آ یت
مصنفہ: منال علی
قسط نمبر 4
ایت اس وقت پانچ سال کی تھی جب اس کے والد اور والدہ دونوں ایک حادثے میں انتقال کر گئے۔ اپنے والدین کی وفات کے بعد وہ اپنے چچا اور چچی کے ساتھ رہنے لگی۔
اس کے چچا طیب اور چچی حبیبہ کے چار بچے تھے، دو بیٹیاں اور دو بیٹے۔
ایت کے والدین کی موت کے بعد اس کے چچا نے یہ فیصلہ کیا کہ ایت اب ان کے ساتھ ہی رہے گی۔ اس کی چچی نے بہت کوشش کی کہ وہ کسی طرح اپنے فیصلے سے انکار کر دیں، لیکن اس کے چچا طیب صاحب نے ایک نہ سنی اور یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ ان کے باقی چار بچوں کے ساتھ ہی ان کے گھر میں پرورش پائے گی۔
طیب اور حبیبہ کی دو بیٹیاں تھیں، سدرہ اور سارہ، اور ان کے دو چھوٹے بیٹے تھے، نوید اور شاکر۔ وہ دونوں ہی ایت اور اپنی دونوں بہنوں سے چھوٹے تھے۔
وقت گزرتا گیا اور ایت ان کے ساتھ بڑی ہونے لگی۔ اس کی چچی اسے خاص پسند نہیں کرتی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کی پہلے ہی دو بیٹیاں تھیں اور اب ایت بھی ان کے سر پر آ گئی تھی۔ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ ایت اس کی بیٹیوں سے زیادہ خوبصورت اور ذہین تھی، اور یہی بات اسے ناگوار گزرتی تھی۔
وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر ایت کو ڈانٹتی، کبھی برا بھلا بھی کہہ دیتی، لیکن ایت کے چچا ہمیشہ اس کا خیال رکھتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ، نوید اور شاکر بھی ایت سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس کی چچی کی دونوں بیٹیوں کا رویہ اس کے ساتھ بس ٹھیک ہی تھا۔
لیکن جیسے جیسے وہ تینوں جوان ہو رہی تھیں، ان کے درمیان مقابلہ بڑھتا جا رہا تھا—پڑھائی میں، خوبصورتی میں، ذہانت میں—اور ایت ہمیشہ ان دونوں سے آگے نکل جاتی تھی۔
حبیبہ کی بڑی بیٹی، یعنی سدرہ، کے رشتے کی بات چلی تو وہ ایت کو اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے بھی پسند کر گئے۔ یہ بات حبیبہ کو بالکل بھی پسند نہیں آئی، اور اس بات سے سارہ بھی ایت سے چڑنے لگی۔ خیر، طیب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ایت ابھی پڑھ رہی ہے اور اس کی شادی کا کوئی ارادہ نہیں۔
حبیبہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ ایت سدرہ کے سسرال میں جا بسے۔ وقت گزرتا گیا اور کچھ عرصے بعد سدرہ کی شادی ہو گئی، اور وہ اپنے گھر چلی گئی۔
سدرہ کی شادی میں بھی ایت کے کئی رشتے آئے، لیکن حبیبہ جو بھی اچھا رشتہ دیکھتی، اسے انکار کر دیتی۔ یہ رشتے کی باتیں اکثر خواتین کے درمیان ہی ہوتی تھیں، تو اس کے چچا طیب کو اس بات کی زیادہ خبر نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی حبیبہ انہیں بتاتی تھی۔
