CIRCLE OF ISHQ 

Episode 1

Writer: Ali

نوٹ

یہ میری پہلی کہانی ہے تو بہت سی غلطیاں ہوگی، تو آپ لوگوں سے ایک گزارش ہے 

اگر آپ لوگوں کو کوئی غلطی نظر آئی تو ایسے میرے فیسبوک پیج پر کمینٹ میں بتائیے گا 

شکریہ 


اوئے سن چھوڑے اٹھ آجا باہر" ایک سپاہی لوکب کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا

میں بھی جھٹ سے اٹھا اور جھٹ سے دروازے کی طرف بھاگا، اور جب میں دروازے کے قریب پوچھ کہا؛ "آگیا یقین نا کہ میں چوری نہیں کر رہا تھا"

تو سپاہی نے غصّے سے کہا؛ چپ کر کے چلو ہر چور کہتا ہے میں نے چوری نہیں کی، ابھی تو تمہارے ابا آئے ہیں اندر صاحب کے پاس بیٹھے ہیں"


ابا کا سن میں تھوڑا ڈر گیا پر دل ٹھوڑی امید بھی ہوئی، ان پولیس والوں سے جان چھوٹے گی کل ساری رات مچھروں نے اچھی خاصی مہمانی کی تھی۔

"اب تو چھوڑ دو گے نا" میں نے سپاہی سے پوچھا۔ جو میرے آگے چل رہا تھا

سپاہی میری طرف دیکھے بغیر کہا ؛ " وہ تو بڑے صاحب کی مرضی" یہ وہ اندر ایک کمرے میں لے آیا، جہاں ابا پہلے ہی موجود تھے، میری جسے ہی ابا پر نظرِ پڑی تو مجھے یہ احساس ہوا وہ مجھے کافی غصے سے غور رہے تھے۔


اور ان کے سامنے بیٹھے ایس ایچ او ابا کجھ بتا رہے تھے مجھے دیکھ کر مجھ سے کہا ؛ " دیکھو آج میں تمہیں تمہارے پاب کی وجہ سے چھوڑ رہا ہوں، یہ شریف لگتے ہیں کہاں بیچارے اس عمر میں کورٹ کچھری کی چکر لگتے رہے گے۔ اوپر سے بیچارے روزے میں بھی ." وہ تھوڑی دیر چپ ہوئے اور پھر سے بولے "اب اگر دوسری بار پکڑا نہ تو۔۔۔۔۔۔ "

وہ کچھ کہتے اس پہلے ہی ابا ان کو ہاتھ جوڑ کر کہا؛ " آج میں اس یسی خبر لیتا ہوں کے اس بڑے بڑوں نے بھی توبہ کرنے ہیں۔ "،،،،، اور اٹھ کر مجھے ایک زوردار چماٹ ماری اور کہا،،، کیوں میری عزت گنوانے پہ تولے ہو "


" پر ابا میں نے چوری نہیں کی،،،، " اچھا تو گاؤں والے پاگل تھے جو تجھے پکڑا تھا" میری بات بیچ میں کاٹ کر ایس ایچ او طنز کرتے ہوئے بولے

میں کچھ کہتا ابا نے مجھے کہا " چپ کرو اور بالکل خاموش رہو "

تب ایس ایچ او نے کہا "ٹھیک ہے چچا اب اس لے جاؤ اور آئیندہ خیال رکھنا "

" شکریہ صاحب آپ بےفکر رہو ،، میں اس آج ٹھیک کرتا ہوں " ابا ان کو ہاتھ جوڑ کر کہہ رہے تھے

ہاں ٹھیک ہے اب جاؤ یہاں سے،،،،، ایس ایچ او نے کہاں


،،،،،،،،،



پولیس اسٹیشن سے باھر نکلتے ہوئے ابا نے میرے سر پہ زور سے مارتے ہوئے کہا 

" بے شرم تمہیں شرم نے آئی چوری کرتے ہوئے، وہ بھی وڈیرے کی تمہیں پتہ نہیں ان کتنے احسانات ہے ہم پہ"

" ابا میں نے تھوڑی چوری تھی، چوری تو وہ ماسٹر کے بیٹے نے کی تھی میں تو وہاں سے گزر رہا تھا تو لوگوں نے شور مچایا تو مجھے کجھ سمجھ نہیں آیا تو بھاگنے لگا، تو وڈیرے کے لوگوں نے مجھ بھی چور سمجھ کر پکر لیا" میں نے پوری وضاحت کرتے ہوئے ابا کو بتایا

"ابا کیا آپکو لگتا ہے میں چوری کرو گا، ٹھیک میں مزاق مستی کرتا ہوں پر چوری آپ نے سوچ بھی کیسے لیا" میں ابا کے سامنے ممعوم سا چہرہ بناتے ہوئے بولا 

"مجھے پتہ تو کیسا ہے، افطاری کے ٹائم کھانا کھانے کے تم تو سو گے تھے پھر وہاں کیسے پوچھے، تو گھر چل تو تجھے بتاتا ہوں میں" ابا نے غصہ کرتے ہوئے بولا اور مجھے آگے چلنے کے لے دھکا دیا


ہم جسے ہی گھر پھجے تو وہاں ابا مجھ خوب مارا اماں نے بچانے کی کوشش بھی کی ہر وہ اس بار ابا کے غصہ سے ڈرگی ، میں اب مار کھا کھا کر ڈیٹ ہو گیا تھا تو ابا نے بھی کجھ ڈنڈے مار کر یہ کہہ کر چھوڑ دیا " تو اب بے شرم بن گیا ہے تجھ پر میری مار بھی اب اثر ہی نہیں کرتی" 

میں بھی اٹھا اور اماں سے کہاں : " اماں بہت بھوک لگی ہے ،' 

امان نے کہاں "جب وڈیرے کے کمڈھار بتایا کے آپکے لڑکے کو پولیس پکڑ کر لے گی ہے، ہم تو سمجھ رہے تھے ہمارا بیٹا سو رہا ہے، سنے تہمارے ابا کتنے پریشان ہوگے تھے بھاگے بھاگے وڈیرے کے پاس گے پھر تھانہ گے' ،،،، امی ایک ہی ساس میں کہہ گی پھر سے بولی،،،،،،، ' کیوں اس بھلارے مھینے میں اپنے باپ کی رسوائی کروا رہے ہو۔۔۔۔' 

میں نے اماں کی طرف دیکھا اور کہا ؛ ' امی سچ بہت بھوک لگی ہے ' 

'اپنے ابا کا کام میں ہاتھ بٹایا کرو، اب بچے نہیں رہے تم' امی کہتے ہوئے باورچی کھانے میں چلی گی۔


میں آ کر اپنی چارپائی پہ گرا اور سوچنے یار اب تو آنی بھی سائیڈ نہیں لے رہی ہے ، ہاں لے گی بھی کسے میں ہواللات میں رات گزار کر آیا تھا، ویسے ابا کہہ تو سچ رہا تھا، آج اگر وڈیرا ایف آئی آر کرواتا تو میری تو واٹ لگ جاتی نہ ہی ابا کے پاس اتنے پیسے تھے، جو وہ کورٹ کچہری کے چکر لگتے، وہ خوش ہوتے میں جیل کی ہوا کھا کجھ سودھر جائے گا اس شاید مجھے چھڑواتے بھی نہیں۔ اور انہیں میں جانے کب میری آنکھ لگ گئی 





کجھ دن پہلے


آج میں جیسے صب اٹھا امی سے ناشتہ مانگا تو ابا بولے ' شرم کر تمہاری آنی کا روزا ہے، اندر پھڑا ہوگا ناشتہ جا کر کر لو، اتنے بڑے ہوگے ہو روزے رکھا کرو، بیس پچیس سال تو ہو گے ہو، کھا کھا سانڈ بنتے جا رہے ہو، 

تبھی امی نے کہا ' تمہارا ناشتہ میں نے بنا کر اندر(باورچی خانے) رکھ دیا ہے جاو اندر کر کرو'

میں نے ابا کو کوئی جواب نہیں دیا، کیونکہ اب مجھے عادت ہوگی تھی ابا کی باتیں سنے کی اور باورچی خانے میں اندر چلا آیا اور ناشتہ کرنے لگا اور کجھ یاد آیا توتیز آواز میں کہا: ' ابا عید کے کپڑے لنے ہیں پیسے چاھئے ' میں نے ناشتہ کرتے ہوئے کہا

تو ابا نے جواب دیا ' ہاں تمہارا ابا تو بڑا جاگیردار ہے تمہاری ہر خواہش پوری کرے گا، اب بڑ آہو ہوگا ہے زمیں کام کیا کرو اگر زمین کا کام نہیں ہوتا تو ان بے زبان جانوروں کے لے گھاس ٹاک کے لیا کر، نہیں ہے میرے پاس پیسے ' یہ کہتے ہی ابا باہر چلے گے۔ 

میں بھی ناسشہ کرکے باہر نکل گا

ہمارا گاؤں جس نام گوٹھ حضور بخش تھا جو ٹنڈو الہیار سے 15 سے 17 کلومیٹر دور تھا اور گاؤں انتا بڑا نہیں تھا، 30 سے 34 فیملیز ہی رہتی ہیں، گاؤں میں ایک تلاب ہے جس گرمیوں میں اکثر میرے فارغ بیٹھے لڑکے نہاتے رہتے ہیں، اور ایک گورمینٹ سکول جو پانچویں جماعت تک ہی ہے، اور گاؤں سے تقریباً 10 سے 12 منٹ کا کے فاصلے پر مین روڈ ہے وہاں ایک بس اسٹاپ ہے کہاں سے شہر جانے کے لیے بسیں ملتی ہیں، تو عروس پروس کے گاؤں کے لوگ بھی شہر جانے کے لے وہاں ہی اتے ہیں، جس وجہ سے وہاں بہت ساری چائے کی ہوٹلیں اور دکانیں ہیں اور ہمارے گاؤں کے لوگوں کی بھی وہاں دکانیں ہے، 



تو میں سارا دن گاؤں اور اسٹاپ پہ ہوٹل پر فلم دیکھنے کے بعد شام کو افطار کے ٹائم پر گھر آیا تو امی افطاری بنا رہی تھی اور ابا چارپائی پہ لیٹے ہوئے تھے

میں سیدھا آیا پہلے تو کجھ فروٹ کٹے ہوئے تھے جو شاید ابا نے کاٹ کر رکھ دیا تھا افطاری کے لے اور ایک جگہ میں شربت تھا میں نے پہلے فروٹ میں کچھ کھایا اور پھر شربت پیا ، تبھی ابا نے کہا: کجھ تو شرم کر رمضان کا تو احساس کر، 

تو کیا کروں بھوک لگی ہے کھانا بھی نا کھاوں،،،،، یہ کہتے ہی میں نے ایک پلیٹ میں سالن نکلا اور ایک پلیٹ میں دو روٹیاں لی اور وہیں زمین پر بیٹھ کر کھانے لگا 

بے شرم کچھ دیر صبر نہیں ہوتا تم سے ' ابا بولا امی خاموش روٹیاں دلاتی رہیں ۔ کجھ نہیں کہا 

میں بھی کھانا کھایا اور باہر نکل آیا ، 

وڈیرے کی اوطاق سے تھوڑی دور ایک واٹر کے اوپر پکی پل بنھی ہوئی ہیں جو بس اسٹاپ پہ جانے والے راستے پہ ہی تھی ہر رات گاؤں کے جوان لڑکے وہاں کر مزاق مستی کرتے تھے، اور کوئی آئے نا آئے میں اعجاز اور اختر ضرور آتے ہیں، 

اعجاز گھر کا اکیلا بیٹا تھا اور اس دو بہنیں تھی اور ان کی والدہ کی وفات ہو چکی تھی اور اس کے اب کی دکان تھی اسٹاپ پہ نئی کی، وہ بھی اپنے ابا کے ساتھ دکاں پہ کام کرتا تھا پڑھائی چھوڑے کے بعد، تو ہمیں دیکھتا ہے تو ہمارے ساتھ بیٹھ جاتا تھا، اگر جلدی دکان بند کر اتا تھا تو ہمارا انتظار کرتا تھا

اختر یہ تین بھائی تھے اختر بیچ ولا تھا بڑے نوکری کرتا تھا تو وہ رہتا ہی شہر میں تھا اور چھوٹے والا بھی پڑھائی کی وجہ اس کے ساتھ ہی رہتا تھا، باقی رہا اختر جو گاؤں میں وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا میری طرح ان کے ابا کجھ زمین تھی اور کجھ بھینس تھی جس سے ان کا گزارہ ہو جاتا تھا۔ اختر دن زمیں پہ کام اور گھاس کاٹ گھر لاتا تھا۔ 


اور اب رہا میں تو میں گھر کا اکیلا لاڈلا بیٹا تھا نا بہین نا بھائی اس وجہ سے آنی بچپن میں بہت لاڈ کرتی تھی، اور میرے بگرنے کی وجہ بھی یہی لاڈ تھا، اور ہمارا گزارہ ، تین چار ایکڑ زمین تھی اور تین بیھسیں تھی جن کا دودھ بیچتے تھے اور زمین کی فصلوں سے کجھ پیسے آجاتے تھے 


میں جسے وہان پوچھا تو اختر مجھے سے پہلے ہی ویاں کھڑا تھا 

مجھے دیکھ کر کہا ' آج دیر کر دی '

تو میں نے کہا ؛ ' بیٹا میں ٹائم پہ آیا ہوں تم نے ہی جلدی اائے ہو' 

ہاں شاید" ،،،،، اس نے گھڑی پہ ٹائم دیکنے کی اداکری کرتے ہوئے کہا

میں نے،،،،،' ابھی اعجاز نہیں ایا'

" رمضان چل رہا ہے تو ان کے دکان پہ رش ہوگی ' اختر نے کہا

پھر ہم باتوں میں لگ گے، ایسی طرح زندگی گذرتی رہی 



پھر ایک امی نے پیسے دیتے ہوئے کہا؛ ' تمہارے ابا نے دیئے ہیں ' 

میں نے پیسے لیے اور گنے تو 1500 سو تھے تو میں نے امی سے کہا؛ امی ان میں کونسے اچھے کپڑے ملے گے'

