آیت

مصنفہ: منال علی

قسط نمبر ۱


مغرب کی اذان کے بعد بارش میں مزید تیزی آ گئی تھی۔ بادل زور زور سے گرجنے لگے تھے اور آسمان سے پانی تیزی سے گرنے لگا تھا۔ وہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں بیٹھی ہوئی اس حسین بارش کو دیکھ رہی تھی۔ ایک بارش باہر ہو رہی تھی اور ایک بارش اس کے اندر۔ آیت نے اپنے گال پر پھسلتی ہوئی لٹ کو اپنے کان کے پیچھے کیا، پھر اپنی دونوں آنکھیں اور گال صاف کرنے کے بعد وہ کھڑکی سے ہٹ گئی۔


آہستہ قدموں سے وہ چلتے ہوئے بیڈ کی طرف آئی۔ اپنے دو سالہ معصوم، خوبصورت سے بیٹے کو دیکھ کر وہ آہستہ سے مسکرائی اور اس نے جھک کر بہت محبت کے ساتھ اس کے پھولے ہوئے دونوں گالوں کو نرمی سے چوما۔


یہ وہ واحد خوشی تھی جو اس کی زندگی میں باقی رہ گئی تھی۔ یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس کے جینے کی وجہ اس کا یہ ایک بیٹا ہی تھا۔ اس نے نرمی سے اپنے پیارے بیٹے کے بالوں میں ہاتھ پھیرا، پھر آہستہ سے اس کا ماتھا چھوا۔ بخار اب کافی کم ہو چکا تھا۔ آیت نے جھک کر بلینکٹ اس کے اوپر دوبارہ سے ڈالا، آہستہ سے وہ خود بھی اس کے برابر میں آ کر لیٹ گئی۔ آیت نے اپنا دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھا، بالوں کو کیچر سے آزاد کیا اور پھر ہمیشہ کی طرح بے مقصد اپنے پیارے سے بیٹے کو دیکھنے لگی۔


"ماں تم سے بہت محبت کرتی ہے مصطفی۔"

اس نے نرمی سے کہتے ہوئے اپنا سر تکیے سے لگایا اور پھر سیدھا ہو کر لیٹ گئی۔ جب سردی محسوس ہوئی تو اس نے کمبل اپنے اوپر کیا۔


اس کی آنکھیں چھت پر لگے پنکھے کو گھور رہی تھیں۔


یادوں کا سلسلہ ایک بار پھر سے ماضی سے جڑ چکا تھا۔۔۔


"مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔"

آیت کے شوہر احتشام نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔


"تمہاری تنخواہ تو اب تک آ گئی ہوگی نا؟ مجھے پیسے دے دو۔"


آیت نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کو دیکھا۔


"احتشام، پچھلے مہینے میری اسکول سے کافی چھٹیاں ہو چکی تھیں کیونکہ مصطفی بیمار تھا، اور جو تنخواہ ملی ہے وہ کٹ کے ملی ہے۔

گھر کا خرچ چلانا بہت مشکل ہو جائے گا۔

پھر آپ کو پتہ ہے کہ زینت آنٹی بھی کرایہ لینے آ جاتی ہیں۔"


"مجھے کچھ نہیں پتہ، مجھے پیسوں کی ضرورت ہے بس۔"


"اگر میں آپ کو پیسے دے دونگی تو بہت زیادہ مشکل ہو جاۓ گا گھر چلانا ۔۔۔ 

میرے پاس پیسے پہلے ہی کم ہیں اور اگر میں۔۔۔"


وہ ابھی اپنی بات مکمل ہی کر پائی کہ احتشام نے کھانے کے تمام برتن اٹھا کر زور سے زمین پر پھینکے۔


احتشام نے اس کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر دیوار سے لگایا۔


"کہاں لے کے جاؤ گے یہ پیسے؟

جب میں کہہ رہا ہوں مجھے ضرورت ہے تو تم مجھے کیوں نہیں دے رہی؟"


"میں اچھی طرح سے جانتی ہوں کہ آپ کو یہ پیسے کیوں چاہیے۔"


"جب تمہیں پتہ ہے کہ مجھے کیوں چاہیے تو پھر بار بار کیوں پوچھتی ہو؟"


"آپ یہ نشہ کرنا کب چھوڑیں گے؟

اب تو ماشاءاللہ سے آپ کا ایک بیٹا بھی ہے، اب آپ کو ذمہ داری لینی چاہیے۔

کب تک میں گھر کا ہر کام سنبھالتی رہوں گی؟ مصطفی ابھی چھوٹا ہے، کل کو وہ بڑا ہوگا تو کیا سیکھے گا؟"


احتشام نے اس کے دونوں گالوں کو مضبوطی سے پکڑا۔


"زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے، پیسے دو مجھے، بات ختم!"


اس نے جھٹکے سے اس کا چہرہ چھوڑا۔ تکلیف سے ایت کی انکھوں میں انسو اگئے ۔


کمرے سے کسی معصوم سے بچے کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔


وہ بہت تیزی سے کمرے کی طرف جانے لگی۔


"پہلے مجھے پیسے نکال کر دو۔"


"دے رہی ہوں، کچھ تو احساس کریں، بچہ رو رہا ہے۔"


وہ اپنا آپ تیزی سے چھڑواتے ہوئے کمرے کی طرف بھاگی۔


کمرے کے کھلے دروازے سے اس نے ایک نظر احتشام کو دیکھا، جو اس کے بیگ میں سے پیسے نکال رہا تھا۔ اس نے افسوس کے ساتھ اپنے شوہر کو دیکھا اور پھر ایک نظر اس معصوم سی جان کو۔


"تم اپنے بابا جیسے بالکل نہیں بننا مصطفی۔ میں تمہیں تمہارے بابا جیسا بالکل نہیں بننے دوں گی۔"


اس نے مصطفی کو اپنے سینے سے لگایا۔


ایک خوف تھا، ایک ڈر تھا، جو اب اسے ہر وقت ستائے رکھتا تھا۔ نہ جانے آنے والا وقت اور کس قدر برا ہوگا۔۔۔


بارش یوں ہی تیزی سے برس رہی تھی، اس کی شدت میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔۔۔

تکلیف دہ ماضی ایک بار پھر سے اسے بری طرح سے ستانے لگا تھا ۔ اس نے اپنی انکھیں زور سے بند کی یوں جیسے وہ ہر چیز سے دور بھاگنا چاہتے ہو ۔ لیکن یہ عمل اس کے لیے ناممکن تھا ۔ 


جاری ہے