رائٹر حیات عبداللّٰہ 


بارش والے دن کی ملاقات نے جنید اور نمرہ کے رشتے پر مہر لگا دی تھی۔

اب دونوں نے فیصلہ کر لیا تھا — نکاح۔


بغیر دنیا سے چھپے، بغیر جھوٹ کے، بس سچائی اور محبت کے ساتھ۔


اگلے دن اسکول کے بعد دونوں دوبارہ ملے۔

اس بار جنید کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی ڈائری تھی، جس پر نکاح کے حوالے سے پلاننگ لکھی ہوئی تھی ۔:


نمرہ نے شرما کر پوچھا:

"تم واقعی سب کر لو گے؟"


جنید نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا:

"میں تمہیں صرف چھاؤں نہیں دینا چاہتا، مکمل چھت دینا چاہتا ہوں۔"


نمرہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔


مگر… ہر کہانی میں ایک سناٹا طوفان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔


جنید کی بیوی، نائلہ، پچھلے کئی دنوں سے کچھ محسوس کر رہی تھی —

جنید کا چہرہ بدل گیا تھا،

فون ہاتھ سے کم نہیں چھوڑتا،

رات کو ہلکی مسکراہٹیں… جو برسوں سے غائب تھیں۔


اور پھر… ایک دن، اتفاق سے، جنید کا موبائل اس کے ہاتھ لگ گیا۔


واٹس ایپ کھولا،

ایک نام: "جان من۔"

ایک میسج:

"مولوی صاحب سے بات ہو گئی ہے… بس اب تم پر ہے۔ "


نائلہ کے ہاتھ کانپ گئے۔


 طوفان پھٹ پڑا


رات کو جب جنید گھر آیا،

نائلہ خاموش بیٹھی تھی۔

چہرے پر ہوائیاں، اور ہاتھ میں وہی موبائل۔


"یہ ‘جان من’ کون ہے؟

کس مولوی صاحب سے بات ہوئی؟

کس نکاح کی تیاری ہو رہی ہے؟؟"


جنید ساکت ہو گیا۔


نائلہ اب رو نہیں رہی تھی — وہ چیخ رہی تھی۔

"کیا میں کم تھی؟ کیا بچے کافی نہیں؟

کیا سالوں کی وفا، تمہارے دل میں کچھ بھی نہیں چھوڑ سکی؟"

جنید نے دھیمی آواز میں کہا:

"نائلہ… تم ہو، ہمیشہ رہو گی…

لیکن دل پر زبردستی نہیں کی جا سکتی۔

میں نمرہ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔"


بس، یہ جملہ نائلہ کے لیے قیامت بن گیا۔


نائلہ نے اسی رات اپنے بھائی کو بلا لیا۔

"میرے شوہر دوسری شادی کر رہا ہے،

ایک نو عمر لڑکی سے — اسکول کی ملازمہ!"

اب معاملہ صرف شوہر اور بیوی تک نہیں رہا…

خاندان کی عزت، رشتوں کی جڑیں، سب ہلنے لگیں۔


--


ادھر اسکول میں بھی ماحول تیز ہو چکا تھا۔


مس سدرہ نے پرنسپل کو صاف کہا:

"نمرہ کے خلاف ایکشن لیا جائے، ورنہ ہم سب استعفیٰ دیں گی۔"


پرنسپل نے نمرہ کو بلاوا بھیج دیا —

"آئیے، آپ سے اسکول کی عزت اور ضابطوں کے متعلق بات کرنی ہے۔"


---اسکول کے ماحول میں سرگوشیاں اب سرعام الفاظ میں بدل چکی تھیں۔

نمرہ کے اسکول آتے ہی خاموش نظروں کا سیلاب اس کا پیچھا کرتا،

اور جنید کو دیکھ کر ہلکی ہلکی مسکراہٹوں اور تیز لہجوں کی گونج سنائی دیتی۔


لیکن نمرہ…

نمرہ اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔

وہ خود پر یقین کرنے لگی تھی۔

اس نے جو فیصلہ کیا تھا، وہ اب اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھی۔


تیسرے پیریڈ کے بعد اسٹاف روم کی ٹی بل پر ایک چھوٹا سا نوٹ نمرہ کے لیے رکھا تھا:


> "نمرہ بیٹی، براہِ کرم پیریڈ کے بعد میرے آفس تشریف لائیں۔

– پرنسپل صاحبہ"


نمرہ جان گئی، بات اب رسمی دائرے سے نکل کر رسمی فیصلہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔


نمرہ خاموشی سے آفس میں داخل ہوئی۔

پرنسپل صاحبہ، جو ہمیشہ نرم مزاج اور ماں جیسی تھیں،

آج ان کے چہرے پر الجھن اور سختی دونوں نظر آ رہی تھیں۔


"بیٹھو نمرہ…"


نمرہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔


پرنسپل نے گہرا سانس لیا،

"مجھے بہت افسوس ہوا،

میں تمہیں ایک باوقار، ذہین اور مہذب لڑکی سمجھتی تھی…

لیکن جو کچھ سن رہی ہوں، اگر سچ ہے تو بہت افسوسناک ہے۔"


نمرہ نے پر سکون لہجے میں کہا:

"جی، جو آپ نے سنا ہے… وہ سچ ہے۔

میں اور جنید صاحب ایک دوسرے سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں۔"


پرنسپل کا چہرہ ایک لمحے کو ساکت ہو گیا۔


"کیا؟ تمہیں علم ہے وہ شادی شدہ ہیں؟ دو بچوں کے باپ ہیں؟"


نمرہ نے نظریں جھکائے بغیر کہا:

"جی، سب جانتی ہوں…

لیکن محبت یہ سب دیکھ کر نہیں ہوتی۔

میں نے ان کے کردار کو چاہا ہے، ان کی باتوں، سچائی، اور احترام کو۔

میں نے ان سے کوئی چھپی محبت نہیں کی…

ہم نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں، اور میں یہ رشتہ گناہ نہیں سمجھتی۔"


پرنسپل نے کرسی سے ٹیک لگا کر نرمی سے کہا:

"دیکھو نمرہ، میں تمہاری بات کو رد نہیں کر رہی،

مگر تم ابھی بہت چھوٹی ہو… صرف انیس سال کی۔

جس جذبے کو تم محبت سمجھ رہی ہو، وہ شاید وقتی کشش ہو۔

جنید کی زندگی میں پہلے سے ایک بیوی، دو بچے، ایک خاندان ہے۔

یہ صرف تمہاری نہیں، کئی زندگیاں بکھرنے کا خطرہ ہے۔"


نمرہ کی آنکھوں میں نمی آ گئی، مگر لہجہ سخت تھا:


"میڈم، میں نے اپنی زندگی کو قید میں گزارا ہے۔

اب جو محبت ملی ہے، وہ کھونے کا حوصلہ نہیں۔

میں یہ رشتہ نبھانے کے لیے پوری طرح تیار ہوں،

چاہے دنیا کچھ بھی کہے۔"


پرنسپل نے چند لمحے خاموشی کے بعد کہا:

"ٹھیک ہے…

اگر تم نے فیصلہ کر ہی لیا ہے، تو اسکول میں اس کا اثر نہ آنے دو۔

یہ ایک تعلیمی ادارہ ہے، یہاں تمہارا رشتہ، ذاتی ہے —

لیکن اگر ذاتی معاملہ اسکول کے ماحول پر اثر ڈالے گا،

تو ہمیں قدم اٹھانا پڑے گا۔"


نمرہ نے اثبات میں سر ہلایا۔


"آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گی۔"


نمرہ آفس سے نکلی تو اس کے قدموں میں ایک عجیب سا سکون تھا۔

اس نے سچ بول دیا تھا، وہ سچ جسے لوگ چھپاتے ہیں۔

اب وہ دل سے ہلکی ہو چکی تھی۔


مگر… اسکول کے باقی اساتذہ کی نظریں اور چہ میگوئیاں ابھی بند نہیں ہوئیں تھیں۔


اور دوسری طرف… نائلہ — جنید کی بیوی — اب چپ نہیں تھی۔

اس نے اپنے بھائیوں کو سب کچھ بتا دیا تھا۔

اور بھائی اپنی بہن کو جنید کی غیر موجودگی میں کے کر اپنے گھر آ چکے تھے ۔۔

لیکن جنید پر اس چیزوں کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اسکول میں آج چھٹی تھی۔

لیکن جنید پہلے سے موجود تھا…

آفس کے دروازے کھلے تھے، فائلیں میز پر بکھری ہوئی…

اور اس کے دل میں ایک بے قراری تھی —

نمرہ کی آمد کی۔


صبح سویرے نمرہ کے فون پر جنید کا میسج آیا:


 "آج اسکول ویران ہے،

لیکن دل آباد ہونے کو بے تاب ہے…

کیا آؤ گی؟"


نمرہ نے فوراً جواب نہیں دیا،

مگر دل کی دھڑکن نے پہلے ہی "ہاں" کہہ دی تھی۔


کچھ دیر بعد، وہ اپنی امی سے بولی:


"امی، آج اسکول میں پیپر چیکنگ ہے، دو گھنٹے لگیں گے بس۔"


امی نے سوال نہیں کیا۔

نمرہ برقع اوڑھ کر خاموشی سے نکل گئی۔


---


دروازہ کھلا، جنید نے پلٹ کر دیکھا…

اور وہ آ گئی۔


سیاہ دوپٹہ، ہلکا سا کاجل، خاموش مسکراہٹ، اور چلتے ہوئے وہی نرم دھن…

جیسے پوری فضا نے اس کے قدموں میں سُر بچھا دیے ہوں۔


"آپ واقعی آ گئیں؟"

جنید نے بےیقینی سے کہا۔


نمرہ نے دھیرے سے جواب دیا:

"آج صرف آپ کے لیے آئی ہوں۔

نہ اسکول کے لیے، نہ کسی بہانے کے لیے… صرف آپ کے لیے۔"


دونوں آفس کے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔

جنید نے چائے بنا دی، نمرہ نے کپ تھام لیا۔

خاموشی طویل تھی، لیکن دلوں میں شور برپا تھا۔


پھر نمرہ نے دھیمے لہجے میں کہا:


"جنید… یہ رشتہ شاید مکمل ہو، شاید نہ ہو…

شاید نکاح ہو جائے، شاید وقت ساتھ نہ دے…

لیکن آج کا دن، میں آپ کے نام کرتی ہوں۔

اپنے دل، اپنی چاہت، اپنے خواب… سب آپ کے نام۔"


جنید خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔


"آج نہ رسم چاہیے، نہ قاضی…

بس چاہت چاہیے، خلوص چاہیے، اور وہ لمحہ…

جو صرف ہمارا ہو، جہاں کوئی فاصلہ نہ ہو۔"

محبت ایک بار پھر بے لباس ہوئی ۔

نمرہ الہڑ جوانی کو سنبھال نہیں پا رہی تھی ،جبکہ جنید ایک نوجوان اور خوبصورت جوان لڑکی کو دیکھ کر پگھل چکا تھا ۔


نہ آنکھیں جھکیں، نہ نظریں چُرائیں —

سب کچھ سچ، صاف، مکمل۔


کبھی خاموشی میں ہاتھ تھاما،

کبھی نظروں سے وفا کی گواہی دی،

کبھی قہقہوں میں وہ بچپنا جگایا جو محبت کو جلا بخشتا ہے۔


وہ دن…

شاید ان کے نکاح سے پہلے کا آخری "بےنام" دن تھا —

لیکن احساس میں اتنا "مکمل" تھا،

کہ جیسے محبت کو لفظوں کی نہیں، دل کی مہر لگ چکی ہو۔


دو بجے کے قریب نمرہ جانے کو اٹھی۔

جنید نے اس کا ہاتھ تھام کر دھیرے سے کہا:


"اب ہم کبھی ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہیں گے،

چاہے دنیا ہاں کہے یا نہ،

تم میرا حق ہو — اور میں تمہیں تمہارا حق دوں گا، نکاح کے ساتھ، عزت کے ساتھ۔"


نمرہ کی آنکھیں بھر آئیں۔

اس نے ہلکے سے کہا:


"میں تیار ہوں… جب بھی کہو، میں تمہاری ہو جاؤں گی۔ ہمیشہ کے لیے۔"


جاری ہے