ابھی تو اتنے ہی ہیں، ایسا کرو ابھی یہ رکھو اور بڑی عید زیادہ لے لنا اگر پھر نہیں چاہئے تو واپس دو میں تمہارے ابا کو واپس کر دیتی ہوں,' امی کہا اور پیسے واپس مانگنے لگی 

میں نے سوچا جو ملے ہے وہ واپس جا رہے ہیں ' نہیں نہیں امی میں کر لوں گا کجھ '

 جیسے ہی دوپہر کہ 12بجے میں گھر ایا اور الماری میں پڑے میرے کاٹن کا جوڑا نکلا، جس میں نے آج صبح ہی اسٹری کر دیا تھا۔ اور وڈیرے کے ٹو ویل کی جانب چل پڑھا ، کیوںکہ ہمارے گاؤں میں زیادہ تر نوجوان وہاں ہی نہاتے ہیں، میں جیسے ہی ٹوویل پہ پوچھا تو دیکھ چاچا خمیسہ وہاں پہلے ہی نہا رہے تھے

میں نے دل میں سوچا کہ آج تو قسمت بھی مہربان ہے کیونکہ چاچا خمیسہ کہ پاس ھمیشہ اچھے والا شیمپو اور صابن ہوتا ہے۔

میں نے جلدی کپڑے سائڈ پہ رکھ کر گوڈ (گوڈ ایک سندھی زبان کا لفظ ہے جیسے اُردو میں لنگوٹ کہتے ہیں) باڈھ لی اور چاچا خمیسہ کو سلام کیا اور ان ساتھ ٹوویل سے نہانے لگا اور ان سے باتیں شروع کر دی اور باتوں باتوں میں میں ان کا صابن اور شیمپو دو بار استمال کیا اور کپڑے پہن کر گھر آیا اور اماں کی ایک پرانی صندوق تھی ایسے کھول کر کجھ کپڑے ادھر ادھر کر کے دکھا ایک سائڈ پہ اماں کے چھپائے ہوئے پیسے دیکھے ان لیا اور چل پڑا اور سوچا کجھ اور مل جاتے تو میری عش ہو جاتی پر چلو خیر ہے یہ بہت ہیں، 

اور میں پھنچا اسٹاپ پہ اعجاز کی نہی کی دکان پہ وہاں بالوں میں جیل لگا کر بال سیٹ کرنے لگا تو اعجاز بولا 

" اوئے شھزادے آج کہاں کی تیاری ہے، کہیں شھر تو نہیں جا رہے،" 

"ہاں کجھ ایسا ہی سمجھو " میں بولا 

" پھر تم تو میرا مسئلا ہی حل کر دیا یار" وہ چہرہ مسکراہٹ لاتے ہوئے بولا 

" کیسا مسئلا " میں نے حیرانی سے پوچھا

"وہ یار عید آنے والی ہے نہ تو دکان پہ ہونے والی ہے رش اس کے کینچیوں کی دھار تیز کروانی تھی اور سامان بھی مگوانہ تھا " وہ بولا 

میں نے سوچا اب یہ کیا مسئلہ لگے پڑھ گیا" یار پر مجھے دیر ہو جائے گی " میں نے بھانہ کیا 

" ارے خیر ہے، بس یار یہ پیسے لے اور وہ دیکھو کالے شاپر میں کینچیاں پڑھی ہیں ان لیتے جانا " اس نے شاپر میں پڑھی کینچیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاں 

" ٹھیک ہے پر میں گارنٹی نہیں اگر بھول گیا تو ' میں پھر سے اسے کہا

'چل خیر پھر ابا یا مجھے جانا ہوگا ، یار کوشش کرنا ' اسنے التجا کی 

میں وہاں بال سیٹ کرنے لگا، اور بس کا انتظار کرنے لگا، دکاں پہ رش بہت تھا ، 

تبھی میں نے دیکھا روڈ کی دوسری سائیڈ پہ ہمارے گاؤں کا چچا رحمان کھڑا تھا ویسے تو ان دکاں بھی اسٹاپ پہ ہی تھی پر یہاں سے تھوڑی آگے سات آٹھ دکانیں چھوڑ ، میں نے سوچا یہ اپنی دکان چھوڑ کر یہاں کیا کر رہے ہیں،۔ میں نے اعجاز سے پوچھا ' یہ چچا رحمان آج یہاں کیا کر رہے ہیں، اپنی دکاں چھوڑ کر ' 

تو اعجاز بولا ' کہہ رہے تھے ان کی بیٹی آنے والی ہیں ' 

میں نے مہممممم کی اور دل سوچا " اچھا تو نازیہ لو لینے آئے ہیں' 

مجھے لگا بس ا رہی ہیں تو میں دکن سے باہر نکلا اور روڈ کی سائیڈ پہ کھڑا ہو گیا بس تو آ رہی تھی پر شھر جانے والی نہیں شھر سے واپس آنے والی بس آکے رکی اور اس میں سے مسافر اترنے لگے اور بس مسافر اتار کر چکی گی 

تبھی میں نے دیکھا کہ چچا رحمان کے ساتھ ایک لڑکی جو کلے ایرانی برقعہ میں تھی اور اس کی صرف آنکھیں دکھ رہی تھی، اچانک اس کی نظر مجھ پڑ پڑی تو اس اپنے چچا رحمان کو کان میں کجھ کہا اور اس کے بعد چچا رحمان نے مجھے آواز لگئی، شھزاد اوئے شھزاد (میرا نام شھزاد تھا) سن ادھر تو آؤ، 

میں نے خود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کون میں ؟ 

ہاں ہاں تم یہاں تو آؤ' ،،، چچا نے جواب دیا اس ساتھ نازیہ بھی سر ہلا رہی تھی 

میں بھی روڈ کی دائے بائے دیکھتے ہوئے ڈورتا ہوا وہاں پوچھا 

اور پوچھا،،،' کیا ہوا خیر تو ہیں ' 

تو چچا رحمان سے پہلے ہی نازیہ بولی ' آپ کی ٹھوڑی ہیلپ چاہئے تھی' 

ہاں ہاں کہو کیا کرنا ہے ' میں جواب دیا "ویسے میرے دل کہا تم ہیلپ مانگو اور ہم نہ کریں " 

تو نازیہ نے کہا :' دیکھو نا یہ میرے سامان کے دو بیگ ہیں، ایک تو میں آٹھا لوں گی باقی ایک ابا سے کہاں اٹھیا جائے گیا کیا تم یہ اٹھا کر گھر تک چلو گے پلیز؟ 

ہاں کوئی بات ہی نہیں،،،، میں اٹھتا ہوں اور میں بیگ کی طرف بڑھنے لگا اور دل میں کہا " تم کہو تو ان بیگ کے ساتھ تمہیں بھی اٹھا لوں "

جب میری بیگ پہ نظر پڑی تو اندر سے آواز آئی یہ بیگ ہے یہ ایک الماری لگ رہی تھی ، کہاں میں کام کاچ سے بھاگنے والا لڑکا اور اس کے چکر میں یہ بھاری بیگ اٹھا کر گاؤں تک جانے والا تھا۔

میں نے بیگ اٹھانے کے بیگ زور لگایا مجھے سے ایک سائڈ تک نا ہلی تب میں نے چچا سے کہا' چچا اس کو ذرا میں سر رکھا دے '

تو نازیہ بھی ان ساتھ بیگ اٹھنے لگی اور بیگ میرے اوپر میں مین نے کہا " چلو چلے "

تو نازیہ بولی ' ابو آپ یہی دکان پہ چلے جائے میں شھزاد کے ساتھ چلی جاتی ہوں ' ٹھیک ہیں آپ میرے ساتھ گھر چلے پھر واپسی دکان پہ آئے '

اور چلنے لگا کیوں میں اب جلدی گھر پوچھنا چاہتا تھا، بیگ بہت بھاری تھا میں نے کہا ' چچا آپ بے فکر رہیں آپ اس کو گھر چھوڑ کر ہی آؤ گا '

تو چچا رحمان بولے ' ٹھیک ہے بیٹی میں دکان پہ جا رہا ہوں '

اور وہ دکان کی جانب بھڑ گے اور میں گھر کی طرف

تب میں نے سوچا اپنی جوان بیٹی میرے ساتھ اکیلے بھیج رہا یا تو چچا رحمان بہت سیدھے ہیں یا ان کو میرے بارے میں پتہ کہ میں اس کا کتنا اوارہ اور بدنام ہوں گاؤں میں

نازیہ! یہ تین بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی ہیں ان ابا رحمان کی لڑکیوں کے میکپ کا ساماں اور عورتوں کے کپڑوں کی دکان ہے، ان کے دکان پے عورتوں کے کاسمیٹک کا سامان ملتا ہے ، نازیہ کی ایک بڑی بہن کی شادی ہو گئی ہے اپنے ہی خالا کے بیٹے سے اور ان کی خالا شھر میں رہتی ہیں تو نازیہ بھی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے وہ بھی اپنی بہن یہنی اپنی خالا کے پاس رہتی ہے سال میں عیدوں پہ آتی ہیں اس بار پتہ نہیں کیوں جلدی آگئی تھی۔ ہم پانچویں جماعت تک ساتھ ہی پڑھے تھے، اس ابا کا کاسمیٹک کا دکان تھا تو یہ سکول میں اچھی خاصی کیوں یہ اچھا خاصہ تیار کر کے آتی تھی۔


راستہ میں ہم گاؤں کی طرف آ رہے تھے تبھی نازیہ نے کہا: ' ویسے آپ کہاں جا رہے تھے '

میں نے جب آسکو مجھے آپ کہتے سنا تو میرے دل کہا 'بیٹا اتنی عزت تو تمہیں کبھی تم نے خود بھی نہیں دی ہوگی ' ،،،، کہیں نہیں بس ایسے ہی(پہلے سوچا نا بتاؤں پھر سوچا بتا ہی دیتا ہوں) میں شھر تھوڑا کام تھا میں نے اسے بتایا

'او سوری مجھے لگا آپ ایسے کھڑے ہیں اور گھر جانے والے ہیں ' وہ میرے 3 سے 4 فٹ آگے چل رہی تھی کہتے ہوئے پیچھے مڑی اور پیچھے چلتے ہوئے مُجھے کہنے لگی ' آج گرمی بہت ہے نا ' اور یہ کر اس اپنے چہرے سے نقاب ہتایا

وہ جس کی پہلے صرف آنکھیں دکھ رہی تھی اب اس پورا چہرہ میرے سامنے تھا میں نے جیسے ہی اس کا چہرہ دیکھا میرا بیلس ڈگمگا گیا

وہ یہ دیکھ کر میری طرف بھڑی اور بیگ کو سنبھالتے ہوئے بولی ' کیا ہواا'

"کجھ نہیں بس تھوڑا بیلس بگڑ گیا تھا ' میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ جو اب بیگ سے ہاتھ ہٹا کر میرے ساتھ ہی چل رہی تھی

وہ آج بھی کافی خوبصورت لگ رہی تھی اس آج تھوڑا میکپ کیا ہوا تھا بس ہلکا سا ویسے بچپن میں وہ سکول اتنا میکپ کر آتی تھی تب شاید چھوٹی تھی اُتنا پتہ بھی نہیں تھا اب بڑی بھی ہوگی ہے ،،،،' ویسے تم تو عید پہ ہی آتی تھی نا اس جلدی آ گی ' میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

" ہاں وہ میرا نا لاسٹ سیمسٹر تھا جو ختم ہو گا اب میں یہاں ہی رہوں گی " وہ آگے چلتے ہوئے بولی

میں جس نے چھٹی جماعت میں سکول چھوڑ دیا اس کیا پتہ یہ سمسٹر کا بس ناسمجھی میں ہاں کر دی

 : ' ویسے تم کہیں عید کی شاپنگ تو کرنے نہیں جا رہے تھے ' اس بار وہ میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی

میرے ذھن میں آیا اب 1500 سے کیا ہی شاپنگ ہوگی : ،،،،، پھر میں نے صرف ہاں ہی کہا

تو وہ بولی " او سوری یار مجھے پتہ نہیں تھا ویسے ابو تو رکشہ کا بول رہے تھے پر میں نے ان کو روک دیا جب آپ پہ نظر پڑی میں نا آج ایسے پیدل چلتے ہوئے گاؤں دیکھنا چاہتی تھی "

وہ کجھ دیر روکی اور پھر بولی " ویسے ہم پچپن میں کیسے ایک ساتھ سکول جاتے تھے اور مزاق مستی کرتے تھے اس ٹائم کتنا مزہ آتا تھا "

میں اس بار بھی ہاں ہی کی اور اس دیکھتا رہا

' ویسے پھر کب جا رہے ہو شاپنگ کل جاؤ گے ' اس نے مجھے سے پوچھا

' شاید ! ویسے بھی ابھی بہت دن ہے عید میں کر لگے شاپنگ ' میں نے بے پرواہ کی انداز میں کہا

اب تم جب جانا تو مجھے بتانا ،،،، مجھے نا تم سے کبچھ مگھوانہ ہے " اور اس نے اپنا بیگ جو اس نے اٹھایا ہوا تھ اسے آگے کیا اور اس میں اپنا موبائل نکلتے ہوئے بولی

میں نے سوچتے ہوئے اب یہ ابھی تو شھر سے آئی ہے اب اس نے کیا مگھوانہ ہے " ویسے کیا مگھوانہ ہے " میں نے پوچھا

وہ اپنے موبائل میں کجھ ڈھونڈتے ہوئے بولی " وہ میں نے خود ہی لئے آتی پر ابو نے پیسے بھجوے ہی نہیں ورانہ میں ہی لئے آتی،،، یہ دیکھو یہ والے سینڈل ! " اس نے موبائل میں کوئی تصویر میری طرف کرتے ہوئے کہا

موبائل کی اسکرین پہ ایک جامنی کلر کے سینڈل دکھ رہے تھے ،،،،" خوبصورت ہے یہ " میں نے اس کے موبائل میں دیکھتے ہوئے کہا

تو وہ خوشی سے ،،،، ' ہیں نا ! خوبصورت میں نے نا اس کلر کے کپڑے بھی لئے ہیں میچنگ میں " وہ مجھے پھر ایک اور تصویر دیکھاتی ہوئی بولی

وہ ایک جامنی رنگ کی ایک خوبصورت ڈریس تھی جس نارنگی رنگ کا کڑائی ہوئی تھی میں نے ڈریس دیکھ کر کہا : " یہ بہت مہنگا ہوگا"

تو کہنے لگی " اُتنا بھی مہنگا نہیں یہ ست سے اٹھ ہزار کی ڈریس ہے "

تو میں نے دل میں کہا ہمیں یہاں پوری عید کی شاپنگ کے لئے 1500 ملے ہیں اور اس کے لئے 7 سے 8 ہزار کی ایک جوڑا بھی مہنگا نہیں ہے

" تم نا وہ جب بھی جاؤ تو میرے لئے وہ سینڈل لئے کر آنا میں تمہیں پیسے دے دوں گی ' اس نے کہا

میں نے اس سے پوچھا 'ویسے یہ سینڈل کتنے کے ہوگے " اور د دعا کر رہا تھا کے یہ اُنہیں صرف 7 یا 8 ہزار نا بولے

اس کچھ سوچتے ہوئے کہا " آئی تھنک !،،،،،،، تین ہزار یا پینتیس سو کے ہوگے،،،، وہ اوریجنل نہیں کاپی والی لینا وہ اتنے کی ہوگئی"

وہ اسے بولی کی میں سچ لیکے آنے والا تھا جس کے جیب میں ہی پچیس سو پڑے تھے پندرہ سو گھر سے تھے اور ایک ہزار اعجاز نے ریا تھا جو

ہاں ہاں جب جاؤں گا تو بتا دوں گا تمہیں ' امیں نے کہا

اپنا واٹساپ نمبر دو مجھے میں تمہیں یہ امیگ سینڈ کر دیتی ہوں ' اس نے موبائل چلاتے ہوئے کہا

ویسے ٹچ اسکرین موبائل تو میرے پاس بھی تھا میں نے اسے اپنا نمبر دیا


میں نے سینڈ کر دی ہے ،،،،،،،،،، تم لئے انا میں نا پیسے دے دوں اب ابو دکان سہی چل نہیں رہی تو میں تھوڑے تھوڑے کر دے دوں گی،،،، ٹھیک ہے نا اس معصومہ شکل بناتے ہوئے کہا


اب میں اس سے کیسے کہتا کے میرے پاس بھی پیسے نہیں " تم ٹیشن نا لو میں گیا تو لا دوں گا " میں نے جزباتی انداز میں کہا

ٹینکس! تم نا بہت اچھے ہو"،،، وہ خوشی ہوتے ہوئے کہا

ہمیں اسے باتیں کرتے ہوئے چلنے لگے ہمارے ایک سائیڈ سے گندم کے کھیت جو اب مکمل پک چکے تھے اور دوسری سائیڈ گھنے کا فصل اور روڈ کے ساتھ ایک پانی کا واٹر تھا



ہم نازیہ کے گھر جا پوچھے، ویسے ان کے گھر میں 2 کمرے ایک کچن تھ، اور سامنے ایک بڑا ہی پرانا درحت تھا جس کے نیچے ایک چارپائی اور کرسی پڑی رہتی تھی

 ہمیں نے دروازہ کھڑکایا تو کجھ دیر بعد اس کی چھوٹی بہن نے دروازہ کھول نازیہ نے اندر داخل ہوتے پوچھا ' امی کہا ہے ؟'

تو باس کی چھوٹی بہن نے جواب دیا ' امی کا روزہ ہے، تو اندر کمرے سو رہی ہیں،

میں بھی اس ساتھ گھر میں اندر داخل ہوگیا گھر کے اندر آتے ہی نازیہ نے اپنا برقعہ اتارا اور میں نے بیگ ایک کونے میں رکھا، اس کالے رنگ کا کرتہ اور ایک جینز اور پیروں میں سفید رنگ کے سنیکر پہنے ہوئے تھے اس نے برقعہ وہاں ایک چارپائی پے رکھتے ہوئے پوچھا" شھزاد کیا تمہارا روزا ہے؟ "

نہیں نہیں میرا روزہ تو نہیں ہے " میں اس بتایا اور جانے لگا

تو نازیہ نے کہا،،،،' روکو بات سنو '

میں نے مڑا وارکہا ،،،،،، جی

ایک کام کرو گے " اس نے پوچھا

جی جی کونسا کام بولو" ،،، میں حیران ہوتے کہا

وہ امی کا بھی روزہ ہوگا کیا تم میرے لئے چائے لا دو گے میں ٹھک گئی ہوں ،،، وہ یہ کہتے ہی اندر چلی گی اور ایک ٹرماس لا کر مجھے دیا اور کہا ،،،، ' سوری آج تہیں میری اجہ،،،

ارے کوئی بت نہیں میں ویسے فارغ ہی ہوتا ہوں شکر ہے آج کسی کے کام آیا ،،،،،میں نے اس کی بات کاٹے ہوئے کہا

وہ مسکرائی اور کہا " چلو ٹھیک ہے تم جب تک چائے لاؤ میں کپڑے چینج کر لوں' ،،،،، میں نے سوچا شاید پیسے دے گی پر وہ تو چلی گی

میں بھی ٹرماس لے کر چل دیا کیوں میرے جیب میں بھی کجھ پیسے تھے میں اس گلی اس نکل کر دوسری گلی کی موڑ پہ آیا تو دیکھا ہمارے سکول کے ماسٹر کا بیٹا رضوان ملا جو اپنے باپ کی موٹر سائیکل پہ تیزی سے جا رہا تھا


رضوان! میری ہی عمر کا تھا اوریہ تین بھائی بہن تھے ایک بہن جو اس چھوٹی تھی اور یہ اور ایک بڑا بھائی ، اس ابا تو ماسٹر تھا ہمارے ہی گاؤں کے سکول میں ہمیں بھی اُنہوں نے پڑھایا تھا (وہ الگ بات ہم نا پڑھے) اور ماں ان کا گزارہ ان ٹھوڑی زمین تھی جو اس کی بڑا بھائی سنبھالتا تھا اور ہاب کی تنخواہ پہ تھا ویسے ان کی بہن تو ماشاللہ کافی ھوشیار تھی بقی یہ میری ہی طرح آوارہ تھا، اور بڑا بھائی زمین سنبھالنے لئے پڑھائی بیچ میں ہی چھوڑ دی اسکو اس باپ نے مارکر اور کاپی کروا کر انٹرمیڈیٹ کروا دیا پر اسے آتا کجھ بھی نہیں تھا میری ہی طرح تھا لڑکیوں کے پیچھے بھاگنے والا،


میں ٹرماس لے کر اسٹاپ پہ پوچھا اور ہوٹل والے سے کہا " اس اچھی کڑک پتی چائے تو لگنا اور یہ نہیں تازی بنانا ٹھیک ہے " ویسے ظاہری طور تو رمضان کی وجہ ہوٹلیں بند دکھائی دی رہی تھی ہوٹل کے سامنے سے سارے دروازے بند تھے بس سائیڈ سے ایک چھوٹے سے دروازے سے اپنے گاہکوں کوچائے دیتا تھا

ہوٹل والا امتیاز جو ہمارے پڑوس والے گاؤں میں رہتا تھا اس کہا؛ ' کیوں شھزاد بھائی بغیر روزے والے مہمان آئے ہیں کیا ؟"

وہ مجھے تھوڑا بہت جانتا تھا " ہاں یار! ویسے رمضان میں پولیس ٹیگ تو کرتی ہوگی آیسے ہوٹل چلانے پر ؟ میں نے اس جواب دے کر سوال کیا

ہاں بھائی کجھ پیسے ویسے دے دیتے ہیں تو ٹیگ نہیں کرتی ویسے ہمارے ملک کا نظام بھی عجیب ہے بڑے شھروں میں بڑے بڑے ہوٹل سرے عام چل رہے ہیں اُنہیں کوئی کچھ نہیں کہتا بس ہم غریبوں چھوٹی ہوٹلوں والوں پر یہ پولیس غصے کرتی " وہ اپنے بڑے سے دھگڑے سے دودھ نکلتے ہوئے بولا

میں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا "ہوں کہہ تو ٹھیک رہے ہو،،، ویسے آپ جب تک چائے بناؤ میں سائیڈ سے بسکیٹ لے کر آیا " اور میں وہاں چل اس کے سائیڈ ایک کریانہ سٹور تھا اس سے بسکیٹ لنے ، میں نے اب چائے پہ خرچ کر ہی رہا ہوں تو بسکیٹ بھی لے کر جاتا ہوں اس سے نازیہ کے آگے میرے اچھے نمبر بن جائے گے اچھے والے دو پیکٹ بسکیٹ اور چائے لے کر ماں واپس چل دیا

میں گاؤں پوچھا اور نارہہ والوں کی گلی میں پوچھا ہی تھا دیکھا رضوان ہواؤں سے باتیں کرتا اپنی بائیک پہ واپس جا رہا تھا


میں نازیہ کے گھر کے سامنے پوچھ کر جسے دروازہ کھڑکانے کے ہاتھ دروازے پہ رکھا تو لگا دروازہ کھلا ہوا ہے اور دروازہ کھول کر اندر چلا آیا دیکھا نازیہ سامنے درحت کے پڑی چارپائی پے بیٹھی ہے اور اس پیلے رنگ کا کرتہ اور اس سفید رنگ کی شلوار پہن رکھی تھی مجھے دکھ کر اٹھی اور میری طرف آئی اور کہا: ' آگے آپ،،،، میں آپکو پیسے دینا تو بھول ہی گی تھی چائے ،' 

' ارے خیر ہے میں لئے آیا ہوں اور ساتھ میں ،،، 

" واہ،،، آپ تو بسکیٹ بھی لئے آئے ،،،،، وہ میری بت کاٹ کر خوشی ہوتے ہوئے بولی اور آگے بھڑ کر مجھے سے چائے اور بسکیٹ والی شاپر لی ' یہاں بیٹھے میں آپکے لیے بھی چائے کپ میں نکلا کر آتی ہوں پھر مل کر پیتے ہیں ' وہ یہ کہتے ہوئے اندر کچن میں چلی گی 

میں بھی جا کر کرسی پہ بیٹھ گا،،، کچھ ہی دیر میں نازیہ دو کپ چائے اور پلیٹ میں بسکیٹ لے ائی چائے کا کپ مجھے دیتے ہے کہا ' چائے دیکھنے میں بہت اچھی لگ رہی ہے اور آپ بسکیٹ بھی اچھے والے لائے ہیں ، اور آپکو کیسے پتہ یہ بسکیٹ میرے پسندیدہ ہیں ' 

 ' اپکو بھی یہ بسکیٹ پسند ہیں یہ میرے بھی پسندیدہ بسکیٹ ہیں ' میں نے چائے پیتے ہوئے پوچھا "میں نے بھی دل میں کہا ،،، اتنے مہنگے والے کسے نہیں پسند ہوگے"

' یہ نا میرے فیورٹ بسکیٹ ہیں ' اس نے پلیٹ سے ایک بسکٹ لتے ہوئے کہا ،،،،، میں نے بھی آگے بھڑ کے ایک بسکٹ آٹھیا ااور نازیہ سے پوچھا آپکی چھوٹی بہن سے بھی پوچھ لو ؟

تو وہ بولی " اس کا روزہ ہے '

 ' پھر چائے تو زیادہ لایا تھا ' 

ارے میں پی لوں گی میرے نا سر میں بہت درد ہو رہا ہیں ' اس چائے کا کس منہ کے قریب کرتے ہوئے کہا 

پہلے بتاتی تمہارے لیے گوریان لئے آتا ' ،،،، میں نے فکرممد والے انداز میں کہا

میں نے جلدی جلدی میں چائے پی اور آس سے کہا ' اب میں چلتا ہوں ' 

ہہمممم ٹھیک ہے اور ہاں دروازہ بند کرتے ہوئے جانا پلیز ،،، وہ وہیں بیٹھے پلیٹ سے ایک اور بسکٹ اٹھتے ہوئے بولی 

میں نے سوچ شاید پیسے دے گی پر اس نے ایسی بات ہی نہیں کی مینٹنے مانگا مناسب نہیں سمجھا اور میں بھی دروازہ بند کرتے ہوئے باہر ایا ااور سوچا اگر اس کو پٹنا ہے اور کچھ پیسے تو خرچ کرنے ہوگے، تبھی دل ایک اور کونے سے آواز آئی کجھ کی تو خیر ہے یہ تیں پتیس سو کہاں سے لاؤ گے تھوڑی ٹینشن والی بات ،،،،،،،، کر لیے گے جھگاڑ ۔۔۔۔ اور میں سیدھا گھر آیا تو امی نے پوچھا ؛ ' بیٹے لے آیا کپڑے ؟ 

'نہیں امی میں شہر گیا ہی ویسے بھی اتنے پیسوں سے کہا۔ں آتے ہیں کپڑے کم کم پانچ یا چار ہزار تو ہو' میں نے بیزاری لے انداز میں کہا 

بیٹے کہاں نا تمہیں کے اس بار سستے کپڑے خرید لو اس بڑی عید پہ مانگا جوڑا لینا امی اس بولی 

اچھا ابھی ایسا مجھے روٹی دو بہت بھوک لگی ہیں ،،،،، میں امی کے پاس چارپائی پہ بیٹھے ہوئے کہا ،،، ویسے ابا نہیں ہیں کیا گھر پر 

نہیں وہ ابھی نہیں آئے اب آنے والے ہوگے ،،، امی بولی 

تو امی جلدی کریں ان سے پہلے ہی روٹی کھا کر سو جاؤں '،،،، میں جلدی والے انداز میں بولا 

روٹی کھانے کے بعد میں چارپائی سوتے ہوئے اپنا موبائل نکلا اور نازیہ نے جو تصویر بھیجی تھی اسے دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کے اب پیسے کا بندوبست کسے کروں اور یہی سوچتے سوچتے کب آنکھ لگ گئی 



،،،،،،،،،،،،،،،


ہمارے گاؤں کے قریب زیادہ تر کھیت ہی ہیں اور اس کھیٹ سے ایک واٹر گزرتا ہے جو نیہر سے زمینوں کے پانی دینے کے لئیے پانی سے بہرا ہی رہتا ہے، یہ واٹر تھوڑا آگے جا کر مڑٹا ہے اور وہی موڑ پہ ایک جامن کا بڑا درخت ہے اس کے نیچے واٹر پہ ایک موٹی سی لکڑی رکھی ہوئی ہیے بہت سالوں سے جو لوگوں کو واٹر کے اوپر سے گزرنے کے کام آتی ہے پر اکثر دوپہر یا رات کو وہاں عاشقوں کے جوڑے کی بیٹے ملتے ہیں

واٹر جو گاؤں کے بہت قریب ہے اس لئے گاؤں کی عورتیں اور لڑکیاں اکثر وہاں پہ کپڑے دھونے آتی ہیں خاص کر 9 سے 12:30 بجے تک گاؤں کے ہر گھر سے کوئی نا کوئی عورت یا لڑکی وہاں کپڑے دھونے رہی ہوتی ہیں ، ا

ب جہاں عورتیں ہو وہاں باتیں کہیں نا کہیں سے تو آ ہی جاتی ہیں 


دوپہر کے 2 بجے رہے تھے اس اس واٹر پہ ابھی صرف تیں لڑکیاں ہی تھی ان سے ایک تھی عزرہ جو اعجاز کی بہن تھی بیچ والی اور چھوٹی والی گھر پر تھی اس کا نام نظیرہ 

عزرہ آئی تو کپڑے دھنے تھی پر ابھی وہ جامن کے درخت کے نیچے اختر کے ساتھی بیٹھی

اور اختر کہہ رہا تھا ' یار بتاؤ کب بھیجوں اپنی امی آپ کے گھر ؟

' اب میں کیا بتاؤں تمہیں تو پتہ ہے میری نا امی ہے ن کوئی بڑی بہن،،،، بہن بھی چھوٹی ' عزرہ بولی

ویسے میں عید کے بعد بھیج رہا ہوں تمہارے گھر رشتہ ،،،، اختر نے کہا

ہاں تب دیکھتے ہیں ابا اور بھائی کیا کرتے ہیں ،،، ویسے اب تم جاؤ میں نے بھی کپڑے دھونےئہیں دیر بھی ہو گی ہے اگر بھائی یا ابا کو پتہ چل گیا ہمارے بارے میں تو رشتہ ہونے سے پہلے کینسل ہو جائے گا " وہ اٹھے ہوئے بولی اور سامنے بیٹھی اپنے دوستوں کی طرف چل دی

اختر بھی اس کے ساتھ آٹھ گا اور اس کے پیچھے چلنے لگا

عزرہ تو وہاں کپڑے دھونے لگی،،،،،، دو لڑکیاں جو ویں پہلے موجود تھی ان سے اختر نے پوچھا ' چوکیلٹ اچھی تھی نا " چوکیلٹ جو اختر نے ان دنوں کو لالچ میں دی کے وہ کہیں کسی کو بتا نا دے


ہاں اچھی تھی،،،،، دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا

ٹھیک ہے اگلی بار اور لائوں گا ،،،،،، اختر یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل گا



،،،،،،،،،،،،،


شام کو میری انکھ کھولی اور آمنے دیکھا امی اور ابا پتہ نہیں کس بات پر بیث کر رہے تھے میں نے دیکھا میں اگر اٹھا تو ابا مجھ برس پڑے گے تو وہی لیٹا رہا تبھی ابا نے آواز لگائی ،،،،،،،'اب تو آٹھ جا نالائق اب شام ہونے والی ہے'


میں اٹھا اور کہا،،،،، سکون سے سونے بھی نہیں دیتے، 

اور اٹھ کر ہاتھ منہ دھونے چلا گیا،،،،،،، ہاتھ منہ دھوتے وقت مجھے خیال آیا کہیں آنی اور ابا میرے پیسوں والی بات پہ تو جھگڑ رہے تھے،،، یہ آتے ہی میں جلدی سے ہاتھ منہ دھو کر ان کے پاس آیا 

تو ابا نے کہا : ' سارے دن سونے سے اچھا بندہ تھوڑا بہت کام کاچ کر لیا کرے ' 

ابا اب بھی نا ہر بس کام ہی کام " ،،،، میں شربت کا گلاس بھرتے ہوئے بولا 

تو امی بولی ' بیٹا تمہارے ہے بھلے کے لے کہتے ہیں ' 

روٹی کھائی اور کجھ دیر گھر بیٹھ کر میں اپنی جگہ دوستوں کی ملنے والی جگہ (یہنی واٹر والی پل) کی طرف چل دیا میں وہاں پھنچا تو دیکھا اختر آج مجھ سے بھی پہلے ویاں موجود تھا 

مجھ دیکھ کر بولا ' آج بڑا خوش نظر آ رہا ہے بیٹا " 

ہاں بات ہی خوش ہونے والی ہے ،،،،،،،، تو آج یہاں ہم سے بھی پہلے بیٹھا ہے ,,,' میں اس کے پاس بیٹھ کے بولا 

میں تو گھر بور ہو رہا تھا تو یہاں آگیا ،،،،، تو بتا کونسی خوشی کی بات ہے ,' اختر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ بولا 

میں بولا؛ تیرے بھائی کے ہاتھ نا نیا شکار ہاتھ لگا ہے،، 

وہ شکار نہیں شکاری ہیں ،،،،،،،، تبھی اعجاز نے آتے ہوئے کہا 

ہم دونوں نے اوپر اس کی طرف دیکھا 

کیا کہہ رہا ہے ،،،،،،مین نے پوچھا 

تو اعجاز بولا ' تو نازیہ کی بات کر رہا ہے نا 

تجھے کسے پتہ ،،،، میں نے چونک کر پوچھا 

آج دن کو دیکھا تھا تجھے اس کے ساتھ جاتے ،،،،،، اعجاز بولا 

ارے وہ شکاری ہے تو اپنا بھائی بھی کونسا کم ہے ، اختر نے میرے کاندھے تپتپاتے ہوئے کہا 

تو اعجاز بولا: ابھے وہ نازیہ ہے اس جسے 10 تو ناشتہ میں کھا جاتی ہے ،،، دیکھ بھائی میں تو کہتا ہوں بچھ کے رہنا ، 

ہاں ہاں دیکھتے ہیں وہ مجھے ناشتہ میں کھاتئ ہیں یا میں اسے رات کے کھانے میں ،،،،،، میں چیڑ کر بولا 

تبھی اختر بولا ' چھوڑو نازیہ کو یہ بتا آج تم جلدی ا رہے ہو 

وہ آج دن رش زیادہ تھی،،،، ابھی رات میں گاہکر کم آتے ہے پچیسویں تاریخ کے بعد رش ہوگا ،،،،، اعجاز پوری تفصیل بتاتے ہوئے بولا 

ویسے شھزاد شھر تو گیا نہیں ہوگا ،،،، اعجاز بولا 

تمہیں کسے پتہ چلا ,،،،،میں اس کی طرف دیکھ کر بولا 

اڑے تو کیچیان تو وہاں ہی بھول گیا تھا ،،،، اعجاز نے جواب دیا 

اڑے سوری یار،،،،، وہ تمہارے پیسے بھی میرے پاس بھی،،،،،،

اڑے رہنے دے کل یا پرسوں تو تو جائے گا پھر لتے ہوئے جانا ،،،، اعجاز میری بات کاٹ کر بولا 

چل ٹھیک ہے پھر ،،، میں نے کہا 

پھر ہم ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے 

،،،،،،،،،،،


دوسرے دن میں اسی پیسے کے تبھی میری نظر وڈیرے کی گندم کی تھریشر لگتی ہوئی دکھئی 

پھر میرے ذہن میں خیال آیا اس زمین کا ھاری تو رمیش ہے جو رات کو پیتا ہے ٹھڑا،، اور سونے کے بعد پھر صبح ہی اٹھے گا 

کیوں نا آج رات میں اس کے سونے کے بعد دو بوری گندم بھر کر یہاں قریب گھنے کے کھیت میں چھپا دوں گا پھر کسی رکشہ والے سے ڈیل کر کے اٹھوا کر جا کر شہر میں بیچوں گا اس سے میرے کپڑے اور نازیہ کے سینڈل بھی ہو جائے گئے 

ویسے پلین تو مست ہے میں گھر آیا اور کھاد کی خالی بوریاں ایک سائیڈ کر دی اب مجھے انتظار تھا رات آج رمیش ٹھڑا پی سو جائے 


آج ہم پل پر بھی کافی دیر بیٹھے رہے واپسی پے میں نے دیکھا رمیش تو کھا پی فل مست ھو سو رہا تھا ،،،،، میں بھی وہیں قریب چھپائی ہوئی بوریاں لے آیا اور ایا کر بھرنے لگا، ایک بوری بھر کر گھنے کے کھیٹ میں چھپائی تھوڑی قریب ہی چھپائی سوچا دوسری اٹھا کر اتا ہوں پھر جا کر کہیں اندر چھپاؤں گا اور دوسری بوری بھر کر اٹھے کے لے میں میں آگے بڑھا ابھی بیچ راستے میں کی تھ کہ آواز آئی چور چور میرے ہوش ہی اڑ گے اور دل نے کہا بیٹا آج اگر تو بچ گا تو نیا پیدا ہوا ،،،، اور بغیر سوچے سمجھے بھاگنے لگا تبھی مجھے لگا کوئی ہے جو میرے ہیبچے ڈورتا ہوا آ رہا ہے ابھی ہی مجھے پکڑنے والا ہے 

اس وقت میرے ہاتھ پاؤں نے کام کرنا جسے بند کر دیا ،،،،، اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھایا گیا اور میں بے ہوش ،،،،،،،



آنکھ تو تب کھولی جب کسی میرے چہرے پے پانی مارا دیکھا وہ ایک پولیس ولا تھا میری آنکھیں کھولتی دیکھ کر بولا "ایک چوری کرتے ہو اوپر سے ناٹک بھی ' 

ممممم میں چوری نہیں کر رہا تھا ,,,,میں بکھلاتے ہوئے بولا 

تبھی پولیس والے نے مجھے ایک زوردار چماٹ ماری کی اور کہا تو،،،،،، گاؤں والے ایسے ہی تم لوگوں کو پکڑ کر لئے آئے،،، ہیں؟ 

پولیس والے کی چماٹ سے میرا پورا سر دوسری طرف گھوم گیا اور تبھی میری نطر رضوان پہ پڑی ، وڈیرے کے لوگ کیوںکہ یہ وڈیرے کا حکم تھا کوئی بھی چور پکڑو اس سب پیلے پولیس چوکی پوچھنا ہے، 

گاؤں یا وڈیرے کی لوگوں مجھے پکڑ کر پولیس چوکی لائے تھے 

پولیس چوکی جو کے ہبس اسٹاپ ہے کی چھوٹی سی چوکی کہے سکتے ہیں، اس پہ ایک دو سپاہی اور دن میں کبھی کبھی ایس ایچ او بھی آتا تھا، اس دو لاکپ بھی تھے ۔ 

تو کیا کر رہے تھے ؟ ،،،،، والا جس نے مجھے چماٹ میرا تھ وہ رضوان کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا 


میں تم لوگوں کو بتا تو دیا باقی میں اس کے بارے میں نہیں جانتا۔۔ رضوان نے ڈرتے ہوئے کہا ۔

ہا تو میں بھی کونسا تمہارے بارے میں جاننا ہوں ،،،،،، میں تو وہاں سے گزر رہا تھا ، میں نے رضوان کی بات سن کر جلدی جلدی بولا 

مجھے پتہ ہے تم لوگوں کے بارے میں،،،،،،،، میں ابھی ٹھوڑی دیر میں آتا ہوں پھر بتاتا ہوں تم لوگوں کو ،،، پولیس والا بولا اور شاید کسی کے بلانے پہ باہر جانے لگا 

میں نے رضوان کی طرف غصّے سے دیکھا وار کہا؛ ' تو وہاں کیا کر رہا تھا  اور سچ سچ بتایو اگر چھوٹ بولا نا ،،,

تم لوگوں تو گھر چلے گے تھے پھر تم کہا سے آئے،،،، کیا تم گھنے کے کھیٹ میں ھلکا ہونے گے تھے ؟ اس نے مجھے سے سوال کیا 

تبھی مجھے لگا کے اس نے مجھے چوری کرتے نہیں دیکھا تھا شاید گھنے کے کھیٹ سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا ہو، میں تو بس وہاں گھنا کھانے کے لے ٹوڑ رہا تھا۔ میں نے چھوٹ بولا 

اچھا تو اس تم بھاگے تھے کے وڈیرے کے لوگوں تمہیں گھنا توڑنے کی وجہ سے نا پکڑ لے ،، رضوان نے اپنے آپ اندازہ لگا لیا

اب تم بتاؤ کے تم کیا کر رہے تھے اور وڈیرے کے لوگوں تہمارے پیچھے کیوں پڑے تھے ؟ میں نے پھر  سوال کیا

تو وہ بولا :' میں وہاں چوری کر رہا تھا، یہ سن کر میں تھوڑا حیران ہو گیا ۔۔۔ اور پوچھا،،،،،،،پر کیوں ؟'


' یار پیسوں کی ضرورت تھی ' اس نے کہا 


' ابھے سالے تجھے پیسوں کا کیا کرنا تھا ' میں غصے سے بولا 


تو وہ بولا ' دیکھ کسی کو بتانا مت مجھ سے نا نازیہ نے ایک ڈریس کی فرمائش کی تھی ،،،،، اس نے کہا تھا وہ مجھے پیسے دیدے گی۔ 

 جامنی رنگ کا جوڑا نا ؟... میں نے بس ہلکے سے کہا جو شاید رضوان نے سہی سے نہیں سنا 

اور پوچھنے لگا،،،،،، کیا کہا ؟ 

کچھ نہیں! اسے ہی ۔۔۔ میں نے  اسے کہا 

تو وہ اپنی پوری داستان بتانے لگا اس کی اور نازیہ کی ،،،،،

اور میں سوچنے لگا بیٹا شکاری تجھے ابھی شکار کا ش تک نہیں پتا اور تو شکار کرنے چلا تھا۔۔۔۔



،،،،،،،،،،،،،،،،

صبح اسکا ابو اس چھوڑ ولانے ایا۔۔۔۔۔ اور میں پولیس والوں سے کہے رہا تھا میں وہاں گھنے کے کھیٹ میں صرف ہلکا ہونے گیا تھا


جاری ہے 

اور جو  لوگ کاپی کرتے ہیں ان سے ایک گزارش ہے کے آپ کاپی کر رہیں تو کرو پر کم سے کم رائٹر کا نام تو تبدیل نا کیا کرو