وحشت جنون 

قسط 2 


اب وہ سوچ میں ڈوبے تھے، وہ جانتے تھے ان پر اور ان کی پوزیشن پر کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا

مگر وہ اب بھی شاہ ویز کے اتنے بڑے قدم پر فکرمند تھے ، جو ان کے علم میں لائے بغیر اتنا سب کر گیا، وہ تو بالکل نہیں چاہتے تھے کہ شاہ ویز شاہ پر کوئی بھی آنچ آئے


احسان شاہ اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے ترپ رہے تھے، وہ جانتے تھے ان کی بیٹی اس حادثہ کے بعد اس کی نفرت میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا ہوگا وہ انہیں ہی غلط سمجھ بیٹھی ہوگی



اور وہ اس وقت اتنے مجبور اور بے بس تھے کے اپنی پوزیشن بھی اس کی نظر میں کلیٹر نہیں کر سکتے تھے۔


احسان شاہ اچھی طرح جانتے تھے کہ شمائلہ نے ان پر کری نظر رکھی ہوگی ، یا شاید گاؤں تک کی بھی ساری انفورمیشن لے چکی ہوگئیں، سو کچھ دنوں تک ان کا گاؤں جانا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔


شاہ ویز شاہ سے وہ ناراض تھے ، اس لیے نہیں کہ وہ ہانیہ کو لے کر آیا بلکے اس لیے ناراض تھے کیونکہ اس نے انہیں اپنے ارادوں کی بھنگ تک انہیں پڑھنے نہیں دی ہر بات چھپائی 

اب کی بار دوبار کوئی ایسی غلطی نا کرے وہ اس سے بات کرنا بند کئے ہوئے تھے تا کے وہ دوبارا ان کے علم میں لائے بغیر کوئی قدم نا اٹھائے ۔۔۔۔


ہانیہ کے بارے میں وہ ساری معلومات ملازموں سے لے رہے تھے ،،، اب تک تو سب اچھا ہی اچھا بتا رہے تھے،،، اب شاہ ویز نے انہیں یہ سب بتانے کا کہا تھا یا یہ سب سچ تھا ، احسان شاہ نہیں جانتے تھے۔۔


دوسری طرف حویلی میں شاہ ویز کے ہی حکم پر بانیہ کے بارے میں احسان شاہ کو جھوٹ بولا جارہا تھا،،، اور صرف بہت ہی خاص اور وفادار ملازموں کو ہی ہانیہ کی حویلی موجودگی کی خبر تھی ۔۔۔۔۔


شاہ ویز نے تمام ملازموں کو سختی سے ہدایت کی ہوئی تھی کہ کسی کو پتا نہیں چلنا چاہے، اور نا حویلی سے باہر یہ بات نکلنی چاہیئے 


اس ہی وجہ سے شمائلہ بیکم کو اب تک ہانیہ کا حویلی میں ہونے کا پتا نہیں چلا پایا


اور شاہ ویز شاہ کا غصہ تو پورے گاؤں میں مشہور تھا، ملازمہ ملازم اس کی ایک دھاڑ سے ہی کانپ جاتے تھے، وہ جتنا نرم دل اور انصاف پسند تھا، غصے کا اتنا ہی تیز تھا، وہ جانتے تھے اگر حکم عدولی ہوئی تو کیا سزا ہوگی

اپنے اصولوں اور رویات کے لیے وہ بہت سخت تھا، غصے میں وہ بھول جاتا تھا سامنے کون ہے اور اپنے دوسرے جنونی روپ میں اجاتا تھا اور اس وقت وہ خود کو غلط بھی نہیں مانتا تھا


یہ وہ شاہ ویز شاہ تھا جس نے اپنے باپ دادا سے ملی سرداری کے بعد تمام اصول خود بنائے تھے۔


کسانوں کو ان کے حق سے زیادہ زمین دی، پورے گاؤں کے گھروں میں راشن تقسیم کیا جاتا۔ ان کے بچوں کی تعلیم کی زمیداری ساری شاد ویز شاہ کی تھی … 


اس وقت شاہ ویز عالم شاہ ایک رحم دل سردار بن جاتا تھا جس میں اپنے خدا کا ڈر اور مخلوق سے محبت ہو،،، اس ہی وجہ سے شاہ ویز شاہ غصے سے خوف زادہ ہونے کے بعد بھی گاؤں والوں کے دلوں پر راج کرتا تھا، وہ ان سب کا شہزادہ تھا سارے لوگ جان دیتے تھے اس پر ۔۔۔ وہ اپنے سردار سے خوف زدہ ہونے کے باوجود بھی بے حد محبت کرتے تھے ۔۔۔۔۔


مگر کو جانتا تھا یہ رحم دل شہزادہ کسی کے لئے جلاد بھی سابط ہونے والا تھا۔۔۔۔۔۔


گاؤں کے سردار کا ایک دوسرا روپ بھی تھا، بچپن کے حادثہ اور محرومیوں نے شاہ ویز شاہ میں اپنی ہر چیز کے لیے جنون بھر دیا تھا اچھا بنتا تو بھی انتہاں کر دیتا، اور برا بنے پر آتا تو بھی انتہاں تک جاتا


شاہ ویز کے دل میں یہ خوف بیٹھ گیا تھا کہ وہ جس سے بھی محبت کرتا ہے ، وہ اسے دور ہو جاتا ہے، اس لیے اب اپنی چھوٹی سے چھوٹی چیز کے لئے بھی وہ جزیاتی تھا۔


احسان شاہ اور آسیہ شاہ سمجھتے تھے وقت کے ساتھ سہی ہو جائے گا مگر اب بڑے ہونے کے بعد تو اس کے جنون اور وحشت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا تھا


آج دو دن ہوچکے تھے اسے یہاں قید ہوئے ..... ان دو دنوں میں اس نے بھوک ہڑتال چیخنا چلانا، توڑ پھوڑ دھمکیاں، سب کر کے دیکھ لیا تھا مگر اس جلاد نے اس سب کا کوئی اثر نہیں لیا ..... اب وہ یہاں سے بھاگنے کے راستے ڈھونڈ رہی تھی اور موقع کی تلاش میں تھی۔۔۔۔۔


اب وہ اپنے کمرے کی بالکنی میں پر سوچ انداز میں اردو گرد کا جائزہ لے رہی تھی


اس کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا ۔۔۔ سامنے والے رستے پر مین روٹ تک جانے والی سڑک خاصی لمبی تھی اور اس راستے پر پکڑے جانے کا خطرا بھی زیادہ تھا... کوئی نا کوئی ملازم یا ملازمہ آتے جاتے ہوئے اسے دیکھ سکتے تھے اور مین گیٹ کے باہر پھرے دار بھی موجود تھے۔

مین گیٹ کی دیواریں اس حویلی کی اس قدر اونچی اور سیدھی تھی کہ ان پر چڑھ کر دوسری طرف کودنا ناممکن تھا ... سو بہت دن کی سوچ بچار اور پلاننگ کے بعد اس نے پچھلی طرف والا راستہ فرار کے لیے چنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔


بیک سائیڈ لان تھا مختلف قسم کے پھولوں کے درخت لگے تھے کھنے اور سایہ دار ۔۔۔۔۔


اس لان کے چاروں طرف اتنی اونچی دیواریں تھی کہ وہ آسانی سے نا سہی تھوڑی مشکل سے ہی کسی چیز کے سہارے دیوار کے سرے پر چڑھ کر دوسری طرف کود سکتی تھی ۔۔۔۔۔


ہانیہ نے اتنے دونوں کی ریسرچ اور بغور جائزے کے بعد ایک ایسی چیز تلاش کرلی تھی جس پر چھڑا جاسکے


ایک کھنا درخت جو کے دیوار سے کچھ چند ایچ دور تھا وہ با آسانی اس درخت کے ذریعے دیوار پر چڑھ کر دوسری طرف اتر سکتی تھی 


کوئی بھی پھرتیلا انسان یہ کام چند سیکنڈ میں کر سکتا تھا اور ہانیہ شاہ کے لیے یہ سب کوئی مشکل بات نہیں تھی سیلف ڈیفنس، ہارس رائیٹنگ یہ سب اسے سکھایا گیا تھا 


وہ جس ملک سے آئی تھی یہ سب ایک معمولی بات تھی ایک لڑکی کے لیے 

اس نے اپنی کالج لائف میں بڑے بڑے ٹاسک اچیو کیسے تھے ..... تو یہ کیا مشکل تھا اس کے لیے بس اس منحوس حویلی سے نکل جائے ایک بار۔


اور وہ اسی رہ سے نکلنے کا پکا پروگرام بنا چکی تھی اس حویلی اور اس کے مالک سے فرار تو آسانی سے ممکن نہیں تھی۔۔۔۔۔


ہر طرح سے منت سماجت، گالیاں کو سے دھمکیاں دے کر دیکھ لی تھی۔۔۔۔۔ مگر جو اسے اغوا کر کے لایا تھا وہ اسے اتنی آسانی سے واپس تو نہیں چھوڑے گا اور اب اسے خود کچھ کرنا تھا کہ یہاں سے نکلنا تھا مما کے پاس پہنچا تھا. اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑی پر سوچ انداز میں پلینگ کر رہی تھی


صبح فجر سے کچھ دیر پہلے کے وقت سب لوگ بے خبر نیند کے مزے لوٹ رہے و تھے تو وہ خاموشی سے کمرے سے باہر نکل آئی 


شاہ ویز شاہ کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوسکے گی، جب تک وہ سو کر اٹھے گا وہ یہاں سے بہت دور نکل جائے گی


ہانیہ نے ہمیشہ دس گیارہ بجے ہی حویلی میں اسے ناشتہ کرتے دیکھا تھا....، اس کے اندازے کے مطابق وہ لیٹ اٹھنے کا آدی تھا اور اسی بات کا فائدہ اٹھا کر اپنا پلان پر عمل کرنا تھا 


وہ سب سے چھپتے چھاتے احتیاط کے ساتھ پچلے سائیڈ لان میں آئی ۔۔۔۔۔۔۔

اس نے درخت کے پاس اگر اس کا جائزہ لیا کہیں کوئی جانور تو نہیں، اور ادھر ادھر بھی احتیاط دیکھ لیا۔۔۔۔۔۔۔


پھر خود کو ریلکس کرنے کے بعد ... آرام سے ہاتھوں پیروں کے پنجوں کے ذریعے پیروں پر کسی بلی کی طرح چڑھ گئی اور دیوار پر اتر کر بیٹی اور دوسری طرف کودھ گئی ۔۔۔۔۔۔ اپنی کامیابی پر طمانیت اور خوشی کی ایک طویل سانس اس کے منہ سے نکلی

دور کہیں سے فجر کی اذانوں کی آوازیں آنے شروع ہوئیں تھی ۔۔۔


اونہہ بڑا آیا حاکم تم یہاں سے نکل نہیں سکو گی .... میری اجازت کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی یہاں میں اب تم باہر جانے کا خواب بھول جاؤ۔۔۔۔۔۔اس نے شاہ ویز کی نقل اتاری، اس کا کرخت لہجہ اور آہنی گرفت یاد آگئی، کیسے اتنے دن اسے سختی سے پیش آتا رہا ہے کمینا کہیں گا۔۔۔۔


اب دیکھنا شاہ ویز شاہ ... یاد کرو گے کس سے پالا پڑا تھا ... اس نے کھڑے ہو کر ہاتھ چھاڑتے ہوئے، حویلی پر ایک فاتحانہ نظر ڈالتے ہوئے اس کے مکین کو چیلنج کیا کھیتوں کے درمیان چلنے کا رستا بنایا گیا تھا اطراف میں گھیت تھے

 سیدھی بھاگتی چلی گئی اگر چہ یہ اس کے لیے بہت سویرے کا وقت تھا، مگر گاؤں والوں کی صبح تو اذانوں کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے ایک دو نمازی مسجد کی طرف جارہے تھے ۔


وہ چھپنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے جب بھی کسی شخص کو دیکھتی تو پگڈنڈی سے اتر کر کھیت میں چھپ جاتی ۔۔۔


اور پھر کچھ دیر بعد سفر دوبارا شروع کر دیتی۔۔۔۔ اونچا نیچا، ٹیڑھا میڑھا، راستہ تھا اس کے پاؤں میں موج آگئی تھی۔۔۔۔۔

اسے کب عادت تھی ایسے رستوں پر چلنے کی وہ تو زمین پر پیر بھی بہت کم رکھتی تھی ہر وقت قیمتی گاڑیوں میں سفر کرتے بڑی ہوئی تھی۔۔۔۔ 


مگر اب تکلیف کے وجہ سفر جاری رکھا تھا۔ کہ یہ تکلیفیں اس جان لیوا اور اذیت ناک قید سے کم خوفناک تھیں ...، جو شاہ ویز شاہ نے مما سے اسے جدا کر کے قیدی بنا کر دی تھی

وہ آزادی پیلی تھی اپنی مرضی سے زندگی گزارنے والی نا کبھی کسی کی سنی تھی نا کسی کی مرضی پر چلی تھی اور ان دو دنوں میں اس شخص نے اتنا بے بس کیا تھا کہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی ۔۔۔۔۔


ہانیہ نے اپنی رفتار مزید تیز کر دی تھی۔ اب کھیتوں کے بعد خالی میدان شروع ہو چکا تھا، اور اس کے بعد پکی سڑک تھی جو اسٹیشن تک جاتی تھی 


خوشی کے مارے اس کی گرے کاچ جیسی آنکھوں میں روشنی سی پھر گئی ایسا لک رہا تھا کھویا ہوا خزانہ مل گیا ہو بس کچھ دوری پر اس کی منزل تھی اور پھر وہ آزاد


چلتے چلتے ہانیہ کی یکدم سامنے نظر بڑی تو مارے حیرت اور خوف کے سانس لینا ہی بھول گئی ۔۔۔۔۔


آنکھیں پھٹنے کی حد تک کھلی تھیں۔



شاہ ویز شاہ گھوڑے پر سوار بیٹا اسے لال انگارا آنکھیں اور خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا


بھاگ رہی ہو ہم سے بچ کر ... تم جانتی نہیں ہو شاہ ویز شاہ سوتے ہوئے بھی آنکھیں کھلی رکھتا ہے۔۔ "ہمارے قید سے کوئی فرار ہو جائے اور ہم بے خبر..... رہیں ،،،،، اتنا۔ نا سمجھ سمجھا ہے۔ کیا سمجھا تھا تم نے ہماری عزت کو نیلام کر کے گھر سے بھاگ جاؤگی، تو یہ تمہاری بھول ہے تمہیں آخری سانس تک میری قید میں رہنا ہے اب تم جیسی اتھری گھوڑی کو شاہ ویز عالم شاہ کو سیدھا کرنا آتا ہے 


وہ گھوڑے پر سوار ہی اس پر غصلے لہجے میں طنز پر طنز کر رہا تھا۔

اگر اسے بابا جان کا خیال نہیں ہوتا تو اب تک اسے گھر سے بھاگنے کے جرم میں کب کا گولی مار چکا ہوتا عزت پر بات آئے تو وہ ایک جلاد ہی بن جاتا تھا


شاہ ویز ایک جست میں گھوڑے کی پیٹھ سے اتر کر اس کے پاس آیا 


ہر گز نہیں میں جاؤں گی میں مما کے پاس جاؤں گی ، وہ چیخی۔۔۔۔۔ تم جیسے جانوار کے ساتھ ایک پل بھی نہیں گزارنا مجھے ۔۔۔۔ تم ہوتے کون ہو … مجھ پر حکم چلانے والے .... " میں جان سے ماردوں گی تمہیں کمینے ذلیل۔۔۔۔ انسان


ہانیہ شاہ اپنے ناکامی اور بے بسی پر پاگل سی ہونے لگی تھی۔ اب پوری قوت سے اس پر چلا رہی تھی، اس نے کب خود کو اتنا بے بس محسوس کیا تھا آج تک جو چاہا حاصل کیا مکمل آزادی کے ساتھ،

جیسے چاہے اپنی زندگی گزاری مما نے آج تک کوئی سوال نہیں کیا اس سے اور ان دو دنوں میں اس شخص نے اسے کس کس بات پر ناکامی کا منہ نہیں دکھایا تھا۔


آہستہ بولو وارنہ گلا دبا کر یہیں تمہاری قبر بنا دوں گا ۔۔۔۔۔۔۔" وہ ایک جست میں اس تک اتے اس کا جبڑا اپنے مضبوط ہاتھ کی گرفت میں دبوچتا چبا چبا کر بولا۔۔۔۔


اگر کوئی اس ٹائم اس کی آواز سن لیتا تو ... اور وہ نہیں چاہتا تھا کسی کو بھی اس بات کی بھنگ پڑے کہ شاہ خاندان کی بیٹی رات کے اندھیرے میں گھر سے بھاگ رہی تھی۔


کیوں کیوں آہستہ بولوں میں چیخوں گی چلاؤں گی سب کو تمہارے کرتوت بتاؤں گی۔۔۔۔۔۔۔ میں نہیں جاؤں گی تمہارے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ وہ جیسے پاگل ہوگئی تھی اپنے ہاتھ کے ناخوں اسے مارنے لگی


شاہ ویز نے اس کا پینگ ہوتا دیکھا پھر بالوں میں ہاتھ پھیر کر ایک منٹ سوچا اپنا اور اپنے خاندان کا تماشا نہیں لگا سکتا تھا اس وقت ...... سارے گاؤں والے جاگ چکے ہوں گے اور اب سب نے مسجدوں کا روح کرنا تھا اس کے بعد اپنے کاموں کا۔


روان شاہ ویز گھوڑے کی لگام بلکے سے کھینچ کر اسے قریب کر کے اس پر سوار ہوا


اور اگلا لہحہ بے حد حیرت انگیز تھا ہانیہ کے لیے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی شاہ ویز نے اس کی کمر میں بازو ڈال کر اسے یوں گھوڑے کی پشت پر سوار کرایا تھا جیسے کسی ننھی بچی کو اٹھا کر بٹھا دیا جائے 

پھر اس کی تمام تر کوشش تڑپنا چلانا مارنا نوچنا سب بے کار رہا۔۔۔۔۔۔


حویلی میں پہنچ کر، چیختی چلاتی ہاتھ پیر چلاتی،،،،،،،،، بانیہ کو کندھے پر ڈالے اس کے کمرے میں لاکر بیڈ پر پٹخا تھا۔۔۔۔ شکر تھا کہ کسی سے سامنا نہیں ہوا تھا اس ٹائم


اب سے تمہارا لان میں بھی جانا بند،،،, بڑی ڈھیٹ شے ہو تم شرافت کی زبان تمہیں سمجھ نہیں آتی ۔۔۔۔۔ وہ اس پر غرایا تھا۔۔۔۔۔۔ 

سوچ سوچ کر اس کے دماغ کی نس پھٹنے لگی تھی اگر کسی کو خبر ہو جاتی یا اس کی ماں کے جاسوس جو گاؤں میں ہی تھے


تو بابا کے لیے کتنا بڑا مسئلہ بن جانا۔۔۔۔۔


وہ تو شکر تھا کہ شاہ ویز کو فجر سے پہلے ہی اٹھنے کی عادت تھی، اور وہ کسی بھی ملازم کو خبر ہونے سے پہلے ہی ہانیہ کو گھر لے آیا تھا


اس وقت سب اپنی عبادتوں اور کاموں میں مصروف تھے ، شاہ ویز کے ڈر سے ہانیہ کی چیخ پکار سن کر بھی بابر نہیں آئے 


مجھے نہیں رہنا یہاں ،،،،،،، میں جاؤں کی یہاں سے ،،،،،،،، تمہارے خاندان سے اس حویلی سے دور بہت دور ..... وہ ایک سیکنڈ سے بھی پہلے آٹھ کر اس کے مقابل کھڑی ہو کر پوری قوت سے چیخی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک سئر تھا تو دوسرا سوا سئر دونوں ہی ایک دوسرے سے کم نہیں تھے ، دونوں ہی غصے کے تیز اپنی کرنے والے تھے، ناجانے آگے کیا ہونے والا تھا ان دونوں کا کون ہارتا کس کی جیت ہونی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آہستہ بولو یہ ہمارا گھر ہے ہماری عورتیں اس طرح نہیں چلاتی ہیں اور اگر بدزبانی یا گستاخی کریں تو زبان کاٹ دی جاتی ہے ان کی۔۔۔۔۔ شاہ ویز نے غرا کر کہا


آف۔۔۔۔ یہ لمحہ اسے اندر تک جلا گیا وہ جب بھی اپنی شرافت غیرت خاندان کا ذکر اتنے غرور اور گھمنڈ سے کرتا تھا ہانیہ شاہ کا دل چاہتا تھا کہیں سے بھرا ہوا پستول ہاتھ لگ جائے تو ساری گولیاں اس کے اکڑے ہوئے لمبے چوڑے مضبوط سینے میں اتار دے، اس کے بولنے کا انداز ایسا ہوتا تھا جیسے وہ اور اس کا خاندان،،،،،،، کوئی اعلیٰ چیز ہو اور ہانیہ کوئی معمولی 


یہ شخص جس کی تعریف کرتے گاؤں کے لوگوں اور حویلی کے ملازمین کا منہ نہیں تھکتا تھا


اس جیسا نیک شریف عزت کرنے والا کوئی دوسرا جوان گاؤں میں نہیں تھا حکم تھا مالک تھا جوان اور خوبصورت گاؤں کی ہزاروں خوبصورت لڑکیوں کا آئیڈیل جس کو چاہتا حاصل کر سکتا تھا مگر آج تک کسی پر میلی نظر نہ ڈالی تھی 


مگر یہ ساری تعریفیں یہ سارے توصیفی کلمات اس کی دفعہ میں ناجانے کہاں چلے جاتے تھے انتہائی کرخت لہجہ ہتک آمیز گفتگو اس کو اغوا کر کے لایا تھا اور حویلی میں قید کر رکھا تھا کسی کو اس سے ملنے کی اجازت نہ تھی سوائے انتہائی وفادار ملازموں کے ۔۔۔۔۔۔


اس کی ماں اور بابا یہاں نہیں تھے اور ان کی غیر موجودگی میں ناخدا بنا بیٹھا تھا


ان لوگوں کے آنے سے پہلے ہی وہ اس اکڑی شے کو سیدھا کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔


اب اس کے لیے سختی کرنا پڑتی یا کچھ اور ...، شاہ ویز شاہ نے کبھی نا نہیں سنی زندگی میں اب اور یہ لڑکی مسلسل اس کی ذات کی نفی کر رہی تھی، اور یہ شاہ ویز کی مردانہ آنا کے لیے کاری ضرب تھی۔۔۔۔۔۔


ہانیہ شاہ ویز عالم شاہ اس کے اندر کا جنونی انسان کو جگانے کی مسلسل کوشش کر رہی تھی اور اس بات سے وہ انجان تھی کہ اپنا کتنا بڑا نقصان کرنے والی ہے، اب بھی مسلسل اس پر چیخی اس کے سامنے کھڑی نہ ڈر انداز میں جواب دے رہی تھی


سنو مسٹر! مجھے تمہاری شرافت اور خاندانی وضع داری کی جوتی برابر پروا نہیں،،،، ہے ،،،،،، مالی فٹ،،،،،،، عزت شان و شوکت۔۔۔۔۔۔۔اور ہاں زبان تم ان جاہل بے بس اور گنوار عورتوں کی کاٹ سکتے ہو جو تمہاری رعایا ہیں ... میں نا تمہاری نوکر ہوں اور نا کنیز آئندہ مجھ سے اس لہجے میں بات نا کرنا وارنہ میں دھمکی الٹ بھی کر کے دیکھا سکتی ہوں۔


وہ بھلا ادھار رکھنے کی قائل تھی، دوبدو ایسا جواب زہریلا، جلانے والا اس کی مردانگی اور وقار کو چیلنج کرتا لہجہ وہ کچھ لمحوں کو تو حیرت اور غصے سے سالت رہ گیا۔۔۔۔


اس نے اپنے اوٹھے ہوئے ہاتھ کو بڑی مشکل سے روکا تھا۔۔۔۔۔


روخصتی سے پہلے وہ اس کی یہ زبان اپنے طریقے سے بند نہیں کروا سکتا تھا، جب تک وہ مکمل اس کی دسترس میں نہیں آجاتی وہ تھوڑا مجبور تھا

کہ ابھی اسے بابا نے اس لڑکی کی ذمے داری اس کے سپرد کی ہوئی تھی جب تک وہ اس پر مکمل ملکیت نہیں حاصل کرلتا زیادہ سختی اس پر کر نہیں سکتا تھا 


ہانیہ یہ سب کہہ کر باہر کی طرف جانے لگی تھی جب اس شاہ ویز نے ایک چھٹکے سے اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا، وہ اس اچانک حملے سے سنبھل نہیں پائی تھی اور شاہ ویز کے سینے سے اکر لگی ہانیہ کا سر چکرانے لگا ایسا لگا جیسے کیسی دیوار سے اس کا سر ٹکرایا ہو۔۔۔


سنا نہیں تم نے تم باہر نہیں جاؤ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ ویز نے اس کا بازو پر زور دیتے ہوئے جھنجھوڑا


ہانیہ کو لگا اس کا بازو کسی فولادی شکنجے میں جکڑا گیا ہے تکلیف کی لہر پورے بدن میں سنسناگئی تھی، پہلے سر کی تکلیف ،،، اب بازو ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا تھا


..... بیٹھو یہاں ..... اسے زوردار دھکے سے بیڈ پر گرا کر وہ غرایا تھا


جس پر وہ تیزی سے انھی تھی ۔۔۔۔


تم۔۔۔۔۔ ابھی وہ کچھ کہتی جب وہ غصے سے دھاڑا تھا 


" بس ایک لفظ نہیں بولنا ...... ورنہ میں برداشت کی حد بار کر جاؤں گا .... اور غور سے سن لو یہ حلیہ اور لباس مجھے تمہارا نظر نہ آئے،،، حویلی کے باہر اور مردان خانے میں قدم کھنے کی غلطی مت کرنا میں حکم عدولی اور گستاخی کرنے ..... والے کو معاف نہیں کرتا


انتہائی سفاک لہجہ میں وارننگ کرتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا، اگر تھوڑی دیر … .....۔ یہاں روکتا تو اپنا ضبط کھو بیٹھتا


اس کی جھلستی سنسوں کی تیش سے پل بھر کو خوف کی شدت سے دھڑکتے دل کو بھی نہ سنبھال سکی تھی جب تک وہ جا چکا تھا ۔۔۔۔


ہوش سنبھلے تو وہ گڑ بڑا کر بیڈ سے اتر آئی لیکن جب تک وہ جا چکا تھا 


،،،مائی فٹ ، جاہل ... پینڈو ،،،،،، جنگی ، لعنت ہو تم پر تمہارے خاندان پر ،،،،،، تمہاری شرافت پر میں گولی ما دوں گی ........ آگ لگا دوں گی اس حویلی کو اس قید خانے کو .......


وہ چلا چلا کر جو بھی چیز ہاتھ لگی، شیشے کے قیمتی واس، بھاری گلدان ، بیڈ شیٹ، کشن پھینکنے لگی۔ اور پھر تھک ہار کر بیڈ پر گر کر رونے لگی۔۔۔۔۔۔


راشیداں!! صبح ناشتے کی ٹیبل پر شاہ ویز نے بغور اطراف کی تنہائی اور ویرانی کو محسوس کرتے ناشتہ لگاتی راشیداں کو پکارا۔۔۔۔۔۔ راشیداں چالیس سالہ ان کے گھر کی بہت پرانی ملازمہ تھی کچن کی ساری زمیداری اسی کی تھی۔۔۔۔۔ جی چھوٹے سائیں 


،،،،، بانیہ بی بی نہیں آئیں اپنے کمرے سے باہر ؟ اس کا لہجہ نارمل تھا 


نا چاہتے ہوئے بھی اسے اس خود سر اور ضدی لڑکی کی فکر ہوتی تھی، اس کے معاملے میں دل بے بس تھا، اب بھی جانتے ہوئے بھی وہ ضدی لڑکی کمرے سے باہر نہیں آئے گی نا اس کی بات مانے گی پوچھ بیٹھا 


نہیں سائیں وہ تو کل سے ہی اپنے کمرے میں ہیں کھانا بھی نہیں کھایا ، میں نے بہت دروازہ بجایا۔


میں نے پوچھا تو مجھ ڈانٹ دیا کہتی ہیں دفع ہو جاؤ میں کسی کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی ہوں اور اس حویلی کو۔۔۔۔۔۔۔


وہ کچھ کہتے کہتے روک گئی، شاہ ویز غصے سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ پہلی بات پر جہاں اس کے دل کو کچھ ہوا تھاکہ کل سے بھوکی پیاسی ہے۔ 

دوسری بات سن کر پھر اس کا دماغ خراب ہونے لگا رشیداں کی آدھی بات اور اس کے آگے کی داستان وہ باخوبی جانتا تھا اور ملازموں کے سامنے اس طرح کی گفتگو کھلا تازیانہ تھی۔


میرے خدا اس بدزبان خود سر گستاخ لڑکی کا کیا کروں، نہ اپنی عزت کا خیال ہے نہ دوسروں کی یہ کیا مصیبت میرے سر ڈال دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے جھلاکر ٹھنڈے پانی کا گلاس ایک ہی سانس میں چڑاھالیا۔۔۔۔۔۔


اچھا جاو بی بی کو ناشتہ کا پوچھ کر آؤ میں جارہا ہوں شام تک ہی آؤں گا بی بی کو ... کسی بھی طرح کچھ کھلا دینا


رشیداں کو پیغام دیتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا اور باہر نکل گیا ، اس نے خاص طور پر اپنے جانے کا بتایا تھا، وہ جانتا تھا کہ ایسے وہ کبھی بھی کسی کی بات نہیں مانے گی اس کے حویلی میں موجود ہونے پر ضد کرنے گی 


بی بی جی .... بی بی جی ... کافی دیر دستک کے بعد بھی جواب نہیں


آیا تو اس نے زور سے پکارا ۔۔۔۔۔


بی بی ... میری سوہنی بی بی ..... میری دھی رانی ... آپ بھوکی ہو کل سے کچھ نہیں کھایا


خدا کے واسطے باہر آؤ شاہ ویز سرکار تو چلے گئے ہیں شام کو ہی واپس آئیں گے


اس نے بطور خاص شاہ ویز کے جانے کی اطلاع بند دروازے کے پار پہچائی


یہ حربہ کار آمد ثابت ہو ..... اب ہانیہ کی حالت دیکھ کر چند لمحوں کو خود بھی کبھرا گئی 


رو رو کر سوجی آنکھیں، بکھرے بال، شکن آلود میلا سا وہ دو دن پرانہ ڈیرس نڈھالا تھکی ہوئی افسردہ پنجرے میں بند پنچھی کی طرح بے بس تھی۔۔۔۔۔۔۔ ان کے بڑے شاہ سائیں احسان شاہ کی اکلوتی بیٹی تھی اس خاندان کی بہو اور بیٹی بھی اگر اسے کچھ ہو جاتا تو بڑے شاہ سائیں تو جی نہیں پائیں گے ۔۔۔۔۔۔ راشیداں فکرمند سی کرنہ آگے بڑی۔


بی بی جی میری سونی دھی رانی کیوں اپنی پھول جیسی صورت پر ظلم کرتی ہو کچھ کھالو۔۔۔۔۔۔۔ بری شفقت اور بیمار سے بولی تھی ۔۔ کیوں کہ ہانیہ کی ہی عمر کی اس کی بھی بیٹی تھی 

اس وقت راشیداں کی ہمدردی اور پیار بھرے انداز نے اس کی آنکھیں بھگودی مما سے بھی اتنے دن دور تھی جو سامنے تھا اس کا لہجہ پتھر جیسا اگ اگلتا ہوتا تھا اس سے بات کرتے وقت -


وہ ان لوگوں کے رحموں کرم پر تھی بھوک اب برداشت سے باہر ہو رہی تھی آج تین دن ہو گئے تھے نا ٹھیک سے کھایا تھا نا سکون کی نیند لی تھی۔۔۔۔۔۔۔ تین دن ہی پرانے کپڑوں کی وجہ سے اب اسے خود سے ہی اسمیل آنے لگی تھی۔ جو اس کی نفاست پسندی پر یہ گراں گزر رہا تھا۔


اب ہانیہ خاموشی سے اس کا لایا جوس پینے لگی پھر ناشتہ کیا تو کجھ جان میں جاں آئی اور دماغ بھی کام کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔


سنو راشیداں یہاں حویلی میں فون نہیں ہے کیا .... میرا مطلب ہے اگر کسی کو فون کیا جائے تو کیسے کرئے کوئی ۔


جی بی بی آپ کے آنے سے پہلے حویلی میں فون تھا مگر اب سارے فون کاٹوا دیے ہیں شاہ سائیں نے جی ... اب تو بس شاہ سائیں کے پاس ہی موبال ہے جو وہ اپنے پاس رکھتے ہیں۔۔۔۔۔


اس کی بات سن کر وہ مایوس ہوگئی ایک امید تھی وہ بھی ختم ہانیہ اچھی طرح جانتی تھی اس ظالم انسان نے جان بوجھ کر ہر ذریعہ ختم کردیا ہے جس کی وجہ سے اس کا باہر کی دنیا سے کوئی تعلق ہو۔۔۔۔۔۔


اچھا تم جاؤ .... اور شاہ ویز کا کوئی ڈریس مجھے دے جاؤ جو مجھے ٹھیک آئے، اس نے راشیداں کو چلتا کیا تا کے اب شاہ ویز کا موبائل حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ ڈھونڈ سکے ۔۔۔۔۔۔


راشیداں اس کے اچانک موڈ بدل جانے پر حیران سی برتن سمیٹ کر کمرے سے نکل گئی اس نے ناشتہ کرلیا تھا یہی بہت تھا شاہ سائیں کا حکم تھا جو اسے پورا کرنا تھا ، اور اب کپڑے دینے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک بار مما سے بات ہو جائے وہ خود اسے اس قید خانے اور ان ظالموں سے چھوڑوا کر لے جائے گی۔۔

جس کے لیے اسے شاہ ویز شاہ کا موبائل حاصل کرنا تھا کسی بھی طرح جانتی تھی خود سے وہ اسے موبائل دے گا نہیں اور کسی ملازم سے مدد کی امید تھی نہیں کہ یہ بہت وفادار اور جدی پشتی ملازم ہیں کبھی بھی اپنے مالک کے خلاف نہیں جانیں گے 

مام ماں گے


یہ بات اسے راشیداں نے بتائیں تھی کہ وہ لوگ سالوں سے شاہوں کے وفادار ملازم ہیں، اور اتنے دنوں میں ہانیہ بھی سمجھ کئی تھی کہ یہ سب جان دے دیں گے،،، غداری نہیں کریں گے شاہ خاندان کے ساتھ


اب صرف دو راستے تھے اس سے پاس ایک مما سے بات کرنا یا کسی بھی ملازمہ کو اعتماد میں لے کر پیار محبت سے کام نکل وانا اس نے دل میں سوچا ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔۔۔۔



اسلام علیکم بی جان کیسی ہیں آپ


وہ آپنے سارے کام نبٹانے کے بعد ابھی گھر جانے کا سوچ رہا تھا،،،،، جب اس کی ماں کی کال اگئی جو کچھ دن کے لئے دارامان گئی ہوئی تھی، جس کی بنیاد تیس سال پہلے عالم شاہ نے غریب اور بے سہارا معاشرے کی ستائی ہوئی لڑکیوں اور بچیوں کے لیے رکھی تھی بعد شاہ ویر شاہ نے اس میں اپنا ذاتی ہوسپٹل کالج سکول اور رہائش کے لئے بلڈنگ بنوائیں تھی۔ یہاں لڑکیوں بچیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ بنے کی امید بھی دلائی جاتی تھی۔ کتنی ہی ونی ہوئی بچیاں اس دارلامان سے ڈاکٹر وکیل بن رہی تھیں ..... جو خود پر ہوئے ظلم کی وجہ سے زندگی کی امید چھوڑ چکی تھی۔


اس کے دادا عظیم شاہ نے وانی کی رسم کو اپنے سردار بنتے ہی اپنے گاؤں سے ختم کردیا تھا


اور یہ ہی قانون عالم شاہ کی سرداری میں قائم رہا …


مگر شاه ویز شاه نے سردار کی گدی نشین ہونے کے بعد اس پاس کے تمام گاؤں سے ونی رسم کا خاتمہ کیا اور ایسا کرنے والوں لئے سخت سے سخت سزا مقرر کردی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر افسوس اب بھی چند گاؤں ایسے تھے جہاں جہالت کی حد تھی اور ان ہی بچوں کو یہاں لا کر نئی زندگی کی طرف لایا جاتا تھا ... اور کچھ کو وہ بیرون ملک اعلی تعلیم کے لئے بھی بھجوایا جاتا تھا اور سارے اخراجات شاہ ویز کی ہی زمیداری تھی۔۔۔۔۔


اپنے گاؤں میں ہی اس نے گلز کالج بنائے تھے اس کا قانون تھا کہ لڑکی کی شادی گریجویشن سے پہلے کوئی نہیں کر سکتا اور جو اچانک اپنے والدین کے سایے سے محروم ہو جاتی ان کی ساری زمیداری شاہ ویز اور اس کی ماں کی ہوتی تھی ۔۔۔۔


شاہ ویز شاہ کی ماں آسیہ شاہ ایک رحم دل اور دین دار خاتون تھی ان کا زیادہ تر وقت عبادت میں ہی گزارتا تھا ہر چھے ماہ بعد وہ دارالامان جا کر رہیے تھی وہاں کی تمام لڑکیوں کے مسائل سنا انہیں دین کی تعلیم دینا ان کے دکھ سکھ سننا ان کی زندگی کا ایک حصہ بن گیا تھا ۔۔۔۔۔۔


اور وہاں کی لڑکیاں بھی اب ان کے آنے کا بے صبری سے انتظار کرتی تھی انہیں واپس گاؤں بھی نہیں آنے دیتی تھی مگر یہاں بھی بہت سے کام ان کے و ذمے تھے گاؤں کی عورتوں کے مسائل حل کرنا ان کے دکھ سکھ سنا ۔۔۔۔۔

اب تو رمضان بھی آنے والا تھا جس کی وجہ سے وہ جلد واپس آنے والی تھی ۔


حویلی میں ہزاروں لوگوں کو روزہ افطار کروایا جاتا تھا ان دنوں حویلی کی رونک ہی الگ ہوتی تھی۔۔۔


لیکن اس وقت شاہ ویز شاہ ان کے کال کرنے کی وجہ نہیں سمجھ سکا تھا جب کے صبح اس کی ان سے بات ہو چکی تھی اور بی جان بھی دن میں ایک ہی وقت بات کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔


وعليكم السلام


یہ ہم کیا سن رہے ہیں شاہ ویز شاہ تم کیسے کسی لڑکی کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرسکتے ہو لڑکی بھی وہ جو تمہاری منکوحہ ہے۔

کیا ساری تہذیب اور تربیت بھول چکے ہو ۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف آسیہ شاہ کی فصلی اور سرد آواز سنانی دی ۔۔۔۔۔۔ شاہ ویز شاہ حیران سا موبائل کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔ کہ انہیں یہ سب کیسے پتا چلا ۔۔۔۔۔۔


وہ جانتا تھا اب جب کے بی جان...، جان چلی ہیں اس کے ہانیہ کے ساتھ … رویے کو تو وہ بہت سخت ناراض ہوں گی اس سے اور وہ اپنی ماں کو ناراض دیکھا کر بے سکون ہو گیا تھا کھ گھبرایا سا فورا بولا۔۔۔۔۔۔


بی جان وہ؟ ابھی وہ اپنی صفائی میں کچھ کہتا جب ہی دوسری طرف اس کی بات کاٹ کر وہ بولیں

خاموش ہو جاؤ شاہ ویز شاہ ۔۔۔۔۔ ہمیں کچھ نہیں سننا کیا عورت کی عزت کرنا نہیں سکھایا ہم نے تمہیں ..... تم نے اس ہمارا سر شرم سے جھکا دیا ہے ہم احسان شاہ کو کیا جواب دیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے حد فکر مند تھی ۔۔۔۔۔۔ ان کے لہجے میں دکھ محسوس کر کے شاہ ویز شاہ تڑپ اٹھا مگر خاموش تھا ۔۔۔۔۔۔


جلد ہی ہم آرہے ہیں گھر پھر دیکھیں گے تمہیں......


اور اس دوران اگر ہم نے ہانیہ کے ساتھ تمہارا رویہ سن لیا تو تم بھول جانا کہ تمہاری کوئی ماں تھی ۔۔۔۔۔۔


آسیہ شاہ نے دوسری طرف اسے کچھ بھی بولنے کا موقع دیے بغیر کال کاٹ دی۔۔


بی جان سوری بی جان میری بات تو سننے شاہ ویز تو تڑپ ہی اٹھا تھا ماں کو ناراض دیکھ کر اب کہاں سکون کا سانس نصیب ہونا تھا۔۔۔

وہ سر پکڑ کر بیٹھا تھا اسی وقت ہی اس کا دوست اسد آ گیا جو اس کے ماموں کا بیٹا بھی تھا۔۔۔


ان کی پوری فیملی شہر میں رہتی تھی کبھی کبھی اپنے گاؤں والے گھر آتے تھے … کچھ دن سے وہ یہاں آیا ہوا تھا اس لیے شاہ ویز کے ساتھ کچھ وقت گزارتا تھا ابھی دونوں نے کالج تک ایک ساتھ ہی تعلیم حاصل کی تھی ۔۔۔۔۔۔ پھر شاہ ویز یو کے چلا گیا پڑھنے اور اسد پولیس کی فیلڈ میں آگیا اب دونوں دوبارا سے ملنے لگے تھے جب اسد اس کے پاس آکر کھڑا ہوا تو شاہ ویز سر ہاتھوں میں پکڑے بیٹھا تھا


کیا ہوا ہے جگر ایسے کیوں بیٹھا ہے ...... اس نے کندھے پر ہاتھ رکھا تو شاہ ویز نے چونک کر سر اٹھایا اسے اپنی سوچوں میں پتا ہی نہیں چلا کب اسد اندر آیا اور اس کے قریب آکر بیٹھا۔۔۔۔۔ 


کچھ نہیں یار ٹھیک ہوں میں۔۔۔۔ اس نے منہ پر ہاتھ پھیر کر خود کو ریلکس کر کے بات بدلنی چاہی ------ 


نہیں تیرا چہرہ بتا رہا ہے کوئی بات ہے کیوں اتنا اداس ہے تو مجھے نہیں بتائے گا 


یار میں اس لڑکی کی وجہ سے پریشان ہوں ....... اسد بانیہ کے بارے میں جانتا تھا۔۔۔۔ بلکے اسد نے خود بھی اس کی مدد کی تھی ہانیہ کی کڈنیپنگ میں کورٹ کے باہر کی تمام سیکیورٹی کو اسد نے ہی ہینڈل کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے شاہ ویز کو کسی روکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا ۔۔۔۔۔۔


اوہو...... یعنی شاہ ویز شاہ بھی کسی لڑکی کی وجہ سے پریشان ہیں۔۔۔۔۔ " اور یہ پریشانی کس نوعیت کی ہے اور کہاں تک پہنچی۔۔۔ اس کے معنی خیزی انداز میں شاہ ویز نے اسے بری طرح گھورا۔۔۔۔۔۔


شٹ آپ ! میں بی جان کی وجہ سے پریشان ہوں۔۔۔۔۔ وہ مجھ سے ناراض ہوگئی ہیں اس لڑکی کی وجہ سے اور یہ لڑکی اس کے سدھرنے کے امکانات نظر نہیں آتے بابا الگ مجھ سے شدید ناراض ہیں۔ سب مجھے ہی غلط سمجھ رہے ہیں۔


یار تم بھی تو ہٹلر بنے ہوئے ہو اس بے چاری پر۔۔۔۔۔۔.... ہلاکو خان والے ظلم ڈھانے لگے ہو۔ ۔۔۔۔۔۔وہ کچھ نہیں جانتی ہر بات سے انجان ہے شمائلہ آنٹی نے اس کے دل میں غلطی فہمیاں پیدا کی ہوئی ہیں تم بھابھی کو محبت سے ڈیل کرنے کی کوشش کرو سختی سے چیز ٹوٹ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔


وہ پیار محبت کی زبان کی سمجھنے والی چیز نہیں اگر ایسا ہوتا تو اپنے سکے باپ کو ان کی محبت کو یوں بے دردی سے نا ٹھکراتی کیا انہیں ان کی پرسوں کے انتظار کا یہ صلہ دیا ۔۔۔۔۔


پھر بھی یار اگر اس سب کی خبر چچا جان کو ہوگئی تو جانتے ہو انہیں کتنا دکھ ہوگا۔۔۔۔۔ تم ان کی بیٹی کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو۔۔۔