ایت
قسط نمبر 5
مصنفہ: منال علی
السلام علیکم، مسز شکیل! کیسی ہیں آپ؟
ایت اس وقت کمرے میں داخل ہوئی تھی، جبکہ مسز شکیل بیڈ پر بیٹھی اپنا کوئی کام کر رہی تھیں۔
"وعلیکم السلام! بہت اچھا کیا جو تم آ گئی۔ میں تمہیں ایک خوشخبری دینا چاہتی تھی کہ مریم اگلے مہینے پاکستان آ رہی ہے۔ پورے پانچ سال بعد میں اپنی بیٹی کو اپنے گلے سے لگاؤں گی!"
"ماشاءاللہ! یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ مریم آ رہی ہیں۔"
"اچھا، یہ بتاؤ مصطفی کہاں ہے؟"
"میں نے اس کے لیے ایک نئی گاڑی لی ہے، یقیناً اسے بہت پسند آئے گی۔"
"آپ نے ابھی کچھ دن پہلے ہی اسے ایک کھلونا دیا تھا اور اب دوبارہ سے ایک اور لے آئیں؟ میں نے آپ کو پہلے بھی منع کیا تھا آپ نے پہلے ہی اسے بہت زیادہ کھلونے دے رکھے ہیں۔"
"دیکھو، تم اس معاملے میں کچھ مت بولا کرو۔ یہ میرا اور مصطفی کا معاملہ ہے۔ جیسے وہ تمہارا بچہ ہے، ویسے ہی وہ میرا بھی بچہ ہے، لہٰذا تم خاموش رہا کرو۔" مسز شکیل نے ہمیشہ کی طرح دو ٹوک لہجے میں کہا۔
"اچھا، یہ بتاؤ، وہ کہاں ہے، میرا شہزادہ؟"
"وہ تو نیچے کھیل رہا ہے، اسلام صاحب کا پوتا آیا ہوا ہے، بس اسی کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا ہے۔"
وہ دونوں کھڑکی کے پاس آگئیں اور مصطفی کو کھیلتے ہوئے دیکھنے لگیں۔
"یہ دیکھو ذرا! اس کے شاٹس دیکھو، کیسے مار رہا ہے!" مسز شکیل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"آپ کو پتا ہے، مسز شکیل، مصطفی بہت زیادہ شرارتی ہوتا جا رہا ہے۔ جب سے یہ تین سال کا ہوا ہے، اس کی شرارتیں حد سے زیادہ بڑھتی جا رہی ہیں۔" ایت نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"آپ کو معلوم ہے، مسز شکیل، کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر آپ میری زندگی میں نہ آتیں تو میں اور مصطفی نہ جانے کہاں اور کس حال میں ہوتے۔ جب میں یہ بات سوچتی ہوں تو مجھے ایک خوف محسوس ہوتا ہے۔ اگر آپ نہ ہوتیں، تو نہ جانے ہم کس کے ہاتھوں میں ہوتے اور کن حالات کا سامنا کر رہے ہوتے۔"
"تم کیوں ان یادوں کو یاد رکھتی ہو جو تمہیں تکلیف دیتی ہیں؟"
"میں چاہ کر بھی وہ تمام باتیں نہیں بھلا سکتی۔ آپ کو معلوم ہے، مسز شکیل، جب میں رات کو اپنے بستر پر لیٹتی ہوں تو وہ تمام اذیتیں، وہ طعنے، وہ تکلیفیں سب یاد آتی ہیں۔ وہ وقت جو میں نے گزارا، وہ مجھے خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔"
"میں جانتی ہوں، ایت، تم نے بہت مشکل وقت گزارا ہے، لیکن میں تمہیں ایک بات بتاؤں؟ اللہ تم سے بہت محبت کرتا ہے۔ اس نے تمہیں ایک آزمائش میں ڈالا تھا اور تمہاری وہ آزمائش اب ختم ہو چکی ہے۔ اللہ نے تمہیں اس آزمائش کے تحفے میں مصطفی دیا ہے۔ مصطفی تمہاری ان تمام اذیتوں کا مرہم ہے جو احتشام نے تمہیں دی تھیں۔"
"میں کبھی کبھی سوچتی ہوں، مسز شکیل، کہ جب مصطفی مجھ سے اپنے باپ کے بارے میں پوچھے گا، تو میں اسے کیا بتاؤں گی؟"
"تم وہی کہو گی جو حقیقت ہے۔"
ایت نے فوراً گردن گھما کر مسز شکیل کی طرف دیکھا۔
"یہ سب میرے لیے بہت مشکل ہے۔ میں مصطفی کو اس کے باپ کے بارے میں کیسے بتاؤں کہ وہ کیسا انسان تھا؟"
"دیکھو ایت، اگر تم حقیقت چھپاؤ گی، تو آگے جا کر تمہیں ہی پریشانی ہوگی اور مصطفی کو بھی تکلیف ہوگی۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جو حقیقت ہے، وہی بتاؤ۔ سچ بولنا صرف ایک بار مشکل ہوتا ہے، باقی ہر بار آسان۔ اور جھوٹ بولنا صرف ایک بار آسان ہوتا ہے، باقی ہر بار مشکل۔"
"آپ دعا کریں، مسز شکیل، کہ جب وہ وقت آئے تو میرے لیے آسانی ہو۔"
"بالکل، میری جان! اللہ تمہارے لیے ہر قدم پر آسانیاں پیدا کرے گا، ان شاء اللہ۔"
---
رات کا وقت تھا ۔۔
بادل زور و شور سے برس رہے تھے۔ بارش کے ساتھ ساتھ تیز ہوا بھی چل رہی تھی۔ ایسے موسم میں، ہمیشہ کی طرح، ایت کھڑکی کے پاس کھڑی بارش دیکھ رہی تھی۔
رات کے دو بج رہے تھے جب گھر کا مین گیٹ کھلا۔ چوکیدار نے دروازہ کھولا تو ایک سیاہ رنگ کی گاڑی اندر داخل ہوئی۔ گاڑی میں بیٹھے شخص کو دیکھ کر چوکیدار حیران رہ گیا۔ خوشی اور حیرت کے مارے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ تیزی سے گاڑی کی طرف بڑھا۔
"السلام علیکم، فارس صاحب! کیسے ہیں آپ؟"
چوکیدار خوشی سے چِلّا اٹھا۔ وہ فارس کو سات سال بعد دیکھ رہا تھا۔
"آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ بیگم صاحبہ آپ کو دیکھیں گی تو بہت خوش ہوں گی۔ میں جا کر انہیں اطلاع دیتا ہوں!"
"نہیں، شیر خان، کسی کو جگانے کی ضرورت نہیں۔" فارس گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے شیر خان سے گلے ملا۔ بارش کی وجہ سے اس کے آدھے کپڑے بھیگ چکے تھے۔ شیر خان نے فوراً چھتری تان کر اسے بچانے کی کوشش کی۔
"میں انہیں صبح خود سرپرائز دوں گا، تب تک آپ انہیں کچھ نہ بتائیں۔"
"جیسا آپ چاہیں، لیکن جب بیگم صاحبہ آپ کو دیکھیں گی، تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا۔"
"چلیں، اب آپ اندر جا کر کپڑے تبدیل کریں، ورنہ بیمار ہو جائیں گے!"
فارس تیزی سے اندر چلا گیا۔
---
فارس نے کمرہ کھولا تو وہ بالکل ویسا ہی تھا، جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر موجود تھی۔
اس نے اپنا کبرڈ کھولا، اس میں سے ٹراؤزر اور ٹی شرٹ نکالی، اور کپڑے تبدیل کرنے کے بعد کچن میں جا کر اپنے لیے گرم کافی بنائی۔ پھر وہ واپس اپنے کمرے میں آ گیا۔
بیلکونی کا دروازہ کھولا تو دوسری طرف کے حصے کی روشنیاں جل رہی تھیں، حالانکہ یہ حصہ عموماً بند رہتا تھا۔۔ فارس نے کافی کا گھونٹ بھرا اور ذرا آگے بڑھا۔
روشنی کے نیچے ایک بینچ پر کوئی بیٹھا تھا۔ وہ ایک لڑکی تھی، جس نے سیاہ رنگ کی شال لپیٹ رکھی تھی۔ فارس نے غور سے دیکھا، پھر یاد آیا کہ یہ وہی لڑکی ہے جسے اس کی ماں نے اپنی بیٹی بنایا ہے۔۔۔فارس اور مریم دونوں ہی ایت کو جانتے تو تھے مگر مکمل طور پر مسز شکیل نے دونوں کو کچھ نہیں بتایا تھا ۔انہوں نے بس یہ کہا تھا کہ مریم کی طرح اب ایت بھی ان کی بیٹی ہے ۔اور وہ اور اس کا بیٹا اب اس کے ساتھ ہی رہیں گے ۔
ان کے دونوں بچوں نے کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور اپنی ماں کے فیصلے کی عزت کی تھی ۔۔۔
انہوں نے ایت کے ماضی کا مکمل طور پر اپنے بچوں سے پردہ رکھا تھا۔تاکہ ایت کو کبھی بھی کسی کے اگے شرمندگی محسوس نہ ہو ۔
وہ خاموشی سے کھڑا اس لڑکی کو دیکھنے لگا۔
بارش میں بھیگتی ہوئی وہ لڑکی بار بار اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھی، جیسے آنسو چھپانے کی کوشش کر رہی ہو۔
فارس نے فیصلہ کیا کہ نیچے جا کر دیکھے ۔۔
وہ تیزی سے سیڑھیاں اتر کر گارڈن میں پہنچا، جہاں وہ لڑکی کھڑی تھی۔۔۔ایت اپنے ماضی کے خیالات میں اس قدر گھو م تھی کہ اسے فارس کے انے کا احساس ہی نہیں ہوا ۔وہ بس اس بارش میں کھڑی ہوئی ان بھیگے ہوئے پیڑ پودوں کو دیکھ رہی تھی ۔
"ایکسکیوز می!"
ایت چونک کر پیچھے مڑی اور اسے دیکھ کر گھبرا گئی۔
"آئی ایم سو سوری، شاید میں نے آپ کو ڈرا دیا۔"
دونوں کے چہرے سنجیدہ تھے، جبکہ ایت کے چہرے پر ہلکا سا خوف نمایاں تھا۔
"میرا نام فارس ہے، اور آپ یقیناً ایت ہوں گی۔"
ایت خاموش رہی۔ فارس کے بارے میں اس نے مسز شکیل سے بہت کچھ سنا تھا اور فارس کو صرف اور صرف تصویروں میں ہی دیکھا تھا ۔ ، آج پہلی بار وہ اسے سامنے دیکھ رہی تھی۔ ۔۔
اس کے چہرے پر کچھ پریشانی سی تھی ۔پھر اندر ہی لمحے اس نے اپنے اپ کو کچھ نارمل کیا ۔۔
وہ یہ امید نہیں کر رہی تھی کہ مسز شکیل کا بیٹا فارس یوں رات کے اس وقت اس کے سامنے ا کر کھڑا ہو جائے گا ۔جبکہ مسز شکیل تو مریم کے انے کا کہہ رہی تھی ۔
"جی۔" ایت نے مختصر جواب دیا۔۔ وہ اب اپنے اپ کو کچھ حد تک نارمل کر چکی تھی ۔
"آپ سے مل کر اچھا لگا۔"
بارش اور تیز ہو گئی تھی۔
"میرے خیال میں اب آپ کو اندر جانا چاہیے، کہیں بیمار نہ ہو جائیں۔"
ایت نے گردن اٹھا کر مسز شکیل کے بیٹے فارس کو دیکھا جو قد میں اس سے کافی لمبا اور چوڑا سا تھا ۔
اس کے چہرے پر داڑھی بہت اچھی لگ رہی تھی ۔۔جو اس کے چہرے کو مزید پرکشش بنا رہی تھی ۔۔
ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں وہ کافی ہینڈسم لگ رہا تھا ۔۔
فارس نے اس لڑکی کے چہرے کو غور سے دیکھا ۔ اس کا خوبصورت چہرہ رونے کی وجہ سے گلابی ہو رہا تھا ۔
وہ روئی تھی اس کے چہرے سے یہ صاف واضح تھا ۔
بارش کی وجہ سے کچھ موٹی موٹی لٹے اس کے گالوں پر چپکی ہوئی تھی ۔۔
کچھ کہے بغیر ایت تیز قدموں سے چلتی ہوئی اندر کی طرف جا رہی تھی ، اور فارس بس اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔
چند لمحے تو وہ وہیں کھڑا رہا ۔وہ اہستہ اہستہ اس سے دور ہو گئی ۔۔
وہ دروازہ کھول کر اب گھر کے دوسرے حصے کی طرف داخل ہو رہی تھی ۔۔
فارس وہی کھڑا اسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ اس نے گھر کا دروازہ بند کر دیا ۔۔
بارش یوں ہی تیزی سے برستی رہی ۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment