دھڑکن

رمشا انصاری 

قسط 10

کساء کے گھر سے وہ اپنی ماں کے گھر آگیا،ابھی تک وہ ہوٹل میں قیام کررہا تھا لیکن اب حالت ایسی تھی کہ ماں کی آغوش کے لئے تڑپ رہا تھا۔وہ اپنے چچا کے گھر آگیا جانتا تھا ماں بھی وہیں ملے گی آگر وہ اس دن ان کی بات سن لیتا تو کافی نقصان سے بچ جاتا۔اس نے چچا کے گھر کا دروازہ بجایا تو ملازمہ نے دروازہ کھولا۔


"جی کس سے ملنا ہے؟" وہ اسے دیکھ ادب سے پوچھنے لگی


"ماں سے"وہ نم لہجے میں بولا جب کہ ملازمہ کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑی۔


"آپ رجب ہیں؟" وہ اشتیاق سے پوچھنے لگی تو اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔


"بیگم جی آپ کو بہت یاد کرتی ہیں شکر ہےکہ آپ آگئے" ملازمہ اسے گھر میں لے آئی۔وہ اس کے پیچھے چل رہا تھا ،ملازمہ کی بات سن کر اس نے اپنی بھیگی آنکھوں کے کنارے صاف کئے۔اس کی ماں اسے یاد کرتی تھی ہائے اتنے غم میں اس کو چھوٹی سی خوشی محسوس ہوئی۔ملازمہ اسے اسکی ماں کے کمرے میں لے گئی ،وہ کمرے میں آیا تو حیرت سے آنکھیں پھیل گئیں ،یہ بیڈ روم کم ہوسپٹل کا ایمرجنسی وارڈ زیادہ لگ رہا تھا۔وہ شدید بیمار تھیں تب ہی ان کے کمرے میں ان کا علاج چل رہا تھا۔وہ بیڈ پر ساکت لیٹی تھیں آنکھیں بند کرکے۔ان کی جھریوں زدہ ہاتھ میں کینولا لگا ہوا تھا۔ان کو دیکھتے ہی اس کا دل بھر آیا۔وہ اندر کا بچہ جو کئیں سال پہلے مرگیا تھا وہ ایکدم ہی مچل اٹھا۔وہ لمبا چوڑا انگریزوں جیسا لڑکا زمین پر بیٹھا اور دونوں ہاتھوں میں چہرہ لئے زور زور سے رونے لگا۔


"بیگم صاحبہ اٹھیں آپ کے بیٹے آئے ہیں" ملازمہ نے رجب کی یہ حالت دیکھ گھبراکے اس کی ماں کو اٹھایا ،انہوں نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور گردن موڑے اسے دیکھا ،وہ بچوں کی طرح رورہا تھا،ان کی آنکھوں میں بھی نمی تیرنے لگی


"رجب میرا بیٹا" انہوں نے نرمی سے اسے پکارا مامتا بھرا میٹھا لہجہ سن رجب کے رونے میں تیزی آگئی۔وہ شکل سے سخت اور اکھڑ مزاج دکھنے والا آج کتنا رویا تھا ،کتنے غم تھے اس کی زندگی میں ،کتنے درد اس کو اندر سے کھارہے تھے۔وہ بلیک پینٹ شرٹ پہنا ہوا تھا چہرے پر ہلکی سی شیو تھی سیاہ بال جیل سے سیٹ ہوئے چمک رہے تھے جب کہ چہرہ غم میں ڈوبا سرخ ہورہا تھا۔


"میرا بیٹا ادھر آئو میرے پاس" انہوں نے ہاتھ ہلاکے اسے بلایا۔اتنے عرصے بعد اسے دیکھا لیکن اس کی خبر سے واقف رہتی تھیں۔وہ بزنس مین بن گیا تھا اس کے باپ نے اپنا سب کچھ اس کے حوالے کردیا تھا وہ اپنے باپ کی جگہ کھڑا ہوگیا تھا ایک مضبوط مرد بن کے لیکن آج اس کی حالت دیکھ وہ بے سکون ہوگئیں ،وہ اس طرح کیوں رو رہا تھا اس کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ان کی بات سن کر وہ کہنی کی آستین سے اپنی آنکھیں صاف کرتا غم زدہ دل لئے اٹھ کر ان کے پاس بیٹھا۔


"ماں آپ نے مجھے سچ کیوں نہیں بتایا تھا؟" وہ اذیت سے ان کی آنکھوں میں دیکھتا بولا ،ماں کہتے اس کے لب کانپ گئے تھے ،اس نے ایک عرصہ اپنی ماں سے نفرت کی تھی۔


"میں نہیں چاہتی تھی کہ تمہارا ذہن خراب ہو بیٹا میں نہیں چاہتی تھی کہ تم کم عمر سے ہی گھریلو مسائل میں الجھ جائو" انہوں نے دکھ سے کہا


"ڈیڈ نے آپ کو کب چھوڑا تھا؟" وہ دکھ سے پوچھنے لگا۔


"جب تمہیں میں نے بورڈنگ میں داخلہ کرایا تھا تب انہوں نے مجھے چھوڑدیا تھا دوسری شادی کرلی تھی،وہ خودغرض ہوکے ہم دونوں کو یہاں تنہا چھوڑ کر چلے گئے پھر تمہارے چچا نے ہمیں سہارا دیا ،تم میٹرک کر رہے تھے میں نے سوچ لیا تھا اب تم سمجھدار ہو تمہیں سب سچائی بتادوں گی لیکن اس سے پہلے وہ سب ہوگیا۔تمہارے باپ نے جس عورت سے شادی کی اس سے ان کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں تب ہی انہیں تم چاہیے تھے اور انہوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاکے تمہیں مجھ سے دور کردیا" وہ اسے تفصیل سے سب بتانے لگیں۔


"مجھے معاف کردیں مما،مجھے آپ کی بات سننے چاہئیے تھی" اس نے ان کا ہاتھ لبوں سے لگایا تو آنکھوں سے بہتے آنسو ان کے ہاتھ پر گرنے لگے۔


"میں کبھی سمجھ ہی نہیں سکا کہ زندگی آخر چیز کیا ہے؟ جو جیسا دکھتا ہے ویسا نہیں ہوتا ،ہم جیسا چاہتے ہیں ویسا نہیں کر پاتے اور سب سے بڑھ کر وہ گناہ جو ہم سے سرزد ہو جائے اور ہم اس کے بعد زندگی بھر اس گناہ کے ساتھ روز جئیں اور روز مرتے رہیں" وہ اتنا تڑپ تڑپ کر رورہا تھا کہ اس کی بے بس ماں بھی اپنی جگہ سن رہ گئی۔اس کا لہجہ اس قدر اذیت ناک تھا کہ ان کو لگا ان کا دل پھٹ جائے گا آخر کیا بات تھی جو اس کو اتنی بری طرح سے کھارہی تھی اور وہ اتنی بے بس ماں تھی کہ اٹھ کر اپنے بیٹے کو گلے سے بھی نہیں لگا سکتی تھیں ،فالج کی وجہ سے ان کا آدھا جسم مفلوج تھا۔


"ایسا مت سوچو بیٹا،اللہ بڑا رحم کرنے والا ہے ،وہ اپنے بندے سے بہت پیار کرتا ہے اور جب کوئی اپنے گناہ کی اس سے معافی مانگتا ہے تو وہ معاف کردیتا ہے " وہ اس وقت اسے زبان سے دلاسہ ہی دے سکتی تھیں ،ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر ان کے تکیے میں جذب ہونے لگے۔


"اللہ سے اچھا گمان رکھو بیٹا وہ اپنے بندے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا بس محسوس کرنے کی دیر ہے تم محسوس کرو وہ تمہارے لئے راستے بنا رہا ہوگا" انہوں نے پھر نرمی سے کہا ،ان کے ہاتھ پر سر رکھ کر روتے رجب نے حیرت سے سر اچکاکے انہیں دیکھا۔کیا واقعی ؟ اس نے جو گناہ کیا تھا اس کا بوجھ اس کے سینے پر سے ہلکا ہونے والا تھا۔کیا واقعی اب رجب عبدالرحمن اور کساء فرقان ہیلنگ کے سفر پر گامزن ہونے والے تھے یہ تو آنے والے وقت نے ہی بتانا تھا۔


@@@@@


کتنے ہی گھنٹے وہ اپنی ماں سے باتیں کرتا رہا پھر چچا سے بھی ملنے کے بعد وہ گیسٹ روم میں آگیا۔ماں سے کی ہر بات اس کے ذہن میں گردش کررہی تھی۔وہ بیڈ پر بالوں میں انگلیاں پھنسائے سر جھکاکے بیٹھ گیا۔اس کی ماں نے کہا تھا محسوس کرنے کی دیر ہے اسے راستے نظر آجائیں گے اور پھر وہ محسوس کرنے لگا اس کا زائشہ اور ہادی سے ملنا پھر کساء سے ملاقات ہو جانا اس طرح اپنی ماں سے ملنا واقعی ایک نیا راستہ تھا۔رب نے اس کو راہ دکھائی تھی ورنہ اتنے سالوں سے جس طرح رہ رہا تھا آگےبھی رہ سکتا تھا۔اسے واقعی محسوس ہونے لگا کہ اللہ نے اسے راہ دکھائی ہے وہ اٹھ کر واشروم میں گیا پھر وضو کرکے باہر آیا اور جائے نماز ڈھونڈنے لگا۔گیسٹ روم میں جائے نماز رکھی ہوئی تھی اس نے جائے نماز بچھائی اور نماز پڑھنے کھڑا ہوگیا۔وہ انسانوں کے سامنے نہیں روتا تھا لیکن آج جب رب کے سامنے رویا اور گڑگڑاکے معافی مانگی تو جیسے ہر بوجھ ہلکا ہوگیا۔نماز پڑھنے کے بعد وہ اللہ سے معافی مانگتا کب جائے نماز پر سوگیا اسے پتا ہی نہیں چلا ،اتنے سالوں سے جو سکون سے نہیں سویا تھا آج کسی معصوم بچے کی طرح سمٹ کر جائے نماز پر سورہا تھا۔


@@@@@


صبح آنکھ کھلی تو خود کو جائے نماز پر پاکے مسکراکے اٹھا ،دل میں ہلکا پن محسوس ہوا ،بوجھل ضمیر سکون میں آیا تھا۔اس نے جائے نماز تہہ کرکے شیلف پر رکھی اور واشروم میں چلا گیا۔کچھ دیر بعد فریش ہوکے اپنی ماں کے پاس چلا گیا اور انہیں اپنے ہاتھ سے ناشتہ کرانے لگا۔


"ملازموں کے ہاتھ کا کھانا کھاکے تھک چکی ہوں" وہ انہیں سوپ پلارہا تھا جب وہ تھک کر بولیں۔اس نے تاسف سے لب بھنچ لئے۔کاش وہ اپنی ماں کے لئے کچھ کرپاتا۔


@@@@@


کل سے اسے تیز بخار تھا ،ڈاکٹر کو دکھایا تو پتا چلا اسے ٹائیفائڈ ہوگیا ہے ،وہ بالکل بستر سے لگ گئی۔زائشہ کی کمائی سے تو گھر چل رہا تھا ،کساء پریشان ہوگئی ،زائشہ کی ایکدم سے بیماری پر فاقوں کی نوبت آگئی۔زائشہ نے اپنے گھر والوں سے بھی مدد مانگی مگر انہوں نے ناراضگی دکھاتے اس کی مدد سے یہ بول کر انکار کردیا کہ وہ اس بچے کو چھوڑ کر گھر آجائے لیکن زائشہ ہادی کو چھوڑنے کے لئے تیار ہی نہیں تھی۔زائشہ کے علاج کے پیسے ،ہادی کے دودھ کے ڈبے اور گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے کساء نے جاب کرنے کا سوچا لیکن اس کے پاس ڈگری نہیں تھی اس لئے اسے کہیں بھی جاب ملنی مشکل تھی۔زائشہ کے توسط سے اسے ایک ریسٹورینٹ میں شیف کی جگہ نوکری


مل گئی ،سیلری اتنی تھی کہ ان کا خرچہ پورا ہو جاتا اور کساء کو کھانا پکانے میں بھی مہارت حاصل تھی اس لئے وہ اس جاب کے لئے راضی ہوگئی


@@@@@


اس نے آج پھر سے کساء کے گھر جانے کا فیصلہ کیا،وہ اپنے طور پر ہر ممکن کوشش کرنا چاہتا تھا اپنی غلطی سدھارنے کی،وہ کساء کے گھر کی طرف آیا تو دیکھا وہ کہیں جارہی تھی ،رجب نے اس کا پیچھا کیا تو دیکھا وہ ایک ریسٹورینٹ میں چلی گئی۔وہ سمجھ گیا تھا کہ کساء جاب کررہی ہے تب ہی وہ واپس اپنی گاڑی میں آبیٹھا۔


@@@@@


گھر آکے بھی اسے سکون نہیں ملا،کساء یقینا کسی مجبوری کے تحت جاب کررہی تھی وہ ان کی امداد کرنا چاہتا تھا مگر وہ دونوں کبھی اس کی مدد نہ لیتیں لیکن پھر بھی اس نے ایک اچھی رقم زائشہ کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کردی۔


کساء رات میں گھر آئی تو زائشہ نے اسے اس بارے میں بتایا۔


"میرے اکائونٹ میں کسی نے پیسے ٹرانسفر کئے ہیں" وہ دھیرے سے بولی۔


"کس نے کئے ہوں گے؟" کساء نے لاپرواہی سے پوچھا۔


"رجب نے " زائشہ نے جھجھکتے ہوئے کہا تو کساء کے چہرے پر تلخی ابھر آئی۔اس کے تاثرات سپاٹ ہوگئے۔


"جہاں سے آئے ہیں واپس وہیں بھیج دو" وہ تنفر سے بولی۔


"کساء ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے ہمیں یہ پیسے لے لینے چاہئیے " زائشہ بے بسی سے بولی۔


"نہیں زائشہ میری ریسٹورینٹ کے اونر سے بات ہوئی ہے کل وہ مجھے ایڈوانس سیلری دے دیں گے اس لئے تم یہ پیسے واپس اس کے اکائونٹ میں ٹرانسفرکردو" کساء نے سختی سے کہا اور اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔


@@@@@


اس کی توقع کے عین مطابق پیسے اس کے اکائونٹ میں واپس آگئے تھے ،وہ کچھ سوچ کر اسی ریسٹورینٹ میں چلا گیا جہاں کساء کام کررہی تھی۔ریسٹورینٹ میں جاکے اس نے بہت سارے کھانے کا آرڈر دیا اس وقت ریسٹورینٹ میں ایک ہی شیف کساء تھی اتناسارا کھانا اتنے کم وقت میں پکانا مشکل تھا۔کافی دیر گزرنے کے بعد جب وہ کھانا نہیں بناسکی تو رجب نے مینیجر پر برسنا شروع کردیا۔


"میرا اتنا وقت ضائع ہوگیا اور ابھی تک آرڈر تیار نہیں ہوا " وہ مینیجمینٹ پر برس رہا تھا۔


"سر آپ نے دس ڈشز کے سو پیک بنوائے ہیں اتنا کھانا ایک شیف اتنے کم وقت میں کیسے بناسکتا ہے " مینیجر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔


"مجھے آپ کے شیف سے ملنا ہے بلائیے اسے" اس نے غصے سے کہا تو مینجر کساء کو بلانے چلا گیا۔پسینے میں نہائی ہوئی کساء ایپرن اور کیپ پہنے باہر آئی تو اسے دیکھ حیران رہ گئی جب کہ اسے دیکھ رجب کی آنکھوں میں جو جھنجھلاہٹ تھی سکون میں بدل گئی۔


'آپ دو گھنٹوں میں سو بندوں کا کھانا نہیں بناسکتیں؟" اس نے برہمی سے پوچھا۔


کساء کا دل کیا اس کا خون پی جائے لیکن اس وقت جاب پر تھی جب ہی خود پر کنٹرول کرنے لگی۔


"سر میرے ساتھ اس وقت ہیلپرز موجود ہیں لیکن کوئی ایکسپرٹ شیف نہیں ہے اس لئے کھانے میں وقت لگ رہا ہےہم پوری کوشش کررہے ہیں جلد ہی آرڈر تیار کردیں گے " وہ سر جھکائے بولی۔


"آگر ایک گھنٹے میں آرڈر تیار نہیں ہوا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا " اس نے مصنوعی غصے سے کہا اور لب دباکے مسکراہٹ روکتا ریسٹورینٹ سے واپس نکل گیا


وہ ایک گھنٹے بعد واپس آیا تو آڈرز تیار تھے اس نے سارے ڈبے اپنی گاڑی میں رکھے اور کچی آبادیوں کی طرف چلا گیا جہاں کتنے ہی بھوکے لوگ رزق کے انتظارمیں بیٹھے تھے۔آج کا کھانا تیار کروانے کے اس نے مینیجر کو اضافی پیسے دئیے تھے شیف کو دینے کے لئے ،وہ کسی اور طرح تو اس سے مدد لینے کے لئے تیار نہیں تھی اس لئے اسے یہی راستہ مناسب لگا اس کی مدد کرنے کا۔ایک طرف اس کی مدد بھی ہوگئی دوسری طرف اس کی وجہ سے بھوکے لوگوں کو کھانا مل گیا۔


جاری ہے۔