آ یت
مصنفہ: منال علی
قسط نمبر: ۲
---
السلام علیکم، مسز شکیل! کیسی ہیں آپ؟" ایت کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ان سے پوچھ رہی تھی۔
"وعلیکم السلام! الحمدللہ، میں بالکل ٹھیک ہوں، آؤ بیٹھو، تم سے ایک خاص سلسلے میں بات کرنی تھی۔"
انہوں نے اپنی آنکھوں پر لگا ہوا چشمہ اتار کر ایک کنارے پر رکھا۔
مسز شکیل ایک بہت اچھے اسکول کی پرنسپل تھیں اور ایت ان کے اسکول میں بطور کوآرڈینیٹر کام کر رہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ نویں اور دسویں کلاس کی انگریزی بھی پڑھاتی تھی۔
ایت ایک نہایت قابل، سمجھدار اور تعلیم یافتہ لڑکی تھی۔ جب سے اس نے مسز شکیل کا اسکول جوائن کیا تھا، مسز شکیل کافی پرسکون ہو گئی تھیں۔ وہ اپنا ہر کام بہت ہی بخوبی انجام دیتی تھی۔ ایت کے ہر کام میں پرفیکشن ہوتی تھی، یہی وجہ تھی کہ مسز شکیل اپنے بعد ایت کو رکھنا چاہتی تھیں۔ اسکول کے چاہے کوئی بھی معاملات ہوں، وہ ایت سے ضرور مشورہ لیتیں۔
دو سالوں سے وہ مسز شکیل کے ساتھ اسی اسکول میں کام کر رہی تھی، جو مسز شکیل کے شوہر کا تھا۔ ان کی وفات کے بعد وہ خود اسے چلا رہی تھیں۔
مسز شکیل کے دو بچے تھے۔ بیٹی شادی کے بعد امریکہ جا چکی تھی اور اس کے دو بچے تھے۔ ان کا بڑا بیٹا، فارس، جو ان کی بیٹی سے بھی بڑا تھا، وہ بھی امریکہ میں ہی تھا اور اپنا کاروبار کر رہا تھا۔
مسز شکیل کے شوہر ایک نہایت قابل انسان تھے۔ اسکول کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی ایک کمپنی بھی بنائی تھی، جو آہستہ آہستہ کافی ترقی کر گئی تھی۔ اب فارس اس کمپنی کو دیکھ رہا تھا۔
مسز شکیل اور ایت اسکول میں ہونے والے فائنل اسپورٹس ڈے کے بارے میں گفتگو کر رہی تھیں۔
"ایت، تم نے ہمیشہ کی طرح میرا کام بہت آسان کر دیا۔ میرے کہنے سے پہلے ہی تم نے تمام تحفے آرڈر کر دیے ہیں، جو بچوں کو انعام کے طور پر دیے جائیں گے۔ تمام انتظامات بھی بالکل پرفیکٹ کیے ہیں تم نے۔"
ایت مسکرا دی۔
"مجھے بہت خوشی ہوئی مسز شکیل کہ آپ کو انتظامات پسند آئے۔"
کچھ مزید باتیں کرنے کے بعد جب وہ اٹھنے لگی تو مسز شکیل نے اس کا ہاتھ نرمی سے تھاما۔
"تم بہت قابل لڑکی ہو، کبھی بھی اپنے آپ کو کسی سے کم مت سمجھنا۔" انہوں نے نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ ایت کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ایت کے لیے ان کی محبت بالکل پاکیزہ تھی۔
"آپ مجھے بہت حوصلہ دیتی ہیں، مسز شکیل۔" ایت نے آہستہ سے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ "اگر آپ نہ ہوتیں تو نہ جانے میں کہاں ہوتی۔"
"کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی نیکی کے بدلے میں میری ملاقات تم سے کروائی ہے ایت، میں بہت خوش ہوں کہ تم میرے پاس ہو۔"
ایت آہستہ سے مسکرائی۔
"یہ تو آپ کی محبت اور بڑا دل ہے، مسز شکیل، ورنہ جو کچھ آپ نے میرے لیے کیا، وہ کون کرتا ہے کسی کے لیے؟"
"خبردار! جو تم نے ایسی بات کی۔ تم میری بیٹی ہو!"
"اور آج رات کا کھانا تم نے اور مصطفی نے میرے ساتھ کھانا ہے!"
وہ آہستہ سے مسکرائیں۔ مسز شکیل ہر دوسرے تیسرے دن ایت کو اپنے ساتھ کھانے پر بلاتی تھیں۔
شروع میں ایت نے بہت منع کیا، لیکن مسز شکیل نے ایک نہ سنی۔ اب وہ جان چکی تھی کہ کم از کم اس معاملے میں مسز شکیل اس کی بات نہیں سنیں گی۔ اس لیے وہ خاموشی سے سر ہلا کر ہاں کہہ دیتی۔
دوسری طرف، ایت کو بھی مسز شکیل کے ساتھ وقت گزارنا بہت پسند تھا۔
اب اس کی زندگی میں تھا ہی کون؟ ایک مسز شکیل اور دوسرا مصطفی۔ یہی دو لوگ اسے سب سے زیادہ عزیز تھے۔
---
رات کے دو بجے کا وقت تھا۔
ایت مصطفیٰ کو سولا چکی تھی اور اب احتشام کا انتظار کر رہی تھی، جو ابھی تک گھر واپس نہیں آیا تھا۔ انتظار کرتے کرتے تھکاوٹ کے مارے اس کی آنکھ لگ گئی۔
تین بجے دروازے پر کسی نے زور سے دستک دی۔
وہ تیزی سے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھی۔ دروازہ کھولا تو احتشام نشے میں دھت تھا۔
وہ اس قدر نشے میں تھا کہ اپنے پیروں پر کھڑا بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔
"احتشام!" ایت نے اسے بمشکل سنبھالا اور کمرے تک لے آئی۔
ایت نے انتہائی افسوس سے احتشام کو دیکھا۔
"دروازہ کھولنے میں اتنی دیر کیوں لگائی؟"
وہ نشے میں زور زور سے چیخ رہا تھا۔
"میں نے دیر نہیں لگائی، جیسے ہی آپ نے دروازہ بجایا، میں نے فوراً کھول دیا۔"
وہ گلاس میں پانی نکال کر احتشام کی طرف بڑھا رہی تھی۔
"نہیں چاہیے! جاؤ، میرے لیے کھانا لاؤ!"
وہ اپنا سر مسلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
ایت نے افسوس کے ساتھ اپنے شوہر کو دیکھا۔
"سنا نہیں تم نے؟ جا کر کھانا لاؤ!"
اب کی بار وہ زور سے چلایا۔
مسلسل شور کی وجہ سے مصطفیٰ کی آنکھ کھل گئی، اور وہ احتشام کے زور سے چلانے پر رونے لگا۔
"ایک تو اس کا رونا ہی ختم نہیں ہوتا!"
احتشام نے غصے میں پانی کا گلاس زور سے دیوار پر دے مارا۔
ایت فوراً مصطفیٰ کی طرف لپکی اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
اسے ہمیشہ یہی خوف رہتا تھا کہ کہیں احتشام مصطفیٰ کو نقصان نہ پہنچا دے۔
وہ مصطفیٰ کو سنبھالتی ہوئی کچن میں چلی آئی تاکہ احتشام کو مزید غصہ نہ آئے۔
یہ روز کا معمول تھا۔ جب بھی وہ نشہ کر کے آتا، یہی سب کرتا۔ گھر میں شور مچاتا، ایت کو گالیاں دیتا، مصطفیٰ کو برا بھلا کہتا۔
ایت کھانا گرم کر رہی تھی جب اچانک احتشام نے اس کا بازو زور سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔
"کمرے میں چلو، ابھی اسی وقت!"
ایت نے ایک نظر احتشام کو دیکھا۔
"سنا نہیں تم نے؟ میں نے کہا فوراً کمرے میں چلو!"
"میں کھانا گرم کر رہی ہوں، اور مصطفیٰ ابھی سویا نہیں ہے، دیکھ رہے ہیں نا، وہ رو رہا ہے!"
"مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ میں نے جو کہا ہے، وہ کرو! فوراً!"
"لیکن—"
"مجھے تمہاری کسی دلیل کی ضرورت نہیں! مصطفیٰ کو کہیں بھی رکھو اور میرے ساتھ چلو!"
احتشام نے اس کا بازو زور سے پکڑا اور تقریباً گھسیٹتے ہوئے کمرے میں لے گیا۔
ایت صوفے پر لیٹے مصطفیٰ کو دیکھتی رہ گئی۔ وہ رو رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس نے مصطفیٰ کو تکیوں کے درمیان لٹا دیا تاکہ وہ گرنے سے محفوظ رہے۔
تکلیف تھی جو بڑھتی جا رہی تھی۔
احتشام کسی صورت سدھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
ایت کو لگتا تھا کہ مصطفیٰ کے پیدا ہونے کے بعد شاید وہ کچھ سدھر جائے گا، کچھ ذمہ دار ہو جائے گا۔
لیکن یہ اس کی سب سے بڑی بھول تھی۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment