ایت

 مصنفہ منال علی

 قسط نمبر 13


مسز شکیل کو اج واپس انا تھا تو ایت ان کے لیے ان کے پسندیدہ کھانے بنا رہی تھی ۔۔

ہفتے کا دن تھا اور انہیں رات میں انا تھا ۔۔

مصطفی فارس کے ساتھ ہی تھا ،وہ اسے اپنے ساتھ باہر شاید ائس کریم کھلانے لے کر کرنا چاہتا تھا ۔۔ایت نے جب یہ سنا کہ وہ اس کے ساتھ باہر جانا چاہتا ہے تو اس نے فورا اسے منع کیا لیکن مصطفی نے بہت ضد کی کہ اسے فارس کے ساتھ جانے دیں ۔۔ لیکن ایت نے مصطفی کی بات نہیں مانی ۔۔وہ مایوس ہو کر فارس کے پاس بھاگا ۔۔ فارس نے ا کر اس سے ریکویسٹ کی اور کہا کہ وہ اسے کچھ دیر میں لے کر ا جائے گا وہ اس کی فکر نہ کریں ۔۔


ایت نے ایک نظر مصطفی کو دیکھا جو فارس کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور اپنی بات منوانے کے لیے اسے ایت کے پاس بھیجا تھا ۔۔


فارس اس سے پرمیشن لے کر وہاں سے چلا گیا جبکہ مصطفی کچھ دیر وہیں کھڑا رہا ۔۔

ایت نے اسے ایک نظر دیکھا لیکن کچھ نہیں کہا اور دوبارہ سے پلٹ کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔۔

وہ اب ٹیبل پر بیٹھ کر سلاد کاٹ رہی تھی مصطفی اس کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔

اپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہو گی نا اگر میں ان کے ساتھ چلا جاؤں تو ۔۔۔پلیز اپ مجھے جانے دینا مجھے ان کے ساتھ بہت مزہ اتا ہے ۔۔مصطفی کو فورا احساس ہوا کہ ایت اس سے ناراض ہے ۔۔


ہاں بالکل میں تم سے ناراض ہوں جب میں نے تمہیں منع کر دیا تھا تو تمہیں کیا ضرورت تھی اپنے دوست کو میرے پاس بھیجنے کی ۔۔ میں دیکھ رہی ہوں جب سے فارس صاحب کے دوست بنے ہیں اپ ماما کی بات کو نظر انداز کرتے ہو ۔۔ میں اپ کو منع کرتی ہوں لیکن اپ پھر بھی وہی کام کرتے ہو ۔۔میں نے اپ کو کل ہی ائس کریم کا پورا ایک پیکٹ دلایا ہے وہ فرج میں رکھا ہوا ہے اپ وہ بھی تو کھا سکتے ہو نا مصطفی ۔۔۔لیکن نہیں اپ نے اپنے ہی کرنی ہے اور صرف اپنے دوست کی ماننی ہے ماں کی نہیں ماننی ۔۔اپ کو کیا فرق پڑتا ہے ویسے بھی میری ناراضگی سے ۔۔


مجھے ان کے ساتھ اچھا لگتا ہے وقت گزارنا جب وہ میرے ساتھ کھیلتے ہیں مجھ سے باتیں کرتے ہیں مجھے پیار کرتے ہیں مجھے وہ بہت پسند ہیں ۔۔ اپ کو پتہ ہے وہ میرے بیسٹ فرینڈ بن چکے ہیں ۔۔ کیا اپ میرے بیسٹ فرینڈ کو پسند نہیں کرتی ۔۔


میں نے یہ نہیں کہا کہ میں اپ کے بیسٹ فرینڈ کو پسند نہیں کرتی ۔میں اپ سے یہ کہہ رہی ہوں کہ جب ماں اپ کو منع کر دیں تو اپ نے ماں کی بات سننی ہے لیکن میں یہ بہت ٹائم سے نوٹ کر رہی ہوں کہ تم اب میری بات نہیں سن رہے خصوصا جب میں اپ کو منع کرتی ہوں کسی بھی چیز کے لیے جو اپ کو فارس دیتے ہیں میں نے اپ کو سمجھایا ہے نا کہ اپ ان سے کچھ نہیں لیں گے اور نہ ہی ان کے ساتھ کہیں جائیں گے ۔۔

اب میری بات دھیان سے سنو اور اس کے ساتھ اگر ائس کریم کھانے کے لیے جاو گے

تو بس صرف اور صرف ائس کریم ہی لینا اگر ائس کریم کے علاوہ مصطفی میں نے اپ کے ہاتھ میں کچھ اور دیکھا تو پھر ماں اپ سے بات نہیں کریں گی یہ بات اپ یاد رکھنا ۔۔۔


میں نے ان سے کبھی کچھ نہیں مانگا اپ میری بات پر بلیو کیوں نہیں کرتی ۔۔وہ خود سے دیتے ہیں ۔۔میں منع بھی کرتا ہوں لیکن۔۔۔ وہ ایک دم خاموش ہو گیا ۔۔اپ کو لگے گا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں ۔۔ ۔۔۔

لیکن میں انہیں منع نہیں کرنا چاہتا کیونکہ مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے پیار کرتے ہیں مجھے کوئی چیز دیتے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے بابا نے مجھے وہ چیز دی ہے ۔۔۔


مصطفی اس کے لہجے میں تھوڑی سی سختی اگئی ۔۔۔یہ کیا بات ہوئی اس طرح سے کون بات کرتا ہے ۔۔

وہ تمہارے بابا نہیں ہیں ۔ سمجھ ائی تمہیں وہ تمہارے بابا نہیں ہے یہ بات یاد رکھنا ہمیشہ ۔۔ائندہ میں تمہارے منہ سے اس طرح کی کوئی بات نہیں سنوں ۔۔

جو میں کہہ رہی ہوں بس اس پر عمل کرو اور کسی بات کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ۔۔۔تمہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو کوئی بھی چیز اچھی لگے صرف اور صرف میرے پاس ایا کرو صرف اور صرف میرے پاس ۔ میرے علاوہ تم ایک اور انسان سے چیز لے سکتے ہو اور وہ ہے مسز شکیل اس کے علاوہ تم کسی سے کچھ نہیں لو گے میری بات سمجھ اگئی جاؤ وہ تمہارا ویٹ کر رہے ہوں گے ۔۔۔

آیت دوسری طرف منہ کر کے اب سبزیاں کاٹ رہی تھی ۔۔۔

مصطفی کے سوالات اور اس کی باتیں دن بدن مشکل ہوتی جا رہی تھی ۔۔روزانہ فارس کا ذکر ان دونوں کے درمیان ا کھڑا ہوتا ۔۔وہ کیسے دن بدن اس کے قریب ہوتا جا رہا تھا ۔اور ایت کے لیے یہ بات قابل برداشت نہیں تھی ۔ ایک دوست تک تو ٹھیک تھا ۔لیکن مصطفی نہ جانے اس کو کیا سمجھنے لگا تھا اور کیا ماننے لگا تھا ۔۔۔

سبزیاں کاٹتے کاٹتے اچانک اس کا ہاتھ رک گیا ۔۔

بس بہت ہو گیا ۔۔۔ میں مسٹر فارس کو صاف صاف منع کر دوں گی کہ وہ مصطفی سے۔۔۔ ایک لمحے کے لیے وہ خاموش ہو گئی ۔۔۔وہ جانتی تھی کہ اس کی محبت صاف ہے مصطفی کے لیے لیکن مصطفی جو بچپن سے ہی باپ کی محبت سے نامحرو م رہا ہے یوں فارس کے اس طرح بے پناہ محبت کرنے پر کہیں وہ اسے اپنا با با ہی نہ سمجھ لے اور یہ بات ایت کو حد سے زیادہ پریشان کرتی تھی ۔۔فارس کی محبت کی وجہ سے وہ اب ہر رات اپنے بابا کا ذکر کرتا ہر رات اپنے بابا کے بارے میں ایت سے پوچھتا ۔ہر رات اپنے بابا کو اور فارس کو دونوں کو ایک دوسرے سے ملاتا ۔کہ میرے بابا فارس بڈی کی طرح ہوں گے وہ ایسے دیکھتے ہوں گے اور مجھ سے اتنا پیار کرتے ہوں گے اور ایت بے بسی کی مورت بنی ہوئی مصطفی کی باتوں کو سن رہی ہوتی ۔اور اخر کار اسے جھوٹ بول کر اسے بہلانا پڑتا ۔۔یہ کام ایت کے لیے دن بدن مشکل ہوتا جا رہا تھا۔۔۔اس کام کو کرتے کرتے ائے تھکنے لگی تھی ۔۔مصطفی کے سوالات کسی صورت ختم نہیں ہوتے تھے ۔اور ایت جھوٹ بول بول کر خود ہی شرمندہ ہو جاتی تھی ۔۔


سارا کھانا ریڈی کرنے کے بعد اب وہ مسز شکیل کا کمرہ ریڈی کر رہی تھی ۔ویسے تو ہر چیز ریڈی تھی لیکن پھر بھی اس نے ایک نظر دیکھ لیا کہ کسی چیز کی کچھ کمی تو نہیں ۔۔ وہ ڈھائی سال سے شکیل کے ساتھ رہ رہی تھی اسے میسز شکیل کی ہر ضرورت کے بارے میں پتہ تھا ۔۔


وہ کمرہ دیکھ کے نیچے ہی اتر رہی تھی کے سامنے سے فارس اور مصطفی دونوں اتے ہوئے نظر ائے مصطفی اس کی گود میں تھا اور فارس کے ہاتھ میں کچھ بیگ تھے ۔۔


ایت نے ان دونوں کو اندر اتا ہوا دیکھا تو وہ مصطفی کے پاس پہنچی ۔فارس نے اسے گود سے اتار کر نیچے رکھا ۔اور پھر وہ تمام شاپر جو اس کے ہاتھ میں تھے اس نے مصطفی کی طرف بڑھائے ۔۔ مصطفی بالکل خاموش تھا ۔۔جب کہ ایت کی سمجھ میں بہت کچھ ا رہا تھا ۔۔وہ ایک بار پھر سے اس کے لیے بے پناہ سامان لے کر ایا تھا اور شاید اسے شاپنگ بھی کروا کرا رہا تھا ۔۔ ایت کو فارس کی یہ حرکت بالکل بھی پسند نہیں تھی کہ وہ اسے اتنے مہنگے مہنگے تحفے دیا کرتا تھا ۔ اور وہ یہ بات بھی جانتی تھی کہ وہ مصطفی کی محبت میں یہ سب کچھ کرتا ہے لیکن یہ تحفے اور فارس کی محبت جو مصطفی کے لیے تھی ایت کے گلے کا پھندہ بن رہی تھی ۔اور وہ محبت جو فارس مصطفی کو دیتا تھا وہ اس کا گلا دبانے کے لیے کافی تھی ۔۔

ایت نے خاموش نظروں سے مصطفی کو دیکھا ۔۔تو اس نے نظریں جھکا لیں ۔۔


فارس نے ایک نظر مصطفی کو دیکھا اور پھر مصطفی کو دوبارہ اپنی گود میں اٹھا لیا ۔۔وہ سمجھ گیا تھا کہ ایت مصطفی سے ناراض ہے ۔


اگر تم برا نہ مانو تو میں اسے اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں ۔۔۔فارس نے ایت کو دیکھتے ہوئے کہا ۔


ایکچولی مجھے مصطفی کو ریڈی کرنا ہے۔۔اسی لیے مصطفی کو اپ میرے ساتھ بھیج دیں ایت نے فورا کہا ۔۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ فارس اس کے ساتھ مزید وقت گزارے ۔۔


میں ریڈی کر دوں گا ۔۔۔فارس نے مصطفی کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔


نہیں۔۔۔

 میں خود ریڈی کر لیتی ہوں ۔۔

اپ کو ویسے بھی دیر ہو رہی ہوگی ایئرپورٹ جانا ہے اپ کو میسز شکیل کو لینا ہے ۔مصطفی میرے ساتھ ہی رہے گا اس نے فورا کہا ۔۔


وہ اس وقت فارس کو یہ نہیں کہنا چاہتی تھی کہ وہ مصطفی سے تھوڑا دور رہے ،اور اسے یہ سامان وغیرہ نہ دلایا کریں اور نہ ہی اپنے پاس سے تحفے دیا کریں ۔۔لیکن وہ وقت مناسب نہیں تھا اس لیے وہ خاموش ہو گئی ۔


ٹھیک ہے جیسے تمہیں ٹھیک لگے ۔۔۔فارس نے مصطفی کو اتار کر ایت کی طرف بڑھا دیا ۔۔مصطفی بالکل خاموش تھا ۔۔

فارس نے وہ سارے بیگ مصطفی کے ہاتھ میں تھمائے تھوڑی دیر بعد ملتے ہیں لٹل بوائے وہ اس کے بالوں پر پیار کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔


ایت بغیر اس کی طرف دیکھیں اس کا ہاتھ پکڑ کر سیدھا اسے اپنے ساتھ لے گئی ۔۔یہ وقت مناسب نہیں تھا کہ وہ فارس سے یہ تمام باتیں کرتی ۔۔جب کہ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ مسز شکیل کچھ دیر میں انے والی ہیں ۔بہتر یہی تھا کہ وہ ڈائریکٹ میسز شکیل سے بات کریں کیونکہ وہ زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں ایت کو اور اس کے حالات کو لہذا وہ خاموش رہی اور اس نے فارس سے کچھ نہیں کہا ۔۔۔


وہ اسے اپنے پورشن میں لے ائی اور پھر مصطفی کو واش روم میں بھیجا اور پھر ا سے کپڑے لا کر دیے ۔وہ کپڑے چینج کر کے باہر ایا تو وہ اس کی شرٹ کے بٹن بند کر نے لگی ۔۔۔


ائی پرومس میں نے کچھ بھی نہیں مانگا تھا ۔۔وہ اپنی ماں کی خاموشی کو دیکھ کر یہی سمجھا تھا کہ وہ اس سے ناراض ہے ۔۔


اپ مجھ سے بات مت کرو اپ کو میں نے کہا تھا نا ائس کریم کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔۔


 ماں میں نے کچھ بھی نہیں مانگا میں سچ کہہ رہا ہوں اپ چاہیں تو فارس بڈی سے جا کر پوچھ لیں میں بالکل جھوٹ نہیں بول رہا ۔ کیونکہ میں جانتا ہوں اللہ تعالی جھوٹ بولنے والوں کو پسند نہیں کرتے اپ نے بتایا تھا ۔۔لیکن پھر بھی اپ ان سے پوچھ لیں میں نے کچھ نہیں مانگا ان سے ۔۔وہ خود سے ہی لیتے رہے تھے ۔میں نے انہیں کہا کہ ماں مجھے منع کرتی ہیں کہ میں اپ سے کچھ بھی نہ لوں چاکلیٹ بھی نہیں ۔۔ ایت نے اپنے بیٹے کی بات پر اپنا سر پکڑ لیا ۔۔۔

وہ خاموش رہی اب وہ اس ننھے سے بچے کو کیا کیا سمجھاتی ۔۔۔


ان ساری باتوں کو چھوڑو تمہارے لیے میں نے جوس بنایا ہے ٹیبل سے گلاس اٹھاؤ اور پی لو ۔وہ اس کا دھیان کہیں اور لگانا چاہتی تھی ۔۔


کون سا بنایا ہے اپ نے ۔۔


جاؤ جا کر دیکھ کر اؤ پتہ چل جائے گا ۔۔


اوکے وہ تیزی سے کہتا ہوا ٹیبل کی طرف بھاگا ۔۔


رات کے اٹھ بجے کا وقت تھا مسز شکیل اور فارس دونوں گھر کے اندر داخل ہوئے ۔

ایت مسںز شکیل کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی وہ دونوں اب ایک دوسرے سے گلے مل رہی تھیں ۔۔مصطفی بھی مسز شکیل کو دیکھ کر بہت خوش تھامسز شکیل نے جھک کر اس کے دونوں گالوں کو چوما ۔۔

میں نے اپ کو بہت مس کیا مسز شکیل ۔اس معصوم نے فورا سے کہا ۔۔


میں نے بھی اپنے چھوٹے سے شہزادے کو بہت مس کیا ۔۔۔

میں تمہیں بتا نہیں سکتی تم مجھے کتنا یاد ا رہے تھے ۔۔وہ اب اس کے گالوں کو اپنے ہاتھوں میں اہستہ سے لیے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔


میسز شکیل نے ایک نظر ایت کو دیکھا وہ بہت چپ چپ تھی اور اداس بھی ، ایت نے جب انہیں اپنی طرف دیکھتا ہوا پایا تو وہ انہیں دیکھ کر اہستہ سے مسکرائی ۔چلو اؤ اندر چلتے ہیں مسز شکیل نے ایت کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اندر کی طرف چل پڑی ۔۔


بہت اچھے ماحول میں سب نے مل کر کھانا کھایا ۔۔کھانے کی ٹیبل پر اج ایت اور مصطفی دونوں ہی موجود تھے کیونکہ وہ پہلے ہی بول چکی تھی ۔کہ جب میں وہاں اؤں تو تم مجھے وہاں پر ملنا رات کا کھانا ہم سب ساتھ کھائیں گے ۔اور وہ مسز شکیل کی بات سے انکار ہرگز نہیں کر سکتی تھی ۔۔


شام کا وقت تھا میسز شکیل اور ایت دونوں لان میں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔

مصطفی لان کے دوسری طرف اپنے دوست کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔۔


میں تمہیں کل سے دیکھ رہی ہوں تم مجھے بہت چپ چپ لگ رہی ہو کیا ہوا سب کچھ ٹھیک تو ہے نا ۔مسز شکیل نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔


جی سب کچھ ٹھیک ہے اپ بتائیں شادی کیسی رہی تھکن زیادہ تو نہیں ہوئی اپ کو ۔شادی انجوائے کی اپ نے ۔۔


شادی بہت اچھی تھی اور مجھے بہت مزہ ایا سب کے ساتھ ۔۔۔تمہاری فکر لگی رہتی تھی بس ۔۔۔ تم سے لمبی لمبی باتیں کرنے کی عادت جو ہو گئی ہے یوں بیٹھ کر وہ اپنے ہی بات پر ہنس پڑی ۔۔۔


میرا بھی یہی حال تھا مسز شکیل ۔روز شام میں ،میں اپ کو حد سے زیادہ مس کر رہی ہوتی تھی اکیلے چائے پینے کی عادت جو ختم ہو گئی ہے میری ۔ پورے ایک مہینے کے بعد اج میں اپ کے ساتھ بیٹھی ہوئی چائے پی رہی ہوں ۔بہت اچھا لگ رہا ہے ۔۔


میرے پیچھے سب کچھ ٹھیک تھا ۔۔تمہارے چہرے پر بہت کچھ میں پڑھ سکتی ہوں ۔۔تمہاری ان انکھوں میں بہت کچھ چھپا ہے ۔۔ ۔بتاؤ میری جان اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لو مسز شکیل نے اس کے ہاتھ پر نرمی سے اپنا ہاتھ رکھا ۔۔ایت نے ان کا ہاتھ اٹھا کر اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر نرمی سے اسے دبایا ۔۔میں نہیں جانتی میسز شکیل کہ اپ میرا چہرہ اور میری انکھیں کس طرح سے پڑھ لیتی ہیں ۔۔بہت چھوٹی تھی جب ماں بابا کا انتقال ہو گیا ،پھر اپنی جتنی بھی زندگی میں اپنے چاچا لوگوں کے ساتھ رہی وہاں مجھے محبت نہیں ملی جتنی اپ سے ملی ہے ۔۔شاید زندگی میں مجھ سے محبت کرنے والے دو ہی لوگ ہیں ایک اپ اور دوسرا مصطفی ۔۔ باقی اور کسی نے کبھی مجھے پیار نہیں دکھایا یہ شاید میں محبت کے لائق ہی نہیں تھی ۔۔۔اسی لئے ملی بھی نہیں ۔۔نہ رشتہ داروں نے کی اور نا شوہر نے ۔۔وہ عجیب طریقے سے مسکرائی ۔۔


تم صرف اور صرف محبت کے لائق ہو ایت جن لوگوں کے تم ہاتھوں میں تھی انہیں تمہاری قدر نہیں تھی ۔وہ نہیں جانتے انہوں نے کیا کھویا ہے ۔بے وقوف تھے وہ لوگ جنہوں نے تمہاری قدر نہیں کی ۔


پتہ نہیں مسز شکیل کہ میں کس چیز کے لیے بنی ہوں ۔محبت کے لیے نفرت کے لیے یا ناقدری کے لیے ، میری ناقدری تو شاید میں اب خود بھی کرنے لگی ہوں ۔۔۔اپنا اپ اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ 

مجھے کبھی کسی نے محبت دی ہی نہیں تو اب لگنے لگا ہے جیسے میرے لیے محبت بنی ہی نہیں ہے ۔۔ کبھی کسی نے محبت کی نظر سے دیکھا ہی نہیں مجھے ۔جس نے بھی دیکھا مطلب سے دیکھا مفاد سے دیکھا ۔۔ وہ اپنے کپ پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔


اپ کو پتہ ہے میسز شکیل جب میں احتشام کے ساتھ شادی کر کے اس فلیٹ میں رہ رہی تھی ۔۔تو ہمارے فلیٹ کے بالکل سامنے دو فلیٹ ہوا کرتے تھے ۔۔

وہاں ایک لڑکی میری ہی عمر کی تھی ۔اس وقت وہ شاید میرے جتنی ہی ہوگی اس کا شوہر بھی عمر میں اس سے بڑا تھا جیسے احتشام مجھ سے ۔ شکل صورت کی بھی اچھی تھی اس کا ہسبینڈ جاب بھی کرتا تھا بچے بھی دو تھے لیکن پھر بھی میں نے اس لڑکی کے چہرے کے اوپر کبھی بھی روپ نہیں دیکھا جب کہ وہ شکل و صورت کی اچھی تھی ۔۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا شوہر حد سے زیادہ شکی تھا ۔۔کی وجہ سے اس کی زندگی جہنم بن گئی ۔۔ہر وقت ان کے گھر سے لڑائی کی اواز اتی تھی ۔

اور ہمارے فلیٹ کی دوسری طرف یعنی الٹے ہاتھ کے اوپر ایک بالکل سانولی بالکل عام شکل و صورت والی لڑکی رہتی تھی اپنے شوہر کے ساتھ وہ لڑکی شاید اس وقت 25 30 سال کی ہوگی وہ عام شکل و صورت کی سانولی سی لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ جب بھی ہوتی اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ہوتی ایک زندگی ہوتی تھی مسز شکیل میں نے اس کو کبھی بھی اداس نہیں دیکھا ۔۔میں جب اسکول سے واپس اتی تھی ۔تو وہ دونوں میاں بیوی بائک کے اوپر اپنے بچے کو لے کر ا رہے ہوتے ۔۔

بچہ بھی ان کا بالکل عام شکل و صورت کا تھا ۔لیکن وہ گھرانہ بہت خوشحال تھا کیونکہ اس گھرانے کا سربراہ وہ مرد بہت اچھا تھا ۔۔


شادی کے بعد عورت کی خوشی کا انحصار صرف اور صرف اس کے مرد پر ہوتا ہے ۔۔اگر مرد اچھا ہو تو وہ ایک عام سی شکل و صورت کی لڑکی کو بھی رانی بنا کر رکھتا ہے اگر شوہر اچھا نہ ہو تو پھر اگر اسے جنت کی حور بھی مل جائے تو وہ اس کی قدر نہیں کرتا اس کی ناقدری کرتا ہے ۔۔۔

میں نے بہت سے خوبصورت چہروں کو روتے ہوئے دیکھا ہے مسز شکیل اور بہت سی عام سی شکل و صورت والی لڑکیوں کو راج کرتے دیکھا ہے ۔۔


ان بد نصیب لڑکیوں میں میرا بھی شمار ہوتا ہے ۔۔


وہ اپنے کپ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہہ رہی تھی


تم کیوں مایوس ہوتی ہو ۔۔


میں مایوس نہیں ہوتی ۔۔یا شاید ہوتی ہوں مجھے پتہ نہیں لیکن میں بہت سوچتی ہوں ۔کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا ۔۔

میں نے تو ہمیشہ یہ سوچا تھا کہ میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزاروں گی اور قسم سے میں نے کوشش بھی کی تھی مسز شکیل ۔۔اس بار اس کی انکھوں میں انسو اگئے ،میں نے بہت کوشش کی تھی ۔انسو ٹپک ٹپک کر اب نیچے گر رہے تھے ۔۔بہت مار بھی کھائی ،اس کی مار کے نشان اس کے جلائے ہوئے نشان اب تک ہیں ۔۔ا سے برداشت کرنے کی بہت کوشش کی ۔۔لیکن۔۔۔۔۔لیکن میں ہار گئے ۔۔میں ہار گئ میسز شکیل ۔۔ میں اپنا گھر نہیں بسا پائی ۔۔اور اس شخص نے میرا گھر بسنے بھی نہیں دیا ۔۔میں نے بہت کوشش کی لیکن ۔وہ اب خاموش ہو گئی انسو ٹپک ٹپک کر نیچے گر رہے تھے ۔۔

مسز شکیل نے نرمی سے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔۔۔


ہمت رکھو ۔۔۔


کتنی ہمت رکھوں اب ختم ہوتی جا رہی ہے ۔۔مصطفی کچھ دنوں کے بعد چار سال کا ہونے والا ہے ۔۔وہ بہت تیز بچہ ہے اس کا دماغ بہت تیز چلتا ہے میسز شکیل وہ ہر چیز کے اوپر بہت گہری نظر رکھتا ہے ہر چیز بہت اچھے طریقے سے سمجھتا ہے ۔۔ میں اس کو چاہے کتنا بھی بہلانے کی کوشش کر لوں لیکن وہ کہیں نہ کہیں سے حقیقت تک پہنچ ہی جاتا ہے ۔۔ کچھ دن پہلے میں رونے لگی تھی ۔اور بیچ رات میں اس کی انکھ کھل گئی ،اس نے مجھے دیکھ لیا ۔ اور مجھے کہتا ہے کہ آپ بابا کو یاد کر رہی ہیں اس وجہ سے رو رہی ہیں۔میں نے صاف انکار کر دیا کے ایسا کچھ نہیں ہے لیکن وہ مطمئن نہیں ہوا اور پھر پوری رات یہ مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھا کہ میں دوبارہ نہ رو،میرے کہنے کے باوجود بھی اس نے مجھ پر نظر رکھی ہوئی تھی کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں ۔۔

وہ مجھ سے دن بدن اپنے باپ کے بارے میں پوچھنے لگا ہے ۔۔

ابھی کچھ دن پہلے ہی اس نے میرے ساتھ اتنی لمبی گفتگو کی تھی اپنے باپ کے بارے میں ہر رات وہ مجھ سے کچھ نہ کچھ پوچھتا ہے ۔۔

وہ کہاں ہیں کیسے ہیں کیسے دکھتے ہیں کوئی تصویر کوئی کال کوئی مس کال کوئی میسج کچھ تو ہوگا نا کوئی تصویر تو ہوگی کیسے دیکھتے ہیں مجھے دکھائیں ۔۔ہر ایک چیز وہ مجھ سے پوچھتا ہے ۔۔اور میں ہر روز اس سے کچھ نہ کچھ جھوٹ بولتی ہوں بے وقوف بناتی ہوں لیکن کب تک بناؤں گی کب تک وہ میری باتوں سے بے وقوف بنے گا ۔۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ وہ بیوقوف بننے کا ناٹک کرتا ہے ۔۔کسی دن اگر حقیقت اس کے سامنے اگئی کہ اس کا باپ کون تھا کیسا تھا تو میں کیا کروں گی ۔۔ کیسے بتاؤں گی اسے کہ اس کا باپ جسے وہ بہت اچھا سمجھتا ہے وہ کس قسم کا انسان تھا ۔۔

میری اپ سے ایک ریکویسٹ ہے مسز شکیل ۔۔ میں چاہتی ہوں کہ ۔۔۔۔لمحے بھر کے لیے وہ خاموش ہو گئی ہوں جیسے الفاظ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہو ۔۔۔

مصطفی مسٹر فارس کے بہت قریب ا چکا ہے اور یہ بات میرے لیے بہت پریشانی کا باعث بنتی ہے ۔ وہ ان کے اس قدر قریب اگیا ہے کہ مجھے اس بات سے ڈر لگتا ہے کہ اگر وہ مسٹر فارس سے دور ہو گیا تو اسے بہت تکلیف ہوگی ۔اس لیے میں چاہتی ہوں کہ اپ مسٹر فارس سے بات کریں اور انہیں سمجھائیں کہ وہ مصطفی سے اس قدر محبت نہ رکھیں ۔یہ محبت نہ ہی تو مصطفی کے لیے بہتر ہے اور نہ ہی میرے لیے ۔۔ وہ باپ کی محبت سے نامحرو م ہے ۔اور وہ اسے بہت محبت کرتے ہیں ۔۔ اور اگر کبھی مصطفی ان سے دور ہو گیا تو ا سے بہت تکلیف ہو گئی میں نہیں چاہتی کہ میرے بیٹے کو تھوڑی سی بھی تکلیف ہو ۔میں امید کرتی ہوں کہ اپ میری پوزیشن کو سمجھ رہی ہوں گی کہ میں کن حالات سے گزر رہی ہوں میں جانتی ہوں کہ ان کی محبت مصطفی کے لیے بہت صاف ہے اور ان کی نیت بھی ۔لیکن مصطفی مسٹر فارس کے اندر اپنے باپ کی محبت کو ڈھونڈنے لگا ہے ۔۔اور میں ایسا ہرگز نہیں چاہتی میرے پاس سب سے قیمتی چیز مصطفی ہے اور میں مصطفی کو کسی تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتی ۔۔


جاری ہے ۔۔