رائیٹر: حیات عبداللہ
"یہ گھر ہے یا قید خانہ؟"
نمرہ کے دل سے ایک آہ سی نکلی جب وہ ماں کی اونچی آواز پر چونک گئی۔ ابھی صبح کے آٹھ ہی بجے تھے، اور دن کا آغاز پھر وہی طعنوں، احکام اور پابندیوں سے ہوا تھا۔
نمرہ انیس سال کی ایک خوبصورت، جذباتی مگر حد سے زیادہ حساس لڑکی تھی۔ ایف اے کے بعد جب اس نے مزید پڑھنے کی خواہش ظاہر کی، تو ماں نے صاف انکار کر دیا۔
"کیا کرے گی پڑھ کر؟ آخر کو چولہا ہی تو سنبھالنا ہے!"
لیکن نمرہ کی خواہش کچھ اور تھی۔ وہ خود کو اس ماحول میں روز بروز گھٹتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔
اسے آزادی چاہیے تھی — سانس لینے، جینے، خود کو سنوارنے، خود کو منوانے کی آزادی۔
کافی دنوں کی بحث کے بعد آخر کار باپ کے ایک پرانے دوست کے اسکول میں اسے پرائیویٹ ٹیچر کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت ملی۔
بس شرط یہ تھی کہ وہ برقعہ پہن کر جائے گی، وقت پر آئے گی اور وقت پر واپس۔
لیکن نمرہ کے ارادے کچھ اور تھے۔
پہلے دن جب نمرہ اسکول پہنچی تو وہ مکمل برقعے میں تھی۔ لیکن برقعے کے نیچے چمکدار کپڑے، ہیل والی سینڈل اور ہونٹوں پر ہلکی لپ اسٹک نے اس کے اندر کے ارمانوں کی چمک کو نہیں چھپایا۔
یہ ایک چھوٹا سا پرائیویٹ اسکول تھا جہاں سب خواتین ٹیچرز تھیں۔ بس ایک مرد تھا — کمپیوٹر آپریٹر، جنید صاحب۔
خاموش، مہذب، اور کام سے کام رکھنے والا انسان۔
نمرہ کی نظر اس پر پہلی ہی دن پڑی، لیکن اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوئی۔
ہاں، یہ ضرور تھا کہ جنید باقی سب مردوں سے مختلف لگا۔
نہ نظریں اٹھا کر دیکھا، نہ سلام کا جواب بے ادبی سے دیا۔
چند دنوں میں نمرہ نے برقعے سے آزادی حاصل کر لی۔
اب وہ اسکول کے اندر فیشن کرتی، بال کھلے چھوڑتی، موبائل پر سیلفیاں لیتی، اور خود کو "آزاد" محسوس کرتی۔
---ایک دن نمرہ کو کمپیوٹر لیب میں بچوں کے ایک پراجیکٹ کے لیے مدد چاہیے تھی۔
اس نے ہچکچاتے ہوئے جنید صاحب سے بات کی۔
"سر… تھوڑی مدد چاہیے تھی، اگر برا نہ منائیں تو؟"
جنید نے سر اٹھایا، مسکرایا اور کہا،
"بالکل، کیوں نہیں۔ آپ آئیے، میں سمجھاتا ہوں۔"
یہ پہلا مکالمہ تھا۔
پھر آہستہ آہستہ روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے سوالات، بات چیت، اور ہنسی مذاق کا آغاز ہوا۔
نمرہ کو یہ سب نیا اور خوشگوار لگ رہا تھا۔
وہ جانتی تھی جنید شادی شدہ ہے، مگر دل پر تو اختیار نہیں ہوتا۔
اور جنید… وہ بھی بدلنے لگا تھا۔
جنید کے دل میں ایک عجیب سا ارتعاش پیدا ہونے لگا تھا۔
وہ جو ہمیشہ اپنی بیوی اور بچوں کی بات کرتا تھا، اب نمرہ کے ذکر پر رکنے لگا۔
نمرہ کی معصوم سی باتیں، کبھی کبھار کی شوخیاں، اور بے ساختہ ہنسی اسے کسی اور دنیا میں لے جاتی تھی۔
ایک دن اس نے اپنے دوست سے کہا،
"کیا ایک مرد دو بار محبت کر سکتا ہے؟"
"شاید ہاں…" دوست نے کہا،
"اگر پہلی محبت نے صرف ذمہ داریاں دی ہوں، اور دوسری نے خوشی کا احساس۔"
---وہ ستمبر کی ایک نرم دوپہر تھی۔ بارش تھم چکی تھی، اور اسکول کی کھڑکیوں سے نمی بھری خوشبو آ رہی تھی۔ بچے جا چکے تھے، اسٹاف کے بیشتر افراد بھی نکل چکے تھے۔
بس نمرہ، ایک سائنس ٹیچر اور کمپیوٹر روم کے دروازے کے پیچھے مصروف جنید باقی تھے۔
نمرہ، جو کبھی چپ چاپ بیٹھا کرتی تھی، آج یونہی بغیر کسی کام کے کمپیوٹر روم کی طرف چل دی۔
دل میں کوئی واضح ارادہ نہیں تھا، بس خواہش تھی… کسی سے بات کرنے کی… شاید، کسی کی بات سننے کی۔
دروازہ کھلا تھا۔
"السلام علیکم، سر۔ آپ آج بھی مصروف ہیں؟" نمرہ نے دروازے کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر نرمی سے کہا۔
جنید نے چونک کر سر اٹھایا، پھر مسکرا کر بولا،
"وعلیکم السلام۔ جی، ایک دو فائلیں اپڈیٹ کر رہا تھا۔"
نمرہ اندر آ گئی، اجازت لیے بغیر۔
"سر، کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ کسی سے بے مقصد بات کی جائے۔ کیا آپ کو بھی کبھی ایسا لگتا ہے؟"
جنید نے پل بھر کو نمرہ کی طرف دیکھا۔
وہ آنکھوں میں کئی سوال، اور لہجے میں ایک انجان سی اپنائیت لیے بیٹھی تھی۔
"ہاں... کبھی کبھی انسان صرف باتیں سننے کے لیے بھی ترس جاتا ہے،" جنید نے کہا۔
یہ پہلا لمحہ تھا جب دونوں نے ایک دوسرے کو صرف "سننے" کے لیے سنا۔
نمرہ نے اپنی زندگی کی کچھ چھوٹی چھوٹی باتیں شیئر کیں:
ماں کی سختیاں، ہر وقت کی روک ٹوک، ہر سانس کا حساب... اور اپنے دل میں چھپی وہ آزادی کی پیاس، جو اب تک صرف خواب تھی۔
جنید نے بھی اپنی زندگی کے کچھ پہلو بتائے:
ذمہ داریاں، بچوں کی پرورش، بیوی کا ہمیشہ کا شکایتی رویہ... اور ایک ایسا خالی پن، جسے وہ برسوں سے محسوس کر رہا تھا۔
نمرہ نے اس کی طرف دیکھا اور کہا،
"سر، آپ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ ایک بہت اچھے انسان ہیں… مگر تھکے ہوئے۔"
جنید خاموش ہو گیا۔
وہ جانتا تھا کہ یہ لڑکی اب صرف "استاد" کی نظر سے نہیں دیکھ رہی۔
اور وہ خود... ایک عجیب سے کشمکش میں مبتلا ہو چکا تھا۔
…
اسی رات نمرہ اپنے بستر پر لیٹی تھی، نیند اس سے کوسوں دور تھی۔
اس کے دل میں کچھ ہلکی سی خوشی، کچھ عجیب سا احساس اور کچھ بے نام سا خوف تھا۔
"کیا میں غلط کر رہی ہوں؟"
"یا پھر... یہی وہ زندگی ہے جو میں نے مانگی تھی؟"
ادھر جنید کی بھی رات بے چینی میں گزری۔
بیوی نے پوچھا،
"آج خیریت تو ہے؟ چپ کیوں ہو؟"
جنید نے نظر چرا لی۔ کیوں کہ اس کے دل میں پہلی بار کسی اور کا خیال بار بار آ رہا تھا۔
نمرہ اسکول آ تو گئی تھی، لیکن آج اس کے چہرے پر وہ چمک نہیں تھی جو باقی دنوں میں ہوا کرتی تھی۔
بال بندھے ہوئے تھے، ہونٹوں پر لپ اسٹک نہیں تھی، اور آنکھوں میں ایک خاموش سوال چھپا ہوا تھا۔
کلاس روم میں بچوں کے شور شرابے میں وہ بھیگی آنکھوں سے کبھی کھڑکی سے باہر دیکھتی، تو کبھی اپنی نوٹ بک پر بلاوجہ کچھ لکھتی۔
یہ پہلی بار تھا جب نمرہ اپنے دل سے لڑ رہی تھی۔
دل کہتا تھا: "جنید اچھے انسان ہیں… وہ سمجھتے ہیں مجھے، محسوس کرتے ہیں… اور شاید… شاید وہ بھی کچھ چاہتے ہیں۔"
مگر دماغ کہتا تھا: "وہ شادی شدہ ہے… تمہارا وہاں کوئی حق نہیں… تمہارا خواب کسی اور کی حقیقت کو توڑ دے گا۔"۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment