زیادتی
قسط 1
ازقلم؛
دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد پہنچا ئیت اس فیصلے پر پہنچی ہے کہ ۔ ۔ ۔
ہمیں خون بہا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ نہ خون کے بدلے خون اور نہ ہی خون معاف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب خان آفریدی کی دھاڑ سے ہر طرف سکوت چھا گیا وہ پنچائیت کے سر براہ کے بولنے سے پہلے ہی بول پڑا سے چھاگیا سردار
خاقان آفریدی نے پر شکوہ نگاہ بیٹے پر ڈالی جسے دیکھ کر وہ نظریں جھکا گیا گیا پنچائیت کے سربراہ نے دلاور خان کو دیکھا انہوں نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے پاس بیٹھے غصہ ضبط
کرتے شمس دلاور خان کو مخاطب کیا
جاؤ ہیر کو لے آؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ مدھم شکستہ آواز میں بولے
شمس خاموشی سے اٹھ کر گاڑی کیطرف چل پڑا دلاور خان نے شمس کے جانے کے بعد ایک دکھ بھری نظر خاقان آفریدی پر ڈالی ۔۔
مگر وہ نظریں چرا گئے ۔ ۔ ۔ ۔
یہ فیصلہ صرف اور صرف یشب کا تھا مگر اس وقت وہ اتنے لوگوں میں بیٹے کے فیصلے سے اختلاف
کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔
میں ہر گز ایسا نہیں ہونے دوں گا ۔۔بابا جان ۔۔۔۔ یشب ، خاقان آفریدی کی بات پر آپے سے باہر ہوا
میں نے تمہیں لندن اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ واپس آکر قتل و غارت شروع کر دو ۔ ۔ ۔ ۔ قتل انہوں نے کیا ہے بابا جان اور میں ہر گز اس خون کو معاف نہیں ہونے دوں گا ان لوگوں کو اپنے کیے کا بدلہ چکانا ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بضد تھا
یشب بچے تیرے بابا جان ٹھیک کہہ رہے ہیں معاف کر دینے میں ہی بڑائی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بی بی جان پلیز ۔۔۔۔۔ آپ سب شاید بھول چکے ہیں کہ محض بیس دن پہلے اس حویلی کے بڑے وارث کا جنازہ اٹھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر میں نہیں بھولا ہوں اور نہ ہی آخری دم تک بھولوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ اگر آپ لوگوں نے معافی نامہ بھیج دیا تو میں یہ حویلی چھوڑ کر چلا جاؤں گا ۔۔۔۔۔ دیٹس اٹ۔۔
اپنا فیصلہ سناتا سیڑھیاں پھلانگ گیا
باباجان نے پاس کھڑی مہرو کو اشارہ کیا وہ سر ہلاتی یشب کے پیچھے ہی سیڑھیاں چڑھ گئی یشب چیزوں کی اٹھا ٹھیک کر کے غصہ نکال رہا تھا جب مہر و کمرے میں داخل ہوئی یشب ۔ ۔۔۔۔۔ وہ اس پرکار پر ایک لمحے کو رکا اور مڑے بغیر پھر سے چیز میں الٹنے لگا یشب ۔۔۔۔۔ پھر سے پکارا گیا۔
بھا بھی اگر آپ یہاں اس لیے آئیں ہیں کہ میں اپنا فیصلہ بدل لوں تو ایسا بلکل نہیں ہو گا ۔ ۔ ۔ میں لالہ کا
خون کبھی معاف نہیں کرنے والا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا کرنے سے تمہیں کیا ملے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟
زیادہ نہ سہی کچھ تو اس اذیت کا مداوا ہو گا جو لالہ کے خون سے لت پت وجود کو دیکھ کر مجھے ہوئی تھی تو کیا اس خاندان کے بیٹے کا خون کرو گے جا کر ۔۔۔۔۔؟؟؟
نہیں۔۔۔۔
تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ تو خون بہا میں کیا لو گے پیسے یا پھر عورت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ مہرو نے اسکے سرخ چہرے پر نظریں فوکس کرتے ہوئے غصے سے پوچھا
بھا بھی آپ ۔
کیا میں ۔۔۔۔ بولو یشب کیا میں ۔۔۔۔ تم ایک مرد کا بدلہ مظلوم عورت سے لوگے جس کا کوئی قصور بھی نہیں۔۔۔
بھا بھی آپ اس ایموشنل تقریر سے میرا فیصلہ نہیں بدل سکتیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ڈٹا رہا
ٹھیک ہے جو جی میں آئے کرو مگر ایک بات یاد رکھنا کہ میں خون بہا میں آنے والی لڑکی سے تمہیں کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں کرنے دوں گی سمجھے ۔۔۔۔۔ مہر و غصے سے بات مکمل کرتی کمرے سے نکل گئی۔
بھا بھی خون بہا میں آنے والی لڑکی سے مجھے کوئی سروکار نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں صرف اور صرف شمس خان کو اسی تکلیف سے گزارنا چاہتا ہوں جو میں نے جھیلی تھی ۔ ۔ ۔
اسے بھی تو پتہ چلے کہ جب جان سے پیاری چیز ہمیشہ کے لیے جدا ہوتی ہے تو کس قدر اذیت سہنی پڑتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب نے ہمکلامی کرتے ہوئے پوری قوت سے ایش ٹرے دیوار پر دے ماری ۔
۔۔۔۔
اسے چادر اوڑھاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔ شمس نے ہال کمرے میں موجود خواتین سے کہا ں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں کہیں نہیں جاؤں گی لالہ - ۔ ۔ ۔ میں کہیں نہیں جا رہی ۔۔۔۔۔ آپ ۔۔۔۔ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ بابا ۔۔۔۔ بابا مجھے ونی نہیں کر سکتے لالہ میں کہیں نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔۔ ہیر پنچائیت اور آفریدی خاندان کا فیصلہ سن کر پاگل سی ہو گئی تھی ۔۔۔۔
نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔۔ نہیں لالہ آپ ۔۔۔۔ آپ اپنی ہیر اپنی گڑیا کو کیسے کسی کے حوالے کردیں گے نہیں لالہ آپ مجھے چھپا لیں کہیں ۔ ۔۔۔ میں پنچائیت میں نہیں جاؤں گی لالہ چھپالیں مجھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ روتی ہوئی شمس کے سینے سے لگ گئی شمس نے بہت ضبط سے ہیر کے ہچکیاں لیتے وجود کو خود سے الگ کیا اور پاس کھڑی پروشہ سے چادر
پکڑ کر ہیر کو اوڑھائی اور اسکا بازو پکڑ کر باہر کیجا نب بڑھا
لالہ آپ ان کو بتاتے کے آپ نے جان بوجھ کر یشار خان کا خون نہیں کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب اچانک غلطی سے ہوا۔ ---- - پلیز لالہ میں نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔۔ ہیر روتی ہوئی کھسیٹتی جارہی تھی۔
وہاں موجود حویلی کی عورتوں اور ملازموں نے افسردگی سے وہاں کی لاڈلی کو ہمیشہ کے لیے جاتے دیکھا
مگر اسے روکنے کی ہمت کسی میں بھی نہ تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پنچائیت سے چند فرلانگ کے فاصلے پر شمس نے گاڑی کو بریک لگائی
ہیر نے خوفزدہ نظروں سے چند گز دور بیٹھے مردوں کے ہجوم کو دیکھا اور کپکپاتے ہوئے شمس کا بازو
پکڑا
لالہ مجھے بچا لیں ۔۔۔۔۔ میں آپ سب کے بغیر مر جاؤں گی لالہ ۔۔۔۔۔۔ وہ پھر سے ملتجی ہوئی شمس اس کے ہاتھ ہٹا کر گاڑی سے نکل گیا
دوسری سائیڈ سے اس کا دروازہ کھول کر اسے بھی باہر نکالا۔ ۔
اگر تمہارا لالہ تم کو بچا سکتا تو کبھی اپنی لاڈلی کواس پنچائیت کی زینت نہ بنے دیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سنجیدگی سے کہتا اسے لیے آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاقان آفریدی نے دو شادیاں کی تھیں ۔ ۔ ۔ پہلی شادی بی بی جان
) صور یہ خانم (سے کی مگر دس سال تک اولاد نہ ہونے کی صورت میں بی بی جان نے ان کی شادی خود ہی اپنی پچازاد گل با نو سے کروادی ۔۔۔۔۔۔ گل بانو نے خاقان آفریدی سے شادی کے ڈیڑھ سال
بعد حویلی کے پہلے وارث یشار خان آفریدی کو جنم دیا ۔ ۔ ۔ جس پر پوری حویلی میں خوب جشن منایا گیا۔ مگر بد قسمتی سے گل بانویشار کی پیدائش کے چھ سال بعد یشب خان آفریدی کو جنم دے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یوں یشار اور یشب کی ذمہ داری بی بی جان پر آپڑی انہوں نے پورے دل سے یہ ذمہ داری نبھائی اور خوشدلی سے ان دونوں کو سینے سے لگالیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن اور آج کا دن انہوں نے کبھی ان دونوں
بھائیوں کو ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی چھ سال پہلے وہ اپنی بھانجی مہر و کویشار آفریدی کی دلہن بنالا ئیں تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ مہرو اور یشار کا چار سالہ
بیٹا حدید آفریدی بھی تھا
یشب چند ماہ پہلے ہی لندن سے اپنی تعلیم مکمل کر کے لوٹا تھا جب قسمت نے ان پر بہت بھاری وار کیا بشار آفریدی کو ان سب سے ہمیشہ کے لیے جدا کر کے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح ابھی پنچائیت میں کروا کر ہی آفریدی خاندان کیساتھ بھیجوں ۔ ۔ ۔ ۔ دلاور خان نے جھکے سر سے اپنا مدعا کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں حاکم خان آپ نکاح شروع کریں ۔ ۔ ۔ ۔ یشب اور دلاور خان کی بیٹی کا نکاح ابھی سب کی موجودگی میں ہی گا ------ خاقان آفریدی نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بات مکمل کی۔۔
بابا جان یہ - - - یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ یشب انکی جانب جھک کر آہستگی سے بولا
میں اس لڑکی کو اپنے نکاح میں نہیں لوں گا ۔۔۔۔
ایک فیصلہ تمہارا تھا تو دوسرا میرا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جان نے بھی آہستگی سے اسے باور کروایا اور حاکم خان کی طرف متوجہ ہو گئے جو کلمات شروع کر چکے تھے
یشب کی بازی اسی پر الٹ چکی تھی ۔۔۔۔ اس نے خون بہا میں دلاور خان کی بیٹی اور شمس خان کی بہن
کو ہی مانگا تھا تاکہ وہ اسکو ان سے جدا کر کے تکلیف دے
سکے ۔ ۔ وہ صرف اس لڑکی کو اپنی قید میں لانا چاہتا تھا نہ کے نکاح میں ۔ ۔ ۔
نکاح کے لیے تو وہ اپنے خاص ملازم حشمت خان کو سوچ چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر بابا جان نے بیچ میں آکر سارا قصہ ہی پلٹ دیا تھا۔۔۔۔
وہ نکاح کے بعد پنچائیت سے تو خاموشی سے اٹھ آیا تھا مگر حویلی آکر اپنا غصہ نکالنا نہیں بھولا
ہم وہاں خون بہا لینے گئے تھے نا کہ بیوی اور ہو۔ ۔۔۔۔۔ وہ غرایا
تو تمہیں کیا لکھا تھا ہم وہاں سے لڑکی ایسے ہی لے آتے بنا نکاح کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جان نے ٹھہرے
ہوئے لہجے میں طنز کیا
نکاح کرتے ضرور کرتے مگر میرے ساتھ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حویلی کے ہزاروں وفادار ملازم موجود
ہیں ان میں سے کسی سے بھی کر دیتے
ہوش کرو کچھ یشب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہوش میں ہی تو آچکا ہوں ۔۔۔۔۔ اور ہوش میں ہی میں اس فساد کی جڑ کو جان سے مار کر حساب برابر کر دوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چلاتا ہوا کچھ فاصلے پر کھڑی ہیر کیطرف بڑھا
چھو ۔ ۔ ۔ ۔ چھوڑیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ گھٹی گھٹی آواز میں چیخی
یشب چھوڑو بچی کو۔ ۔ ۔ ہوش کرو یشب کیا پاگل پن ہے یہ ۔ ۔ ۔ بابا جان یشب کے ہاتھ ہٹا رہے تھے جن میں وہ ہیر کی گردن دبوچ چکا تھا ۔ ۔ ۔۔۔۔
بابا جان ہٹ جائیں میں اس قصے کو یہیں ختم
یشب . ----- بابا جان کی دھاڑ پر اس نے ایک قہر آلود نگاہ ہیر کے لزرتے وجود پر ڈالی اور ایک
جھٹکا دے کر اسکی گردن آزاد کی
ہمیر اس جھٹکے کے لیے ہر گز تیار نہ تھی اس لیے توازن برقرار نہ رکھ پائی اور دائیں جانب لڑکھڑاتے ہوئے گری
گرنے سے وہاں پڑے ٹیبل کی نوک اسکے ماتھے پر لگی جس سے خون ابل پڑا۔
0 Comments
Post a Comment