وحشت جنون
قسط 1
آپ بے شک میرے باپ ہیں، مگر مجھے آپ سے کوئی محبت نہیں، میں آپ کے پاس نہیں رہنا چاہتی، میں مما کے پاس رہی ہوں ان کے ساتھ ہی رہوں گی۔
سرد اجنبی کھٹور لہجہ احسان شاہ کو لحموں میں ریزہ ریزہ کر گیا عمر بھر کی تڑپ اس سے ملنے سینے سے لگانے کی آرزو سب تہہ بالا ہو گیا تھا اس کے حصول میں دن رات ایک کیے ہوئے تھے اور وہ بیس سال انگلینڈ میں گزار کر اسی معاشرے کا ایک حصہ بن گئی تھی
شاویز شاہ غصے سے مٹھیاں بھینچے ضبط کیے سامنے بیٹی اپنی ماڈرن کزن پلس منکوحہ کو دیکھ رہا تھا ہو جینس شرٹ میں اونچی، بیل ہاتھ میں بینڈس ناک میں بالی پہنے مکمل مغربی ماحول میں ڈالی کوئی انگریز ہی لگ رہی تھی
ان کے گھر کی عورتیں گھر میں بھی سر پر دوپٹہ لینے کی عادی تھی باہر چادر لئے کر نکلتی تھی ، اور اس طرح خود کی نمائش کرتی لڑکیوں سے اسے نفرت تھی
شاہ ویز شاہ اسے اس حلیے میں دیکھ اور اپنے بابا سے یوں بد زبانی کرتے دیکھ کر اب اس کی برداشت جواب دینے لگی تھی، مگر وہ بے بس تھا اس وقت اپنے بابا کے سامنے کچھ کر نہیں سکتا تھا سوائے اسے گھورنے کے، جس سے سامنے بیٹی مغرور لڑکی کو کوئی فرق نہیں پڑھ رہا تھا
وہ سب کو مکمل نظر انداز کئے اپنے باپ سے دونوک بات کر کے نکل گئی
شاہ ویز عالم شاہ جس کا غصہ پورے گاؤں میں مشہور تھا جس کو آج تک کسی نے جواب دینے کی جرت نہ کی تھی وہ ایک چھوٹی سی لڑکی کے سامنے چپ کھڑا اس کو اپنے بابا سے بدتمیزی سے بات کرتے جاتے دیکھ رہا تھا
مگر اب اس لڑکی کی ہڈ ڈھرمی دیکھتے شاہ ویز کا دماغ تیزی سے کام کرنے لگا وہ کوئی پلین سوچ رہا تھا جس پر اب عمل کرنا ضروری ہو گیا تھا
اپنی بات کہہ کر وہ ٹک ٹک کرتی جیسے آئی تھی ویسے ہی سب کو نظر انداز کیے چلی گئی، اور احسان شاہ آنکھوں میں امید لئے اسے جاتا دیکھتے رہے، آج بھی وہ ان کی محبت خواہش کو ٹھکرا کر چلی گئی تھی یہ تو کتنے ہی دنوں سے ہو رہا تھا
مگر احسان شاہ نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، وہ سمجھتے تھے شمائلہ نے ان کی بیٹی کے دل میں اس کے باپ کے لیے نفرت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے نہ جانے ان کو کتنے برے اور بھیانک کردار میں پیش کیا گیا ہوگا یہ میرے پاس رہے کی تو یقینا میری محبت سے اس کی ہر غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی
یہی سوچ کر انہوں نے بار بار اس سے ملاقات کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی ایک ہی رٹ تھی کہ نہیں جانا نہیں جانا
اور اس کی یہ ضد شاہ ویز کو طیش دلا گئی اسے اپنے چچا پر بے حد ترس آیا۔
بے چارے بیٹی سے بھیکاریوں کی طرح اس کی محبت اور توجہ مانگ رہے تھے اور وہ بدتمیزی کی انتہا کیے ہوئے تھی۔
احسان شاہ وزیر اعلیٰ پنجاب جن سے ایک ملاقات کے لیے بڑے بڑے لوگوں کو کہیں کہیں دن انتظار کرنا پرتا تھا وہ اپنی اکلوتی بیٹی کے سامنے بے بس تھے یہاں وہ اپنا نام پیسا رتبہ مقام سب کچھ بھولے بیٹھے تھے کہ اولاد سے بڑی دنیا میں کوئی چیز نہیں وہ تو اپنا سب کچھ لوٹانے کو تیار تھے بیٹی کے حصول کے لیے
سارا انتظام ہو گیا ہے۔ "آج کسی بھی قیمت پر یہ کام ہونا چاہیے" ... شاندار
سے ڈراینگ روم میں صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹے شخص نے کان سے لگے موبائل پر اپنی سرد غصیلی آواز میں دوسری طرف بندے سے پوچھا۔۔
"اگر کسی قسم کی کوئی بھی غلطی ہوئی تو ایک ایک کو کڑی سزا ملے گی سمجھ گئے" ۔۔۔۔۔۔ اب کون غلطی کر کے اس جلاد کو جگاتا جو سزا بھی ایسی دیتا ہے کہ مہینوں انسان نا بھولے ۔۔۔۔۔
اسپورٹ کار تیزی سے کورٹ کی طرف بڑھ رہی تھی ، اس کی اسپیڈ اتنی تیز تھی کہ کوئی بھی حادثہ ہو سکتا تھا مگر اندر بیٹھے انسان کو اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی یا وہ ان سب کی عادی تھی، آنکھوں پر گلاسز لگائے فل ولیم میں چلتا میوزک انجوائے کر رہی تھی اس اسپورٹ کار کے تعاقب میں کب سے ایک بلیک کار تھی۔ اس بات سے اندر بیٹی شخصت انجان تھی۔
ایک چھٹکے سے بریک لگنے پر ٹائر کی آواز دور تک گونجھی اسے آج کورٹ سے کافی دور گاڑی پارک کرنا پڑی تھی۔
لیکن اس بات سے اسے کوئی فرق نہیں پڑا تھا کہ اتنے دن میں آج ہی کیوں اسے پارکنگ کی جگہ نہیں ملی پارکنگ کی جگہ پہ چار پانچ گاڑیاں اس طرح کھڑی کی گئیں تھی کہ دوسری کوئی گاڑی نہیں آسکتی تھی۔۔ یہ سب پارکنگ رول کے خلاف تھا، مگر لڑکی نے اس پر توجہ نہیں دی ایسے لگا یہ سب بھی پاکستان میں عام سی بات ہے بس یہ ہی اس کی بھول تھی۔
کتنے ہی لوگ اس طرف متوجہ ہوئے جب وہ اپنے غیر معمولی حسن کے ساتھ کار سے باہر نکلی ... لاکھوں کی ڈیسنگ سٹیلش بیلٹ میں لگے ڈائمنڈ ، برینڈیڈ بلیک جنس پر وائٹ شرٹ پینٹ کے اندر کے اونچی ہیل کا جوتا پہنے، گولڈن سنہری سونے کے تار جیسے سٹیپ میں کٹے کندھے سے تھوڑے نیچے تک جاتے بال جن ہیں سامنے سے پنس سے روکا گیا تھا، وہ ٹک ٹک کرتی آگے بڑی
وہ سب کو نظر انداز کرتی اعتماد کے ساتھ مغرور چال چلتی خود کی طرف دیکھتے لوگوں کو نظر انداز کرتی آگے بڑی ... اس پاس کے لوگ مہوت ہو کر اتنا مکمل حسن دیکھ رہے تھے۔
سب کی نظریں اس کے لیے معمول کی بات تھی، وہ بچپن سے ہی لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی تھی... اور خود بھی اپنی بے پناہ خوبصورتی سے واقف تھی۔۔
مگر یہ سب آج کسی کو انگاروں پر جلا رہا تھا دو غصے بھری خونخوار آنکھوں نے اسے اس حلیے میں گاڑی سے نکلتے دیکھا تھا۔ اور لوگوں کی غلیظ ہوس بھری نظروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اس کا بس چلتا تو اس پوری علاقے کو آگ لگا دیتا مرا مگر ابھی اسے کچھ اور کرنا تھا۔۔۔۔
ہانیہ پارکنگ سے دس قدم چلی ہی ہوگی، جب اچانک پندرہ بیس وکیل عورتیں کالے کوٹ پہنے اس کے قریب آئیں اور اس کے ارد گرد کھڑے ہو کر جانے کا راستہ روکنے کے ساتھ ہی اسے ہلنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا ، ایسا لگ رہا تھا انہیں جانے کی جگہ نہیں مل رہی ایک ساتھ آنے کی وجہ سے مگر حقیقت تو کچھ اور تھی۔۔۔۔۔
وٹ دے ہیل از دس ،،،، اور کوئی جگہ نہیں ملی۔۔۔۔"
اسٹوپڈ گرلز. واٹ نانسینس
ہ چھچھولائی .... اتنے لوگوں کو خود کے قریب دیکھ کر ان کا اسے دھکے دینا اسے ایریٹیٹ کر رہا تھا، اسی وقت اس ہجوم میں ایک پراسرار سا شخص بلیک پینٹ شرٹ اور بلیک ہی ہڈی میں بلیک ماسک لگائے شامل ہوا،،، اور ایک ہی سیکنڈ میں اس کے منہ پر رومال کھ کر اپنی طرف کھنچ کر پاس کھڑی گاڑی میں اسے لے کر غائب ہوا
ہوں،،،،،، ہوں،،،،،،؟ اس نے خود کو اس فولادی گرفت سے چھوڑنے کی ! کوشش کی، مگر منہ پر رکھے رومال نے اسے چند سیکنڈ میں بے ہوش کر دیا گاڑی میں بیٹھے ماسک پہنے اس شخص نے اپنا ماسک اتارا اور گاڑی فل اسپیڈ سے اس جگہ سے نکال کر اب ہوا سے باتیں کرنے لگی... اس کا رخ اپنے گاؤں کی طرف تھا یہ سب اتنی تیزی سے ہوا کہ باہر لگے کیمروں میں بھی کچھ نظر نہ آیا اتنی بھیڑ میں کچھ لمحوں کے لیے آنا کسی کی بھی نظر میں نا آسکا۔۔
ہانیہ آرام کے سے سیٹ پر بے ہوش پری تھی
شام تک حویلی پہنچنے کے بعد وہ اب آرام سے بیٹھا اپنے چچا کو اپنے کارنامے کی اطلاع دے رہا تھا،
جانتا تھا یہ بات انہیں غصہ دلائے گی مگر پھر بھی وہ تو تھا ہی شاہ ویز عالم شاہ ضدی خود سر اپنی مرضی کرنے والا سامنے والے کو وہ بے بس کر کے اس سے سکون حاصل کرنے والا جس پر اسے ضد ہو جائے
دوسری طرف احسان شاہ پی اٹھا
واٹ،،،،،، کیا۔ کہہ رہے ہو ہوش میں تو ہو شاہو ،،،، وہ اسے پیار سے " شاہو بولتے تھے۔۔۔
اگلی پیشی پر اس نے چاچا کو (جنہیں وہ بابا کہا تھا کہ بچپن میں باپ کے انتقال کے بعد وہی اس کے لیے باپ تھے) اپنے پلین کے مطابق کورٹ جانے نہیں دیا، احسان شاہ کی ایک ضروری میٹنگ بھی تھی ملاقات تو بہرحال کرنا ضروری تھی ، سو انہوں نے کچھ سوچ کر شاہ ویز جو ان کا لاڈالا بھتجا کم بیٹا زیادہ تھا، جس پر وہ بے حد اعتبار کرتے تھے اسے بھیج دیا،،، اس وقت تک انہیں یہ بلکل اندازہ نہیں تھا وہ کوئی خطرناک منصوبہ بنائے ہوئے ہے ، پتا تو اس وقت چلا، جب شاہ ویز شاہ نے حویلی سے اطلاع دی کہ وہ اور ہانیہ گاؤں پہنچ چکے ہیں. احسان شاہ اتنی بڑی بات سن کر دنگ رہ گئے ہانیہ کو کڈنیپ کر کے لے آیا تھا شاہ ویز شاہ کی جرات پر وہ حیرت زدہ اور پریشان وہ کچھ دیر تو بول ہی نہ سکے تھے ... وہ تو آج تک اسے بچہ ہی سمجھتے رہے جسے انہوں نے ہاتھوں میں پالا وہ ان سے دس قدم آگے نکلا
بیٹی کے دور ہونے کے بعد ایک شاہ ویز کا ہی وجود تھا جس نے ایک باپ کی تڑپتی ہوئی محبت کو تھوڑا سکون دیا تھا، اور وہ زندہ بھی اس ہی وجہ سے تھے وارن بھائی کی اچانک موت پھر بیٹی کا غائب ہو جانا (جو ان کی بیوی شمائلہ نے کیا تھا، صرف اپنی ہار کا بدلہ لینے کے لیے کیا تھا) کیے بعد ماں باپ کا دنیا سے جانا، اتنے صدموں کو جھیلنے کے بعد وہ پوری طرح ٹوٹ چکے تھے ،،، مگر شاہ ویز کی وجہ سے انہیں خود کو سنبھالنا پڑا
ان کے خاندان کا اکلوتا وارث ان کے پیارے بھائی کی آخری نشانی ،،، شاہ ویز خود بھی ہانیہ کے جانے کے بعد خاموش اور ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہوگیا تھا،.. اپنی معمولی سی چیز کے لیے جزباتی اور جنونی ہو جاتا اگر اس کے مزاج کے خلاف کوئی کچھ غلطی سے بھی کر دیتا تو پھر اس کو معاف نہیں کرتا تھا احسان شاہ اور آسیہ شاہ (شاہ ویر کی ماں) بھی پریشان تھی بڑے ہونے کے ساتھ اس کے جنون اور غصے میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا بچپن کی محرومیوں نے اس کے اندر یہ احساس پیدا کر دیے تھے وہ جنونی ہو گیا تھا جس بچے کو سب کی محبت ملی ہو جو ان سب کا آدی بھی ہو اور ایک ساتھ سب کا چھوڑ جانا چچا کا راتوں کو جاگنا چاچی کا دھوکا اس سب نے اس کے دل میں عورت پر سے بھی اعتبار اٹھا دیا تھا
لیکن اس سب کے بعد بھی ہانیہ کے لیے اس کی محبت میں کمی نہیں آئی تھی شاہ ویز کے لیے وہ معصوم سی اس کی ڈول تھی، اس کی نظر میں جو بھی کیا، شمالہ بیگم نے کیا تھا
مگر اب اس کی سوچ بدل گئی تھی جب سے اس نے ہانیہ کو دیکھا تھا... کتنا خوش تھا وہ سوچا تھا اپنی بچپن کی اس کی یاد میں ایک ایک ترپ اور کب کب اس نے اسے یاد کیا بتائے گا۔ مگر جب وہ سامنے آئی اور اسے دیکھ کر بھی نظر انداز کر دیا اور وہ پاگل اپنی اتنے سالوں کی آنکھوں کی پیس بھوجاتا ربا دوسری ملاقات میں اس کی آنکھوں میں حقارت اور نفرت دیکھ اس کا دل کرچے کرچے ہوا اپنی محبت کی آنکھوں میں نفرت دیکھنا آسان نہیں جس کا برسوں انتظار کیا جائے اور وہ آپ کو اپنے قابل ہی نہیں سمجھتا ہو، پورے دن شاہ ویز اپنا وہم سمجھ کر چھوٹلاتا رہا۔۔۔
مگر پھر اسی دن رات کو ہانیہ کی کال آئی جس میں اس نے شدید نفرت میں بھیجے تیر ایک کے بعد ایک شاہ ویز شاہ کے دل میں اتار دئے ، بھر اس پر بھی بس نہیں ہوئی ... " اس نے کہا کہ وہ اسے طلاق دے دے "وہ اپنے ماموں کے بیٹے سے محبت کرتی ہے اسی سے شادی کرے گی ...... شاہ ویز کی برداشت کی اتنی ہی حد تھی اس نے زور سے موبائل دیوار پر مارا وحشت زدہ سا لہو رنگ آنکھیں اور چہرا لیے کمرے کے بیچوبیچ کھڑا تھا
اسے کمرے کی ہر چیز خود پر بنستی ہوئی نظر آرہی تھی، پورا کمرا تہس نہس کرنے کے بعد بھی اس کے اندر جلتی ہوئی آگ کو کوئی فرق نہیں پڑھا، تو ہاتھ روم میں گھس گیا، شدید سردی میں شاور کے نیچے کھڑا ہوگیا، ٹھنڈا پانی جسے ہی سر پر پڑا تو اسے کچھ ہوش آیا وارنہ تو لگ رہا تھا اس کی دماغ کی کوئی نس بھٹ جانے گی .... محبت کی پٹی آنکھوں سے اتری تو ایک ایک کر کے اس کی باتیں یاد آنے لگیں کیسے وہ اپنے باپ کے ساتھ رویہ اختیار کیے ہوئے تھی اور شاہ ویز کے لیے نفرت حقارت اور آج کی باتیں وہ پاگل ہونے لگا اس کے اندر کا جنونی شاہ ویز جاگنے لگا ۔۔۔۔۔۔
بہت بڑی غلطی کردی تم نے ہانیہ بیگم تم نے میری بیوی ہوکر ، میرے نکاح میں ہوکر کسی دوسرے کے بارے میں سوچنے کی تمہاری ہمت کیسے ہوئی، میں شاہ ویر عالم شاہ جو اپنی معمولی سی چیز میں بھی شرکت برداشت نہیں کر سکتا تم نے کیسے اپنی سوچوں میں کسی دوسرے کو آنے کی اجازت دے دی۔ اب تمہیں بتانا ضروری ہے کہ تم کس کی امانت ہو اور تم پر تم سے زیادہ حق کس کا ہے وہ بنا شرٹ صرف ٹروزار میں شاور کے نیچے کھڑا دونوں ہاتھ سامنے دیوار پر ٹکائے جن کی ایک ایک نس ابھری ہوئی تھی ، لمبا چوڑا وجود ٹھنڈے یخ پانی سے خود کو اذیت دیتا.. لال انگار آنکھوں میں ہانیہ شاہ کا عکس سمائے اس سے مخاطب تھا ل۔
خود سے ایسی وقت عحد کیا تھا اس نے ہانیہ شاہ ویر عالم شاہ کو سبق سکھانا ہے
اور اسی ٹائم اس نے ہانیہ کی تین دن بعد کڈنیپنگ کا پلین بنایا، اور آج وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہا اس سب میں جو اس نے چاہا کر گزرا بنا کسی نقصان کا سوچے،،،،،،، دوسری طرف احسان شاہ کی آواز پر وہ اپنی سوچوں سے باہر ایا۔۔۔۔۔۔ "میں کیا کہہ رہا ہوں شاہو" شاہ دوسری طرف اس کے خاموش ہو جانے پر وہ جھنجھلائے تھے تب ہی تیز آواز میں اسے پکارا
ان کے غصہ کرنے پر وہ بڑے آرام سے بولا ۔۔۔۔۔
بابا یہ کام یونہی ممکن تھا، آپ ساری عمر بھی اس لڑکی کو سمجھاتے رہیں گے تو وہ نہیں سمجھے گی شمالہ آنٹی کا چالوں کو ان پر ہی الٹ نے کے لیے ضروری تھا کہ وہ ہمارے پاس رہے میں اسے لے آیا ہوں زبردستی آپ کی اجازت کے بغیر کیونکہ مجھے پتا تھا آپ کبھی اجازت نہیں دیں گے ، مگر آپ مجھ پر اعتبار کریں میں ان سب سے نپٹنا اچھی طرح جانتا ہوں، " اور بابا شاید آپ بھول رہے ہیں میرا اس کے ساتھ کیا رشتہ ہے، آج نہیں تو کل اسے میرے پاس ہی آنا تھا تو یوں ہی سی اب کی بار اس کے لہجے میں بھی تھوڑی ناراضگی تھی کہ آخر بات اس کے مزاج کے خلاف ہو رہی تھی وہ تو تھا ہی خود میں مسٹر پرفیکٹ
اوہو شاہ ویز یہ تم نے کیا کر دیا یہ سب ایسے نہیں ہونا تھا ، ہانیہ تمہاری منکوحہ ہے اسے تم سے کوئی دور نہیں کر سکتا تھا تو یہ جلد بازی کیوں کی تم نے "، میرے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی کردی،،، شمائلہ تو زمین آسمان ایک کردے گی میرے خلاف۔ اور زیادہ مسائل کھڑے کرے گی اور یہ ... یہ سب بالکل اچھا نہیں کیا تم نے ... وہ خفگی سے کوئی سخت " بات بول بھی نا سکے ،،، کہ دوسری طرف جان سے عزیز بھتیجے کا ناراض ہونا جو محسوس کر چکے تھے۔
سوری بابا میں آپ کو دکھی اور پریشان نہیں دیکھ سکتا تھا... وہ کون سا کم تھا اپنے بابا پر جان دینا تھا ان کا بے بس ہونا محسوس کر کے وہ بھی تھوڑا نرم پڑا مگر خود کو غلط اب بھی نہیں مانا تھا
ہاں اب تو تم نے مجھے بہت آرام پہنچایا ہے، میں جس پوسٹ پر ہوں تم سوچ بھی نہیں سکتے ہو میرے لیے کتنا بڑا عزاب بن جائے گا تم ... تم ایسا کرو اسے فورا واپس چھوڑ کر آؤ ابھی بھی زیادہ وقت،،،،،؟
وہ ان کی بات بیچ میں کاٹ کر بولا۔۔۔۔۔۔
وقت گزر گیا بابا آپ واپسی کی بات چھوڑ دیں، آپ پر بات نہیں آئے گی آپ بالکل پریشان نہ ہوں بس خاموشی سے آپ اپنے کام کرتے جائیں یہاں میں سب سنبھال لوں گا... ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوگی ہانیہ شاہ ویز شاہ۔۔۔ کی
آخری میں اس کا انداز کچھ جتاتا سا ہوا تھا، بار بار ہانیہ کو چھوڑنے کی بات اسے طیش دلا رہی تھی، کوئی دوسرا اگر یہ بات کرتا تو اب تک اس کا منہ سلامت نہیں ہوتا،.. مگر احسان شاہ کی ہر بات برداشت کر رہا تھا... وہ تو اس کے سب کچھ تھے
کوئی اور بات ہوتی تو وہ کبھی بھی ان سے بحیث تو کیا۔ دوسرا سوال نہیں کرتا ، مگر یہاں بات اس کی عزت اور غیرت کی آگئی تھی جو ان کی بیٹی داؤ پر لگانے والی تھی.... اس پر طلاق کا کیس دائر کر کے، یہ بات احسان شاہ کو نہیں بتا سکتا تھا۔۔۔۔
کیا بچوں جیسی باتیں کرتے ہو یہ کوئی مزاق ہے، میری پوزیشن کو سمجھ نہیں رہے ہو تم نے بہت برا کیا ہے ..... وہ اب سخت غصّے ہیں تھے ہانیہ کا سوچ سوچ کر ان کا بی پی ہائی ہونے لگا تھا کہ اب تو وہ اس کی نظر میں اور برے بن گئے ہوں گے
جو ہونا تھا ہو چکا میں پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہوں... آپ جانتے ہیں آپ فکر نہ کریں اب آپ آرام کریں اتنا اسٹرس لینا اچھا نہیں آپ کے لیے
اس نے کہتے ہی فون بند کردیا .... اور احسان شاہ ہیلو ہیلو کرتے ہی رہ
عظیم شاہ کا تعلق بہت بڑے زمیندار گھرانے سے تھا ان کی شوگر ملز اور کہیں لیڈر گارمنٹ انڈسٹری تھی جو باہر کے ملکوں کو اپنی مصنوعات فروخت کرتی تھی۔ سیاست میں ان کا بڑا نام تھا عظیم شاہ کا شمار ملک کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا ۔۔۔۔
عظم شاہ کی بیوی قدسیہ بیگم تھی جو کے دین دار اور بے حد عبادت گزار رحم دل خاتون تھی، ان کے دو بیٹے تھے بڑا بیٹا عالم شاہ ان کی بیوی آسیہ شاہ جو ان کے ماموں کی بیٹی تھی
عالم شاہ گاؤں کے سردار بھی تھے عظیم شاہ نے ان کے بیٹے کی پیدائش پر ہی اپنی گدی نشین عالم شاہ کو بنادیا تھا کہ یہ ان کے خاندان کی روایات تھی، بڑا بیٹا ہی باپ کا گدی نشین ہوتا ہے
عالم شاہ اور آسیہ شاہ کا صرف ایک سات سال کا بیٹا تھا جس کا نام شاہ ویز شاہ تھا۔ جو سب کا لاڈالا اور غصے کا تیز ایک ضدی بچہ تھا گھر کا پہلا بچہ ہونے کی وجہ سے سب کے بے وجہ لاڈ پیار نے اسے بچپن ہی میں ضدی اور خود سر بنا دیا تھا
اس کے بعد بھی وہ ایک رحم دل اور اپنے لوگوں سے محبت کرنے والا بچہ تھا اس کا غصہ اور ضد جب شروع ہوتی تھی جب اس کی بات نا مانی جائے یا اس کے مزاج کے خلاف بات ہو
گاؤں کا اگلا سردار شاہ ویز شاہ ہی بنے والا تھا اس بات کا فیصلہ عظیم شاہ نے پہلے ہی کر دیا تھا۔۔۔۔
احسان شاه اء سٹیڈی کمپلیٹ کرنے کے بعد باپ کے کہنے پر سیاست میں آگئے
تب ہی ایک پارٹی میں ان کی ملاقات شمائلہ بیگم سے ہوئی جو شہر کے ایک بزنس مین کی بیٹی تھی... ان کے پاس احسان شاہ جتنی دولت شہرت تو نہیں تھی مگر شمالہ بیگم بھی کھاتے پینے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔
دو تین بار کی ملاقاتوں میں ہی شمالہ بیگم کی خود اعتمادی اور حسن نے ان کو بری طرح متاثر کیا جس کے بعد احسان شاہ نے فورا شمائلہ احمد کو پروپوز کر ڈالا اور شمائلہ بیگم کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا .. پڑھے لکھے۔ لاکھوں کی جائیداد کے وارث ان کا خیال تھا کہ وہ شہر کی ماڈرن اور فیشن ایبل خاتون ہیں تو احسان شاہ یقینا ان سے دب کر رہیں گے
مگر ان کی یہ غلط فہمی شادی کے بعد دور ہوگئی
احسان شاہ پڑھنے لکھنے ہونے کے باوجود بھی وہ اندر وہی روایتی جاگردار تھے اور اپنے خاندان اور روایتوں سے محبت کرنے والے انسان تھے
شادی کے بعد انہوں نے شمالہ کو ہر چیز دی مگر جو وہ آزادی چاہتی تھی وہ نہیں دے سکے، وہ انہیں بھی اپنی مرضی اور روایتوں کے مطابق چلانا چاہا جس کے بارے میں وہ پہلے ہی شمائلہ بیگم کو آگاہ کر چکے تھے مگر اس وہ شمائلہ کو اپنے حسن پر ناز تھا کہ احسان شاہ کو انگلیوں پر نچائے گی۔۔
جب کے شمالہ کو کسی پابندی میں رہنے کی عادت نہیں تھی لیٹ ٹانٹ پارٹیز کلب یہ سب انہیں چھوڑا پڑ رہا تھا تو اب انہیں محسوس ہو رہا تھا احسان شاہ سے شادی کا فیصلہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی …
شادی کے دو سال کے عرصے میں ہانیہ بھی ان کی زندگی میں آ گی ، روز روز ان کی لڑائی جھگڑے ہونے لگے تھے ، ان ہی لڑائی جھگڑے میں ہانیہ پیدا ہوئی ۔۔
ایک سال پہلے بیٹی کی پیدائش پر احسان شاہ کو لگا اب تو وہ ضد چھوڑ کر ان کے ساتھ رہیں گی، ان کے ساتھ ہسی خوشی زندگی گزار رہیں گی، مگر بیٹی کو دیکھ کر وہ … اور شیر ہو گئی، ان کے ہاتھ احسان شاہ کی کمزوری لگ گئی تھی، اب وہ بیٹی کے ذریعے انہیں بلیک میل کرنے لگی تھیں
جب ان سب حرکتوں سے بھی احسان شاہ ہاتھ نہیں آگئے تو انہوں نے طلاق کا مطالبہ کردیا۔
یہ ہی سب حالات دیکھتے ہوئے، عظیم شاہ نے فیصلہ کیا کہ ایک سال ہانیہ اور نو سال شاہ ویز کا نکاح کردیا جائے جس سے شمائلہ بیگم کو انجان رکھا گیا …
،شاید عظیم شاہ کو یہ ڈر تھا کہ ہانیہ ان سے دور چلی جائے گی اور گرے کرسٹل آنکھوں والی یہ گڑیا تو اب انہیں جان سے زیادہ پیاری تھی، اور سب سے زیادہ دیوانہ تو ان کا پوتا شاہ ویز شاہ تھا جو اس کی پیدائش سے ہی اس پر اپنا حق سمجھتا تھا
ہانیہ اس کے لیے ایک بہت قیمتی کھلونا تھی جس کا وہ بے حد خیال رکھتا تھا۔
جب بھی اس کے چچا جان حویلی آتے وہ سارا دن کسی کو بھی ہانیہ کو ہاتھ لگانے نہیں دیتا تھا، اس کے ہر کام اپنے ہاتھ سے کرتا اس وقت اس کی ضد غصہ سب ناجانے کہاں جا سوجاتا تھا۔۔۔۔ بلکہ یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ شاہ ویز شان کی جان جس چڑیا میں بند تھی وہ ہانیہ شاہ تھی ۔۔۔۔۔
ہانیہ ان کے خاندان کی پہلی لڑکی تھی ان کی تین پیڑیوں سے صرف لڑکے ہی تھے، نا ہی عظیم شاہ کی کوئی بہن تھی نا بیٹی، اس لیے ہانیہ کی اہمیت اب شاه ویز سے زیادہ تھی
عظیم شاہ شاید مستقبل کے خطرے کو بھانپ گئے تھے ، اس لیے اتنا بڑا فیصلہ کر گئے ۔
ابھی وہ سب ٹھیک طرح سے خوش بھی نہیں ہو پائے تھے، جب نکاح کے دو دن بعد ہی
ان کے بڑے بھانی عالم شاہ کا کار آکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔۔۔۔
احسان شاہ شمائلہ کی بات مان کر شہر میں رہنے کا فیصلہ کر چکے تھے ، مگر اب بھائی کے بعد سارے گھر خاندان کی زمیداری ان کے کندھے پر آگئی تھی۔۔۔۔۔ ماں باپ بھابھی اور جان سے پیارے بھتیجے کو سنبھالنا تھا، ایسے وقت میں وہ سب کو چھوڑ کر شمالہ کی بات مان کر شہر میں نہیں رہ سکتے تھے
مگر ان کی مجبوریوں کو سمجھنے کے بجائے شمائلہ اب کھل کر سامنے آئی اور انہیں طلاق پر زور دینے لگیں۔۔۔۔۔
وہ ہانیہ کے نکاح کے بارے میں جان گئی تھی، تو اب ان کا احسان شاہ کے ساتھ رہنا ناممکن ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔
اس وقت ہانیہ صرف ایک سال کی تھی اور احسان شاہ شمائلہ کو طلاق دینا نہیں چاہتے تھے ، مگر شماملہ نے کورٹ سے خلح کا مقدمہ درج کر دیا اور ان کے نام اور عزت کو خوب اچھالا ، پھر خاندان کی بدنامی کی وجہ سے احسان شاہ نے مجبور ہو انہیں طلاق دے دی۔۔۔۔۔
احسان شاہ سے علیدگی کے بعد شمائلہ ہانیہ کو لے اپنے بھائی کے پاس کینیڈا چلی گئیں تھی
احسان شاہ نے بہت کوشش کی اپنی بیٹی کی کسٹیڈی لینے کی مگر اتنی چھوٹی بچی کو ماں سے دور نہیں کر سکتے تھے، اس لیے کورٹ نے شمائلہ بیگم کے حق میں فیصلہ سنا دیا ۔۔۔۔۔۔
اور اتنے سال شمالہ نے ہانیہ کو سب سے چھپا کر رکھا۔۔۔۔
بیس سال تک احسان شاہ نے اپنی بیٹی سے ملنے کی جنگ لڑی ، پھر مجبورن کورٹ کی طرف سے ملاقات کے نوٹس پر شمائلہ کو پاکستان آنا ہی پڑھا۔۔۔ اب کی بار احسان شاہ نے ان کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھی ہوئی تھی ۔
وہ ایک اہم سیاسی شخصیات تھے اثرورسوخ رکھتے تھے اپنی بیٹی کو کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا چاہتے تھے، اس سے ملنا چاہتے تھے ۔۔۔
مگر جب کورٹ کے ذریعے اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے نہایت بے روخی اور اجنبیت سے وہ سب کہہ دیا
پھر بھی انہوں نے بار بار ملاقات کی مگر اس کی آخری ملاقات میں وہ بہت دل برداشتہ ہو گئے تھے ، مگر اپنے رب پر انہیں پورا بھروسہ تھا ، وہ انہیں ناامید نہیں کرے گا ،، اتنے سالوں کی ترپ دعاؤں کا صلہ انہیں ضرور ملے گا ۔۔۔۔
پھر اچانک انہیں میٹنگ کے لیے ملک سے باہر جانا پڑا تو مجبور انہوں نے اپنے بھتیجے شاہ ویز شاہ کو بھیج دیا .. مگر انہیں کیا پتا تھا کہ وہ ہانیہ کو کڈنیپ کرنے کا پلین بنائے بیٹھا ہے
اب شمائلہ بیگم ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھی انہوں نے زمین آسمان ایک کر دیے ۔۔۔
پہلا شک احسان شاہ پر ہی کیا مگر ان کے اونچے عہدے اور نام کی وجہ سے انہیں کوئی مشکل تو نا ہوئی اور ان کے خلاف کوئی ثبوت بھی نہیں تھا۔۔۔۔
کیوں کے وہ گورنمنٹ کی اہم میٹنگ کی وجہ سے ملک سے ہی باہر تھے ،،، اور شاہ ویز شاہ کو انہوں نے ابھی تک دیکھا نہیں تھا نا ان کا شک اس پر گیا کیوں کے شمالہ کی نظر میں سارے اسرو سرخ تھا
اس سب کے باوجود شمالہ بیگم کو یقین تھا کہ ہانیہ کی گمشدگی میں احسان شاہ کا ہی ہاتھ ہے
اس ہی وجہ سے وہ ان کے گھر آکر ان پر خوب اپنی بھڑاس نکالنے چلی آئیں۔۔۔۔
تم مجھے سے میری بیٹی کو چھین نہیں سکتے احسان شاہ..... وہ میری بیٹی ہے میں نے بیس سال اسے پالا ہے وہ تم سے نفرت کرتی سی ہے، وہ کبھی بھی تمہارے ساتھ نہیں رہے گی نا تمہارے خاندان کا کبھی حصہ بننا پسند کرے ........... نہ تمہاری محبت پر یقین کرے گی …
جو تم چاہتے ہو نامکمل ہے۔ وہ جس ماحول میں پلی بڑھی ہے کبھی بھی تم لوگوں کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرئے گی۔ اب کیا کرو گے احسان شاہ بیٹی کو وہ آزادی دو گے جو تمہارے سوکالڈ خاندان کی شان کے خلاف ہے یا اس سے بھی ہر تعلق ختم کر لو گے میری طرف ۔۔۔۔ وہ پہ چیخ چیخ کر بول رہی تھی ، آخر میں ان کا لہجہ استزاء ہو گیا
احسان شاہ نے تحمل سے ان کی چیخ و پکار اور طنز سنے، یہ وہ عورت تھی جس سے انہوں نے محبت کی شادی کی ان کو پاکر وہ خود کو خوش قسمت انسان سمجھتے تھے، آج وہ سامنے کھڑی ان سے نفرت اور حقارت سے مخاطب تھی۔۔۔۔
کبھی کبھی انتہائی نفرت بھی انتہائی محبت میں بدل جاتی ہے ایک دن میری بیٹی کی ساری غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی جب وہ اپنے باپ کی محبت کا بھی یقین کر لے گی وہ کہنا تو بہت کچھ چاہتے تھے مگر چھپ رہے
وہ میری بھی بیٹی ہے شمالہ میں نے اس لے لیں بیس سال تڑپتے ہوئے گزارے ہیں، اور رہی بات اس کی کڈ نیپنگ کی تو میرے لیے ے پہلے دن سے ہی کوئی مشکل کام نہیں تھا
انہوں نے تحمل سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا ، وہ کل بھی خود کو غلط ہو کر سہی سمجھتا تی تھی آج بھی وہ ویسی کی ویسی ہی تھی۔ …
دیکھ لینا احسان شاہ اگر میری بیٹی کو کچھ بھی ہوا تو میں تمہارے ساتھ بہت برا کروں گی ... اب وہ دھمکیوں پر اتر آئیں تهی
تم نے جو آج تک جو بڑا کیا ہیں میں انہیں بھی نہیں بھول پایان ہوں اب بھی کسی اچھے کی امید نہیں تم سے …
احسان شاہ کے انداز نے انہیں جلا کر بھسم کر دیا وہ دھمکیاں دیتی وہاں سے نکل گئیں
0 Comments
Post a Comment