثبات کیا اور قہوے کا گھونٹ بھرتا رہا۔

ہالہ کی آواز میں اب ٹھہراؤ اور گہرائی آ گئی تھی۔ اُس نے آہستگی سے فائل میں درج حقائق دہرانے شروع کیے "یہ ایک مرڈر کیس ہے، ایک لڑکی ہے اور مشتبہ بھی وہی ہے۔ اِس لڑکی کے گھر سے اُس کے دوست صائم کی لاش برآمد ہوئی ہے۔ فارنسک لیب سے معلوم ہوا ہے کے صائم کے پیٹ میں تین بار چاقو گھونپا گیا تھا، لیکن مرڈر ویپن ابھی تک ہاتھ نہیں آیا ہے۔ عجیب بات دراصل یہ ہے کے..." وہ ذرا رکی، پھر ماتھے پر شکن ڈالتے ہوئے مزید کہا۔ "اِس لڑکی نے خود ہی پولیس کو کال کر کے یہ اطلاع دی تھی، جس سے اِس لڑکی کے بے گناہ ہونے کا امکان ہے۔ باقی مشتبہ کا کہنا ہے کے وہ کل رات دس بجے کے قریب گروسری کرنے کے لیے اپنے گھر سے باہر گئی تھی اور جب وہ واپس گھر لوٹی تو صائم پہلے سے اُس کے گھر میں موجود تھا، وہ بھی مردہ حالت میں۔" ہالہ نے یہ الفاظ نہایت غور و فکر سے ادا کیے، جیسے ہر جملے کا بوجھ اُس کے ذہن پر بھاری پڑ رہا ہو۔ دوسری طرف زرباف حسبِ عادت خاموشی سے قہوے کا سپ لیتا رہا، گویا ہر بات پہلے سے جانتا ہو۔

"کافی عجیب کیس ہے یہ۔" یہ کہتے ہوئے ہالہ کی پیشانی پر واضح بل نمودار ہوئے تھے۔ 

"یہ کیس کتنا عجیب ہے، یہ تو ملزمہ سے بات کرنے کے بعد ہی معلوم ہوگا۔" زرباف نے کچھ سوچتے ہوئے ایسے کہا، جیسے ہالہ کو مشورہ دے رہا ہو۔

"جی بلکل۔" ہالہ نے اتفاق کیا۔

"تو پھر..." زرباف نے قہوے کا آخری گھونٹ لے کر، خالی پیالی میز پر رکھتے ہوئے دلچسپی سے ہالہ کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ "کیا آپ یہ کیس لیں گی؟"

"ملزمہ سے بات کرکے فیصلہ کروں گی۔" ہالہ نے تامل آمیز لہجے میں کہا۔

"اگر لیں گی تو یہ دوسرا کیس ہوگا، جس میں آپ میرے مقابل ہوں گی۔" یہ کہتے ہوئے زرباف کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اُبھری۔

"بلکل... اور شاید دوسری بار بھی جیت میری ہوگی۔" ہالہ نے فخریہ انداز میں مسکرا کر کہا۔

"آپ مجھے چیلنج دے رہی ہیں۔" زرباف نے اُس کی بات پر سر جھٹکتے ہوئے قہقہہ لگایا۔

"دیکھیں میں ہرگز شو آف نہیں کر رہی لیکن ہم سبھی جانتے ہیں کہ آپ اپنی زندگی کا پہلا کیس ہارے تھے، وہ بھی مجھ سے۔" ہالہ نے مزید اترا کر کہتے ہوئے اپنے سیاہ منی کوٹ کا کالر نفاست سے درست کیا اور ہلکی جنبش کے ساتھ جھٹکا، جیسے اپنے وقار کو اور نمایاں کر رہی ہو۔ اُس کے انداز پر زرباف نے ایک اور قہقہہ لگایا اور پھر گھڑی دیکھتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ "اب مجھے چلنا چاہیے۔" ہالہ نے جواباً مسکرا کر سر خم کیا اور زرباف دروازے کی جانب بڑھ گیا۔


<•><•><•><•><•><•><•><•><•><•>