تیرے لیے
قسط نمبر 20
اخری قسط حصہ دوم
مصنفہ منال علی
وہ تیسرا شخص کوئی اور نہیں بلکہ شہزاد ہے اسے عاطف کے بولے گئے الفاظ کے اوپر ذرہ برابر بھی یقین نہیں ارہا تھا اس کے دماغ میں شہزاد اور اس کی بے شمار یادیں چل رہی تھیں ایک انتہائی حسین وقت ان دونوں نے ساتھ گزارا تھا اور ساتھ گزارتے آ رہے تھے ۔۔شہزاد اسے ہمیشہ اپنا چھوٹا بھائی اور وہ شہزاد کو ہمیشہ اپنا بڑا بھائی سمجھتا تھا ۔۔۔اسے اچھی طرح سے یاد تھا کہ اگر بچپن میں کبھی بھی ہمدان کی لڑائی کسی سے ہوتی تھی تو شہزاد ا سے بچاتا تھا اور اسے ہر طرح سے پروٹیکٹ کرتا تھا جیسے حرم کرتی تھی ۔۔۔
لمحے بھر میں اس کی انکھوں کے اگے شہزاد کا پریشان سا چہرہ ایا۔۔
حمدان اس وقت 14 سال کا تھا اور وہ اپنے فٹبال ٹیم کا کیپٹن تھا ۔۔۔ ان کے ایریا میں ہونے والے فٹبال کا میچ تھا ۔۔۔حمدان اور اس کی ٹیم دونوں ہی جیت رہے تھے ۔لیکن جو دوسری ٹیم تھی وہ بری طرح سے ہار رہی تھی اور حمدان کو ہرانے کے لیے ٹیم کے دوسرے کیپٹن یاسر نے حمدان کو جان بوجھ کر بری طرح سے دھکا دیا۔۔۔۔
اس لڑکے کی یہ حرکت ہر ایک نے نوٹ کی تھی لیکن ہمدان تکلیف کے باوجود بھی کھیلتا رہا اور اخر کار وہ جیت گیا ۔۔۔
اس لڑکے کی اس حرکت پر اسے ٹیم سے تو نکال دیا گیا لیکن شہزاد اس لڑکے پر بے حد غصہ تھا اس نے بہت سخت الفاظ میں اس لڑکے کو کہا کہ وہ ابھی اور اسی وقت حمدان سے معافی مانگے ۔۔۔
اس لڑکے نے اخر کار معافی مانگی تو وہ حمدان کو لے کر اب ایک بینچ پر بیٹھ گیا ۔۔۔
وہ اب اس کے زخم کو اہستہ اہستہ صاف کر رہا تھا ۔۔
اپ تو ابھی سے ہی ڈاکٹر بن گئے ہیں شہزاد بھائی ہمدان نے مسکرا کر کہا تو وہ بھی ہنس دیا ۔۔۔
اگر تم مجھے نہ روکتے تو میں اس کی خوب پٹائی کرتا دیکھو تو ذرا اس نے تمہیں کتنی بری طرح سے گرایا ہے ۔۔۔
اپ خوامخواہ پریشان ہو رہے ہیں چھوڑ دیں میں خود دیکھ لیتا ہوں ۔
خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہو سمجھے ہلنے کی ضرورت نہیں تمیں ۔ شہزاد نے اسے سختی سے کہا ۔ تو وہ خاموشی سے بیٹھ گیا اور انتہائی محبت سے شہزاد کو دیکھنے لگا ۔۔جب وہ پٹی کر کے دور ہوا تو حمدان نے اس کا چہرہ دیکھا اور پھر بے حد خاموشی کے ساتھ وہ شہزاد کے گلے لگ گیا ۔۔۔۔
اپ بہت اچھے ہیں شہزاد بھائی میں اپ سے بہت محبت کرتا ہوں ۔۔۔۔
ہمدان نے معصومیت سے کہتے ہوئے اسے اور مضبوطی سے پکڑا تو وہ بھی ہنس دیا اور اس نے حمدان کو مضبوطی سے اپنے گلے سے لگایا ۔۔۔
جب تک میں ہوں کوئی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا سمجھے تم اور میری بات ہمیشہ یاد رکھنا میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں بالکل چھوٹے بھائیوں جیسی ۔۔۔۔
اگلے ہی لمحے ہمدان نے اپنی انکھیں زور سے بند کی اس کے سر میں اس وقت شہزاد کو سوچ کر شدید درد ہو رہا تھا اس کا ذہن یہ بات ہرگز ماننے کو تیار نہیں تھا کہ شہزاد ایسا کچھ کر سکتا ہے یقینا عاطف جھوٹ کہہ رہا ہے اور شہزاد بھائی کو پھنسا رہا ہے میں جانتا ہوں وہ ا یسا کچھ نہیں کر سکتے ۔۔۔
جو شخص ہم سے اپنی محبت کرتا ہے وہ ہمیں دھوکہ کیسے دے سکتا ہے بھلا یہ سب جھوٹ ہے سب الزام ہیں ان کے اوپر میں ایسے کسی الزام کو نہیں مانتا میں شہزاد بھائی کو جانتا ہوں وہ تنہا بیٹھے اپنے اپ کو تسلیاں دے رہا تھا ۔۔۔اور یہی دعا کر رہا تھا کہ وہ سب کچھ جھوٹ ہو جو ابھی عاطف نے کہا ہے ۔۔
کچھ دیر کے بعد منور اس کے کمرے میں داخل ہوا منور کو اس کی حالت پر افسوس ہو رہا تھا وہ بہت ٹوٹا ہوا لگ رہا تھا ۔۔۔
اس کے اعتبار کو بری طرح سے ٹھیس پہنچی تھی وہ جانتا تھا ۔۔ وہ اس وقت کس تکلیف سے گزر رہا ہے منور خوب جانتا تھا۔ ۔۔۔
تمہارے لیے کچھ لایا ہوں ۔۔۔
یہ لو کچھ کھا لو ۔۔۔تم نے کافی دیر سے کچھ نہیں کھایا ہے ۔۔۔
نہیں چاہیے کچھ بھی ۔۔۔۔
اگر کچھ نہیں کھا رہے تو کم از کم پانی ہی پی لو اور اپنے اپ کو یو مت تھکاؤ مجھے تمہیں یوں دیکھ کر افسوس ہو رہا ہے حمدان ۔۔
منور نے بے حد مایوسی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا اسے واقعی حمدان کی حالت پر افسوس ہو رہا تھا ۔۔۔
تم مجھے چھوڑو وہ بتاؤ جو میں سننا چاہتا ہوں عاطف جھوٹ کہہ رہا ہے نا ایسا کچھ بھی نہیں ہے نا موبائل کے اندر ۔۔
حمدان نے بے حد بے چینی سے کہا ۔۔۔
منور خاموشی سے اسے دیکھتا رہا اور پھر اہستہ سے وہ موبائل اٹھا کر اس کی ٹیبل پر رکھ دیا ۔
تم خود ہی دیکھ لو وہ موبائل خاموشی سے رکھ کر اب پلٹ چکا تھا ۔۔جب کہ ہمدان کو اس کا چہرہ دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے اس کے سینے پر کوئی کیل ٹھوک دی ہو ۔۔۔
ایک درد کی ٹیس اس کے دل میں دوبارہ سے اٹھی تھی اس نے کپکا پا تے ہوئے ہاتھوں سے وہ موبائل اٹھایا اور پھر اہستہ اہستہ ہر ایک چیز خود چیک کی ۔پھر وہ اس کی گیلری میں ایا اس کے ہاتھ مزید کانپنے لگے ۔۔۔۔اس کے موبائل کی گیلری کے اندر وہ ویڈیو موجود تھی جو اس رات عاطف نے شہزاد کی اور حرم کی بنائی تھی جس سے وہ دونوں ہی ناواقف تھے ۔۔۔۔
اور شہزاد اس قسم کی ویڈیو کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا ۔۔۔عاطف نے یہ ویڈیو بنا ی ہی اس وجہ سے تھی کہ اگر کبھی وہ پھنسے تو پھر شہزاد کو بھی اس کے ساتھ ہی سزا ملے گی ۔۔ ۔۔
اس رات اس نے شہزاد کو بغیر بتائے اس کمرے میں ایک خفیہ کیمرہ لگا کر اس کی ویڈیو ریکارڈ کر لی تھی ثبوت کے طور پر ویڈیو میں صاف واضح تھا کہ اس نے حرم منصور کے ساتھ زیادتی کی ہے ۔۔
حمدان کو جیسے اپنی انکھوں پر یقین نہیں ایا جب اس نے یہ سب کچھ دیکھا تو جیسے وہ ٹوٹ کر بکھر گیا تھا اعتبار کا ٹوٹنا کیا ہوتا ہے اسے اج سمجھ ایا تھا ۔۔۔
اس کی آنکھوں میں سے بیشمار آنسو گر رہے تھے ۔۔۔
آج حمدان بلکل ٹوٹ گیا تھا ۔۔۔
_____________________________
شہزاد نے گھر میں ہر ایک سے جھوٹ کہا تھا کہ اس کی عاطف سے بات ہو گئی ہے اور وہ اس کے فارم ہاؤس پر موجود ہے ۔۔۔
میں نے ابھی فارم ہاؤس کے چوکیدار سے بات کی ہے اس نے میری بات کروا دی ہے عاطف سے وہ میرے فارم ہاؤس پر موجود ہے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ پارٹی کر رہا ہے۔۔۔
اس نے اتنے مطمئن طریقے سے جھوٹ بولا کہ وہ سب اس کی بات پر راضی ہو گئے ۔۔وہ سبھی جانتے تھے کہ سیم کو اپنے دوستوں کے ساتھ پارٹی کرنا بہت پسند ہے ۔۔۔
دوسری طرف وہ لوگ مطمئن ہو گئے ۔۔۔کے وہ فارم ہاؤس پر ہے ۔۔۔
لیکن وہ اپنا فون کیوں نہیں اٹھا رہا تھا نائلہ انٹی نے شہزاد کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
سیم صاحب اپنا موبائل توڑ چکے ہیں اس کی سکرین ٹوٹ گئی ہے اس لئے ۔لیکن اپ بے فکر رہیں میری بات ہو گئی ہے وہ میرے فارم ہاؤس پر موجود ہے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ۔۔۔۔
لیکن بیٹا یہ تو غلط بات ہے اسے تو یہاں ہونا چاہیے تھا تمہارے پاس اتنا بڑا دن ہے تمہارے لیے ۔۔
چھوڑے انٹی یہ اتنے سوچنے والی بات نہیں اپ جانتی تو ہیں اسے وہ یہاں تھوڑی نہ رہا ہے وہ امریکہ میں رہا ہے اور میں اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نہیں سوچتا چلیں ائیں چلتے ہیں ۔۔ابھی چھوٹا ہے وہ سب سکھ جاۓ گا آہستہ آہستہ ۔۔۔۔
شہزاد نے سب کو مطمئن کر دیا اور سب نے شہزاد کی بات پر ہمیشہ کی طرح یقین بھی کر لیا ۔۔
وہ سب حرم منصور کے گھر پہنچ چکے تھے اور نکاح کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھی اب صرف اور صرف نکاح ہونا باقی تھا ۔۔۔۔۔
وہ تمام لوگ اس وقت گارڈن ایریا میں موجود تھے جہاں پر ان کے نکاح کی تقریب تھی ۔۔
جس دوران وہ حرم منصور سے نکاح کر رہا تھا اس دوران ہمدان کی حالت ٹوٹی ہوئی تھی وہ شہزاد کے متعلق تمام حقیقت جان چکا تھا ۔۔۔۔
حرم اور شہزاد دونوں نے نکاح کے پیپر پر دستخط کیے ۔۔۔
اور دوسری طرف ہمدان کا ہر اعتبار شہزاد کے اوپر سے اٹھ گیا ۔۔۔
اب حرم منصور حرم شہزاد تھی ۔۔
اور ہمدان سکندر ۔۔۔۔تکلیف میں جل رہا تھا مر رہا تھا ۔۔۔۔
حمدان نے وہ ساری ویڈیو دیکھ لی اور وہ غصے سے جیسے پاگل ہو رہا تھا اگلے ہی لمحے اس کا دل چاہا کے وہ موبائل اٹھا کر زور سے زمین پر مارے لیکن اس موبائل کے اندر جو ویڈیو موجود تھی وہ ثبوت تھی شہزاد کے خلاف ۔۔ہمدان نے اس ویڈیو کی کاپی ایک اپنے پاس بھی سیو کر لی ۔۔اسے شہزاد پر اس پر بہت غصہ ا رہا تھا اتنا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اس کی جان لے لے۔۔۔
شہزاد اور ہر م دونوں کا نکاح ہو چکا تھا ۔۔۔
نکاح کے کچھ وقت کے بعد وہ بے حد خاموشی سے ہمدان کے کمرے میں گیا اور اس نے حمدان کے کمرے کی ہر جگہ سے تلاشی لی کمرے کے اندر اسے کچھ بھی نہیں ملا ۔اس کا پہلا شک ہمدان پر جا رہا تھا ۔۔وہ ہمدان کے متعلق کوئی نہ کوئی ثبوت ڈھونڈنا چاہتا تھا تاکہ وہ اگے کے لیے کچھ نہ کچھ کام کر سکے۔
وہ ہر صورت اپنے اپ کو بچانا چاہتا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی حقیقت اس کا گناہ کسی کے سامنے ائے اور خاص طور پر حرم منصور کے اور اگر ہرم منصور کو اس کے اس گنا ہ کے بارے میں پتہ چل گیا تو وہ اس سے نفرت کرے گی جو وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔اس نے حمدان کا پورا کا پورا کمرہ چیک کیا اسے کچھ نہیں ملا اسے صرف اور صرف لوکر میں ایک گن ملی تھی جس کا لائسنس بھی اسی کے ساتھ تھا ۔۔برابر میں ایک کارڈ پڑا ہوا تھا جس کو اس نے اٹھا کر اس کی ڈیٹ دیکھی وہ حرم کی زیادتی کے ایک سال بعد گن لی گئی تھی ۔۔۔۔
صرف وہی اس کے کبرڈ میں پڑی تھی ۔
حمدان کے کمرے سے اسے کسی قسم کا کوئی ثبوت نہیں ملا ۔۔
شہزاد نے اپنے ادمیوں کو حمدان کی تصویر بھیجی اور اسے ڈھونڈنے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ وہ ایئرپورٹ پہ جا کر پتہ کریں گے ہمدان سکندر کی امریکہ کی فلائٹ کس دن کی تھی ۔۔اور وہ کب گیا ہے یا امریکہ گیا ہی نہیں ۔۔
اس نے اپنے ادمیوں کو تیزی سے کام کرنے کے لیے کہا اس کی سیاسیت کی وجہ سے بہت لوگو سے جان پہچان تھی تو کام جلدی ہو گیا ۔۔تو اسے کچھ وقت کے بعد معلوم ہوا کہ حمدان سکندر کی امریکہ جانے کی اس ہفتے کی کوئی فلیٹ تھی ہی نہیں ۔۔۔
ایئرپورٹ پہ اس کے بہت سارے جاننے والے تھے تو اس نے باسانی معلومات نکلوا لی تھی ۔۔۔
حمدان سکندر کے نام سے کوئی فلائٹ کی بکنگ نہیں ہے امریکہ کی ۔۔۔
کچھ مہینے پہلے کی ہے اس کے امریکا جانے کی جبکے وہ تو کچھ مہینے پہلے امریکہ نہیں بلکے دبئی گیا تھا ۔۔۔
دوسری طرف شہزاد حیران رہ گیا یہ سب جان کے ۔۔۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے کچھ مہینے پہلے تو وہ دبئی میں تھا امریکہ میں نہیں میری بات ہوئی تھی اس سے ۔۔۔یعنی اس کے ساتھ اور بھی بہت سے لوگ شامل ہیں ۔۔وہ اکیلا نہیں ۔
شہزاد نے کچھ سوچتے ہوئے فون کاٹ دیا یقینا وہ جھوٹ بول کے امریکہ عاطف کو ہی ڈھونڈنے گیا تھا ۔اور اس نے یہاں یہ بتایا تھا کہ وہ دبئی میں ہے ۔۔۔اسے اب ہمدان پر مزید شک ہونے لگا ۔۔۔
اسے تیزی سے حرم کا خیال ایا اور وہ حرم منصور کے کمرے میں گیا ۔۔اس نے ہر م منصور کے کمرے کی تلاشی لی حرم اس وقت سکندر اور باقی لوگوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ۔۔وہ سب اپس میں ڈنر کر رہے تھے جب کہ شہزاد کسی کال کا کہہ کر وہاں سے نکل ایا تھا ۔۔۔
اس نے حرم کی الماری کھولی تو اسے بے شمار چیزیں ملیں ۔۔۔
ایک باکس کے اندر بہت سارے خط کسی کے لکھے ہوئے رکھے تھے جس کے اندر ایک نام تھا جو ہر خط کے آخر میں موجود تھا اور وہ نام تھا شاہ میر شیراز ۔۔۔۔اس کے علاوہ اس کے کچھ گفٹس تھے جو کہ اس نے کھولے نہیں تھے سب پیک تھے ۔۔ ۔۔
شہزاد ان تمام خط کو دیکھ کر حیران رہ گیا نہ جانے وہ شاہ میر شیراز کون تھا جس نے اسے ہر خط میں یہ لکھا تھا کہ وہ اس سے کس قدر محبت کرتا ہے اور وہ اسے انصاف ضرور دلوائے گا وہ ہر ایک چیز جانتا تھا جو کچھ اس کے ساتھ ہوا اس نے حرم منصور کو اپنے نرم الفاظوں سے جیسے تسلی دی تھی ۔۔
اور ہر م منصور جب بھی اس کے یہ تسلی بخش الفاظ پڑھتی تو جیسے اسے سکون ملتا اس کے دل میں یہ امید جاگتی کہ اسے ایک نہ ایک دن انصاف ضرور ملے گا اور اس وجہ سے اس نے اپنے اپ کو ذہنی سکون پہنچانے کے لیے وہ خط سنبھال کر رکھے تھے ۔۔۔جس خط کے اختتام پر وہ اپنا نام لکھتا اور یہ کہتا کہ وہ اسے انصاف ضرور دلوائے گا ایک دن ۔۔۔
اخر یہ شامیر شیراز کون ہے جو حرم کے متعلق اتنا کچھ جانتا ہے اور اس نے حرم منصور کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ وہ اسے ایک نہ ایک دن ضرور انصاف دلوائے گا ۔۔وہ اب کوئی ایسا خط تلاش کر رہا تھا جو حرم نے اس کے لیے لکھا ہو لیکن وہاں پر ایسا کچھ موجود نہیں تھا حرم نے اس کے لیے کچھ نہیں لکھا تھا۔ اس نے صرف وہ خط اپنے دل کی تسلی کے لیے سنبھال کر رکھے تھے کہ کوئی ہے جو اسے انصاف دلانے کی خواہش رکھتا ہے ۔۔۔۔
یقینا یقینا وہ تم ہو ہمدان یقینا تم ھی۔۔۔
تم ہی شاہ میر شیراز ہو اور تم ہی حمدان سکندر بھی ہو ۔۔۔ تم نے حرم منصور کو انصاف دلوانے کے لیے ضرور یہ روپ اختیار کیا ہے اتنے سالوں سے تم اس چیز کی تلاش میں تھے اور تم حمدان سکندر رہ کر وہ چیز کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتے تھے اس لئے تم نے اپنے اپ کو شاہ میر شیراز بنا لیا کتنی اسانی سے تم نے ہر ایک کی انکھوں میں دھول جھونکی ۔۔
یقینا وہ ہر ایک کو پکڑ چکا ہے جو جو اس کے اندر ملوث تھا وہ سب اور عاطف بھی ۔۔ اس کو پکڑنے کے بعد یقینا عاطف نے اپنا منہ بھی کھول دیا ہوگا اس نے ہمدان کو ساری حقیقت بتا دی ہوگی کہ میں بھی ملوث تھا لیکن میں حمدان کو یہ سب کچھ کیسے سمجھاؤں گا کہ میں بے قصور ہوں میں نے جان بوجھ کر ایسا کچھ نہیں کیا وہ میری بات کبھی نہیں سمجھے گا بلکہ مجھ سے نفرت کرے گا اور حرم ۔۔حرم تو میرا چہرہ تک نہیں دیکھے گی مجھ سے دور ہو جائیں گی ۔۔حرم تو جیتے جی مر جائے گی اگر اس کو اس بات کا علم ہو گیا کہ اس کے ساتھ زیادتی کرنے والا وہ تیسرا شخص میں تھا لیکن میں نے یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں کیا یہ سب مجھ سے کروایا گیا ہے میرے علاوہ یہ بات کوئی اور نہیں سمجھ سکتا اس نے جلد از جلد اب رخصتی کروانی تھی اور وہ اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا ۔۔۔
وہ باہر ایا اور اس نے جلد از جلد رخصتی کا کہا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ حرم کو ابھی گھر نہیں لے کے جائے گا اس نے ایک ہوٹل میں حرم کے لیے سرپرائز پلان کیا ہے ۔۔۔
شہزاد کی بات پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا ۔۔۔
اس نے سب کو یہی بات بتائی تھی کہ وہ حرم کو سرپرائز دینا چاہتا ہے ایک ہوٹل میں اس نے حرم کے لیے اسپیشل سرپرائز پلان کیا ہے ۔۔ جو اس کا ویڈنگ گفٹ بھی ہوگا ۔۔۔سب خوش ہو کر راضی ہوگے ۔۔
رخصتی ہو چکی تھی ۔۔۔وہ اسے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر لے گیا تھا ۔۔۔
لیکن شہزاد اور اس کے گھر والے ابھی کچھ دیر کے لیے وہیں تھے اور بس نکلنے ہی والے تھے ۔۔۔۔
کہ پولیس ان کے دروازے پر موجود تھی ۔۔۔۔۔
وہ پولیس کو دیکھ کر انتہائی حیران رہ گئے دونوں گھروں کے درمیان ابھی کچھ دیر پہلے بے حد خوش گوار تعلقات قائم ہوئے تھے اور ابھی اچانک پولیس ان کے دروازے پر موجود تھی ۔۔۔۔
ہمارے پاس شہزاد شوکت کو گرفتار کرنے کے اریسٹ وارنٹ ہیں ۔۔۔
کیا مطلب ہے اس بات کا ۔۔شوکت صاحب کو پولیس والے کی بات پر انتہائی غصہ ایا ۔۔۔
حمدان سکندر نے ان کے خلاف کمپلین درج کروائی ہے ۔۔۔
حرم منصور کی زیادتی میں ملوث ہیں وہ ۔وہ کیس جو ان کا پرانا تھا وہ دوبارہ ری اوپن ہوا ہے اور ہمارے پاس تمام ثبوت بھی موجود ہیں ۔۔۔کہا ہے شہزاد شوکت پولیس افسر نے کہا ۔۔
یہ کیا بکواس ہے ۔۔اب کی بار سکندر بھی بیچ میں اگئے وہ بہت غصے میں تھے ۔۔۔
میرا بیٹا حمدان ایسا کچھ نہیں کر سکتا اپ لوگوں کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔
بلکہ وہ پاکستان میں نہیں ہے وہ تو امریکہ میں ہے ۔۔۔
اور اپ جس شہزاد کی بات کر رہے ہیں وہ حرم کا ہسبینڈ ہے اب ۔۔۔آج ہی نکاح ہوا ہے دونو ں کا ۔۔۔۔
اپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔۔
ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی ۔۔۔۔
شوکت صاحب اپ کے گھر کے دو فرد کے اوپر ایف ائی ار درج ہے اور یقینا ان دونوں کو سزا بھی ملے گی ان دونوں کے خلاف ہمارے پاس بے شمار ثبوت موجود ہیں ۔۔۔
دوسرا شخص کون ہے ۔۔۔؟؟شوکت صاحب نے حیرانی سے کہا ۔۔
عاطف سلیم ۔۔
اور شہزاد شوکت۔ ۔۔
یہ دونوں ہی حرم منصور کی زیادتی میں ملوث ہیں ہمارے پاس ہماری کیس سٹڈی میں سارے کے سارے ثبوت موجود ہیں اپ چل کر خود ہی دیکھ لیں آپکو یقین آ جاۓ گا ۔۔۔
کہاں ہے وہ؟؟
اندر جاؤ اور پورے گھر کی تلاشی لو اور گرفتار کر لو پولیس افیسر نے حکم دیا تو سارے حوالدار گھر کی تلاشی کرنے لگے ۔۔۔
پولیس والوں کی بات سن کر سب کو جیسے صدمہ پہنچا مریم تو جیسے پولیس والوں کی بات پر ٹوٹ سی گئی تھی ۔۔۔
یہ کیسا ممکن ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔
میری بچی کو اتنے سالوں کے بعد خوشیاں ملی اور اس کی خوشی کے دن ہی قیامت ٹوٹ گئی اس کے اوپر ۔۔۔
کیسا نصیب ہے میری بچی کا خوشیاں کیوں نصیب نہیں ہوتی اسے ۔۔وہ سکندر کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔۔۔
حمدان نے شہزاد اور عاطف کے اوپر ایف ائی ار کٹوائی ہے حرم کی زیادتی کی کیا یہ سچ ہے سکندر ۔۔۔ شہزاد اور عاطف دونوں حرم کی زیادتی میں ملوث ہیں ۔۔۔حمدان نے دونوں کے خلاف ایف ائی ار کٹوائی ہے میں اپ کے ساتھ چلوں گی پولیس سٹیشن مجھے سچ جاننا ہے ۔۔ مریم نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔
کہاں ہے شہزاد ۔۔۔اس بار پولیس افیسر نے سختی سے کہا ۔۔شوکت صاحب کی اپنی حالت بہت خراب تھی انہیں یقین نہیں ا رہا تھا کہ ان کا بیٹا ایسا کچھ کر سکتا ہے ۔۔۔۔
وہ یہاں نہیں ہے ۔۔وہ یہاں اپ کے انے سے ادھے گھنٹے پہلے جا چکا ہے حرم کو لے کر ۔۔۔۔
وہ ابھی کچھ اور کہہ ہی رہے تھے کہ ہمدان تیزی سے گھر کے اندر داخل ہوا ۔۔۔۔۔
اس کی سفید رنگ کی شرٹ کے اوپر خون لگا ہوا تھا ۔۔اس کی انکھیں سرخ ہو رہی تھیں یقینا وہ بہت رویا تھا ۔۔۔
اس کی حالت دیکھ کر سبھی پریشان ہو گئے ۔۔۔مریم تیزی سے بھاگتے ہوئے اس کی طرف ائی ۔
یہ سب کیا ہو رہا ہے ہمدان یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔۔مجھے کچھ سمجھ میں نہیں ارہا مجھے بتاؤ سب ۔۔۔ سچ کیا ہے ۔۔۔تم نے شہزاد اور عاطف کے خلاف ایف ائی ار کٹوائی ہے کہ وہ لوگ حرم کی زیادتی میں ملوث ہیں ۔۔اور تم۔۔ تم تو کہہ رہے تھے کہ تم امریکہ شفٹ ہو جاؤ گے تو تم یہاں کیسے؟؟ تم یہ کیا کرتے پھر رہے ہو حمدان ۔۔؟؟
مجھے یہ بتائیں کہ شہزاد کہاں ہے اس نے پہلی بار شہزاد کو اس کے نام سے پکارا تھا ۔۔۔
تم یہ بات اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو حمدان کے میرے بھائی نے حرم کے ساتھ زیادتی کی ہے اور میرے منگیتر نے ہنا نے اپنی لرزتی ہوئی اواز کو بہتر کرتے ہوئے کہا ہر ایک کا حال برا تھا ہر ایک کے دل ٹوٹے ہوئے تھے ہر ایک کے اعتبار کو ٹھیس پہنچی تھی ۔۔۔
یہی حقیقت ہے کہ شہزاد اور تمہارا منگیتر سیم دونوں ہی حرم منصور کی زیادتی میں ملوث ہیں ۔۔ اور جن لوگوں نے ڈرائیور صدیق کا اور چوکیدار دیپک کا قتل کیا وہ بھی ہر ایک اب اپنی اپنی غلطیوں کا حساب دے گا ہر ایک کو اس کے کیے کی سزا ملے گی ہر ایک کے خلاف تمام ثبوت موجود ہیں اور ان ثبوتوں کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا ۔۔۔
تمہارے بھائی نے اس عاطف کو بچانے کے چکر میں حرم منصور کی زندگی برباد کر دی ۔اور تمہارا بھائی بھی حرم منصور کی زیادتی میں ملوث ہے وہ تیسرا شخص جس نے حرم منصور کے ساتھ کے ساتھ زیادتی کی وہ کوئی اور نہیں بلکہ تمہارا بھائی شہزاد ہے ۔کہاں ہیں وہ میں اس کا خون پی جاؤں گا اسے اپنے ہاتھوں سے مار دوں گا ۔۔۔
اگلے ہی لمحے حمدان اندر کی طرف جانے لگا کہ سکندر نے اس کے دونوں بازوں سے پکڑ کر اسے روکا ۔۔۔۔
اگر یہ سب کچھ جھوٹ ہوا ہمدان تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا ۔۔۔
کچھ بھی جھوٹ نہیں ہے بابا میرے پاس ہر ایک کے خلاف ثبوت موجود ہیں ۔۔۔
حرم جی کہاں ہیں ۔۔۔؟؟
میں یہ شادی نہیں ہونے دونگا ۔۔۔۔
اسے اچانک حرم کا خیال ایا ۔۔۔۔
ان دونوں کا نکاح ہو گیا ہے ۔سکندر نے اس کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔تمہیں اتے ہوئے بہت دیر ہو گئی حمدان ۔۔۔بہت دیر وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا ہے ۔۔۔۔
حمدان کو لگا کہ کسی نے اس کے دل کے اوپر کوئی زہریلی کیل ٹھوک دی ہو ۔۔۔
جو اس کا گنہگار تھا وہ اس کے ساتھ تھی وہ اس گنہگار کے گنا ہ سے واقف نہیں تھی جس نے اس کی زندگی برباد کی اس کی تمام خوشیوں کو اگ لگا دی ۔۔۔اپنے گنا ہ کو چھپانے کے لیے اس نے حرم منصور کی بھی پرواہ نہیں کی ۔۔۔
کہاں ؟
کہاں لے کر گیا ہے وہ حرم جی کو ۔۔۔۔؟؟
اگر حرم جی کو اس نے ذرا سا بھی نقصان پہنچایا تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑ اپنے ہاتھوں سے مار دوں گا اسے میں ۔۔
حمدان کو جیسے خوف محسوس ہونے لگا ۔۔۔
وہ حرم منصور کے ساتھ کچھ الٹا سیدھا نہ کر دیں ۔۔۔۔
اگر حرم جی کو ایک خراش تک ائی تو میں شہزاد کو اپنے ہاتھوں سے مار دوں گا بتا رہا ہوں اپ کو حمدان نے شوکت صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔جب کہ شوکت صاحب خود بھی حیران تھے ۔۔۔
انہیں ابھی تک یقین نہیں ا رہا تھا کہ یہ سب کچھ شہزاد کر سکتا ہے ۔۔
اور وہ ان سب سے جھوٹ بول کر گیا ہے کہ اس نے حرم منصور کے لیے کوئی سرپرائز پلان کیا ہے اور ان سب نے اس کی بات پر یقین بھی کر لیا ۔۔۔۔
وہ سب اب وہاں کھڑے پچھتا رہے تھے جب کہ ہمدان پاگلوں کی طرح گھر سے واپس حرم کی تلاش میں پولیس کے ساتھ بھاگا ۔۔۔ حمدان نے ان دونوں کو ڈھونڈنے کے لیے پولیس بھی ان کے پیچھے لگا دی تھی ۔۔۔۔۔حرم اور شہزاد دونوں کے موبائل نہیں لگ رہے تھے ۔۔۔ہر کوئی انہیں کالز کر رہا تھا میسج کر رہا تھا لیکن ان دونوں کا نمبر بند جا رہا تھا ۔۔۔
پانی ۔۔۔پانی پلا دو مجھے پانی کی پیاس لگ رہی ہے پانی دے دو ۔۔۔
بہت پیاس لگ رہی ہے کب سے پانی مانگ رہا ہوں تم لوگ پانی نہیں پلا سکتے ۔۔
تھوڑا سا پانی پلا دو۔۔۔
وہ کب سے ان تینوں سے پانی مانگ رہا تھا جبکہ ان تینوں نے عاطف کی ایک نہ سنی وہ تینوں اس کے اوپر کڑی سے کڑی نظر رکھ رہے تھے جبکہ ہمدان شہزاد کو پکڑنے کے لیے پولیس کے ساتھ گھر پر چلا گیا تھا اور اس نے عاطف پر سخت سے سخت نظر رکھنے کو کہا تھا ۔۔۔
تمہارے لیے کچھ نہیں ہے یو ہی پڑے رہو ۔۔ فہیم نے سختی سے کہا ۔۔
پانی پلا دو بس دوبارہ نہیں مانگو گا ۔۔
پلا دو اسکو تھوڑا سا پانی انور نے منور کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
دے دو فہیم اسکو پانی ۔۔۔منور نے کہا تو فہیم پانی کا گلاس لے کر اس کی طرف بڑھا ۔۔وہ نڈھال سا اٹھا اور اس نے فہیم کے ہاتھوں سے وہ پانی کا گلاس لیا اور پینا شروع کیا اس کی نظر فہیم کی پینٹ میں لگی ہوئی گن پر تھی ۔ ۔۔
تھوڑا سا اور دے دو اس نے دوبارہ پانی مانگا تو فہیم نے اسے گھور کر دیکھا لیکن وہ دوسری بار بھی اسے پانی پلا رہا تھا ۔۔
دوسری بار جب وہ پانی کا گلاس پورا پی گیا تو عاطف نے تیزی سے وہ گلاس کھینچ کر اس کے سر پر مارا کانچ کے بہت سارے باریک ٹکڑے اس کے ماتھے پہ گھس گئے وہ جب تک سنبھلتا عاطف اس کی پینٹ میں سے وہ گن نکال چکا تھا ۔۔۔
انور اور منور تیزی سے کھڑے ہوئے اور ان دونوں نے اپنی اپنی گنز نکال کر عاطف کے اوپر تانی لیکن جب تک وہ فہیم کو پکڑ کر اس کے سر کے اوپر گن رکھ چکا تھا ۔اگر تم لوگ ایک قدم بھی اگے ائے تو میں اسے جان سے مار دوں گا ۔۔۔
فورا فورا مجھے باہر کی طرف لے کر چلو ۔۔۔
اگر تم نے فہیم کو کچھ بھی کیا تو تم یہاں سے زندہ بچ کر نہیں جا پاؤ گے ۔۔۔
اگر تمہیں میری بات کا یقین نہیں تو پھر یہ لو اس نے فہیم کے پاؤں کے اوپر گولی چلائی ۔۔۔
وہ لوگ عاطف کی اس حرکت پر حیران رہ گئے وہ یہاں سے بھاگ نے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا ۔۔
فہیم کے پاؤں سے تیزی سے خون نکلنے لگا اور وہ تکلیف سے بلبلا رہا تھا ۔۔۔
اگر تم لوگوں نے میری بات نہیں مانی تو یہ تم لوگوں کی انکھوں کے سامنے مر جائے گا اور اس کی موت کے ذمہ دار تم لوگ ہو گے ۔۔فورا مجھے یہاں سے باہر نکالو فورا ورنہ میں اسے جان سے مار دوں گا ۔۔ اب کی بار اس نے فہیم کی گردن کے اوپر گن رکھی ۔میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں اسے ابھی اور اسی وقت جان سے مار دوں گا فورا مجھے اس گھر سے باہر نکالو۔۔۔
وہ اب چیخ رہا تھا اور ان دونوں کو گندی گندی گالیاں دے رہا تھا جبکہ فہیم درد سے بلبلا رہا تھا ۔لگتا ہے تم لوگ میری بات ایسے نہیں سنو گے اس نے فہیم کے زخم کے اوپر زور سے لات ماری اور فہیم کے زخم کو زور سے دبانے لگا تو اس کے زخم سے مزید خون نکلنے لگا ۔۔۔۔
ٹھیک ہے ہم تمہاری بات مان لیتے ہیں اور تمہیں باہر لے کے جاتے ہیں لیکن تمہیں پہلے فہیم کو چھوڑنا پڑے گا ۔۔۔
ہرگز نہیں جب تک میں یہاں سے زندہ سلامت باہر نہیں نکل جاتا یہ میرے ہی ہاتھ میں رہے گا اور یقینا تم لوگوں کی وجہ سے اس کی موت بھی میرے ہی ہاتھوں ہوگی ۔۔۔
منور اور انور مجبور ہو گئے تھے فہیم کی وجہ سے اور اسے گھر کے دروازے تک لے ائے ۔۔۔
فہیم کو چھوڑ دو تمہیں ہم جانے دیں گے ۔۔
اتنی اسانی سے نہیں ۔۔
وہ فہیم کو لے کر باہر دروازے تک ایا تھا ۔۔۔
اور جیسے ہی وہ باہر کے دروازے کے پاس گیا اس نے فہیم کو زور سے اندر کی طرف دھکا دیا اور منور پر گولی چلا دی ۔۔انور تیزی سے منور کے اوپر لپکا ۔۔۔۔
ہمیں چھوڑو انور جا کے اس کو پکڑو ۔۔یہ کسی صورت بھی بھاگنا نہیں چاہیے ۔۔۔
لیکن تم دونوں کو گولی لگی ہے میں تم دونوں کو یوں چھوڑ کر کیسے چلا جاؤں ۔۔
ہماری فکر مت کرو بس یہ مجرم کسی حال میں بھاگنا نہیں چاہیے اس کے ہاتھوں پر بے شمار لوگوں کا خون ہے ۔۔۔جاؤ اور جا کر پکڑو اسے میں بالکل ٹھیک ہوں اور فہیم کو بھی دیکھ لیتا ہوں ۔۔
اگلے ہی لمحے انور عاطف کے پیچھے بھاگنے لگا ۔۔۔۔۔
لیکن جیسے ہی فہیم نے باہر کا دروازہ کھولنا چاہا تو وہ بند تھا ۔۔۔
وہ بھاگنے سے پہلے باہر کا دروازہ لاک کر کے جا چکا تھا ۔۔۔
عاطف اپنے اپ کو بچانے کے لیکن جتنے تیزی سے دوڑ سکتا تھا دوڑ رہا تھا ۔۔۔
رات کی تاریخی میں شہزاد کی سیاہ رنگ کی گاڑی تیزی سے سڑک پر دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔
ہم کہاں جا رہے ہیں حرم نے اہستہ سے پوچھا ۔۔۔۔
تمہیں میں حمدان کے گھر لے جا رہا ہوں ۔۔۔
شہزاد نے گاڑی روک کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کیا مطلب ہے اپ کا کون سا ہمدان کا گھر ۔۔۔
تمیں سمندر بہت پسند ہے نا تو ہمدان نے کچھ سالوں پہلے تمہارے لیے سمندر کے پاس ایک گھر خریدا تھا ۔۔۔میں اسی کے ساتھ موجود تھا جب وہ یہ گھر خرید رہا تھا ۔۔۔میں نے اس سے پوچھا کہ تم حرم کو یہ گھر کیوں دینا چاہتے ہو تو تمہیں پتہ ہے اس نے کیا کہا ۔۔اس نے کہا کہ تمہیں سمندر بہت پسند ہے ۔اور مجھے وہ بہت پسند ہے اس لئے ۔اور تم جب ان سمندر کی لہروں کو دیکھتی ہو تو تمہاری انکھیں چمک جاتی ہیں تمہارے چہرے پر ایک رونق ا جاتی ہے ۔۔اور تمہیں پتہ ہے جب میں نے اس سے پوچھا کہ تم ایسا کیوں کر رہے ہو تو اس نے کیا کہا اس نے کہا کہ وہ تم سے بے حد محبت کرتا ہے اور تمہارے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔۔۔۔
حرم شہزاد کا چہرہ دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔
لیکن اب اس بات کا کیا مطلب ؟؟؟وہ حیران تھی کہ وہ اسے یہ سب کیوں بتا رہا ہے ۔۔
اپ مجھے وہاں کیوں لے کر جا رہے ہیں؟؟؟
کیوں مجھے معلوم ہے وہ مجھے وہیں ملے گا ۔،
میں نے اپ کو کہا نا وہ صرف اور صرف میرا چھوٹا بھائی ہے ۔۔۔
وہ تمہارا بھائی نہیں ہے حرم تمہارا کزن ہے اور تم سے عشق کرتا ہے بے پناہ عشق ۔۔۔۔
مگر میں ۔۔۔۔اس نے کچھ کہنا چاہا ۔۔۔
میری ایک بات مانو گی حرم ۔۔۔
شہزاد نے اس کے دونوں ہاتھوں کو نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لیا ۔۔۔مجھے اپنی گلے سے لگاؤ گی ایک بار پلیز ۔۔۔پلیز حرم انکار مت کرنا بس ایک بار۔۔۔ ۔
حرم کو یوں لگا جیسے اس کی اواز رونے والی ہو رہی ہو ۔۔
حرم چند لمحے اسے دیکھتی رہ گئی اور اس نے پھر اگے بڑھ کر شہزاد کو اہستہ سے اپنے گلے سے لگایا تو شہزاد اس سے بہت زور سے لپٹ گیا ۔۔۔۔۔
اور کافی دیر تک اس سے لپٹا رہا اور اس کے کندھے پر سر رکھ کر روتا رہا جبکہ حرم بے حد پریشان تھی ۔۔۔
کیا ہو گیا ہے اپ کو اپ اس طرح سے کیوں کر رہے ہیں کوئی مسئلہ ہے کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتائیے ۔۔۔۔
کچھ مت کہو بس مجھے اپنے گلے سے لگے رہنے دو ورنہ میں مر جاؤں گا ۔۔۔۔
شہزاد کے بولے گئے الفاظ پر وہ تڑپ کر رہ گئی ۔۔جبکہ شہزاد اس کے کندھوں پر اپنا سر رکھ کر اور زور سے رونے لگا ۔۔۔۔
مجھے معاف کر دینا حرم میں تمہیں ایک سچ بتانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
کیسا سچ ۔۔۔۔؟؟؟
اگر تم چاہو تو تم اپنے ہاتھوں سے مجھے مار سکتی ہو میں تمہیں اختیار دیتا ہوں ۔۔۔
کیا ہو گیا ہے اپ کو ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں مجھے خوف محسوس ہو رہا ہے اب ۔۔۔
ہر ایک دکھ ہر ایک تکلیف ہر ایک سچ سے پہلے تم میری ایک بات کان کھول کر سن لو اور یاد رکھ لو حرم ۔میں نے زندگی کے کسی بھی موڑ پر کبھی بھی تمہیں کوئی تکلیف دینے کا نہیں سوچا ۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا ۔۔۔
اللہ گواہ ہے میں ہر ایک شے کی قسم کھاتا ہوں جو اللہ نے اس دنیا میں بنائی ہے ۔۔۔میں تمہیں اور ہمدان کو کبھی بھی تکلیف نہیں پہنچا سکتا ۔۔
اگر میں جھوٹ کہہ رہا ہوں تو ابھی اسی وقت مجھے موت ا جائے وہ زور زور سے رونے لگا جب کہ حرم کو اس کے رونے سے خوف محسوس ہو رہا تھا وہ شہزاد کو اتنا ٹوٹا ہوا بکھرا ہوا پہلی بار دیکھ رہی تھی ۔۔
میں تمہارا گنہگار ہوں ۔۔۔میں نے گناہ کیا ہے ۔۔۔لیکن جو گناہ مجھ سے ہوا وہ انجامے میں ہوا ہے میں نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا تمہارے ساتھ ۔۔۔
کون سا گناہ ؟؟
کس کی بات کر رہے ہیں ؟؟
تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔ زیادتی میں۔۔
میں بھی ۔۔۔۔۔۔ملوث تھا ۔۔میرے علاوہ تمہارے ساتھ زیادتی عاطف نے اور رافع نے کی تھی ۔وہ تیسرا شخص جس نے تمہارے ساتھ تیسری بار زیادتی کی تھی وہ میں تھا ۔۔۔
شہزاد اپنے اپ کو مارتے ہوئے کہہ رہا تھا جب کہ حرم کو یوں لگا کہ جیسے کسی نے زہریلے سانپ اس کے جسم پر چھوڑ دیے ہوں ۔۔۔
اس نے حرم کے ہاتھ مضبوطی سے تھام لیے ۔۔۔ وہ اس کی سبز انکھوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
میں ہر اس چیز کی قسم کھا کے کہتا ہوں ہر ایک چیز کی جس کے اوپر اللہ کے بندے ایمان رکھتے ہیں ۔۔
عاطف نے میرے جوس کے اندر نشہ اور گولیاں ملائی تھی جس کی وجہ سے مجھے ہوش نہیں رہا اور میں نے بے ہوشی کی حالت میں تمہارے ساتھ ۔۔۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔۔۔۔
مگر اج میں تمہیں حمدان کے حوالے کرنے ایا ہوں یہاں اور اپنے ہر ایک جرم کا اعتراف کرنے ایا ہوں جو میں نے جانے انجانے میں کیا ۔۔۔۔
جو بھی ہو چاہے میں بے قصور ہی کیوں نہ ہوں لیکن میں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے مجھے اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے اسی وجہ سے میں یہاں ہوں کہ میں تمہارے اور حمدان کے سامنے بھی جرم کا اعتراف کروں ۔۔۔۔آج میں تمہیں ہمیشہ کیلئے کھو دونگا اور یہی میری سب سے بڑ ی سزا ہے کے میں اپنی محبت کو خود اپنے ہاتھو ں سے گوا دوں اور ساری زندگی مرتا رہوں ۔۔۔میں تمہیں خود سے اور اس رشتے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آزاد کر رہا ہوں ۔۔۔
اگلے ہی لمحے کسی نے اس کی گاڑی کے اوپر فائرنگ کرنا شروع کر دی تھی ۔۔۔
اس نے حرم کو ۔۔اپنے بازوں میں چھپا لیا ۔۔۔
ایک گولی ا کر تیزی سے اس کی کمر پر لگی ۔۔۔۔۔
کسی نے گن سے گاڑی کا شیشہ توڑا تھا ۔۔۔اور پھر حرم کے سر کے اوپر زور سے گن ماری تھی ۔۔
یہ سب کچھ اس منہوس لڑکی کی وجہ سے ہوا ہے ۔۔وہ عاطف تھا ۔جو گاڑی کا دروازہ کھول کر اب حرم کو اپنے ساتھ باہر لے کر جا رہا تھا جبکہ شہزاد نے ایک ہاتھ سے حرم کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔
چھوڑو مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو حرم نے اپنے اپ کو چھڑوانے کی کوشش کی اور وہاں سے بھاگنا چاہا کہ عاطف نے ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارا ۔۔۔۔۔
شہزاد کی کمر پر وہ گولی پہلے ہی مار چکا تھا اس کی سفید قمیض شلوار خونم خون ہو گئی تھی ۔۔۔۔
چھوڑو مجھے چھوڑو مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو ۔۔۔۔
حمدان ۔۔۔شہزاد ۔۔۔۔وہ زور سے چیخی ۔۔۔
مجھے بچاؤ ۔۔پلیز چھوڑ دو مجھے ۔۔۔
تمہیں اب مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا تمہاری ہی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے ۔۔تمہیں کیا لگتا ہے کیا میں تمہیں یوں زندہ چھوڑ دوں گا اور میں جیل کے پیچھے سڑوں گا ۔ہرگز نہیں تمہیں مار کر ہی جاؤں گا اب تو جیل ۔۔۔
شہزاد گرتا پڑتا گاڑی سے باہر ایا ۔۔
حرم کو چھوڑ دو ۔۔ا سے کچھ مت کرنا ۔میں تمہیں جانے دوں گا ۔۔۔۔۔حرم کو چھوڑ دو اس کا کوئی قصور نہیں
حرم کو چھوڑ دو عاطف پلیز ۔۔
نہیں چھوڑوں گا اب میں اسے مار کر ہی رہوں گا ۔۔اور اب کی بار اسے کوئی نہیں بچا سکتا نہ اپ اور نہ ہی کوئی اور اس حمدان کے پاس سارے ثبوت موجود ہیں وہ سب کو سزا دلوا کے رہے گا اور یہ سب کچھ اس منحوس کی وجہ سے ہوا ہے اس رات اسے مار ہی دینا چاہیے تھا میں نے کہا تھا اپ سے کہ ہم اسے مار دیتے ہیں لیکن اپ نے اسے مارنے نہیں دیا اور آج دیکھ لیا اس کا نتیجہ ۔۔۔
میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں یہاں سے بھجوا دوں گا تم حرم کو چھوڑ دو حرم کو کچھ مت کرنا ۔۔۔شہزاد کی کمر میں شدید تکلیف ہو رہی تھی ۔۔۔بھاڑ میں جاؤ تم ۔۔۔اس نے شہزاد کو ایک طرف دھکا دیا ۔۔اگر تم میرے ذرا سے بھی قریب ائے تو میں حرم کے سر میں یہ ساری کی ساری گولیاں اتار دوں گا ۔۔گاڑی سے دور ہٹو فورا ۔۔۔
فورا دور ہٹو گاڑی سے مجھے وہ گاڑی چاہیے ۔۔۔۔
اگلے ہی لمحے اس نے حرم کے اوپر وہ بندوق دوبارہ سے تانی اور اسے گاڑی میں بیٹھنے کی دھمکی دی ۔۔۔۔
نہیں میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی ۔۔۔
گاڑی میں بیٹھ فورا ۔۔ ورنہ شہزاد کو مار دونگا اس نے بالوں سے پکڑ کے حرم کو گاڑی کے اندر دھکا دیا اور حرم کو زبردستی اندر بیٹھا یا ۔۔۔
اس نے زبردستی حرم کو گاڑی میں بٹھا کر گاڑی سٹارٹ کی ۔۔۔
شہزاد تکلیف کے مارے بے ہوش ہونے لگا ۔۔۔لیکن وہ پھر بھی ہمت کرتے کرتے اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا ۔۔۔یہاں تک کہ بھاگتے بھاگتے وہ میںن روڈ پر آ گیا ۔۔
مین روڈ کے اوپر پولیس کی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ ہمدان کی گاڑی اسے نظر ائی اس نے ہاتھ کے اشارے سے وہ ساری گاڑیاں رکوانی چاہیے ۔
حمدان اسے فورا سے پہچان گیا وہ اس قدر غصے میں تھا کے فورا گاڑی سے نکلا اور اس نے شہزاد کو دونوں کالر سے پکڑ کر اپنی گاڑی پر زور سے مارا ۔۔وہ شہزاد کو بری طرح سے پیٹ رہا تھا جبکہ وہ پہلے ہی نڈھال تھا ۔۔۔۔۔
کیسے ۔۔۔۔۔ سکتے ۔۔۔۔۔کیا تم نے یہ سب ۔۔۔
تم یہ میرے ساتھ کیسے کر سکتے ہو یہ تم حرم کے ساتھ کیسے کر سکتے ہو ۔ ۔ وہ اسے بری طرح سے پیٹھ رہا تھا ۔۔
مجھے معاف کر دو۔۔۔
معاف کر دو اور ۔۔۔۔بچاؤ اسے ۔۔بچاؤ اسے حمدان ۔۔
شہزاد نے بے ہوشی کی حالت میں یہ الفاظ کہے ۔۔۔۔
اگلے ہی لمحے ہمدان نے اسے غور سے دیکھا اس کی قمیض پیچھے سے خون میں لت پت تھی ۔۔۔
بچاؤ اسے وہ حرم کو لے کر جا رہا ہے حمدان وہ حرم کو مار دیگا بچاؤ حرم کو ۔۔
اس طرف اس طرف ۔۔۔
کہتے کے ساتھ ہی وہ بری طرح سے زمین پر گرا ۔۔۔
اتنے میں پولیس کے دو اہلکار ۔تیزی سے شہزاد کی طرف بڑھے اور اسے اپنی گاڑی میں بٹھایا جب کہ ہمدان تیزی سے اب اس گاڑی کے پیچھے تھا ۔۔۔۔
جس میں عاطف حرم کو لے جا رہا تھا ۔ ۔۔۔
چھوڑ دو مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو ۔۔۔۔
تمہیں جان سے مارنے لے جا رہا ہوں ۔۔۔۔لیکن اس سے پہلے تمہارا ریپ کرونگا ۔۔
نہیں ۔۔۔چھوڑ دو مجھے میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جانے دو پلیز ۔۔۔
چھوڑو دو مجھے ۔۔۔حرم ا سے گاڑی صحیح طرح سے چلانے نہیں دے رہی تھی وہ مستقل گاڑی روکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔
عاطف نے گن نکال کر اس کی ماتھے پر رکھی ۔۔
اگر اب تم نے مجھے ذرا سا بھی تنگ کیا تو یہ ساری کی ساری گولیاں تمہارے دماغ کے اندر ہوں گی اور یہیں مری پڑی ہوگی تم ۔۔جب تک میں یہاں سے بچ کر نکل نہیں جاتا تب تک تم میرے ساتھ ہی رہو گی اور جیسے ہی میں یہاں سے بچ کے نکل جاؤں گا تو تم اپنی موت دیکھنا کتنی بھیانک ہوگی ۔
وہ گاڑی تیزی سے پل کے اوپر لے کر جا رہا تھا جب کہ اس کے سامنے سے اسے ایک کار اتی ہوئی دکھائی دی جو کہ حمدان کی تھی ۔۔۔
عاطف نے اس گاڑی کو دیکھ کر ایک گندی گالی دی ۔۔۔
وہ گاڑی تیزی سے پیچھے کی طرف گھمانے لگا کے پیچھے پولیس کی گاڑیاں کھڑی تھیں ۔۔۔۔
اس نے حرم کے اوپر گن تانی اور اسے لے کر گاڑی کے باہر ایا ۔۔دونوں طرف سے اسے پولیس نے اور ہمدان نے گھیر لیا تھا ۔۔
اگر کوئی بھی میرے قریب ایا یا اگر کسی نے مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو میں اسے جان سے مار دوں گا ۔۔۔
عاطف نے حرم کے سر کے اوپر بندوق رکھی ہوئی تھی ۔۔۔۔
اگر حرم جی کو ایک خراج بھی ائی تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا ۔۔۔۔
حمدان نے انتہائی غصے سے کہا ۔۔۔
حرم کو فورا چھوڑ دو اب تم بچ کر کہیں نہیں بھاگ سکتے نہ امریکہ اور نہ ہی کہیں اور تمہیں سزا ضرور ملے گی ۔۔تمہارے خلاف سارے ثبوت موجود ہیں تم اب جیل کے سلاخوں کے پیچھے سڑو گے عمر بھر ۔حرم منصور کی زیادتی کے علاوہ تمہارے بہت سے سیاہ کرتوت ہیں اور تم پے دو قتل کا بھی الزام ہے ڈرائیور صدیق اور چوکیدار دیپک کا ۔دونوں کو تم نے جان سے مارا ہے ۔۔اب وقت اگیا ہے تم اپنے کیے گئے ہر گناہ کا حساب دو گے ۔۔۔
اس کے لیے کر رہے ہو نا تم یہ سب کچھ ۔جب یہی زندہ نہیں رہے گی تو پھر کیا کرو گے تم ۔اسی کی وجہ سے یہ سب کچھ شروع ہوا ہے اور اسی کی وجہ سے اج سب ختم بھی ہو جاۓ گا اس منحوس لڑکی کو مجھے اسی رات مار دینا چاہیے تھا تو اج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔۔میں نے اس بے وقوف شہزاد کی بات مان کر اسے زندہ چھوڑ دیا ورنہ یہ کب کی مر چکی ہوتی لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے تم اس کی موت تم اپنی انکھوں سے دیکھو گے ۔۔۔۔
عاطف نے اگلے ہی لمحے اس کے سر پر گن رکھی ۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔عاطف ۔۔۔۔۔۔
حمدان تیزی سے اس کی جانب بھاگا ۔۔ عاطف نے حرم پے گولی چلا دی مگر اگلے ہی لمحے کسی نے گولی عاطف پے چلائی تھی ۔۔۔وہ شہزاد تھا اس نے عاطف کے پیر پے گولی چلائی تھی ۔۔
تو وہ نیچے گر پڑ ا ۔۔۔ اور گولی حرم کے بازو پے جا لگی ،اتنے میں پولیس عاطف کی طرف بڑھی اور اسے گرفتار کرلیا ۔۔۔
حرم کو اس نے پل کے نیچے پھینک دیا ۔۔۔پل کے نیچے پانی تھا ۔۔۔۔۔۔
حمدان تیزی سے پانی میں کودا۔
حرم نیچے پانی میں گر چکی تھی ۔۔۔۔۔
________________________________
آٹھ سال بعد ۔۔۔۔۔
حمدان اور حرم دونوں اس وقت ہوسپٹل میں موجود تھے ۔۔۔
حرم نے اپنا میڈیکل اب کمپلیٹ کر لیا تھا ۔۔۔
مصطفیٰ ۔۔۔۔۔
حرم نے اپنے تین سال کے بیٹے کو پکارا ۔۔۔۔
جو سکندر صاحب کے ساتھ آیا تھا ۔۔
ماما ۔۔۔۔وہ پیار سے کہتا ہوا حرم کے گلے لگ گیا ۔۔۔
کیسے ہو ۔۔۔حرم نے اسے گلے سے لگایا ۔۔۔
میں ٹھیک ہو ماما ۔۔۔
بابا کہاں ہیں ۔۔۔
بابا بزی ہے بیٹا ۔۔۔
مجھے جانا ہے بابا کے پاس مصطفیٰ نے کہا ۔۔
لو آگے تمہارے بابا ۔۔۔حرم نے مسکرا کر کہا ۔۔۔سامنے سے حمدان چلتا ہوا آ رہا تھا ۔۔۔
بابا ۔۔۔
مصطفیٰ تیزی سے اس کی طرف بڑ ھا اور اس کے گلے سے لگ گیا ۔۔۔۔
بابا آپکو اپنا وعدہ یاد ہے نا ؟؟
بلکل یاد ہے ۔۔۔
ہم کل چلے گئے فارم ہاؤس ۔۔۔
یس وہ خوش ہو گیا اور حمدان سے لپٹ گیا ۔۔۔۔
بابا اپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اس ویکینڈ پر فام ہاؤس جائیں گے اپ کو یاد ہے نا ۔۔۔
جی بالکل مجھے اپنا وعدہ یاد ہے اپ بالکل بے فکر رہے ہم ویک اینڈ پر ضرور جائیں گے فارم ہاؤس ۔۔۔
ویک ینڈ پر مصطفیٰ اپنی پوری فیملی کے ساتھ فارم ہاؤس پر موجود تھا ۔۔۔
سکندر صاحب ہمدان اور مصطفی وہ تینوں سویمنگ پول میں انجوائے کر رہے تھے جبکہ مریم اور حرم لنچ تیار کر رہی تھی ۔۔
مصطفی کے لیے جو سرپرائز اپ لوگوں نے پلان کیا ہے اس کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہو جائے گا ۔۔حرم نے مریم کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
ہاں تم بالکل ٹھیک کہتی ہو تم دیکھنا اس کے چہرے کی مسکراہٹ کیسی ہوگی ۔۔ مر یم نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
وہ دونوں کھانا لے کر باہر ا گئی جب کہ وہ لوگ ابھی تک سوئمنگ پول میں تھے ۔۔
حرم چند لمحے خاموشی سے کھڑی ان تینو ں کو دیکھتی رہی ۔۔
اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ زندگی میں یہ وقت بھی دیکھے گی ۔۔اس نے تو بس یہ سوچا تھا کہ اس کے مقدر میں اب کوئی اور خوشی باقی نہیں رہی ۔۔۔حرم کی ہمدان سے شادی کے بعد اس کی دنیا مکمل بدل گئی تھی ۔۔۔وہ واقعی میں اسے بے پناہ محبت کرتا تھا ۔۔۔
ان کا ایک بیٹا تھا چار سال کا جس کا نام تھا مصطفی وہ دونوں اپنے بیٹے سے ایک دوسرے کے اور قریب ا گئے تھے ۔۔۔
وہ ہمیشہ یہی سوچتی تھی کہ جیسے خدا نے خوشیاں میرے نصیب میں اب نہیں لکھی ہیں ۔۔
لیکن وہ غلط تھی ۔۔اتنے سال اس نے صبر کیا ۔اور اسے صبر کا پھل اتنا حسین ملا تھا کہ اس کی سوچ بھی دنگ رہ گئی تھی ۔۔محبت کرنے والا شوہر ماں باپ۔۔۔ بیٹا ۔ ۔۔کیا کچھ نہیں تھا اس کے پاس وہ اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کا جتنا شکر ادا کرتی اتنا کم تھا ۔۔
رات 12 بجے کا وقت تھا اور فارم ہاؤس پر مصطفی کی برتھ ڈے سیلیبریٹ کی جانی تھی ۔۔۔
ہم ابھی تک کیک کیوں نہیں کاٹ رہے 12 تو بج گئے ہیں ۔۔اس نے حرم کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
بس تھوڑی دیر اور مصطفیٰ تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے اس کے بعد تم کیک کٹ کرنا ۔۔
کون سا سرپرائز ہے سارے گفٹس تو مجھے سب نے دے دیے ہیں ۔۔
بس ہے ایک سرپرائز اسے دیکھ کر تم بہت خوش ہو جاؤ گے ۔۔حمدان نے کہا ۔۔۔
اگلے ہی لمحے اسے باہر سے ایک گاڑی رکنے کی اواز ائی ۔۔۔۔
کوئی اب چلتا ہوا اندر ا رہا تھا ۔۔
اس کے الٹے ہاتھ میں بہت سارے شاپرز تھے اور ایک ہاتھ میں گلدستہ تھا ۔۔۔
وہ سیاہ رنگ کی قمیض شلوار پہنا ہوا تھا اور اوپر اس نے سیا ہ ہی رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا ۔۔۔
وہ جب کمرے کے اندر داخل ہوا تو ہر کسی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔۔۔
ڈاکٹر شہزاد ۔۔۔۔۔۔۔
مصطفی خوشی سے بھاگتا ہوا تیزی سے اس کے گلے سے لگا ۔۔۔
جبکہ شہزاد نے اسے بے حد محبت سے اپنے گلے سے لگایا اور اس کے دونوں گالوں پر پیار کیا ۔۔۔
کیسا ہے میرا شیر ۔۔۔شہزاد نے اس کے دونوں گالوں کو دوبارہ سے چومتے ہوئے کہا ۔۔۔
میں بالکل ٹھیک ہوں تو یعنی کہ آپ تھے میرے سرپرائز ۔۔۔تھینک یو سو مچ مصطفی نے سب کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
ان دونوں کے درمیان بہت محبت تھی بالکل ویسے ہی محبت جو شہزاد اور ہمدان میں تھی ۔۔ ۔
وہ اب چلتا ہوا ان سب سے مل رہا تھا ۔۔اس نے سکندر صاحب کو اپنے گلے سے لگایا ۔اور پھر ہمدان کو ۔۔کیسی ہو حرم کیسی ہیں اپ مریم انٹی ۔۔
بالکل ٹھیک اپ کیسے ہیں ۔۔حرم نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
بابا کی کال ارہی ہے یقینا وہ بھی مصطفی کو وش کرنا چاہتے ہیں ۔۔
شوکت صاحب اور ان کی پوری فیملی ویڈیو کال پر تھی اور مصطفی کو برتھ ڈے وش کر رہی تھی ان سب کی موجودگی میں مصطفی نے بے حد خوشی سے اپنا کیک کاٹا ۔۔۔
ان دونوں گھروں کے درمیان تعلقات دوبارہ سے پہلے جیسے ہو گئے تھے ۔۔۔
جو اصل میں گنہگار تھا اسے سزا مل رہی تھی ۔۔
شہزاد کو ان لوگوں نے معاف کر دیا تھا ۔۔کیونکہ وہ تمام حقیقت جان گئے تھے ۔۔۔عاطف نے ہر ایک چیز قبول کی تھی کہ اس نے عاطف کو پھنسایا تھا ۔۔۔
شہزاد نے حرم کی دو دفعہ جان بچائی ۔۔
ایک دن زیادتی والی رات جس دن عاطف اسے مارنے جا رہا تھا تاکہ یہ قصہ ہی ختم ہو جائے اسی رات لیکن شہزاد نے اسے مارنے کی اجازت نہ دی اور اس کی حفاظت کی اور دوسری بار بھی شہزاد نے حفاظت کی تھی اگر شہزاد اس رات عاطف کو گولی نہ مارتا تو حرم اج زندہ نہ ہوتی ۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف سلیم صاحب اور نائلہ نے بھی اس بات پر اپنے بیٹے کو ہرگز بھی سپورٹ نہیں کیا تھا اور اس کا جو گناہ تھا اس کو اس کی سزا ملنی ہی تھی جو مل رہی تھی اس کے علاوہ وہ سب حرم سے شرمندہ تھے عاطف کی وجہ سے اور ہر ایک نے حرم سے اور اس کے گھر والوں سے معافی مانگی تھی ۔۔۔۔
شہزاد کو اس نے معاف کر دیا تھا ۔۔۔۔
شاید وہ معافی کے لائق ہی تھا ۔۔۔
اور جو سزا شہزاد نے اپنے لیے خود چنی تھی وہ یہ تھی کہ وہ اپنی محبت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے ۔۔وہ جس لڑکی سے بے پناہ محبت کرتا تھا ۔۔ اس نے اپنی سزا کے طور پر اسے خود سے بے حد دور کر دیا تھا اتنا کہ اب کوئی راستہ اس تک نہیں پہنچ سکتا تھا ۔۔
شہزاد نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی ۔۔اور مصطفی میں اس کی جیسے جان تھی مصطفی کو وہ بے حد پسند کرتا تھا ۔۔
مصطفی بالکل ہمدان تھا ۔۔
ہر ایک کے درمیان تعلقات خوشگوار ہو گئے تھے ۔۔۔
حنا کی شادی اس کے کسی فیملی فرنڈ سے ہو گئی تھی ۔۔
سب ساتھ بہت خوش تھے ۔۔۔
______________________________
دیر رات کا وقت تھا سب سو چکے تھے اسے میں فارم ہاؤس کا ماحول بلکل خاموش تھا ۔۔
حرم اپنے کمرے کی بالکنی میں کھڑی تھی ۔۔۔
حمدان نے آہستہ سے اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا ۔اور نرمی سے اسکی گردن چومی ۔۔
حمدان ۔۔موسم کتنا اچھا ہو رہا ہے ۔۔۔
ہاں ہو تو رہا ہے ۔۔اس نے اس کے بال آگے کیے اور پھر اس کے کندھے پے اپنا سر رکھا ۔۔۔
مگر اپ سے زیادہ خوبصورت کچھ نہیں میرے لئے ۔۔۔
حرم اس کی بات پے آہستہ سے مسکرائی ۔۔۔
حمدان نے اسے مزید قریب کیا ۔۔حرم نے اس کے دونو ں ہاتھ مظبوطی سے تھام لئے ۔۔۔
بہت پیار کر تا ہو آپ سے ۔
جانتی ہو وہ اس کے گلے سے لگ گئی ۔۔۔
بارش شر و ع ہو گئی ہے اس نے حمدان کے گلے سے لگے ہوے کہا ۔۔
تو پھر کیا خیال ہے بارش میں بھیگے ۔۔۔
حرم نے تیزی سے اپنا چہرہ ا و نچا کیا تو حمدان نے جھک کر اس کے چہرے پر پیار کیا اور اس کی سبز آنکھیں چومی ۔ ۔۔
ہاں مجھے جانا ہے ۔۔
تو پھر چلے ۔۔وہ اسے تیزی سے اپنے ساتھ پول والے حصے کی طرف لے آیا بارش اور تیز ہو گئی تھی ۔۔۔۔وہ دونو ں مکمل بھیگ چکے تھے ۔۔۔
حمدان نے حرم کو اپنے بازو ں میں اٹھا ۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔حمدان نیچے اتارو مجھے ۔۔۔
نہیں ۔۔۔اس نے اسے یوں ہی باز و ں میں اٹھے گھو مایا ۔۔تو وہ کھل کھلا کر ہنسی ۔۔۔
بس اب مجھے اتارو ۔۔۔
حمدان نے اسے نیچے اتار دیا ۔۔۔
وہ دونو ں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے ۔۔۔اتنا کے ان کے درمیان اب کوئی نہیں آ سکتا تھا ۔۔۔
I love you.
تم وہ ہو جس میں میری جان ہے ۔۔
تم وہ ہو جس پر حمدان سکندر مرتا ہے ۔۔
تم زندگی ہو میری ۔۔۔۔
میری پہلی اور آخری محبت ہو تم ۔۔۔۔
حمدان نے اس کے کان کی لو کو نرمی سے چوما ۔۔۔
حرم اس کے گلے لگ کر رونے لگی ۔۔۔
مگر آج وہ آنسو خوشی کے تھے صبر کے پھل کے تھے ۔۔۔۔
اللّه تیرا شکر ہے حرم نے حمدان کے دونو ں ہاتھ چومے ۔۔
تم نے میرے لئے جو کچھ کیا وہ تمہارے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا تھا حمدان ۔۔
میری جان ۔۔۔
ہر مشکل آسان کروں تیرے لئے ۔۔۔
ساری دنیا سے لڑ جا و تیرے لئے ۔۔
صرف اور صرف تیرے لئے ۔۔۔۔
تیرے لئے ناول مکمل ہوا ۔
ختم شدہ
0 Comments
Post a Comment