Main Image
ستاروں کے اسیر

Author: Ali

Ali a passionate and versatile writer with a deep love for crafting stories that transcend the ordinary. My work blends the allure of romance, the excitement of science fiction, the depth of emotional storytelling, and the intrigue of mystery. As a writer, I aim to captivate readers with tales that stir their emotions, ignite their imaginations, and keep them on the edge of their seats. With a unique ability to weave complex characters and engaging plots, I specialize in creating worlds where love, mystery, and futuristic possibilities collide. Whether it’s a heartfelt romance, a thought-provoking sci-fi narrative, or a spine-tingling mystery, my stories are designed to leave a lasting impact.

ستاروں کے اسیر


محبت اور سائنس فکشن کی داستا


باب اول – روشنی کی ایک کرن


سال 2147 تھا۔ زمین پر زندگی تیزی سے بدل رہی تھی۔ جدید سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی کو ایک نئے موڑ پر پہنچا دیا تھا۔ چاند اور مریخ پر انسانی بستیاں قائم ہوچکی تھیں، اور کہکشاؤں کے درمیان سفر عام ہو چکا تھا۔ لیکن جہاں ٹیکنالوجی نے ترقی کی، وہیں انسانی جذبات کا اصل مفہوم کھوتا جا رہا تھا۔


کپتان زارون خان ایک خلا نورد تھا، جو بین السیاراتی مشنز پر کام کرتا تھا۔ وہ ایک مضبوط، دلیر اور غیر معمولی ذہانت رکھنے والا انسان تھا۔ لیکن اس کے اندر ایک خالی پن تھا، جیسے وہ کسی انجانی چیز کی تلاش میں تھا۔


دوسری طرف، لیا اینڈرسن ایک ماہر فلکیات اور خلائی حیاتیات کی سائنسدان تھی۔ وہ ایسی کہکشانی توانائیوں پر تحقیق کر رہی تھی جو انسانی زندگی کو بدل سکتی تھیں۔ اس کا ماننا تھا کہ کہیں نہ کہیں، کائنات میں کوئی ایسی توانائی موجود ہے جو انسانوں کی حقیقی طاقت کا راز کھول سکتی ہے۔


باب دوم – پہلی ملاقات


زارون کو ایک خاص مشن پر بھیجا گیا۔ اس کا کام تھا کہ "ایکس 9-بلیک ہول" کے قریب جاکر تحقیق کرے کہ کیا وہاں کوئی نئی توانائی کے آثار موجود ہیں۔ لیا بھی اسی مشن کا حصہ بن گئی، کیونکہ وہ اس توانائی پر برسوں سے تحقیق کر رہی تھی۔


خلائی جہاز "ایگزینس-1" پر جب ان دونوں کی ملاقات ہوئی، تو لیا کی ذہانت اور زارون کی ہمت نے ایک دوسرے کو متاثر کیا۔ پہلے تو وہ صرف ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے، لیکن جیسے جیسے مشن آگے بڑھا، ان کے درمیان ایک نامعلوم کشش پیدا ہونے لگی۔


باب سوم – خطرہ اور محبت


جب جہاز بلیک ہول کے قریب پہنچا تو ایک غیر متوقع واقعہ پیش آیا۔ جہاز ایک طاقتور کشش کی زد میں آگیا اور نظام فیل ہونے لگا۔ لیا نے فوراً اپنی تحقیق کی مدد سے حساب لگایا کہ اگر وہ ایک مخصوص تعدد پر توانائی کا اخراج کریں تو وہ بلیک ہول کی کشش سے بچ سکتے ہیں۔ زارون کو اس پر شک تھا، لیکن لیا کی آنکھوں میں ایک یقین کی روشنی تھی۔


زارون نے اس پر بھروسا کیا، اور وہ دونوں مل کر اس مشن کو بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس حادثے نے ان کے درمیان ایک گہری وابستگی پیدا کردی۔ خلا کی سردی میں، جہاں وقت بھی جامد ہوجاتا ہے، وہاں ان کے دلوں میں ایک نئی گرمی جاگنے لگی۔


باب چہارم – قربانی کا لمحہ


جب وہ واپس آنے لگے تو انھیں ایک اور بڑا مسئلہ درپیش ہوا۔ ان کا ایندھن ختم ہو چکا تھا، اور قریبی اسپیس اسٹیشن بہت دور تھا۔ واحد حل یہ تھا کہ کوئی ایک خلا میں جاکر جہاز کو دھکا دے تاکہ دوسرے بچ سکیں۔


زارون نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ قربانی دے گا، لیکن لیا نے اسے روک دیا۔


لیا (زارون کی طرف دیکھتے ہوئے): "تم نہیں جا سکتے! میں نے تمہیں کھونے کے لیے نہیں پایا!"

زارون (مسکراتے ہوئے): "محبت وہی ہوتی ہے جو خود سے زیادہ دوسرے کی زندگی کی فکر کرے۔"


زارون نے ہیلمٹ پہنا، اور خلائی خلا میں چھلانگ لگائی، جبکہ لیا چیختی رہی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن زارون کا چہرہ سکون میں تھا۔


باب پنجم – معجزہ


جب لگا کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے، اچانک خلا میں ایک روشنی نمودار ہوئی۔ یہ وہی توانائی تھی جس کی لیا تحقیق کر رہی تھی! وہ توانائی زارون کے گرد جمع ہونے لگی اور ایک حفاظتی شیلڈ بنا دیا۔ لیا نے فوراً کمپیوٹر پر حساب لگایا، اور پتہ چلا کہ یہ توانائی نہ صرف زارون کو بچا سکتی ہے بلکہ انہیں روشنی کی رفتار سے تیز کر کے اسپیس اسٹیشن تک پہنچا سکتی ہے!


زارون اور لیا نے مل کر اس توانائی کا استعمال کیا، اور معجزانہ طور پر، وہ زندہ بچ گئے۔


اختتام – ستاروں کے اسیر


اس تجربے کے بعد، زارون اور لیا نے جان لیا کہ ان کی محبت صرف زمینی نہیں، بلکہ کہکشانی ہے۔ وہ دونوں ساتھ رہے، نئے سیاروں پر تحقیق کی، اور خلا کی وسعتوں میں ایک دوسرے کا سہارا بنے رہے۔


کہتے ہیں کہ سچی محبت کی کوئی حد نہیں ہوتی، نہ زمین کی، نہ وقت کی، اور نہ ہی کہکشاں کی۔ زارون اور لیا کی محبت نے یہ ثابت کردیا کہ و

ہ ستاروں کے اسیر ہیں—ہمیشہ کے لیے۔


(ختم شدہ)