رائٹر؛ حیات عبداللہ 


جنید دفتر میں بیٹھا کمپیوٹر پر کام کر رہا تھا، مگر خیالات بار بار بھٹک رہے تھے۔

نمرہ کے چپ رویے نے آج اسے بے چین کر دیا تھا۔


وہ وہی آدمی تھا جس نے ہمیشہ حد میں رہ کر بات کی، جو نظریں جھکا کر گزر جاتا، جو ہر رشتہ حدود میں رکھتا…لیکن نمرہ کی موجودگی نے اس کے اندر ایک خاموش طوفان بسا دیا تھا۔


اسے نمرہ کی خاموشی کھا رہی تھی۔


دوپہر کو نمرہ ایک فائل لے کر آئی، مگر آج اس کی آنکھوں میں وہ شوخی نہیں تھی، نہ وہ ہلکی سی مسکراہٹ جس کی جنید کو عادت ہو گئی تھی۔


"سر، یہ چیک کر دیجیے گا۔"

بس اتنا کہا، اور پلٹ گئی۔


جنید نے بے اختیار پکارا:

"نمرہ... ایک منٹ۔"


وہ رکی، لیکن پلٹی نہیں۔


"آپ... سب ٹھیک ہے نا؟"


نمرہ نے دھیمی آواز میں کہا،

"سر... سب ٹھیک ہے، بس دل نہیں لگ رہا۔"


پھر وہ چل دی۔


اس دن دو خواتین ٹیچرز، مس فرحین اور مس سدرہ نے ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا۔


"کچھ عجیب نہیں لگ رہا آج کل؟"

"ہاں… لگتا ہے کچھ چل رہا ہے…"

"اور وہ بھی جنید سر کے ساتھ؟ حیرت کی بات ہے…"


شک کی فضا بننے لگی تھی۔

فسانے، افواہیں، سوالات… اور نمرہ؟

وہ صرف ایک چیز سے ڈری ہوئی تھی — بدنامی۔


اسی رات نمرہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔

اس نے آج خود کو پہلی بار تنقیدی نظر سے دیکھا۔


"یہ سب کب، کیسے ہوا؟ میں نے صرف زندگی جینے کی اجازت مانگی تھی… محبت تو نہیں مانگی تھی۔"


لیکن محبت خود چل کر آئی تھی، بنا اجازت… بنا حساب۔


اور وہ جانتی تھی…

اب یا تو وہ اس محبت کو مکمل چھوڑ دے…

یا پھر... سب کچھ کھو کر پا 

اگلی صبح نمرہ اسکول پہنچی تو ہر نظر اس کا تعاقب کر رہی تھی۔

ہر راہ داری میں ایک خاموش سرگوشی، ہر بیٹھک میں دبے لفظوں کی گونج تھی۔


مس سدرہ اور مس فرحین، جو کل تک مسکرا کر سلام کرتی تھیں، آج صرف ہونٹوں ہی ہلا کر رہ گئیں۔

اور کچھ فاصلوں سے نظریں چراتی بھی نظر آئیں۔


نمرہ کو سب کچھ محسوس ہو رہا تھا۔

اس کا دل ڈوب رہا تھا، لیکن وہ خود کو مضبوط ظاہر کر رہی تھی۔


اسکول کی بے رحم دنیا نے اس کے "پہلے جذبے" کو گناہ کا لباس پہنا دیا تھا۔


---


ٹیچرز روم میں نمرہ کسی فائل کی تلاش میں تھی، جب مس سدرہ کی آواز سنائی دی:

"آج کل نئی لڑکیاں تو سیدھی محبت کا چکر لے کر آتی ہیں۔ پڑھانے تو شاید کم، لیکن نظروں کا نشانہ پورا ہوتا ہے۔"


مس فرحین نے ہنستے ہوئے کہا،

"ہاں، اور جو مرد پہلے شریف لگتے ہیں نا… وہ اکثر دوسرا نکاح سوچنے لگتے ہیں۔"


نمرہ کا چہرہ سفید پڑ گیا۔

اس نے وہ فائل وہیں چھوڑ دی، اور خاموشی سے باہر نکل گئی۔


ادھر جنید کے دل کی حالت بالکل الگ تھی۔

نمرہ کا رویہ، خاموشی، اور پھر اسٹاف کا بدلتا انداز… یہ سب کچھ اس کے لیے نیا اور تکلیف دہ تھا۔


وہ خود سے سوال کر رہا تھا:

"کیا میں غلط ہوں؟ یا صرف میرے جذبات کو غلط سمجھا جا رہا ہے؟"


جنید جانتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے، ایک باپ ہے، ذمہ داریاں ہیں…

مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ نمرہ کے بغیر، اب دن ادھورے محسوس ہوتے ہیں۔


اسی سوچ میں گم، وہ نمرہ کو ایک پرچی پر پیغام لکھ کر دینا چاہتا تھا:

>"میں نے کبھی تم سے کچھ نہیں مانگا، نہ ہی کبھی اپنی حدود پار کیں۔

لیکن اگر تم چاہو، تو میں باقی عمر تمہارے حق میں بولنے کو تیار ہوں۔"


مگر وہ پرچی کبھی نہ دے سکا۔


رات کے کھانے پر جنید کی بیوی نے چپ چاپ پوچھا:

"اسکول میں سب ٹھیک ہے؟"


جنید چونکا، "ہاں، کیوں؟"


"ایسے ہی… تمہارا چہرہ کچھ دنوں سے بدلا بدلا لگ رہا ہے۔ اور موبائل بھی اب زیادہ استعمال ہونے لگا ہے۔"


جنید کے ہاتھ کانپے، لیکن اس نے بات گول کر دی۔

دل میں خوف بیٹھ چکا تھا۔


جاری ہے