ایت، سدرہ اور سارہ دونوں سے چھوٹی تھی۔ وقت یونہی گزرتا گیا، ایت کے لیے رشتے آتے رہے اور ہر بہترین رشتے کو حبیبہ انکار کرتی رہی۔
ایت ایک بہت ذہین اور قابل لڑکی تھی، اس نے ماسٹرز مکمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ گریجویشن وہ پہلے ہی کر چکی تھی، لیکن جب اس نے ماسٹرز کرنے کی خواہش ظاہر کی، تو حبیبہ سخت خلاف ہو گئی کیونکہ اس کی دونوں بیٹیوں نے صرف گریجویشن کیا تھا، اور سارہ کا تو گریجویشن بھی مکمل نہیں ہوا تھا۔
ایت نے بہت کوشش کے بعد چچا کو راضی کر لیا، جاب شروع کی، اپنے تمام اخراجات خود اٹھائے اور اپنی تعلیم مکمل کی۔
وقت گزرتا رہا، اور سارہ کی شادی بھی اس کے والدین نے طے کر دی۔ سارہ کے سسرالیوں میں سے کسی کو ایت اتنی پسند آئی کہ انہوں نے اپنے ایک کزن کے لیے اس کا رشتہ مانگ لیا، اور وہ لڑکا آسٹریلیا میں ملازمت کرتا تھا۔ لیکن حبیبہ کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی کہ اس کی بیٹیوں سے زیادہ اچھا سسرال ایت کو ملے۔ لہٰذا، انہوں نے اس رشتے کو بھی یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ایت ابھی ماسٹرز مکمل کر رہی ہے۔ کچھ اور رشتوں کو یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ایت کی منگنی کہیں اور طے کر دی ہے۔
ایت نے جب اپنا ماسٹرز مکمل کر لیا تو اس کے لیے احتشام کا رشتہ محلے کی ایک خاتون لے کر آئی۔
احتشام شکل و صورت کا اچھا تھا، اس کی دو دکانیں تھیں، اور اس کے ماں باپ نہیں تھے۔ نہ ہی کوئی بہن تھی، بس ایک بڑا بھائی تھا جو سعودی عرب میں تھا۔ احتشام کے پاس اپنا خود کا گھر تھا۔
ایت لاہور کی رہنے والی تھی اور احتشام کراچی کا۔ ایت کے چچا کو اعتراض تھا کہ وہ اتنی دور چلی جائے گی، لیکن حبیبہ نے انہیں یہ کہہ کر منا لیا کہ بیٹی کا نصیب جہاں ہے، وہیں ہوگی۔ کچھ اعتراضات کے بعد وہ بھی مان گئے۔
آیت شادی کر کے اب احتشام کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی تھی۔
محلے کی خاتون نے پہلے ہی حبیبہ کو احتشام کے بارے میں بتا دیا تھا کہ وہ نشہ کرتا ہے اور جوا کھیلتا ہے۔ لیکن حبیبہ نے رشتہ کروانے والی کو پیسے دے کر خاموش کر دیا۔
احتشام کی جو دو دکانیں تھیں، وہ بھی اس کے بڑے بھائی نے اس کا کاروبار سیٹ کرنے کے لیے دی تھیں، لیکن احتشام جوئے اور شراب میں سب کچھ لٹا چکا تھا۔
شادی کے دو ہفتے تو ایت کے اچھے گزرے، پھر آہستہ آہستہ حقیقت کھلنے لگی کہ احتشام کیسا انسان ہے۔ وقت گزرتا گیا اور حالات مزید خراب ہوتے گئے۔ دکانیں وہ پہلے ہی گنوا چکا تھا، اب صرف گھر باقی تھا، جو چند ماہ میں وہ بھی چلا گیا۔
ایت حد سے زیادہ پریشان رہنے لگی۔ اس نے کئی بار احتشام کو سمجھانے کی کوشش کی، کبھی پیار سے، کبھی جذباتی ہو کر، لیکن وہ سننے کو تیار نہ تھا۔ حالات اتنے خراب ہو گئے کہ وہ کرائے کے مکان میں آ گئے۔
ایک رات، نشے کی حالت میں آیا، ایت نے اسے سمجھانے کی کوشش کی، تو اس نے آیت کو اتنی بری طرح مارا کہ اس کے جسم پر نیل اور سوجن آ گئی۔
کچھ مہینے بعد، ایت کو پتہ چلا کہ وہ امید سے ہے۔ یہ خبر سن کر اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اس نے فوراً احتشام کو بتایا، یہ سوچ کر کہ شاید وہ بدل جائے، لیکن یہ اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
احتشام نے طیش میں آ کر کہا:
"کھانے کو ویسے ہی کچھ نہیں ہے اور اب تم ایک نئی مصیبت پالنے لگی ہو؟"
ایت حیران اور پریشان رہ گئی کہ وہ اپنی اولاد کی خبر پر ایسا کیسے کر سکتا ہے۔ ۔
میں اس بچے کو بالکل نہیں پال سکتا یہ مصیبت فورا میرے سر پر سے ہٹاؤ ۔۔
میری بات دھیان سے سنو جو میں کہہ رہا ہوں ۔اس بچے کو اج اور اسی وقت فوری طور پر ہاسپٹل جا کے ضائع کروا دو ۔میں اسے بالکل نہیں پال سکتا ۔
اور یہ جو تم فضول میں اسے پالنے کا سوچ رہی ہو نا اپنے ذہن سے یہ تمام خرافات نکال دو ۔
میری بات مانو ابھی وقت ہے جاؤ جا کر اسے ضائع کروا دوں ۔۔
احتشام ۔۔۔ایت میں بے یقینی سے اس کا نام لیا ۔۔۔
ایت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔
اپ کے سینے کے اندر دل نام کی چیز ہے بھی یا نہیں ۔۔
اپ کو کچھ اندازہ بھی ہے اپ مجھ سے کیا کہہ رہے ہیں ۔۔
اپ کو پتہ بھی ہے اپ مجھ سے گناہ کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں ۔۔۔
یہ گناہ اور ثواب کو تم مجھے مت بتاؤ ۔۔
بس میں نے جو کہا ہے وہ کرو اسے فوری طور پر ضائع کرو اور اس سے جان چھڑواؤ ۔۔
ہرگز نہیں میں ایسا بالکل نہیں کروں گی ۔۔
میں یہ گناہ نہیں کروں گی مجھے یہ بچہ ہر حال میں چاہیے میں اسے بالکل ضائع نہیں کروں گی ۔۔
ایت تیزی سے اس سے پیچھے ہوئی اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچا دے ۔۔
تمہیں میری ایک بار کی بات سمجھ میں نہیں اتی ہے یا میں تمہیں اٹھا کے پھینکوں ۔۔
میں اپ سے ریکویسٹ کر رہی ہوں احتشام ۔میں اسے پال لوں گی میں اس کا تمام خرچ اٹھا لوں گی ۔۔
وہ تو تم اٹھا لو گے لیکن میرے خرچ کا کیا ؟؟
جب میں نے ایک بار کہہ دیا نہیں تو نہیں ۔۔۔
ان دونوں کے درمیان بہت بحث ہوئی ایت بہت روئی بہت گڑگڑائی ۔میں یہ ہرگز نہیں کروں گی مجھے میرا بچہ ہر حال میں چاہیے میں اسی کسی صورت ضائع نہیں کروں گی یہ اللہ نے مجھے تحفہ دیا ہے اور میں اسے بالکل ضائع نہیں کرنے والی ۔وہ روتے ہوئے اس کمرے سے چلی گئی ۔
کہاں جا رہی ہو جب میں منع کر رہا ہوں تو وہ بھی اس کے پیچھے ہی گیا ۔۔۔
ایک بات میری دھیان سے سن لو۔
"اگر پالنا ہے تو خود کماؤ، میں نہیں دوں گا کچھ بھی۔"
اور نہ ہی میرے پاس کچھ ہے کہ میں اس کو پا لوں ۔جو کرنا ہے خود کرو خود کماؤ اور اس عذاب کو بھی خود ہی پا لو مجھ سے کسی بھی چیز کی امید مت رکھنا۔۔۔
ایت نے اسی لمحے فیصلہ کر لیا کہ وہ ہر خرچہ خود اٹھائے گی لیکن اپنی اولاد کو ضائع نہیں کرے گی۔۔۔۔
اس نے فوراً جاب کے لیے مختلف اسکولوں میں سی وی جمع کروائی، اور جہاں تنخواہ زیادہ ملی، وہاں کام شروع کر دیا۔
اس کی زندگی ایک مشین کی طرح چل رہی تھی۔۔۔
وہ صبح سے لے کر دوپہر تک اسکول میں خوار ہوتی اسکول سے انے کے بعد وہ گھر کا کام کرتی کھانا بناتی اور شام میں پانچ بجے سے لے کر اٹھ بجے تک کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ۔اس کی زندگی احتشام نے اہستہ اہستہ کر کے جہنم بنا دی تھی۔۔۔
آیت اس دن بہت خوش تھی جس دن اس نے مصطفی کو پہلی بار اپنی گود میں اٹھایا تھا ۔
ایت صرف اس وقت بہت خوش ہوتی تھی جب وہ مصطفیٰ کو اپنی گود میں لیا کرتی تھی ۔۔
اس کی زندگی کی واحد خوشی وہ بچہ تھا۔۔۔
جبکہ دوسری طرف احتشام بہت ہی غصے میں تھا۔ وہ اس قدر غصے میں تھا کہ نہ ہی تو اس نے مصطفی کو دیکھا تھا اور نہ ہی کوئی خوشی کا اظہار کیا تھا اسے اس بات کا افسوس تھا کہ اب اس کے خرچے اس کے پیسے اس کی شراب کے وہ تمام مزے جو وہ ایت سے لیا کرتا تھا وہ تمام عیاشی والے پیسے اب کم ہو جائیں گے ۔اس بچے کے انے کی وجہ سے اس کی عیاشی میں کمی واقع ہوگی ۔۔۔
کچھ مہینے کے بعد ایت نے ا سکول دوبارہ سے جوائن کر لیا تھا ۔وہ حد سے زیادہ مصروف رہنے لگی تھی سارا دن وہ ا سکول میں ہوتی گھر ا کے اپنا گھر کا کام کرتی ٹیوشن پڑھاتی مصطفی کو دیکھتی اور رات میں احتشام اس سے اپنی ہر خواہش پوری کرواتا ۔۔دیر رات تک وہ اپنی ذلت اور تباہی پر خون کے انسو روتی ۔۔
اس کے پاس اگر کوئی واحد مسکرانے کی وجہ تھی تو وہ اس کی اولاد اس کا بیٹا مصطفی تھا جس کے لیے اس نے احتشام جیسے شخص کے ساتھ رہنے کے لیے بھی رضامندی ظاہر کر لی تھی صرف اور صرف اپنی اولاد کے لیے اس نے ہر دکھ ہر تکلیف برداشت کرنے کا سوچ لیا تھا ۔۔
مصطفی کی پیدائش کے تین مہینے کے بعد اسے خبر ملی کہ اس کے چچا طیب ہارٹ اٹیک سے اچانک انتقال کر چکے ہیں ۔۔
رہی صحیح کسر اس کی چاچی نے یہ کہہ کر پوری کر دی کہ اب تمہارے دروازے اس گھر کے لیے مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں اب تمہاری زندگی جو بھی ہو تم نے خود ہی ہر چیز کو برداشت کرنا ہے ۔۔یہاں کسی چیز کے لیے مت انا ۔۔
دوسری طرف ایت بھی اس بات کو بہت اچھے طریقے سے سمجھ گئی تھی کہ اس گھر کے دروازے اس کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکے ہیں۔۔اپ صرف ایک وہی جہنم باقی رہ گئی ہے جو احتشام نے اس کے لیے بنائی ہے ۔اور اس نے اسے جہنم میں اس کے ساتھ رہنا ہے ۔۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment