رائیٹر حیات عبداللّٰہ
ادھر نمرہ کے دل پر بھی بدنامی اور خوف کا سر بیٹھ چکا تھا۔
اس دن گھر واپس جا کر نمرہ نے خود کو آئینے میں دیکھا۔
آنکھیں سرخ، چہرہ سوجا ہوا، دل زخمی۔
"محبت؟ یہ محبت ہے یا معاشرے کا طنز؟"
"میں نے کیا چاہا تھا؟ اور کیا پا لیا؟"
وہ کچھ پل بیٹھ کر روئی، اور پھر تکیے کے نیچے اپنا فون چھپا دیا۔
اس نے فیصلہ کر لیا تھا — کچھ دن اسکول سے رخصت لے گی۔
چاہے کوئی سمجھے وہ بیمار ہے، یا بدنام…
لیکن اسے خود کو سمیٹنے کی ضرورت تھی۔
---اسکول کی راہداری ویران سی لگ رہی تھی۔
آج تیسرا دن تھا، اور نمرہ کی کرسی خالی تھی۔
نہ کوئی آواز، نہ وہ خوشبو جو اس کے گرد ہمیشہ بکھری رہتی تھی۔
بچوں نے بھی سوال کرنا چھوڑ دیا تھا، مگر جنید کے دل میں بےچینی بڑھتی جا رہی تھی۔
روزانہ کی حاضری چیک کرتے ہوئے پرنسپل صاحب نے ریمارک لکھوایا:
> "نمرہ بی بی کی مسلسل غیر حاضری — کوئی اطلاع نہیں۔ اگر کل تک رابطہ نہ ہوا تو نوٹس جاری کیا جائے۔"
مس سدرہ نے طنزیہ انداز میں کہا:
"ہو سکتا ہے دل ہی دل میں شرمندہ ہو گئی ہو۔ خیر، کچھ دن اور گزرنے دیں، پردے خود اٹھ جائیں گے۔"
مس فرحین نے ہنستے ہوئے کہا:
"محبت کا انجام تو یہی ہوتا ہے — چھٹی، پردہ، آنکھوں کے آنسو۔"
جنید نے سنا، دل پر چھری چلی، مگر چپ رہا۔
جنید اب خود کو روک نہیں پا رہا تھا۔
اس نے نمرہ کا نمبر بار بار ڈائل کیا — بند۔
واٹس ایپ پر پیغام کیا — صرف ایک چیک، وہ بھی نیلا نہیں ہوا۔
بے بسی بڑھتی جا رہی تھی۔
اس نے پرانے نوٹس چیک کیے، نمرہ کے فارم میں ایک نمبر دیکھا جو “امی کا” لکھا تھا۔
پھر دیر تک ہاتھ میں فون پکڑے بیٹھا رہا…
کیا واقعی وہ ایک قدم اور آگے بڑھے؟
کیا نمرہ کے گھر والوں تک یہ تعلق کی خبر پہنچا دے گا؟
کیا وہ اتنی ہمت رکھتا ہے
نمرہ ان تین دنوں میں مکمل خاموش رہی۔
ماں نے کچھ سوال کیے، مگر وہ صرف "طبیعت خراب ہے" کہہ کر کمرے میں بند ہو جاتی۔
اس کی چھوٹی بہن زویا نے ایک دن کہا:
"با جی، اگر سکول نہیں جانا تو کم از کم باہر تو نکلو۔ اتنا چپ کیوں ہو؟"
نمرہ نے صرف اتنا کہا:
"کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ سب بند کر دیا جائے — دروازے، باتیں، خواب… سب کچھ۔"
وہ اب خود کو سنبھالنے کے عمل سے گزر رہی تھی۔
چوتھے دن نمرہ کو زویا نے ایک لفافہ لا کر دیا:
"یہ دروازے میں سے کسی نے ڈالا ہے، نام نہیں لکھا ہوا۔"
نمرہ کا دل زور سے دھڑکا۔
اس نے ہاتھ کانپتے ہوئے لفافہ کھولا۔
"اگر تم ناراض ہو تو معذرت…
اگر ڈری ہوئی ہو تو تسلی…
اگر بکھری ہوئی ہو تو ہاتھ تھامنے کو تیار ہوں۔
میں جانتا ہوں، میں شادی شدہ ہوں… مگر محبت کسی حالت کی محتاج نہیں۔
تمہیں صرف اتنا کہنا ہے کہ رکو — اور میں ہمیشہ کے لیے ٹھہر جاؤں گا۔
— جنید
نمرہ نے خط پڑھ کر آنکھیں بند کر لیں۔
اس کے آنسو تکیے پر نہیں گرے،
بلکہ دل کے اندر گرے — جہاں وہ لفظ چھپے تھے جو کبھی کہے ہی نہیں گئے۔
نمرہ کی غیر حاضری کو آج پانچ دن ہو چکے تھے، مگر اس کا ذہن اب مزید خاموش نہیں تھا۔
وہ بار بار خط پڑھتی، اور ہر بار ایک نیا جذبہ اس کی روح میں سرایت کر جاتا۔
"محبت کسی حالت کی محتاج نہیں…"
یہ جملہ اب اس کے دل کی دھڑکن بن چکا تھا۔
نمرہ محض انیس سال کی تھی —
جوانی کا وہ دور، جہاں سوچنے سے پہلے دل بولتا ہے۔
جہاں خواہش دلیل سے بڑی ہوتی ہے،
جہاں زندگی خوابوں کے رنگوں میں لپٹی ہوتی ہے… اور حقیقت کی سختی ابھی بہت دور محسوس ہوتی ہے۔
اب نمرہ نے فیصلہ کر لیا تھا۔
جنید کے جذبات صرف اس کے لیے تھے، اور اس کا دل… صرف جنید کے لیے۔
اب اسے صرف اظہار کرنا باقی تھا۔
چھٹے دن نمرہ برقع پہنے اسکول آئی، مگر اندر پہنچی تو اس کے کپڑے، انداز اور آنکھوں کی چمک سب بدل چکے تھے۔
وہ پہلے سے زیادہ پر اعتماد تھی،
زیادہ نرم، مگر زیادہ مضبوط۔
جنید کی نظریں جیسے ہی اس پر پڑیں، دل کی رفتار بڑھ گئی۔
وہ صرف اتنا بول سکا:
"آپ… واپس آ گئیں؟"
نمرہ نے مسکرا کر کہا:
"ہاں… اور شاید اب خود کو لے کر آئی ہوں۔"
کلاسز کے بعد نمرہ نے خاموشی سے جنید کے ڈیسک پر ایک چھوٹا سا نوٹ رکھا، اور نکل گئی۔
جنید نے وہ نوٹ کھولا — نمرہ کی تحریر تھی:
> "کبھی کبھی ہمیں کچھ کہنے کے لیے دنیا کی اجازت نہیں چاہیے ہوتی،
صرف دل کی ہاں چاہیے ہوتی ہے…
اور میرا دل تمہارے سامنے ہاں کہہ چکا ہے۔
میں جانتی ہوں تم شادی شدہ ہو… مگر میری محبت اندھی نہیں — بس مکمل ہے۔
— نمرہ
جنید کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔
ایک لمحہ ایسا آیا جب اس نے اپنی کرسی چھوڑ دی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
اسے لگا جیسے زندگی پہلی بار اسے آواز دے رہی ہے —
"آ جا، جو تجھے چاہیے تھا، وہ خود چل کر آیا ہے
اس دن کے بعد نمرہ بدلی ہوئی تھی۔
اب اس کی مسکراہٹ میں یقین تھا،
اب اس کے چلنے میں نرمی کم، خوداعتمادی زیادہ تھی۔
اب وہ محبت میں تھی — بے خبر، بے خوف، بے خود۔
شادی شدہ ہونے کا خیال؟
وہ کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔
اب صرف "محبت" باقی تھی۔
اسکول کی راہداری میں خاموشی تھی، مگر جنید کے دل میں شور برپا تھا۔
نمرہ کے خط کے بعد وہ خود کو روک نہ سکا۔
دن کے اختتام پر جب سب اسٹاف جا چکا تھا، وہ خود نمرہ کی کلاس کے دروازے پر گیا۔
نمرہ نے چونک کر دیکھا —
جنید پہلی بار خود اس کی جانب بڑھا تھا۔
"کیا ہم دو منٹ بات کر سکتے ہیں؟"
آواز میں نرمی تھی، لیکن آنکھوں میں گہرائی۔
جنید اور نمرہ آہستہ آہستہ اسٹاف روم کے پچھلے باغ میں جا بیٹھے، جہاں کبھی کوئی نہیں آتا تھا۔
"نمرہ، تم نے جو لکھا… وہ میں کبھی بھلا نہیں سکتا۔
مگر میں یہ بھی نہیں بھول سکتا کہ میرے ساتھ ایک بیوی ہے، دو بچے ہیں۔"
نمرہ خاموشی سے سنتی رہی۔
"تم جوان ہو، خوبصورت ہو، زندگی ابھی شروع ہوئی ہے تمہاری۔
اور میں؟ میں ایک ذمہ دار، تھکا ہوا، شادی شدہ آدمی ہوں۔"
نمرہ نے نرمی سے کہا:
"محبت عمر، رشتے یا ذمہ داری نہیں دیکھتی، صرف دل دیکھتی ہے۔
اور میرا دل تمہیں چاہتا ہے۔"
جنید کی آواز بھیگ گئی:
"کیا تم سچ میں میرے ساتھ دوسری بیوی بن کر رہ سکتی ہو؟"
نمرہ نے فوراً جواب دیا:
"ہاں، اگر تم مجھے عزت دو، اور چھپاؤ مت۔
میں کسی کا سایہ بن کر نہیں جینا چاہتی، تمہارے ساتھ کھل کر جینا چاہتی ہوں۔"
یہ پہلا لمحہ تھا جب دونوں نے ایک ممکنہ "نکاح" کے امکان پر بات کی۔
اس رات جنید نے دیر تک جاگتے ہوئے خود سے سوال کیے:
کیا وہ نمرہ کو انصاف دے پائے گا؟
کیا پہلی بیوی یہ سب برداشت کرے گی؟
کیا بچے نمرہ کو قبول کر پائیں گے؟
لیکن ہر سوال کے جواب میں نمرہ کی آنکھیں، مسکراہٹ اور محبت اسے گھیر لیتی تھی۔
پہلی بار، وہ دوسری شادی کے فیصلے کے قریب تھا۔
ادھر اسکول میں ایک نیا موڑ آ گیا۔
مس سدرہ نے ایک دن نمرہ اور جنید کو باغ میں تنہا بیٹھے دیکھ لیا۔
اگلے ہی دن یہ بات سیدھی پرنسپل کے کان تک پہنچ گئی۔
"ہماری درسگاہ کا ماحول خراب ہو رہا ہے،"
مس سدرہ نے سختی سے کہا،
"اگر آپ نے ابھی قدم نہ اٹھایا تو بات والدین تک بھی پہنچ سکتی ہے۔"
پرنسپل صاحب سنجیدہ ہو گئی۔
اب یا تو نمرہ کو وارننگ دی جائے گی، یا نکال دیا جائے گا۔
نمرہ کو ابھی علم نہیں تھا کہ کیا آنے والا ہے۔
وہ جنید کی آنکھوں میں چھپی سچائی کو محسوس کر رہی تھی۔
اسے یقین تھا کہ اب فاصلہ باقی نہیں،
بس ایک قدم، ایک وعدہ، اور ایک نکاح…
مگر دنیا…
دنیا خاموش نہیں رہتی۔
---
اس دن آسمان ہلکی ہلکی بوندا باندی سے بھیگ رہا تھا۔ ہوائیں نمی سے بوجھل اور موسم دلکش تھا۔
اسکول میں آج باقاعدہ چھٹی تھی — بچوں اور اساتذہ سب کو رخصت دے دی گئی تھی۔
بس ایک شخص موجود تھا: جنید۔
رزلٹ پرنٹ کرنے، رپورٹ مکمل کرنے اور کچھ فائلوں کی سیٹنگ کے لیے اسے آفس بلایا گیا تھا۔
تقریباً 11 بجے اسکول کا گیٹ کھلا، اور نمرہ اندر داخل ہوئی۔
سیاہ چادر، ہلکا سا میک اپ، خوشبو سے مہکتا وجود،
چہرے پر سکون — اور شاید اندر کچھ خاص ارادے لیے۔
اسے واقعی علم تھا کہ آج چھٹی ہے؟
یا وہ محض دل کی کشش میں کھنچی چلی آئی تھی؟
یہ سوال ابھی تک ایک راز ہے۔
جنید آفس میں موجود تھا، کمپیوٹر پر جھکا کام میں مصروف۔
نمرہ کے قدموں کی چاپ سن کر چونکا،
پلٹ کر دیکھا — حیرت، مسکراہٹ اور خوشی سب ایک ساتھ چہرے پر آ گئے۔
"آپ…؟ آج تو چھٹی ہے نمرہ!"
جنید نے قدرے حیرت سے کہا۔
نمرہ نے مسکرا کر کہا:
"مجھے نہیں پتا تھا… یا شاید جانتے ہوئے بھی آ گئی۔"
یہ جملہ دونوں کے درمیان ایک لمحے میں فاصلوں کو مٹا گیا۔
دونوں آفس کے کمرے میں تھے۔ باہر بارش، اندر خاموشی،
اور دل… صرف دھڑکنیں۔
جنید نے نرمی سے کہا:
"نمرہ، تمہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے زندگی خود چل کر میرے سامنے آ گئی ہو۔"
نمرہ نے دھیرے سے قریب آ کر کہا:
"اور تمہیں پا کر ایسا لگتا ہے جیسے اب زندگی کا مطلب سمجھ آیا ہو۔"
ایک لمحے کے لیے دونوں خاموش ہو گئے۔
پھر… وہ فاصلہ جو مہینوں سے باتوں، نظروں اور خیالوں میں طے ہوتا رہا،
آج جسموں سے طے ہونے لگا۔
نمرہ نے جنید کا ہاتھ تھاما،
نہ لرزش، نہ خوف، صرف محبت۔
"میں تمہارے بغیر نہیں جی سکتی،"
اس کے لہجے میں مکمل سچائی تھی۔
جنید نے پہلی بار کسی عورت کو اتنی شدت سے دیکھا۔
اس کی آنکھوں میں وہ سب کچھ تھا جسے وہ برسوں سے ترس رہا تھا — چاہت، اپنائیت، سچائی۔
"اگر تم میری بننا چاہتی ہو، تو میں تمہیں کھونے کا سوال ہی نہیں اٹھنے دوں گا۔"
دو جسم ملے ،دو دلوں کا پیار اپنے عروج کو پہنچ رہا تھا ۔
باہر بارش ہو رہی تھی ،اور موسم میں ہلکی سی سردی کی لہر تھی ۔
لیکن نمرہ اور جنید کے جسم پیسنے سے شرابور تھے ۔
دونوں ایک دوسرے کی محبت اور پیار کو انتہا تک محسوس کر
رہے تھے۔
نمرہ انیس سال کی خوبصورت دو شیزہ اور جوانی کے عروج پر آنے والی لڑکی تھی ۔
جبکہ جنید شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اپنی تجربہ کاری کے فن سے جوانی کی آگ کو بہترین انداز میں ٹھنڈک پہنچا رہا تھا۔
وہ لمحہ جب دونوں نڈھال ہو کر گر پڑے ۔۔۔ اور دونوں کا پیار اپنے اپنے انداز میں … مکمل تھا۔
محبت جب بے لباس ہو کر دوبارہ لباس میں واپس آئی تو دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر خوشی سے سرشار تھے ۔
ان لمحوں کے بعد، جنید نے چائے بنائی، نمرہ نے شکر ملائی،
دونوں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر بارش دیکھتے رہے۔
وہ چھوٹے چھوٹے قہقہے، وہ بے ساختہ نظروں کا ملنا،
اب دونوں کی زندگی میں محبت کی باقاعدہ موجودگی کا اعلان تھا۔
نہ کوئی لفظ باقی تھا، نہ کوئی شک۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment