ایت

 منال علی

 قسط نمبر 12


مصطفی کو تیار کر دو مجھے مصطفی کو لے کر کہیں جانا ہے ۔۔

ایت کچن میں کھانا بنا رہی تھی کہ احتشام نے ا کر اسے کہا ۔۔

ایت نے مڑ کر ایک نظر احتشام کو دیکھا اور اپنے برابر میں جھولے کے اندر لیٹے ہوئے مصطفی کو جو ادھر سو رہا تھا ۔۔


سب ٹھیک تو ہے؟؟

 اچانک اپ ا سے کہاں لے کر جا رہے ہیں ایت ایک دم پریشان ہو گئی ۔۔کیونکہ اج سے پہلے مصطفی کو وہ کبھی بھی باہر نہیں لے کر گیا تھا اور نہ ہی اس کو محبت اور شفقت کی نگاہ سے کبھی دیکھا تھا ۔مصطفی کو ہمیشہ سے ہی وہ ایک عذاب سمجھتا تھا ۔وہ یہ سمجھتا تھا کہ مصطفی کے انے سے اس کی عیاشی کم ہو گئی ہے ۔۔پہلے ایت زیادہ پیسے احتشام کو دے دیا کرتی تھی لیکن جب سے مصطفی پیدا ہو گیا تھا اس کا خرچ ادھا ہو گیا تھا اور یہ بات احتشام کو کبھی بھی ہضم نہیں ہوئی تھی ۔۔


میں نے تمہیں سمجھایا ہے کہ میری ماں بننے کی ضرورت نہیں جتنا کہا ہے اتنا کروں ۔وہ غصے سے دھاڑا ۔۔


ایت ایک لمحے کے لیے وہ خاموش ہو گئی ۔کیونکہ ایت کو اب اس سے کافی زیادہ ڈر لگنے لگا تھا ۔احتشام اگر مارنے پر اتا تو بہت برا مارتا ۔اور اسے یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ احتشام کو جیسے ایت سے نفرت ہو گئی ہے ۔جب سے اس نے احتشام کو اس گھٹیا والے کام کے لیے منع کیا ہے ۔۔اب وہ چھوٹی چھوٹی بات پر اس پر ہاتھ اٹھاتا اور اسے گالیاں دیتا رہا ۔۔


میں۔۔میں ۔۔ تو اپ سے اس لیے پوچھ رہی تھی کہ ۔۔۔اس سے پہلے تو اپ کبھی نہیں لے کے گئے ۔۔اس نے اخر کار ڈر ڈر کر پوچھا ۔۔۔


کیا چاہ رہی ہو تمہارے منہ کے اوپر یہ گرم گرم سالن پھینک دوں ،تمیں سو بار ۔۔۔سو بار سمجھایا ہے پھر بھی تمہیں میری بات سمجھ نہیں اتی اپنی ٹانگ اڑانا ہر معاملے میں ضروری ہے ۔۔


میں تو بس ۔۔اس نے ایک بار دوبارہ سے ہمت کی اس کا دل بالکل بھی مطمئن نہیں تھا کہ وہ احتشام کے ساتھ مصطفی کو باہر بھیجے ۔


 میری بات تمہیں سمجھ میں نہیں اتی اس بار احتشام نے ایت کا جبڑا زور سے پکڑ کر دبایا ،اتنا زور سے کہ اس کے چہرے پر احتشام کی انگلیوں کے ہاتھ چھپنے لگے ۔۔ہر بار میں تمہاری سنوں۔۔ کیوں ۔۔مصطفی کو کیا تم اپنے ساتھ جہیز میں لے کر ائی تھی جو اتنی بکواس کر رہی ہے میرے اگے ۔جب میں نے کہہ دیا اسے تیار کروں مجھے باہر لے کر جانا ہے تو بات ختم اگر اب تمہاری کوئی اور اواز ائی نہ تو پھر دیکھنا یہ گرم گرم مصالحہ تمہارے منہ کے اوپر ڈال دوں گا ۔۔دفع ہو جاؤ یہاں سے اور جا کر اسے تیار کروں ۔۔


ایت کا دماغ اس بات کو سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ نہ جانے احتشام اسے کہاں لے کر جا رہا ہے اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا ۔۔

اس نے بچ کر ایک نظر احتشام کو دیکھا وہ صوفے پر بیٹھے ہوئے سگریٹ پی رہا تھا ۔آیت مصطفی کے کپڑے الماری میں سے نکالنے چاہے ۔۔

وہ احتشام سے بچ بچ کر کام کر رہی تھی ۔۔اس نے بہت ہی احتیاط سے اپنا موبائل اٹھایا ۔اور ایک نظر کمرے کے باہر جھانکا پھر اس نے واٹس ایپ کھولا اور جلدی سے ایک وائس نوٹ بنا کر مصطفی کے بھائی منور کو سینڈ کیا ۔۔

اس وائس نوٹ کے اندر اس نے منور کو یہ بتایا کہ احتشام مصطفی کو باہر لے جانے کی ضد کر رہا ہے ۔۔جبکہ منور یہ بات خوب جانتا تھا کہ جب سے مصطفی پیدا ہوا تھا وہ اسے ایک بار بھی اپنے ساتھ باہر لے کر نہیں گیا تھا اور اج وہ بے حد اصرار کر رہا تھا تو یقینا کچھ نہ کچھ تھا کوئی نہ کوئی بات تھی جس سے ایت اور منور دونوں ہی بالکل انجان تھے ۔۔

میں مصطفی کو احتشام کے ساتھ باہر نہیں بھیجنا چاہتی منور بھائی مجھے کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا ہے ۔۔

میرا دل نہیں مان رہا ۔میں نے منع کیا تو انہوں نے مجھ پر غصہ کیا مجھے سمجھ میں نہیں ا رہا میں کیا کروں ۔۔


رکو میں احتشام کو فون کرتا ہوں منور کا میسج ایا ۔۔۔


اگر اپ احتشام کو میسج کریں گے تو وہ سمجھ جائیں گے کہ میں نے اپ سے بات کی ہے ۔اور یہ نہ ہو کہ وہ غصے میں ا کر کوئی غلط قدم اٹھائیں ۔۔ کیونکہ مصطفی ان کے ساتھ ہوگا ۔۔۔

تم پریشان مت ہو میں کچھ کرتا ہوں ۔۔ 


اپ کیا کریں گے بھائی اپ تو اتنی دور بیٹھے ہیں ۔۔


 میں یہ سوچ رہی ہوں کہ جب احتشام مصطفی کو لے کر باہر جائیں تو میں بھی چپکے سے ان کے پیچھے ہی چلی جاؤں ۔۔


تمہارے ایسا کرنے سے احتشام کو پتہ چل جائے گا کہ تم اس کے پیچھے ہو ۔۔

اگر تم اس کا پیچھا کروں گی تو بہت احتیاط سے کرنا ۔۔


وہ بہت ڈر ڈر کر ان سے بات کر رہی تھی ۔۔۔۔

وہ ابھی میسج ہی لکھ رہی تھی ،

کے احتشام نے اسے زور سے پکارا تو موبائل اس کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا ۔۔

کتنی دیر لگے گی مصطفی کو تیار کرنے میں کیا لوہے کے کپڑے پہنا رہی ہو ۔وہ وہیں کمرے میں بیٹھے بیٹھے زور سے بولا ۔۔ایت نے اپنے سوکھے پڑتے ہوئے لبوں پر زبان پھیری ۔۔جی بس لا رہی ہوں ۔۔

اسے جتنی صورتیں ایت کرسی اور جو کچھ وہ پڑھ سکتی تھی اس نے پڑھ کر مصطفی کے اوپر دم کیا ۔۔۔ایک خوف تھا جو اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا کہ احتشام جانے مصطفی کو کیوں اپنے ساتھ لے جا رہا ہے ۔۔


لاؤ دو اسے مجھے احتشام نے تقریبا ایت سے مصطفی کو چھینتے ہوئے کہا ۔۔

ایک بات میری ہمیشہ یاد رکھنا ۔۔ مصطفی تمہارے اکیلے کا بیٹا نہیں ہے ۔ اپنے ساتھ جہیز میں رکھ کر نہیں لائی تھی تم اسے ۔جتنا تمہارا حق ہے تم سے کہیں زیادہ میرا ہے اس پر اور اگر ائندہ تم لوگ مجھ سے کوئی فضول باکی تو تمہاری زبان کھینچ لوں گا ۔۔


وہ مصطفی کو لے کر دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔مصطفی جیسے جیسے ایت کی نظروں سے دور جا رہا تھا اس کے دل کی دھڑکن بڑھتی جا رہی تھی ۔۔احتشام کو تقریبا پانچ منٹ ہوئے تھے وہ گھر سے نکلا تھا کہ آیت کمرے میں گئی اپنا بیگ اور چادر لے کر ائی چادر اوڑھ کر وہ بہت احتیاط سے محتاد ہو کر احتشام کے پیچھے پیچھے جانے لگی ۔۔

اہستہ قدموں سے چلتی ہوئی وہ بہت محتاد طریقے سے اس کا پیچھا کر رہی تھی کہ اسے پتہ نہ چل جائے ۔۔۔

احتشام مصطفیٰ کو اپنی گود میں لیے روڈ کے اوپر چل رہا تھا ۔۔

اور آیت اس کے پیچھے پیچھے ۔۔وہ بہت ڈر ڈر کر چھپ چھپ کر چل رہی تھی ۔۔

روڈ ختم کرنے کے بعد وہ ایک مخصوص گلی میں مڑ گیا جہاں پر وہ اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا ۔۔آیت 

کہیں کونے پر کھڑی ہو گئی ۔جبکہ احتشام گلی کے اندر داخل ہوتے ہوئے اگے کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔

ایک اور گلی ختم کر کے وہ اگے کی طرف بڑھا تو ایت بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دی ۔۔

اب وہ اس دکان کے اگے بیٹھ گیا جس دکان کے اگے اس کے دوست بھی بیٹھا کرتے تھے ۔۔کچھ دیر کے بعد وہاں پر طیب اور اس کے ساتھ دو ادمی اور تھے جنہیں ایت نہیں جانتی تھی ۔۔

احتشام اب ان دو ادمیوں سے کچھ کہہ رہا تھا ۔۔

ایت ان سے کافی دور کھڑی تھی اس وجہ سے وہ ان کی گفتگو نہیں سن پا رہی تھی ۔۔

وہ دونوں آدمی اب اپس میں کچھ بات کر رہے تھے جبکہ احتشام اور طیب دونوں خاموش کھڑے تھے ۔۔۔

ان دونو آدمیوں سے احتشام مصطفی کو ملوانے کے لیے لے کر ایا تھا ان دو ادمیوں میں سے ایک ادمی نے مصطفی کو اپنے گود میں لیا اور باری باری اس کے ہاتھ پاؤں سب چیک کرنے لگا ۔۔

یہ بچہ بیمار تو نہیں ہے نا ۔۔طیب جن دو ادمیوں کو لے کر ایا تھا ان میں سے ایک نے پوچھا ۔۔

نہیں بچہ بالکل صحیح ہے اور صحت مند ۔۔

کسی قسم کی بیماری یا معذوری کو شکار تو نہیں ۔۔دوسرے آدمی نے طیب کو دیکھتے ہوئے کہا ۔


نہیں بچے بالکل صحت مند اور تندرست ہے ۔


بچے کو ہم لوگوں نے اس لیے دیکھنا تھا تاکہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ یہ بچہ بالکل صحیح ہے اور کسی معذوری کا شکار نہیں ۔اگر بچہ کسی بیماری کا یا کسی معذوری کا شکار ہو جائے تو اس کے پیسے پھر کم ملتے ہیں ۔۔وہ ادمی احتشام کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا جس کو طیب اپنے ساتھ لایا تھا ۔۔۔


اس بچے کے پیسے میں تمہیں ایک دو دن میں بتا دوں گا ۔۔

وہ دونوں ادمی اب وہاں سے جانے لگے تھے جب کہ طیب اور احتشام وہیں کھڑے تھے ۔۔۔

وہ دونوں گلی کی طرف بڑھنے لگے اور واپس انے لگے ۔آیت نے جب انہیں باہر نکلتا ہوا دیکھا تو وہ فورا سے وہاں سے نکلی ۔۔اس کی سانس تیز تیز پھول رہی تھی نہ جانے وہ دو لوگ کون تھے جن کو وہ مصطفی سے ملوانے کے لیے لایا تھا ۔۔ ایت کو کچھ سمجھ نہیں ا رہا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے ۔۔۔اس کی انکھوں کے سامنے بار بار وہی منظر ا رہا تھا کہ وہ کس طریقے سے مصطفی کے ہاتھ پاؤں منہ سب چیک کر رہے تھے ۔۔ خوف کے مارے اس کی انکھوں سے انسو بہنے لگے ۔۔۔وہ اپنی انکھوں سے آنسو پوچھتی ہوئی وہاں سے تیز تیز نکلنے لگی ۔۔۔


تیز تیز چلنے کی وجہ سے اس کو بری طرح سے ٹھوکر لگی اور وہ گر گئی ۔۔

جیسے تیسے کر کے اس نے اپنے اپ کو سنبھالا ۔۔اسے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں احتشام کی نظر اس پر نہ پڑ جائے ۔۔وہ طیب کے ساتھ باتیں کرتا ہوں ا رہا تھا ۔اتنے میں طیب نے اپنی جیب میں سے بائیک کی چابی نکالی ۔۔وہ دونوں گلی کے پاس کھڑے ہو گئے تھے جب کہ طیب نے بائیک سٹارٹ کر دی ، ایت نے جب ان دونوں کو بائیک پر بیٹھتے ہوئے دیکھا تو وہ فورا سے ایک طرف ہو کر چھپ گئی وہ دونوں بائیک پر تھے تو یقینا ایت کو گھر تک پہنچنے میں کافی دیر لگتی ۔۔۔۔۔


خوف کے مارے اسے پسینے انے لگے کیونکہ وہ مصطفی کو اپنے ساتھ بائیک پر بٹھا کر شاید گھر کی طرف لے جا رہا تھا ۔۔

اس نے چادر سے اپنا پسینہ صاف کیا ۔۔وہ اب وہیں کھڑی کھڑی کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر رہی تھی کہ وہ کیا بہانہ بنائے کے احتشام اسے پکڑ نہ پائے اور نہ ہی احتشام کو اس کے اوپر شک ہو کہ وہ اس کا پیچھا کر رہی تھی ۔۔۔

اپنے بیگ میں سے پیسے نکالے اور پھر مارکیٹ کی طرف گئی ۔۔مارکیٹ جا کر اس نے گوشت کچھ سبزیاں خرید لی ۔۔راستے میں اس نے رکشہ لیا اور پھر گھر کی طرف روانہ ہوئی ۔۔

وہ بس جلد از جلد گھر جانا چاہتی تھی ۔۔

دکانوں پر رش کی وجہ سے اسے کچھ وقت لگ گیا ۔۔ 

احتشام جب تک گھر جا چکا تھا ،اس نے گھر کا دروازہ بجایا لیکن کسی نے نہیں کھولا تو اس نے چابی نکال کر خود ہی دروازہ کھول لیا ۔۔۔


ایت۔۔۔۔۔

 گھر میں گھستے ہی اس نے ایت کو پکارا دو تین اوازوں کے بعد اس نے مصطفی کو اتار کر اپنی گود سے بیڈ پر رکھ دیا ۔اور اسے ہر جگہ دیکھنے لگا ۔۔لیکن وہ اسے کہیں نہیں ملی ۔یہ کہاں چلی گئی ۔۔

کہیں میرا پیچھے تو نہیں کر رہی تھی ۔۔اسے اچانک غصہ ا گیا ۔۔

تقریبا 10 منٹ اور انتظار کرنے کے بعد اخر کار وہ دروازے پر کھڑی تھی ۔اس کے حلق میں کانٹے چبنے لگنے تھے خوف کے مارے اس کو ٹھنڈے پسینے ا رہے تھے ۔۔

کہاں دفع ہو گئی تھی ۔۔وہ اس کو دیکھنے کے ساتھ ہی اس سے پوچھنے لگا ۔

وہ میں مار کٹ تک گئی تھی کچھ سامان خریدنے ۔۔

ایت نے بمشکل اپنے اپ کو قابو کرتے ہوئے کہا ۔۔

کون سا سامان لینے گئی تھی مجھ سے بغیر پوچھے ہاں ۔۔وہ زور سے دھاڑا ۔۔

وہ۔۔۔ وہ میں یہاں قریب مارکیٹ تک گوشت لینے گئی تھی ۔۔اور کچھ سبزیاں بھی ختم ہو گئی تھیں تو بس ۔۔

گوشت اور سبزیاں تم کل لے کر ا گئی تھی پھر کیا لینے کے لیے گئی تھی جھوٹ بول رہی ہو مجھ سے ۔۔


نہیں وہ ۔۔وہ۔، نکل نہیں رہا تھا فرج میں سے جم بھی گیا تھا ۔ اور کھانا پکانے کے لیے بھی چاہیے تھا تو میں نے سوچا میں لے اتی ہوں اور کچھ سبزیاں بھی لینی تھی ۔۔۔ایت نے اپنے سوکھے پڑھتے ہوئے لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا ۔۔۔


احتشام نے اسے ایک نظر دیکھا ۔۔اور پھر اس کے قریب بڑھا ۔۔اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے زور سے پکڑ کر دبایا جھوٹ بول رہی ہو مجھ سے ۔۔۔

میں کیوں جھوٹ بولوں گی اپ سے اپ میرے ہاتھ میں دیکھ لیں سامان ہے ۔۔

میرا پیچھا کر رہی تھی ۔۔جھوٹ مت بولنا میرے سامنے ۔۔

میں واقعی سامان لینے گئی تھی ۔۔میں کیوں جھوٹ بولوں گی اپ سے ۔۔

ا گر ائندہ مجھے بغیر بتائے کہیں پر گئی تو تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا ۔۔۔احتشامنے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا ۔۔

وہ سامان رکھ کر تیزی سے کمرے میں گئی اور اس نے مصطفی کو اٹھا کر اپنے گلے سے لگایا ۔۔ تب جا کر یہ تھوڑا سا سکون ملا گلے لگانے کے بعد وہ پاگلوں کی طرح مصطفی کو چوم رہی تھی ۔۔۔

ایک خوف تھا انجانہ سا جو اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا ۔۔


اج اتوار کا دن تھا اور مصطفی اج صبح سے ہی فارس کے ساتھ اس کے کمرے میں موجود تھا ۔

وہ فارس کے ساتھ اتنا خوش تھا ۔کہ وہ اس کے بلانے کے باوجود بھی نہیں ا رہا تھا ۔۔

جیسے جیسے دن گزر رہے تھے مصطفی فارس کے بے حد قریب اتا جا رہا تھا اور یہی حالت فارس کی بھی تھی ۔۔ اگر وہ اسے کہیں نظر نہ اتا تو وہ مصطفی کے بارے میں پوچھتا ،اور اسے اپنے پاس بلوا لیتا ۔۔ ابھی بھی وہ دونوں اور اس کے کمرے میں موجود گیم کھیل رہے تھے ۔۔مصطفی فارس کے ساتھ بہت خوش تھا ۔۔

آیت نے شیر خان سے کہہ کر مصطفی کو فارس کے کمرے سے دو بار بلوانا چاہا مگر وہ نہیں ا رہا تھا تو مجبورا سے خود جانا پڑا ۔۔۔

اس نے کمرے کا دروازہ بجا یا ۔

کم ان ۔۔۔نے وہیں سے اواز لگائی ۔۔

دروازہ کھولا تو وہ دونوں بیڈ کے اوپر بیٹھ کر کوئی گیم کھیل رہے تھے ۔۔

فارس نے ایک نظر اسے دیکھا ۔دونوں کی نظریں ایک لمحے کے لیے ملی تھیں ۔

مصطفی کو بھیج دیں بہت وقت ہو گیا ہے ۔۔۔

ایت نے فارس کو دیکھتے ہوئے کہا ۔فارس نے مصطفی کی طرف دیکھا جس کے چہرے کے اوپر صاف لکھا ہوا تھا کہ وہ مزید گیم کھیلنا چاہتا ہے ۔۔


ہم ایسا کرتے ہیں کہ باقی گیم ہم بعد میں کھیلیں گے ابھی تم اپنی مما کے ساتھ چلے جاؤ ۔۔


ماں تھوڑا سا گیم اور کھیل لوں ۔فارس بڈی بہت مزے کا گیم لائے ہیں ۔۔


ابھی ا جاؤ مصطفی ۔۔کافی دیر سے ہو تم یہاں پر ۔۔اپ کے دوست کو بھی کام کرنا ہوتا ہے اجاؤ جلدی سے ۔باقی گیم بعد میں کھیل لینا ۔آیت نے مصطفی کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔


ٹھیک ہے ہم باقی گیم بعد میں کھیل لیتے ہیں ۔۔مصطفی نے ایک نظر فارس کو دیکھا ۔۔


اوکے بڈی ۔۔۔۔

ابھی تم ممی کے ساتھ جاؤ فارس اسے اپنے ساتھ دروازے تک لے آیا وہ وہیں کھڑی تھی اندر نہیں ائی تھی ۔۔دروازے پر پہنچنے کے بعد فارس گھٹنے کے بل بیٹھا اور اس نے مصطفی کے دونوں گالوں کو چوم کر پیار کیا ۔۔بائی ۔۔۔فارس نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

جواب وہ بھی ہاتھ ہلاتا ہوا باہر کی طرف چلا گیا ۔۔


وہ اب اسے اپنے ساتھ لے جا رہی تھی ۔۔

میں نے تمہیں شیر خان سے دو بار بلایا لیکن تم نہیں ائے کیوں ۔۔

وہ مصطفی کو دیکھتے ہوئے شکوہ کر رہی تھی ۔۔۔

ما اپ کا کب سے انتظار کر رہی ہے اور اپ ہو کے اپنے دوست کے ساتھ گیم کھیل رہے ہو ۔ اس نے اب اپنے بیٹے سے دوسرا شکوہ کیا ۔۔

وہ اس بات کو بہت اچھے طریقے سے محسوس کر رہی تھی کہ فارس اور مصطفی ایک دوسرے کے بہت قریب ا چکے ہیں۔۔اور یہی بات ایت کو حد سے زیادہ پریشان کرتی تھی ۔۔


وہ اسے اپنے ساتھ لے ای ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ڈنر کر رہے تھے ۔۔۔

تمہاری کلرنگ بھی ادھوری رہ گئی ہے مصطفی ایت نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

نہیں کلرنگ تو میں نے اور فارس بڈی دونوں نے کمپلیٹ کر لی تھی ۔۔ایک بار پھر سے فارس کا ذکر ان دونوں کے درمیان آ کھڑا ہوا تھا ۔۔


اور یہ تم نے کب کمپلیٹ کی ۔۔وہ بے حد حیران تھی اسے اس بات کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں تھا کے وہ اس کے ساتھ مل کر کون کون سے کام کر کے ا جاتا ہے ۔۔۔


کل ۔۔مصطفی نے کہا ۔۔۔۔


لیکن تمہارے کلرز اور پینٹس تو یہاں ہیں میرے پاس پھر تم نے کیسے کیا اپنا کام ۔۔


بڈی کے پاس بھی ہیں انہوں نے مجھے نیو لا کر دیے تھے۔وہ ان کی سٹڈی ٹیبل پر رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔


میں نے تمہیں منع کیا ہے مصطفی کہ تم کسی سے کوئی سامان نہیں لو گے خصوصا اپنے دوست سے تم کیوں نہیں منع کرتے اگر وہ تمہیں کچھ دیتے ہیں تو تم نے فورا سے انہیں انکار کرنا ہے یہی سمجھایا تھا نا میں نے تمہیں ۔۔


میں نے ان سے کچھ نہیں لیا ۔۔

وہ کلرز ان کی سٹڈی ٹیبل پر تھے ۔۔

انہوں نے کہا بکس لے اؤ تو پھر ہم لوگوں نے ساتھ کلرنگ ختم کر لی ۔وہ ایت کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔


فارس مصطفی کے لیے بہت سارے پینٹ برشز کلرز وغیرہ کی ایک بڑی سی کٹ لے کر ایا ۔۔

وہ یہ بات بہت اچھے طریقے سے جانتا تھا کہ ایت مصطفی کو منع کرتی ہے اس سے چیزیں لینے سے یہی وجہ تھی کہ فارس نے وہ کٹ اپنے پاس رکھ لی تھی ۔۔۔ تاکہ ایت اس بات سے پریشان نہ ہو ۔

مصطفی کے لیے چیزیں لینا فارس کو بہت پسند تھا اسے خوشی محسوس ہوتی تھی جب وہ اس کے لیے کچھ لیتا تھا ۔۔


مصطفی اور ایت دونوں سونے کے لیے لیٹے ہوئے تھے ۔۔وہ مصطفی کے بالوں میں اہستہ اہستہ انگلیاں پھیر رہی تھی ۔۔


فارس بڈی بہت اچھے ہیں ماں ۔وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے اپ کرتی ہیں ۔۔وہ اپنا معصوم سا چہرہ اٹھا کے اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

ایت اسے دیکھ کر زبردستی مسکرائی ۔جبکہ یہ بات ایت کو پریشان کر گئی تھی ۔۔


وہ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور انہیں کرکٹ بھی بہت اچھا اتا ہے اور انہوں نے مجھے کہا ہے کہ وہ مجھے ایک بزنس مین بھی بنا دیں گے پھر میں بھی ان کی طرح کام کروں گا روز افس جاؤں گا وہ بڑے مزے سے اپنی ماں کو بتا رہا تھا ۔۔ہم نے ساتھ پینٹ کلرنگ کی چاکلیٹس کھائیں بہت ساری باتیں کی بہت مزہ ایا ۔۔مجھے ان کے ساتھ بہت مزہ اتا ہے ماں ۔۔وہ اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

اس پر ایت کو ایک بار پھر سے اس چیز کا احساس ہوا کہ مصطفی فارس کی بے حد قریب ا چکا ہے ۔۔ اور یہ ایت کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے ۔۔۔


ماں کیا میرے بابا فارس بڈی جیسے ہیں ؟؟

مصطفی نے اچانک ایسا سوال پوچھا کہ ایت کو یوں ہوگا جیسے اس کی سانس رکنے والی ہے ۔۔لمحے بھر کے لیے وہ کچھ بھول نہ سکی ۔۔۔مصطفی کی اس بات میں ایت کی زبان سے سارے الفاظ چھین لیے تھے ۔۔

بتائیں نا ماں اپ خاموش کیوں ہیں مصطفی نے اصرار کیا ۔۔۔


اپ نے کہا تھا کے بابا کام سے باہر ہیں ۔۔۔تو وہ کب تک ا جائیں گے اور کتنا ٹائم لگے گا ان کو ہمارے پاس انے میں ۔۔۔

 کیا میرے بابا فارس بڑی جیسے ہوں گے ۔۔ ؟؟


ایت کو لگا کہ کوئی اس کا گلا دبا رہا ہے ۔۔۔

ماں اپ کچھ بول کیوں نہیں رہی ۔۔

مصطفی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔ایت نے اپنے بیڈ کی چادر کو اپنی مٹھی میں جکڑا ۔۔


وہ کب تک ا جائیں گے میرے پاس مصطفی کے سوالات کسی صورت ختم نہیں ہو رہی تھی ۔۔


ایت نے اپنی خشک کرتے ہوئے لبوں پر زبان پھیری ۔۔

وہ۔۔۔ وہ ابھی مصروف ہیں ۔۔۔

کچھ وقت کے بعد ائیں گے ۔۔۔جب تک آپ بابا کا ذکر کسی کے سامنے نہیں کرو گے ۔ میں نے اپ کو سمجھایا ہے نہ مصطفی ۔ جب اپ بابا کی بات کرتے ہو تو ماں اداس ہو جاتی ہے کیونکہ اپ کے بابا کو ماں مس کرنے لگتی ہے ۔ اپ چاہتے ہیں کہ اپ کی ماں اداس ہو جائیں ۔۔۔


نہیں ۔۔۔وہ فورا سے بولا ۔۔


ٹھیک ہے تو پھر اب تم بابا کے متعلق کوئی بات نہیں کروں گے نہ مجھ سے اور نہ کسی اور سے اوکے ورنہ میں رونے لگوں گی ۔۔ کیا اپ چاہتے ہو کہ اپ کی ماں رو جاۓ ۔


نہیں بالکل نہیں ۔۔


ٹھیک ہے تو اپ مجھے بتاؤ کہ میں نے کیا سمجھایا ہے بابا کے بارے میں ۔۔


اپ نے مجھے یہ سمجھایا ہے کہ بابا کسی ضروری کام سے گئے ہوئے ہیں ۔۔ اور ہو سکتا ہے کہ ان کو انے میں کچھ سال لگ جائے۔ اور بابا کال بھی نہیں کر سکتے ۔کیوں کہ وہاں نٹوورک نہی ہوتے ۔۔ اور ۔۔

ٹھیک ہے بیٹا بس ۔۔۔ایت کے گلے میں کانٹے چبھنے لگی تھی ۔۔۔وہ انسو بہانا چاہتی تھی لیکن مصطفی کے سامنے نہیں ۔ آیت نے اسے اپنے گلے سے لگایا وہ کب تک اس سے جھوٹ بولتی رہے گی وہ نہیں جانتی تھی۔۔

ایک نا ایک دن اس کو سب پتا چل جاۓ گا پھر وہ کیا کرے گی ۔۔کیسے اپنے بیٹے کا سامنا کرے گی کے وہ اس سے اتنے وقت جھوٹ بولتی ای ہے ۔۔۔


مصطفی کو سلا کر وہ خود کافی دیر تک جاگتی رہی ۔۔

مصطفی کے سوالاتوں نے اس کی نیند اڑا دی تھی ۔۔


کچھ دن یوں ہی خاموشی سے گزر گئے ۔۔

فارس اس وقت ویڈیو کال پر مسز شکیل کے ساتھ مصروف تھا ۔

وہ ابھی مسز شکیل سے بات ہی کر رہا تھا کہ مصطفی تیزی سے بھاگتے ہوئے اس کے کمرے میں ایا ۔۔مصطفی کی اواز سن کر مسز شکیل نے مصطفی سے بھی بات کرنی چاہیے ۔۔


آپ کب آے گی میں آپکو بہت مس کرتا ہوں ۔۔ماں بھی اپ کو بہت مس کرتے ہیں ۔۔ وہ اپ کو اتنا یاد کرتی ہیں کہ وہ رات میں روتی بھی ۔۔مصطفی نے یوں اچانک کہا کہ مسز شکیل بالکل خاموش ہو گئی۔۔۔جبکہ فارس نے فورا مسز شکیل کو دیکھا وہ اس سے اچانک نظریں چرانے لگی کم از کم فار اس کو یہی لگا تھا ۔۔

 


میرا پیارا بچہ میں بس کچھ دنو میں آ جاؤنگی تمہارے پاس ۔

میں اپکا ویٹ کرو گا مسز شکیل ۔


جاری ہے ۔۔۔